مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی دیوبندی نے اپنی کتاب فقہی مقالات، جلد چہارم میں لکھتے ہیں ""اسی طرح صاحب ہدایہ نے تجنیس میں اسی کو اختیار فرمایا ہے، چناچہ فرمایا کہ اگر کسی کی ناک سے خون بہہ پڑے اور وہ اس خون سے اپنی ناک اور پیشانی پر سورہ فاتحہ لکھے تو شفاء کے حصول کے لئے بطور علاج ایسا کرنا جائز ہے۔"" واضح رہے کہ یہ کتاب ہدایہ ہمارے درس نظامی کا حصہ ہے اور ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے.
یہی بات فتاویٰ قاضی خان میں بھی لکھی ہے. اصل کتابوں کے سکین ساتھ لگا رہا ہوں.
فتاویٰ عالمگیری، البحر الرائق اور الرد المختار میں بھی یہی بات موجود ہے۔
صاحب ہدایہ کی یہی عبارت فقہ حنفی کی معتبر اور مشہور کتاب الرد المحتار میں بھی نقل ہوئی ہے۔
وکذا اختارہ صاحب الھدایۃ فی التجنیس فقال: لو رعف فکتب الفاتحۃ بالدم علی جبھتہ واٗنفہ جاز للا ستشفاء و بالبول اٗیضا ان علم فیہ شفاء لاباٗس بہ: لکن لم ینقل و ھذا لان الحرمۃ ساقطۃ عندالا ستشفاء کحل الخمر والمتیۃ للعطشان والجائع اھ من البحر۔ واٗ فاد سیدی عبدالغنی اٗ نہ لا یظھر الا ختلاف فی کلامھم لا تفامھم علی الجواز للضرورۃ، (الرد المحتار جلد ۱، صفحہ ۲۱۰، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
ترجمہ: اسی طرح صاحب الھدایہ نے التجنیس میں اسی مسئلے کو اختیار کیا ہے پس کہا کہ اگر کسی کی نکسیر پھوٹے تو وہ سورہ فاتحہ خون سے اپنی پیشانی اور ناک پر لکھے تو شفاء حاصل کرنے کے لئے یہ جائز ہے اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ اس میں میرے لئے شفاء ہے تو پیشاب سے لکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔لیکن یہ بات منقول نہیں اور وجہ اس کے (جائز کہنے کی) یہ ہے کہ شفاء حاصل کرنے کے لئے حرمت ساقط ہو جاتی ہے جیسے پیاسے کے لئے شراب پینا اور بھوکے کیلئے مردار کھانا۔ میرے سید عبدالغنی نے یہ افادہ فرمایا کہ ضرورت کے وقت اسکے جواز پر ان (فقہاء) کے اتفاق ہونے کی وجہ سے ان کی اس بات میں اختلاف ظاہر نہیں ہوا۔
پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا جواز مستند ترین حنفی علماء سے منقول ہے اور انتہائی معتبر حنفی کتابوں میں درج ہے ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ امام فخرالدین حسن بن منصور المتوفی ۲۹۵ھ بحوالہ فتاویٰ قاضی خان
۲۔ ابوبکر الاسکاف بحوالہ فتاویٰ قاضی خان
۳۔ صاحب الھدایہ علی بن ابی بکر المتوفی ۵۹۳ھ بحوالہ البحرالرائق والرد المحتار
۴۔ ابن نجیم الحنفی المتوفی ۹۸۰ ھ بحوالہ البحرالرائق والرد المحتار
۵۔ علامہ ابن عابدین الشامی کے استاد عبدالغنی بحوالہ الرد المحتار
۶۔ علامہ ابن عابدین الشامی المتوفی ۱۲۵۲ھ بحوالہ الرد المحتار
۷۔ الشیخ نظام و جماعت علماء ھندوستان ۱۱۰۰ھ بحوالہ فتاویٰ عالمگیریہ
وکیل احناف، مناظر اسلام جناب امین اوکاڑوی صاحب کے سامنے جب کسی صاحب کا فقہ حنفی کے مسئلے پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے سے متعلق اعتراض سامنے آیا تو جناب انتہائی برہم ہوئے اور یوں جواب دیا: آخر علماء نے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں خون پاک ہے، منی پاک ہے تو کیا ان سے قرآن لکھنا جائز ہے یا نہیں۔ کیا کسی حدیث میں آتا ہے کہ پاک چیز سے قرآن لکھنا حرام ہے آپ کے مذہب میں حلال جانوروں کا پیشاب اور دودھ پیتے بچوں کا پیشاب پاک ہے اور پاک چیز سے قرآن لکھنا نہ قرآن میں منع ہے نہ حدیث سے (مجموعہ رسائل ج۱ ص ۴۶۰، تصیح شدہ جدید ایڈیشن مطبوعہ ادارہ خدام احناف لاہور)
تقی عثمانی صاحب کو جب سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا کہ وہ آیاتِ کریمہ کو کسی بھی قسم کی نجاست سے لکھنا حرام سمجھتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے اکابرین کے لئے ایک لفظ نہ بولا!!!!
اور ان کے پیروکار آج تک ان کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں۔ جس سے بھی آج تک اس مسئلے پر بات ہوئی ہے وہ ڈھٹائی سے ان کا دفاع ہی کرتا آیا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہاں بھی کوئی ان کے اس عمل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے تو میں پہلے ہی ابوالاسجد صاحب کا تحریر کردہ بہت ہی جامع جواب یہاں پیش کرنا چاہوں گا۔
مفتی تقی عثمانی کا رجوع
اگر یہ سب کسی غیر مسلم نے کیا ہوتا یا ان جیسے توحید کے علم برداروں کے نزدیک دہریوں نے کیا ہوتا تو یہ سب کیا کرتے؟؟؟؟ ہڑتالیں کرتے، جلوس نکالتے، توڑ پھوڑ کرتے!!! لیکن ان کے اگر علماء اور اکابرین کریں تو خاموشی چھا جاتی ہے!!!
اگر یہ سب اتنے ہی متقی و پرہیزگار مسلمان ہیں تو ان کو کیا کرنا چاہئے تھا؟؟؟ پھاڑ پھینکنے چاہئے تھے اپنے علماء کی کتابوں سے ایسے صفحات!!! عوام کے سامنے سچ لا کر خبردار کرتے کہ کوئی ایسا غیر اسلامی اور شیطانی عمل اگر پڑھے تو ہرگز اس پر عمل نہ کرے! لیکن ان میں سے کسی نے ایسا کیا؟ یہ ۲۰۰۴ کا واقعہ ہے کیا آپ میں سے کبھی کسی نے ان 'مسلمان حضرات' کی طرف سے اس بارے میں آگہی پیدا کرنے کی کوشش دیکھی؟ نہیں دیکھی ہوگی کیونکہ معاملہ تو ان کے علماء کا ہے تو پردہ تو یہ ان کے کرتوتوں پر ڈالیں گے!!! بلکہ الٹا عام مسلمانوں کو دہریہ قرار دینے میں اپنی طاقت صرف کرنے میں لگے رہتے ہیں!!!