اگلا جواب ایک اور حدیثِ نبوی سے۔ یہ حدیث شیخ ابو بکر احمد بن محمد الدنیوری المعروف بہ ابن السنی رحمہ اللّٰہ کی کتاب "عمل الیوم و اللیلۃ" میں درج ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ
"رسول اللہﷺ کے دن اور رات‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب محدث لائبریری (کتاب و سنت ڈاٹ کام) میں موجود ہے۔ وہی محدث لائبریری اور وہی محدث فورم جہاں سے منتخب فرقہ وارانہ مواد اردو محفل میں کاپی پیسٹ کیا جاتا ہے۔
امید ہے کہ اتنے جوابات کافی و شافی ہوں گے۔
جناب آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے یہاں بھی قرآن کی آیت کو ٹانگ پر باندھنے کے متعلق کوئی حکم نظر نہیں آرہا ہے۔ آپ اب تک بات کو پوری طرح سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ بات ہو رہی ہے قرآن پاک کی بے ادبی کی۔ تعویذ اور دم پر شرعی حکم کی تو بات ہی نہیں کی گئی ہے۔ اشرف علی تھانوی صاحب کے جسم کے ایسے حصوں پر قرآنی آیات کو باندھنے پر بات کی جا رہی ہے جن کی وجہ سے بے ادبی ہوتی صاف نظر آرہی ہے۔
یہاں ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ قرآنی آیات والا پانی بطور علاج حاملہ کو پلانے اور اس کے پیٹ اور شرمگاہ پر چھڑکنے پر قرآن کی بے ادبی نہیں ہوتی۔ اب آگے بڑھتے ہیں اور ران پر ملفوف تعویذ باندھنے کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔
کیا عورت کی ران پر تعویذ باندھنا موجب کفر ہے ؟
سوال ]۱۰۰[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ جنوبی افریقہ میں سعودی سلفی گروہ نے حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ یہ سعودی سلفی گروہ کہتا ہے کہ مولانا تھانویؒ کی کتاب’’اعمال قرآنی‘‘ میں جو یہ لکھا ہے کہ ولادت کی سختی اور تکلیف دور کرنے کے لئے اور ولادت کو آسان بنانے کے لئے عورت اپنی بائیں ران پر ’’سورہ انشقاق‘‘ کی دو آیتوں کا تعویذ باندھ لے، یہ قرآن کریم کے ساتھ سخت گستاخی ہے اور اس کی تعلیم کرنے والا کافر ہے۔ مؤدبانہ عرض ہے کہ حضرات مفتیان کرام اس بہتان وتکفیر کا مفصل ومدلل جواب ارسال فرما کر اہل السنت والجماعت کے متبعین اور علماء دیوبند کے معتقدین کو شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ فقط والسلام
المستفتی: ہارون ابراہیم عفی عنہ ۲؍ ۲؍ ۲۰۱۱ء
*باسمہ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللّٰہ التوفیق* :
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ’’فتاوی ابن تیمیہ‘‘ میں ایک فصل قائم کرکے پوری فصل میں صاف اور واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اگر عورت کو ولادت میں دشواری اور مشقت پیش آجائے تو قرآن کریم کی متعدد آیتوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آیتوں کو ایک پلیٹ یا طشت میں لکھ کر اسے پانی سے دھل کر عورت کو پلا دے اور اس کے ناف کے نیچے کے پورے حصہ پر بہا دے، اس سے ولادت میں سہولت ہوجائے گی۔ اور انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ کے بیٹے عبداللہ بن احمدؒ کا حوالہ بھی دیا ہے، اب غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک جس کے اندر پیٹ اور ران دونوں شامل ہیں، ہر انسان کے لئے ستر عورت ہے، جس میں عورت ومرد سب شامل ہیں۔ اور ہر عورت کا ستر تو پورا بدن ہے۔ اور ساتھ میں ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ مرد کے لئے ستر ہے، اب سوال یہ ہے کہ ناف کے نیچے جب آیت کریمہ کے پانی کو بہایا جاسکتا ہے تو ران پر بہانے میں کیا نقصان ہے؟ تو ہم سمجھتے ہیں کہ ناف کے نیچے کا حصہ ران کے مقابلہ میں زیادہ معیوب ہے، جب بطور علاج ناف کے نیچے بہایا جاسکتا ہے، تو ران میں بھی بہانا جائز ہوگا، جب آیت کریمہ کا پانی براہ راست بہانا جائز ہے، تو آیت کریمہ کا تعویذ بنا کر اس پر غلاف چڑھا کر تکلیف دور ہونے اور بچہ کے باہر آنے تک کے لئے باندھ دیا جائے تو کفر کی بات کہاں سے لازم آتی ہے؛ بلکہ یہاں آیت کریمہ کو بطور علاج کے استعمال کرنے میں اس کا احترام ہے نہ کہ اہانت، نیز مسجد حرام میں سینکڑوں سلفی حضرات کو دیکھنے میں آیا ہے کہ کعبۃ اللہ کی طرف پیر پھیلا کر اور اپنے ٹانگوں پر رکھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں، یہاں تو