آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

فرقان احمد

محفلین
فرقان احمد
حضرت، بات تو وزنی ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ :rolleyes:

ہم یہ کہتے ہیں کہ بحث مباحثے کے دوران کسی مسلم کے لیے دہریے کا لفظ استعمال نہ کیا جانا چاہیے اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ رویہ ہرگز لائقِ تقلید نہیں۔

اب ہم اس سے زیادہ کہنے کے مجاز تو ہیں نہیں!
 
میں اس دھاگے کو باقاعدٓگی سے پڑھتا ہوں، اور بہت ہی خوش ہوں کہ زمانے بھر کی جہالتیں سامنے آرہی ہیں، جن کو اسلام ، عورت اور پردے کے نام پر فروغ دیا جاتا ہے ، جیسے ، قران حکیم کے تعویز بنا بنا کر مختلف مقاصد میں استعمال کرنا۔ دعا ہے کہ یہ دھاگہ بند نا ہو اور ٓیہ سب زہر افشاں ہوتا رہے :)
 

الف نظامی

لائبریرین
مسلمان ہر حال میں آزاد ہوتا ہے۔جب مجھے خدا کے بارے میں سوچنے کی آزادی ہے تو مجھے بس اتنا پتہ ہونا چاہیے کہ میں وہ سوال نہ اُٹھاؤں جس کے لئے میرے پاس ڈیٹا پورا نہیں ہے۔اور اگر میں نے سوال اُٹھا لیا ہے تو اتنا صبر کروں کہ مکمل ڈیٹا حاصل ہوجائے۔
(پروفیسر احمد رفیق اختر)​
 

محمد سعد

محفلین
تو مجھے بس اتنا پتہ ہونا چاہیے کہ میں وہ سوال نہ اُٹھاؤں جس کے لئے میرے پاس ڈیٹا پورا نہیں ہے۔
ڈیٹا کی عدم موجودگی میں سوال اٹھانا کوئی غلط بات نہیں، غلط بات اس کا جواب خود سے گھڑنا ہے۔ سوال ہر صورت میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ کئی بار ڈیٹا اکٹھا ہی تب کیا جاتا ہے جب کسی سوال کے جواب کی تلاش ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ اس عمل میں دیانت داری سے کام لیا جائے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مسلمان ہر حال میں آزاد ہوتا ہے۔جب مجھے خدا کے بارے میں سوچنے کی آزادی ہے تو مجھے بس اتنا پتہ ہونا چاہیے کہ میں وہ سوال نہ اُٹھاؤں جس کے لئے میرے پاس ڈیٹا پورا نہیں ہے۔اور اگر میں نے سوال اُٹھا لیا ہے تو اتنا صبر کروں کہ مکمل ڈیٹا حاصل ہوجائے۔
(پروفیسر احمد رفیق اختر)​
سوال کرنا اور سوال اٹھانے میں کیا فرق ہے؟ مجھے اس کی سمجھ نہیں ہے۔
 

زاہد لطیف

محفلین
مسلمان ہر حال میں آزاد ہوتا ہے۔جب مجھے خدا کے بارے میں سوچنے کی آزادی ہے تو مجھے بس اتنا پتہ ہونا چاہیے کہ میں وہ سوال نہ اُٹھاؤں جس کے لئے میرے پاس ڈیٹا پورا نہیں ہے۔
نظامی صاحب اگر لفظ مسلمان کی بجائے یہودی، سکھ، عیسائی یا ہندو بھی لگا دیں تو بھی یہ بات اتنی ہی درست ہے۔ جب سوال ہی نہ اٹھایا جائے گا اس وجہ سے کہ ڈیٹا پورا نہیں ہے تو پھر اس رو سے تو سارے مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی جگہ خود کو درست تصور کریں گے اور حقیقتاً کرتے بھی اسی وجہ سے ہیں۔ سوال نہ اٹھانا ہی دراصل جہالت اور رجعت پسندی کو فروغ دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ پھوڑا پک جاتا ہے تو پھر دہریت کا رونا رویا جاتا ہے۔
اور اگر میں نے سوال اُٹھا لیا ہے تو اتنا صبر کروں کہ مکمل ڈیٹا حاصل ہوجائے
متغیر معاشرے میں کسی بھی چیز بشمول خدا کے متعلق لوگوں کے مشاہدات جاننا اور اپنے مشاہدے بیان کرنا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ معاشرتی سائنس بھی اسی اصول پہ چلتی ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مذہبی برادری خدا کے متعلق اپنے مشاہدے یا رائے کو حقیقت جان کر فیصلہ سنانے میں تامل نہیں کرتی، وہ یہ نہیں سمجھنا چاہتی کہ وہ مشاہدہ بالاخر ایک انسان کا ہی مشاہدہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا یا تو کم علمی کے سبب ہو سکتا ہے یا خدا کے نام پہ اپنی اتھارٹی برقرار رکھنے کے لیے۔ مذہب جب رجعت پسند طبقے کے ہاتھ چڑھتا ہے اسی دن سے اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ڈیٹا کے حصول کا عمل اسی دن سے رک جاتا ہے جس دن تشکیک کا قتل ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
اگر میں نے سوال اُٹھا لیا ہے تو اتنا صبر کروں کہ مکمل ڈیٹا حاصل ہوجائے۔
یہ زیادتی ہو گی کہ فاضل مصنف کی سطر کے اس حصے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے۔

ہماری دانست میں، احمد رفیق اختر صاحب سوال کے اٹھائے جانے پر شاید معترض نہ ہوتے ہوں گے جتنا کہ ہم انہیں جانتے ہیں۔ دراصل، وہ اس نکتے پر لانا چاہتے ہیں کہ سوال اٹھانے کے بعد صبر و استقامت کے ساتھ سوال کا جواب تلاش کیا جائے۔

