اگر رسالت اور نبوت کا انکار کرنے والا ہو تو اللہ اور اس کی سپریمیسی کو کیسے مانے گا؟ رسول کو بھی رسول اس لیے مانا جاتا ہے کہ اللہ کہتا ہے اسے رسول مانو کیونکہ رسول ہی تو واحد ذریعہ ہے جو انسان اور اللہ کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا ہے تبھی اسے پیغمبر کہتے ہیں۔ رسول ہی بتاتا ہے اللہ ہی تمہارا خالق و مالک ہے۔انسان سوائے اللہ کے کسی کا غلام نہیں۔ اگر رسول نہ ہو تو اللہ کی کتاب کا تصور کیسے آئے؟ رسول آتا ہی اسی وقت ہے جب قوم حقیقی خالق سے ہٹ کر خالق کی مخلوق کی پرستش شروع کر دیتی ہے۔
دوسری بات متفق علیہ مسائل کی آپ نے کی۔ متفق سے کیا مراد لیا جائے کہ کون اس پہ متفق ہے؟ موجودہ علماء؟ ہر دور کے علماء؟ صحابہ؟ معاشرے کے افراد؟ قران جن مسائل پہ بحث کرتا ہے وہ انتہائی بنیادی اور دائمی نوعیت کے ہیں اور وہ مسائل جو اس وقت اس دور میں چل رہے تھے نہ کہ ہر دور کے مسائل کیونکہ اللہ کا مقصد بنیادی اصول بتانا ہے نہ کہ انسان کو عقل دینے کے باوجود اندھوں کی طرح کاپی پیسٹ کروانا ہے۔ عرب کی معاشرت اور طرزِ زندگی ہمارا دین نہیں ہے اس طرح تو پھر نبی اگر یورپ میں آتا تو کیا ان کا طرزِ زندگی ہمارا دین ہوتا؟ معاشرہ بدلتا ہے طرزِ زندگی بدلتا ہے لیکن زندگی کے بنیادی اصول جیسے انصاف دوسروں کا حق نہ کھانا انسان کو انسان جاننا کمزور کو اس کے حقوق دینا اصولی طور پر نہیں بدلتے۔