ایک دو آیت کا مسئلہ ہے اور وہاں پورے قرآن کا مسئلہ ہے، تو کیا سلفی حضرات ان سب سلفی حضرات پر کفر کا فتویٰ صادر کریں گے جو رانوں پر اور ٹانگوں پر قرآن رکھ کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور جس طرح رانوں اور ٹانگوں پر رکھ کر کپڑا اور غلاف کا آڑ ہے، اسی طرح تعویذ میں بھی موم جما کر آڑ پیدا کیا جاتا ہے، نیز ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ ولادت کے وقت طہارت اور وضو باقی نہیں رہتا تو حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے تعویذ لکھ کر اسی حالت میں عورت کے بازو پر باندھنے کی ترغیب دی ہے، نیز جس وقت عورت کے پیٹ پر پانی بہایا جارہا ہوگا، اس وقت لازمی طور پر عورت کا وضو نہیں رہتا ہوگا؛ لہٰذا ہم ٹانگوں پر رکھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنے کو اور کعبۃ اللہ کی طرف پیر پھیلانے کو بے ادبی اور گستاخی سمجھتے ہیں اور علاج کے لئے آیت کریمہ کے پانی کو پیٹ اور ران پر بہانے اور تعویذ کی شکل میں باندھنے کو بے ادبی نہیں سمجھتے ہیں، اگر آپ مولانا اشرف علی تھانویؒ پر کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں تو ناف کے نیچے پانی بہانے میں شیخ ابن تیمیہؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور عبداللہ بن احمدؒ کے بارے میں کیا فتویٰ دیں گے؟ اس لئے ہم ان سب مشائخ کو برحق سمجھتے ہیں۔ حضرت شیخ ابن تیمیہؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ان سب کو برحق اور متبع سنت سمجھتے ہیں۔ اور ان میں سے کسی کو کافر کہنا ان کی جلالت شان کے بارے میں ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے زمانہ سے چھ سو سال پہلے کے فقہاء کی عبارات سے یہ مسئلہ لکھا تھا، چنانچہ ’’فتاوی تاتارخانیۃ‘‘ میں ’’فتاوی الحجہ‘‘ کے حوالہ سے واضح انداز میں یہ عبارت موجود ہے۔
-------------------------------------
وفي فتاوی الحجۃ: وقیل: إن المرأۃ إذا تعسر علیہا الولادۃ یکتب علی قرطاس: بسم اللہ الرحمن الرحیم، وألقت ما فیہا وتخلت واذنت لربہا وحقت، أہیا اشرأہیا، وتعلق من فخذہا الیسریٰ تلقی الولد من ساعتہ إن شاء اللہ تعالیٰ عز وجل۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل التاسع في الحیض والنفاس، مکتبہ زکریا ۱/ ۵۴۱، برقم: ۱۴۷۰)
فتاوی ابن تیمیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:
ویجوز أن یکتب للمصاب وغیرہ من المرضی شیئا من کتاب اللہ، وذکرہ المداد المباح، ویغسل ویسفی کما
نص علی ذلک أحمد وغیرہ، قال أحمد وغیرہ: قال عبداللہ بن أحمد: قرأت علی أبي ثنا یعلی بن عبید، ثنا سفیان عن محمد بن أبي لیلی بسم اللہ … لا إلہ إلا اللہ الحلیم الکریم، سبحان اللہ رب العرش العظیم، الحمد ﷲ رب العالمین (کأنہم یوم یرونہا لم یلبثوا إلا عشیّۃً أو ضحاہا) کأنہم یوم یرونہا ما یوعدون لم یلبثو إلا ساعۃ من نہار، بلاغ فہل یہلک إلا القوم الفاسقون) قال أبي: … ثنا أسود بن عامر بإسنادہ بمعناہ، وقال: یکتب في إناء نظیف فتسقي، قال أبي: وزاد فیہ وکیع فتسقي وتتضح مادون سرتہا، قال عبداللہ: رأیت أبي یکتب للمرأۃ في جام أو شيء نظیف، وقال أبو عمرو محمد بن شیوبہ: ثنا یعلی بن الحسن بن شقیق، ثنا عبداللہ بن المبارک عن سفیان، عن ابن أبي لیلی عن الحکم عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال: إذا عسر علی المرأۃ ولادہا فلیکتب: بسم اللہ لا إلہ إلا اللہ العلی العظیم، لا إلہ إلا اللہ الحلیم الکریم، سبحان اللہ رب العرش العظیم، والحمدﷲ رب العالمین (کأنہم یوم یرونہا لم یلبثوا إلا عشیّۃً أوضحاہا) کأنہم یوم یرونہا ما یوعدون لم یلبثو إلا ساعۃ من نہار، بلاغ فہل یہلک إلا القوم الفاسقون) قال علي: یکتب في کاغذۃ فیعلق علی عضد المرأۃ، قال علي: وقد جربنا ہ فلم نر شیئا أعجب منہ، فإذا وضعت تحلہ سریعا، ثم تجعلہ في خرقۃ أو تحرقہ، آخر کلام شیخ الإسلام ابن تیمیۃ قدس سرہ ونور ضریحہ (فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ ۱۹/ ۶۴، تا ۶۵) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۲۸؍ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۹/ ۱۰۳۸۵)الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۲۹؍ ۴؍ ۱۴۳۲ھ
فتاویٰ قاسمیہ ج1/ 520)