اس سے اگلی عبارت کچھ یوں ہے،
"میرے ذہن میں خدا کا سوال ہمیشہ سے رہا ۔لیکن میں صبر سے وہ تمام ڈیٹا جمع کرتا رہا ؛ جو خدا کے بارے میں لازم اور ضروری تھا ۔میری ساٹھ سے اوپر عمر ہے ۔۔۔آخر کارمیں نے وہ دلیل پا لی ؛ جو آج تک مجھ سے نہیں ٹوٹی۔"

احباب نے جو دیگر معروضات پیش فرمائی ہیں، وہ کافی حد تک متوازن معلوم ہوئیں۔
 
اکابر پرستی غلط رویہ ہے تاہم اکابر اور اسلاف کی تعلیمات سے مستفید ہونا چاہیے یا ہوا جا سکتا ہے، اگر کوئی معاملہ پیشِ نظر ہو اور ان کی بات دل کو لگتی ہو۔ علم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور اگر ہم اپنے ذہن و دل کو کشادہ رکھیں تو فروعی مسائل میں الجھے بغیر ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بھی اگلی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ دراصل، ہر صاحبِ علم سے فیض پانا ہی درست رویہ ہے۔ جواب کے لیے شکریہ۔

نوٹ: جو احباب ہم سے غیر متفق ہیں، ہم اُن کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم ہیں کیونکہ اب تک ہمیں ان کی طرف سے اپنے موقف کے خلاف کوئی دلیل نہ مل پائی ہے۔ :)

کیا خوب کہا ہے آپ نے۔ ماشاء اللہ۔ طبعیت خوش ہو گئی۔
 

فہد مقصود

محفلین
جی بالکل، ہمارا بھی یہی مسلک ہے۔

دیکھیے موجودہ دور کے علمائے کرام بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کئی اکابر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین نے شرعی تعویذات کو جائز قرار دیا ہے، جیسا کہ آپ کے نقل کردہ اوپر کے مراسلے میں درج ہے۔

اور موجودہ دور کے جو علمائے کرام تعویذات کو جائز نہیں سمجھتے، ان کا نقطہِ نظر وہ ہے جو آپ نے اوپر خود نقل کیا ہے۔

اب جب ایک بات واضح ہوگئی کہ (آپ کے نقطہ نظر کے مطابق) صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین کا تعویذات کا مسئلے میں اختلاف ہے تو پھر آپ کا اس بات کا پر اصرا کیوں ہے کہ ایک جماعت کی رائے کو درست قرار دیا جائے اور دوسری جماعت کی رائے کو غلط قرار دیا جائے۔
کیا آپ خود صحابہ کی ایک جماعت کی رائے کو دوسری جماعت کی رائے پر فوقیت نہیں دے رہے؟
اور اگر ہم صحابہ کی ایک جماعت کی رائے کو دوسری جماعت کی رائے پر فوقیت دیں تو ہم غلط کیسے ہوگئے؟ (جبکہ موجودہ دور کے متعدد مستند علمائے اہلِ حدیث اس معاملے میں ہمارے ہم خیال ہیں)۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین تعویذات کے معاملے میں ہی نہیں، بہت سے معاملات میں فروعی اختلافات موجود تھے، لیکن کیا انھوں نے ان اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ملامت کا نشانہ بنایا؟
کیا آپ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فروعی اختلافات کو امت کے لیے رحمت قرار دیا ہے؟

ایک چیز کی طرف میں اب تک اشارہ کرنے سے کترا رہا تھا لیکن آپ اپنے علماء کے قول کے دفاع کرنے کی وجہ سے اب تک اس طرف توجہ نہیں دے سکے ہیں۔

اشرف علی تھانوی صاحب کے بتائے ہوئے اس طریقے میں کہیں بھی یہ نہیں درج ہے کہ عورت بیت الخلاء جاتے ہوئے یہ تعویذ باندھی رہے گی یا نہیں؟ البتہ یہ ضرور درج ہے کہ ولادت کے بعد کھولے۔

مثال کے طور پر وہ باندھی رہتی ہے تو ذرا خود سوچئے کہ نجاست تعویذ پر لگنے کا کتنا امکان ہوگا؟ میں اس سے زیادہ اور کیا بیان کروں کہ کیسے کیسے نجاست لگ سکتی ہے؟ دوسری اہم بات تعویذ ولادت کے بعد کھولنے کا کہا گیا ہے۔ کیا ولادت کے دوران کوئی نجاست تعویذ سے نہیں لگے گی؟ کیا آپ کے پاس ضمانت ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ کیسے کیسے اہانت ہو سکتی ہے!!! تعویذ چاہے سو طرح کی تہوں میں ملفوف ہو کیا بیت الخلاء میں لے جانے سے کسی قسم کی بے ادبی ہوگی یا نہیں؟

کیا آپ اور آپ کے علماء جو اس طریقہ کار کو جائز سمجھتے ہیں، کے نزدیک واقعی کسی بھی قسم کی قرآن کے بے ادبی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ہے؟

میں پھر وہی بات دہراؤں گا کہ بات تعویذ کی شرعی حیثیت پر نہیں ہو رہی ہے بات ہو رہی ہے اس طریقہ کار کی وجہ سے ہونے والی اہانت پر!!!
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
یہاں ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ قرآنی آیات والا پانی بطور علاج حاملہ کو پلانے اور اس کے پیٹ اور شرمگاہ پر چھڑکنے پر قرآن کی بے ادبی نہیں ہوتی۔ اب آگے بڑھتے ہیں اور ران پر ملفوف تعویذ باندھنے کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

کیا عورت کی ران پر تعویذ باندھنا موجب کفر ہے ؟

سوال ]۱۰۰[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ جنوبی افریقہ میں سعودی سلفی گروہ نے حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ یہ سعودی سلفی گروہ کہتا ہے کہ مولانا تھانویؒ کی کتاب’’اعمال قرآنی‘‘ میں جو یہ لکھا ہے کہ ولادت کی سختی اور تکلیف دور کرنے کے لئے اور ولادت کو آسان بنانے کے لئے عورت اپنی بائیں ران پر ’’سورہ انشقاق‘‘ کی دو آیتوں کا تعویذ باندھ لے، یہ قرآن کریم کے ساتھ سخت گستاخی ہے اور اس کی تعلیم کرنے والا کافر ہے۔ مؤدبانہ عرض ہے کہ حضرات مفتیان کرام اس بہتان وتکفیر کا مفصل ومدلل جواب ارسال فرما کر اہل السنت والجماعت کے متبعین اور علماء دیوبند کے معتقدین کو شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ فقط والسلام
المستفتی: ہارون ابراہیم عفی عنہ ۲؍ ۲؍ ۲۰۱۱ء

*باسمہ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللّٰہ التوفیق* :
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ’’فتاوی ابن تیمیہ‘‘ میں ایک فصل قائم کرکے پوری فصل میں صاف اور واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اگر عورت کو ولادت میں دشواری اور مشقت پیش آجائے تو قرآن کریم کی متعدد آیتوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آیتوں کو ایک پلیٹ یا طشت میں لکھ کر اسے پانی سے دھل کر عورت کو پلا دے اور اس کے ناف کے نیچے کے پورے حصہ پر بہا دے، اس سے ولادت میں سہولت ہوجائے گی۔ اور انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ کے بیٹے عبداللہ بن احمدؒ کا حوالہ بھی دیا ہے، اب غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک جس کے اندر پیٹ اور ران دونوں شامل ہیں، ہر انسان کے لئے ستر عورت ہے، جس میں عورت ومرد سب شامل ہیں۔ اور ہر عورت کا ستر تو پورا بدن ہے۔ اور ساتھ میں ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ مرد کے لئے ستر ہے، اب سوال یہ ہے کہ ناف کے نیچے جب آیت کریمہ کے پانی کو بہایا جاسکتا ہے تو ران پر بہانے میں کیا نقصان ہے؟ تو ہم سمجھتے ہیں کہ ناف کے نیچے کا حصہ ران کے مقابلہ میں زیادہ معیوب ہے، جب بطور علاج ناف کے نیچے بہایا جاسکتا ہے، تو ران میں بھی بہانا جائز ہوگا، جب آیت کریمہ کا پانی براہ راست بہانا جائز ہے، تو آیت کریمہ کا تعویذ بنا کر اس پر غلاف چڑھا کر تکلیف دور ہونے اور بچہ کے باہر آنے تک کے لئے باندھ دیا جائے تو کفر کی بات کہاں سے لازم آتی ہے؛ بلکہ یہاں آیت کریمہ کو بطور علاج کے استعمال کرنے میں اس کا احترام ہے نہ کہ اہانت، نیز مسجد حرام میں سینکڑوں سلفی حضرات کو دیکھنے میں آیا ہے کہ کعبۃ اللہ کی طرف پیر پھیلا کر اور اپنے ٹانگوں پر رکھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں، یہاں تو ایک دو آیت کا مسئلہ ہے اور وہاں پورے قرآن کا مسئلہ ہے، تو کیا سلفی حضرات ان سب سلفی حضرات پر کفر کا فتویٰ صادر کریں گے جو رانوں پر اور ٹانگوں پر قرآن رکھ کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور جس طرح رانوں اور ٹانگوں پر رکھ کر کپڑا اور غلاف کا آڑ ہے، اسی طرح تعویذ میں بھی موم جما کر آڑ پیدا کیا جاتا ہے، نیز ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ ولادت کے وقت طہارت اور وضو باقی نہیں رہتا تو حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے تعویذ لکھ کر اسی حالت میں عورت کے بازو پر باندھنے کی ترغیب دی ہے، نیز جس وقت عورت کے پیٹ پر پانی بہایا جارہا ہوگا، اس وقت لازمی طور پر عورت کا وضو نہیں رہتا ہوگا؛ لہٰذا ہم ٹانگوں پر رکھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنے کو اور کعبۃ اللہ کی طرف پیر پھیلانے کو بے ادبی اور گستاخی سمجھتے ہیں اور علاج کے لئے آیت کریمہ کے پانی کو پیٹ اور ران پر بہانے اور تعویذ کی شکل میں باندھنے کو بے ادبی نہیں سمجھتے ہیں، اگر آپ مولانا اشرف علی تھانویؒ پر کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں تو ناف کے نیچے پانی بہانے میں شیخ ابن تیمیہؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور عبداللہ بن احمدؒ کے بارے میں کیا فتویٰ دیں گے؟ اس لئے ہم ان سب مشائخ کو برحق سمجھتے ہیں۔ حضرت شیخ ابن تیمیہؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ان سب کو برحق اور متبع سنت سمجھتے ہیں۔ اور ان میں سے کسی کو کافر کہنا ان کی جلالت شان کے بارے میں ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے زمانہ سے چھ سو سال پہلے کے فقہاء کی عبارات سے یہ مسئلہ لکھا تھا، چنانچہ ’’فتاوی تاتارخانیۃ‘‘ میں ’’فتاوی الحجہ‘‘ کے حوالہ سے واضح انداز میں یہ عبارت موجود ہے۔
-------------------------------------
وفي فتاوی الحجۃ: وقیل: إن المرأۃ إذا تعسر علیہا الولادۃ یکتب علی قرطاس: بسم اللہ الرحمن الرحیم، وألقت ما فیہا وتخلت واذنت لربہا وحقت، أہیا اشرأہیا، وتعلق من فخذہا الیسریٰ تلقی الولد من ساعتہ إن شاء اللہ تعالیٰ عز وجل۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل التاسع في الحیض والنفاس، مکتبہ زکریا ۱/ ۵۴۱، برقم: ۱۴۷۰)
فتاوی ابن تیمیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:
ویجوز أن یکتب للمصاب وغیرہ من المرضی شیئا من کتاب اللہ، وذکرہ المداد المباح، ویغسل ویسفی کما

نص علی ذلک أحمد وغیرہ، قال أحمد وغیرہ: قال عبداللہ بن أحمد: قرأت علی أبي ثنا یعلی بن عبید، ثنا سفیان عن محمد بن أبي لیلی بسم اللہ … لا إلہ إلا اللہ الحلیم الکریم، سبحان اللہ رب العرش العظیم، الحمد ﷲ رب العالمین (کأنہم یوم یرونہا لم یلبثوا إلا عشیّۃً أو ضحاہا) کأنہم یوم یرونہا ما یوعدون لم یلبثو إلا ساعۃ من نہار، بلاغ فہل یہلک إلا القوم الفاسقون) قال أبي: … ثنا أسود بن عامر بإسنادہ بمعناہ، وقال: یکتب في إناء نظیف فتسقي، قال أبي: وزاد فیہ وکیع فتسقي وتتضح مادون سرتہا، قال عبداللہ: رأیت أبي یکتب للمرأۃ في جام أو شيء نظیف، وقال أبو عمرو محمد بن شیوبہ: ثنا یعلی بن الحسن بن شقیق، ثنا عبداللہ بن المبارک عن سفیان، عن ابن أبي لیلی عن الحکم عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال: إذا عسر علی المرأۃ ولادہا فلیکتب: بسم اللہ لا إلہ إلا اللہ العلی العظیم، لا إلہ إلا اللہ الحلیم الکریم، سبحان اللہ رب العرش العظیم، والحمدﷲ رب العالمین (کأنہم یوم یرونہا لم یلبثوا إلا عشیّۃً أوضحاہا) کأنہم یوم یرونہا ما یوعدون لم یلبثو إلا ساعۃ من نہار، بلاغ فہل یہلک إلا القوم الفاسقون) قال علي: یکتب في کاغذۃ فیعلق علی عضد المرأۃ، قال علي: وقد جربنا ہ فلم نر شیئا أعجب منہ، فإذا وضعت تحلہ سریعا، ثم تجعلہ في خرقۃ أو تحرقہ، آخر کلام شیخ الإسلام ابن تیمیۃ قدس سرہ ونور ضریحہ (فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ ۱۹/ ۶۴، تا ۶۵) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۲۸؍ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۹/ ۱۰۳۸۵)الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۲۹؍ ۴؍ ۱۴۳۲ھ

فتاویٰ قاسمیہ ج1/ 520)

لگتا ہے صاحب آپ نے اس مراسلے کے بعد والے میرے مراسلے پڑھے ہی نہیں! میں نے اس مراسلے کے بعد تین اور مراسلے اسی صفحہ پر کیے ہیں۔ براہ مہربانی آپ ان کو پڑھئے۔ وہاں میں نے متعدد علماء کے فتاوٰی بھی شامل کیے ہیں اور میں نے ان میں نشاندھی کی ہے کہ امام ابنِ تیمیہ کی رائے پر احادیث کو فوقیت دی گئی ہے۔ یہ قرآن یا حدیث میں کہاں درج ہے کہ اگر کسی عالم کی بات قرآن اور حدیث کے مطابق نہ لگے تب بھی اسے حجت مانو؟

جہاں تک امتِ مسلمہ میں اختلافات حل کرنے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں تو ہمیں قرآن سے ہی ہدایت مل جاتی ہے:

اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو جب تمہارا کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے، اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ (سورۃ النسآء، ۵۹)

میں آپ کو دارالاندلس کی شائع کردہ ’تعویذ اور عقیدہ توحید‘ نامی کتابچہ کا ایک باب : ص97 تا 114 جو کہ محدث میگزین میں شائع ہوا تھا پیش کرنا چاہوں گا۔

یہاں صاف صاف تعویذ کے قائلین کی حجت کے بارے میں تحریر ہے "اگر حقیقتِ امر یہی ہے تو فریق اول کا قول کسی قوی حجت پر مبنی نہیں۔"

میں چاہوں گا کہ آپ اسے پورا پڑھیں اور پھر بتائیے کہ کیا امام ابنِ تیمیہ کی رائے کو فوقیت دی گئی ہے؟

http://magazine.mohaddis.com/shumar...r-masoor-duaon-se-bane-taveez-aur-un-ka-hukam

میں پھر کہوں گا کہ آپ اگر قرآن اور حدیث سے قرآنی آیات کو نجاست سے لکھنے اور قرآنی آیات کو جسم کے ایسے حصوں سے باندھنے، جس کی وجہ سے بے ادبی ہونے کے بے اشمار امکانات ہوں، کے لئے استدلال لا سکتے ہیں تو ضرور لائیے۔ ہم منتظر ہیں!!!
 

فہد مقصود

محفلین
یہ ہمارا وہ مراسلہ ہے جو آپ کی نگاہوں سے شاید اوجھل رہ گیا۔

حضور آپ نے یہ میرے نشاندھی کرنے کے بعد فرمایا ہے!!!!! اس سے پہلے آپ کے تقی عثمانی صاحب کے دفاعی مراسلے کے بعد ایک ایسا مراسلہ موجود تھا جس میں بار بار دہریہ یہاں شرکاء محفل کو کہنے کے ثبوت موجود تھے!!!! اگر آپ اس وقت ہی یہ فرما دیتے تو آپ کے کچھ نہ کہنے پر کچھ کہنے کی نوبت ہی نہیں آتی!!!!
دوسری بات یہاں دیگر شرکاء محفل آپ کی "اس طرح" کی توجیھات کو قبول کرنے کے عادی ہونگے لیکن میں اتنی آسانی سے الفاظ کے ہیر پھیر میں آنے والا نہیں ہوں!!! اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کا آپ کے دوستوں کے لئے دفاعی منصوبہ نہیں سمجھ سکا ہوں تو آپ کی بھول ہے! سوشل میڈیا پر ایسے رویے بارہا دیکھے ہیں!
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
میں اس دھاگے کو باقاعدٓگی سے پڑھتا ہوں، اور بہت ہی خوش ہوں کہ زمانے بھر کی جہالتیں سامنے آرہی ہیں، جن کو اسلام ، عورت اور پردے کے نام پر فروغ دیا جاتا ہے ، جیسے ، قران حکیم کے تعویز بنا بنا کر مختلف مقاصد میں استعمال کرنا۔ دعا ہے کہ یہ دھاگہ بند نا ہو اور ٓیہ سب زہر افشاں ہوتا رہے :)

حضرت اگر آپ دلچسپی رکھتے ہوں تو میرے یہ دو دھاگے بھی پڑھئے گا

مذہبی عقائد اور نظریات

عطاء اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب کا مطالعہ
 

فہد مقصود

محفلین
مسلمان ہر حال میں آزاد ہوتا ہے۔جب مجھے خدا کے بارے میں سوچنے کی آزادی ہے تو مجھے بس اتنا پتہ ہونا چاہیے کہ میں وہ سوال نہ اُٹھاؤں جس کے لئے میرے پاس ڈیٹا پورا نہیں ہے۔اور اگر میں نے سوال اُٹھا لیا ہے تو اتنا صبر کروں کہ مکمل ڈیٹا حاصل ہوجائے۔
(پروفیسر احمد رفیق اختر)​

جناب اگر آپ نے یہاں قرآن کے بے ادبی پر سوالات اٹھانے کے پسِ منظر میں یہ اقتباس نقل کیا ہے تو میں چاہوں گا کہ آپ یہاں پر ہی اس ضمن میں صحیح احادیث کا مطالعہ فرمائیں!!! پھر بتائیے گا کہ کونسا ڈیٹا مکمل نہیں ہے!!!
 

فہد مقصود

محفلین
یہ صرف کیا دو مثالیں تھیں؟؟؟؟
ہرگز نہیں! اتنا کچھ ہے کہ بندہ نشاندھی کر کر کے تھک جائے!

کعبہ دیوبند کے بزرگوں کی زیارت کرتا ہے(استغفراللہ) مولانا زکریا صاحب فرماتے ہیں کہ’’بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ کعبہ ان کی زیارت کو آجاتا ہے .‘‘( فضائل حج :ص ۱۰۵)

1378210_1434276193465423_406456072_n.jpg


اور اس بارے میں ذرا دارالافتاء کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں

مولانا زکریا رحمة اللہ علیہ نے فضائل حج میں فرمایا: کعبہ نیک لوگوں کی زیارت کو جاتا ہے۔ کیایہ واقعی جاتا ہے؟ میں نے فتاوی شامی،ج:۱، ص:۲۹۰ اور رد مختار ، ج:۲، ص:۸۶۸، میں پڑھا کہ کعبہ اپنی جگہ سے دور جائے یہ بات ممکن ہے۔ اور

مولانا زکریا رحمة اللہ علیہ نے فضائل حج میں فرمایا: کعبہ نیک لوگوں کی زیارت کو جاتا ہے۔ کیایہ واقعی جاتا ہے؟ میں نے فتاوی شامی،ج:۱، ص:۲۹۰ اور رد مختار ، ج:۲، ص:۸۶۸، میں پڑھا کہ کعبہ اپنی جگہ سے دور جائے یہ بات ممکن ہے۔ اور
سوال
مولانا زکریا رحمة اللہ علیہ نے فضائل حج میں فرمایا: کعبہ نیک لوگوں کی زیارت کو جاتا ہے۔ کیایہ واقعی جاتا ہے؟ میں نے فتاوی شامی،ج:۱، ص:۲۹۰ اور رد مختار ، ج:۲، ص:۸۶۸، میں پڑھا کہ کعبہ اپنی جگہ سے دور جائے یہ بات ممکن ہے۔ اوراگر کوئی شخص کعبہ کواس کی جگہ پر نہ پائے تو حنفی فقہ کے مطابق (نماز کے لیے) اپنا چہرہ اس جگہ کی طرف کرے ۔ دوسری طرف احمد رضا خان نے عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کے سلسلے میں فرمایا:کریں اقطاب عالم کعبہ کا طواف # کعبہ کرتا ہے طواف دار والے تیرا

جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1582=1351/ ب

نیک لوگوں کی زیارت کے لیے کعبہ کا جانا اور اپنی جگہ سے ہٹنا ممکن ہے۔ اگر کعبہ کو کوئی اپنی جگہ پر نہ پائے تو اس جگہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا جائز ہے۔ اوراحمد رضاخاں نے جو شعر کہا ہے وہ مبالغہ پر محمول ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :7126
تاریخ اجراء :مولانا زکریا رحم
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
ذرا وضاحت بھی کر دیں کہ اس گفتگو میں آپ کے مخاطبین میں سے کون پہلے سے دہریے ہیں اور سر عام ببانگ دہل اس کا اعلان کرتے ہیں۔ کیا آپ کچھ مثالیں دے سکتے ہیں جہاں انہوں نے ایسا کچھ اعلان کیا ہو؟ یا یہ وہی فرسودہ مائینڈ سیٹ ہے کہ جہاں کسی نے آپ کی ذاتی رائے کو اس کی جگہ پر ہی رکھا اور اسے ذاتی رائے کے بجائے مذہب کا درجہ نہ دیا تو اس پر ٹھک سے کافر، دہریے یا قادیانی کا لیبل لگ گیا؟

کیا یہاں قادیانی کا بھی لیبل لگتا رہا ہے؟؟؟؟

اگر لگتا رہا ہے تو ہم کچھ دکھانا چاہیں گے

کفریہ عقائد

عقائد
اولاد ابن سبائ حصہ دوم
ترتیب : ابو النعمان رضا

اللہ جھوٹ بولتا ہے
عقیدہ ۱؂ :۔
۱) ’’ کذب داخل تحت قدرت ہے ۔ ‘‘ ( فتاویٰ رشیدیہ ، جلد ۱ ، صفحہ ۱۹ )
۲) ’’ اگر حق تعالیٰ کلام کاذب پر قادر نہ ہوگا تو قدرت انسانی قدرتِ ربّا نی سے زائد ہو جائے گی ۔ ‘‘ ( الجہد المقل ، مولوی محمود الحسن دیوبندی ، صفحہ ۴۴ )
۳) ’’ کذب متنازعہ صفات ذاتیہ میں داخل نہیں بلکہ صفات فعلیہ میں داخل ہے ۔
( الجہد المقل ، صفحہ ۴۰ )
۴) ’’ امکان کذب کا مسئلہ تو اب کوئی جدید کسی نے نہیں نکالا ، بلکہ قدماء میں اختلاف ہوا ہے کہ خلف وعید آیا جائز ہے یا نہیں ۔ ‘‘
( براہین قاطعہ ، مولوی خلیل احمد انبیٹھوی ، صفحہ ۲ )
قادیانی عقیدہ ۱؂ :۔
’’ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات خدا تعالیٰ میری نسبت یا میری اولاد کی نسبت یا میرے کسی دوست کی ایک آنے والی بالا کی خبر دیتا ہے اور جب اس کے دفع کے لئے دعا کی جاتی ہے تو پھر دوسرا الہام ہوتا ہے کہ ہم نے اس بلا کو دفع کر دیا پس اگر اس طرح پر وعید کی پیشنگوئی ضروری الوقوع ہے تو میں بیسیوں دفعہ جھوٹا بن سکتا ہوں ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۹۸ )

’’ پس نص قرآن سے ثابت ہے کہ عذاب کی پیشنگوئی کا پورا ہونا ضروری نہیں۔ ‘‘
( تتمہ حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۳۱ )

اللہ تعالیٰ جہت اور مکان سے پاک نہیں
عقیدہ ۲؂ :۔
مولوی اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں ’’ تنزیہ اد تعالیٰ از زمان و مکان و جہت و اثبات روئت بلا جہت و محاذات ۔۔۔ ۔۔۔ ہمہ از قبیل بدعات حقیقیہ است راگر صاحب آں اعتقاداتِ مذکورہ را از جنس عقائد دینیہ فی شمارد ‘‘
( رسالہ ایضاح الحق ، صفحہ ۳۵ )
ترجمہ :۔ ’’ اللہ تعالیٰ کو زماں و مکاں و جہت سے پاک جاننا اور اللہ تعالیٰ کے دیدار کو بلا جہت و محاذات ماننا ، یہ بدعات حقیقیہ سے ہے ، جب کہ ان اعتقادات کو عقائد دینیہ سے شمار کرے ۔ ‘‘

قادیانی عقیدہ ۲؂ :۔
’’ انی مع الرسول اقوم و افطر و اصوم۔ ‘‘ ( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۰۷ )

ترجمہ :۔ میں ( اللہ تعالیٰ ) اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں اورمیں افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا ۔

’’ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اے مرزا ، خدا تری عرش پر حمد کرتا ہے اور عرش پر تیری تعریف کرتا ہے ۔ ‘‘
( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ، صفحہ ۲۲ )

خدا کون
عقیدہ ۳؂ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ خدا ان کا مربی وہ مربی تھے خلائق کے
مرے مولا مرے ہادی تھے بیشک شیخ ربانی ‘‘
( مرثیہ گنگوہی ، صفحہ ۸ )

مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنے ترجمہ قرآن مطبوعہ شیخ برکت اینڈ سنز لاہور کے صفحہ ۱ پر الحمد للہ رب العالمین کا ترجمہ یوں کیا ہے ’’ سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو مربی ہیں ہر ہر عالم کے ‘‘ ۔ ثابت ہوا کہ مربی اور رب دونوں ہم معنی ہیں ۔ خلائق جمع ہے ۔ خلائق کا لفظ ثابت کرتا ہے یہاں تمام عالموں کی تمام مخلوقات مراد ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ امام ربانی تمام عالموں کے تمام خلائق کے رب ہیں یعنی گنگوہی رب العالمین ہیں۔ ( العیاذ باللہ )

قادیانی عقیدہ ۳؂ :۔
’’ و رایتنی فی المنام عین اللہ و تیقنت اننی ھو ۔ ‘‘
( آئینہ کمالات ، صفحہ ۵۶۴ )

ترجمہ : میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ میں اللہ ہوں اور میں نے یقین کر لیا کہ بے شک میں وہی ہوں ۔

’’ اور دانیال نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں لفظی معنی میکائیل کے ہیں خدا کے مانند۔ ‘‘
( اربعین نمبر ۳ ، صفحہ ۲۵ ، حاشیہ )

اللہ کا جسم ہے
عقیدہ ۴؂ :۔
’’ تو ہمارے سامنے ہوتا ہم تیرے پاؤں پکڑ لیتے ۔ ہم تجھ سے چمٹ جاتے ۔۔۔۔۔۔تو ہی ہم کو جولی میں چھپالے ۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنی گود میں لے لے۔۔۔۔۔۔ ‘‘
( طارق جمیل صاحب تبلیغی کی دعا )
قادیانی عقیدہ ۴؂ :۔
’’ یہ مجموعہ عالم خدائے تعالیٰ کیلئے یطور ایک اندام واقع ہے ۔ قیوم العالمین ( یعنی خدا ) ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بے شمار ہاتھ بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض و طول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجوداعظم کی تاریں بھی ہیں ۔ ‘‘
( توضیح المرام ، صفحہ ۳۳ )

اللہ تعالیٰ افعال قبیحہ کر سکتا ہے

عقیدہ ۵؂ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ افعال قبیحہ مقدور باری تعالیٰ ہیں ۔ ‘‘ ( الجہد المقل ، صفحہ ۸۳ )
’’ کلیہ مسلمہ اہل کلام ہے ، جو مقدور العبد ہے وہ مقدور اللہ ہے ۔ ‘‘ ( تذکرۃ الخلیل ، صفحہ ۱۳۵ )

قادیانی عقیدہ ۵؂ :۔
’’ میں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی ۔۔۔۔۔۔ کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ وحی الہٰی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا جاتا ہے اور کبھی پورا ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ خدا تعالیٰ خطا کر سکتا ہے ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۰۳ )

’’ حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی یہ حالت ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ‘‘
( اسلامی ٹریکٹ ، صفحہ ۳۴ ، مصنفہ قاضی یار محمد )

قبلہ

عقیدہ ۶؂ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ پھریں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ
جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق و شوقِ عرفانی ‘‘
( مرثیہ گنگوہی ، صفحہ ۱۳ )
قادیانی عقیدہ ۶؂ :۔
ظہیر الدین اورپی لکھتا ہے : ’’ اور خدا کی عبادت کرتے وقت مسجد اقصیٰ اور مسیح موعود کے مقام ( قادیان ) کی طرف منہ کرنے کو ترجیح دینی ہوگی ۔ ( المبارک ، صفحہ ۳ )

انبیاء کرام جھوٹ بولتے تھے ( العیاذباللہ)
عقیدہ ۷؂ :۔
’’ دروغ ( جھوٹ ) بھی کئی طرح پر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کا حکم یکساں نہیں ۔ ہر قسم سے نبی کا معصوم ہونا ضروری نہیں ۔ ‘‘
( تصفیۃ العقائد ، مولوی قاسم نانوتوی ، صفحہ ۲۳ )
قادیانی عقیدہ ۷؂ :۔
’’ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیشنگوہی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست آئی ۔ ‘‘
( ازالہ اوہام ، صفحہ ۴۳۹ )

’’ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو ( حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ) کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی ۔ ‘‘
( حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ، صفحہ ۵ ؍۱۵ )

انبیاء گناہ سے معصوم نہیں
عقیدہ ۸؂ :۔
’’ بالجملہ علی العموم کذب کو منافیِ شان نبوت بایں معنی سمجھنا کہ یہ معصیت ہے اور انبیاء معاصی سے پاک ہیں ۔ خالی غلطی سے نہیں ۔ ‘‘
( تصفۃ العقائد ، مولوی قاسم نانوتوی ، صفحہ ۲۵ )

’’ ایک واقعہ کی تحقیق کی غلطی ہے جو علم و فضل یا ولایت بلکہ نبوت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہے ۔ ‘‘
( بوادرالنوادر ، مولوی اشرف تھانوی ، صفحہ ۱۹۷ )
قادیانی عقیدہ ۸؂ :۔
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت یحییٰ کے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کی ۔ ‘‘
( دافع البلا ، صفحہ ۴ ، حاشیہ )

انبیاء کرام سے افضلیت کا دعویٰ
جو کمالات انفرادی طور پر انبیاء کرام کو ملے تھے ان سارے کمالات کی جامع سرکارِ گنگوہیت مآب مولوی رشید احمد صاحب کی ذات ہے ۔ گنگوہی صاحب تمام انبیاء کرام سے افضل ۔

عقیدہ ۹؂ :۔
’’ حسن یوسف ، دم عیسیٰ ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ھمہ دارند تو تنہا داری ‘‘
( تذکرۃ مشائخ دیوبند ، صفحہ ۱۱۲ ، مفتی عزیر الرحمن نہٹوروی )
قادیانی عقیدہ ۹؂ :۔
’’ انبیاء گرچہ بودہ اند بسے من بعرفان نہ کمترم زکسے
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقیں ہر کہ گوید دروغ است و لعیں ‘‘
( درثمین ، ۲۸۷ ۔ ۲۸۸ )

’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے۔ آپ کا درجہ مقام کے لحاظ سے رسول کریم ﷺ کا شاگرد اور آپ کا ظل ہونے کا تھا ۔ دیگر انبیاء علیہم السلام میں سے بہتوں سے آپ بڑے تھے ۔ ممکن ہے سب سے بڑے ہوں ۔ ‘‘
( الفضل قادیان ، جلد ۱۴ نمبر ۸۵ ، مورخہ ۲۹ ، اپریل ۱۹۲۷ ؁ء )

وحی کا نزول
عقیدہ ۱۰؂ :۔
ایک مرتبہ قاسم نانوتوی نے حاجی امداد اللہ سے شکایت کی : ’’ جہاں تسبیح لے کر بیٹھا ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے سو سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیے زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘

اس کا جواب حاجی صاحب نے یہ دیا : ’’ یہ نبوت کا آپ کے دل پر فیضان ہوتا ہے اوریہ وہ ثقل ( بوجھ ) ہے جو حضور ﷺ کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا تم سے حق تعالیٰ کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے ۔ ‘‘
( سوانح قاسمی ، جلد ۱ ، صفحہ ۲۵۸ ۔ ۲۵۹ )
قادیانی عقیدہ ۱۰؂ :۔
’’ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں ۔ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں ۔ اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۲۱۱ )

’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی وحی اپنی جماعت کو سنانے پر مامور ہیں ۔ جماعت احمدیہ کو اس وحی اللہ پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے کیونکہ وحی اللہ اسی غرض کے واسطے سنائی جاتی ہے ورنہ اس کا سنانا اور پہنچانا ہی بے سود اور لغو فعل ہوگا ۔ جب کہ اس پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا مقصود بالذات نہ ہو۔
یہ شان بھی صرف انبیاء ہی کو حاصل ہے کہ ان کی وحی پر ایمان لایا جاوے حضرت محمد ﷺ کو بھی قرآن شریف مین یہی حکم ملا اور ان ہی الفاظ میں ملا اور بعدہ حضرت احمد علیہ السلام کو ملا ۔ پس یہ امر بھی آپ کی ( مرزا صاحب ) کی نبوت کی دلیل ہے ۔ ‘‘

( موسومہ النبوۃ فی الالہام ، صفحہ ۴۸ ، مولفہ قاضی محمد یوسف )

رحمۃ للعالمین کون
عقیدہ ۱۱؂ :۔
’’ سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ رحمۃللعالمین مخصوص آنحضرت ﷺ سے ہے یا ہر شخص کو کہہ سکتے ہیں ؟
جواب : لفظ رحمۃ للعالمین صفت خاصہ رسول اللہ ﷺ کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیاء و انبیاء اور علماء ربانیین بھی موجب رحمت عالم ہوتے ہیں اگر چہ جناب رسول اللہ ﷺ سب میں اعلیٰ ہیں لہذا اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیوے تو جائز ہے ۔فقط ‘‘
( فتاویٰ رشیدیہ ، صفحہ ۲۴۵ )
قادیانی عقیدہ ۱۱؂ :۔
’’ و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین ‘‘
( حقیقۃالوحی ، صفحہ ۸۲ )
ترجمہ : اور ہم نے تجھے ( اے مرزا ) تمام دنیا پر رحمت کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔

تحریفِ قرآن
عقیدہ ۱۲؂ :۔
’’ میں ( انور شاہ ) کہتا ہوں کہ لازم آتا ہے اوپر اس مذہب کے کہ ہو قرآن بھی تحریف شدہ کیونکہ بیشک تحریف معنوی نہیں ہے تھوڑی اس میں بھی اور جو بات ثابت ہے ۔ میرے نزدیک یہ ہے کہ تحریف ہے اس میں لفظی بھی تاہم یہ جو ہے ارادے سے ہے ان کے ( صحابہ کے ) یا مغالطے سے ہے پس اللہ خوب جانتا ہے یہ بات ۔ ‘‘
( فیض الباری ، انور شاہ کاشمیری ، جلد ۳ ، صفحہ ۳۹۸ )
قادیانی عقیدہ ۱۲؂ :۔
’’ قرآن دنیا سے اٹھ گیا تھا ۔ میں اس کو دوبارہ آسمان سے لایا ہوں ۔ ‘‘
( ازالہ الاوہام ، صفحہ ۷۲۱ )

خاتم النبیین میں معنوی تحریف
عقیدہ ۱۳؂ :۔
’’ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم ( ﷺ ) کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں ، مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے ؟ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۳ )
قادیانی عقیدہ ۱۳؂ :۔
’’ جو کچھ احمدی کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ’’ خاتم النبیین ‘‘ کے وہ معنی جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہیں نہ تو قرآن کریم کی مذکور بالا آیت پر چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ان سے رسول کریم ﷺ کی عزت و شان اس طرح ظاہر ہوتی ہے جس عزت اور شان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ ‘‘
( احمدیت کا پیغام ، صفحہ ۹ ، مؤ لفہ مرزا محمود امحمد )

’’ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ۔ اس آیت مین ایک پیشنگوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب بنوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے اور بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت ﷺ کا وجود ہے ۔ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے اور چونکہ وہ بروزی محمدی جو قدیم سے موعود تھا ۔ وہ میں ہوں اس لئے بروزی رنگ کی نبوت پر مہر ہے ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدی کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا ۔ سو وہ ظاہر ہوگیا ۔ اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمے سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں۔
( ایک غلطی کا ازالہ ، صفحہ ۷۵ )

ختم نبوت
عقیدہ ۱۴؂ :۔
’’ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو ، جب بھی آپ ( ﷺ ) کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ۔ ‘‘
’’ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ بنوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۱۳ ، صفحہ ۲۴ )
قادیانی عقیدہ ۱۴؂ :۔
’’ ایسے نبی بھی آسکتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کے لیے بطور ظل کے ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کے نبیوں کی آمد سے آپ ( ﷺ ) کے آخر الانبیاء ہونے میں فرق نہیں آتا ۔ ‘‘
( دعوت الامیر ، صفحہ ۲۵ ، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود )

’’ خاتم النبیین ﷺ کے بعد ایک ہزار نبی پیدا ہو سکتا ہے ۔ ‘‘
( ایک غلطی کا ازالہ ، صفحہ ۳ )

امتی عمل میں نبی سے ممتاز
عقیدہ ۱۵؂ :۔
’’ انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں ، باقی رہا عمل ، اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں ، بلکہ بڑھ جاتے ہیں ۔ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۵ )
قادیانی عقیدہ ۱۵؂ :۔
’’ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے ۔ حتی کہ محمد ﷺ سے بڑھ سکتا ہے ۔ ‘‘
( الفضل ، قادیان ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ ؁ ء )

سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی


امام حسین کی گستاخی
عقیدہ ۱۷؂ :۔
مولوی حسین علی دیوبندی لکھتتے ہیں: ’’ کو ر کور انہ مرد در کربلا
تا نیفتی چوں حسین اندر بلا ‘‘
( بلغۃ الحیران ، صفحہ ۳۹۹ )
ترجمہ : اے اندھے اندھا ہوکر کربلا میں نہ جانا تاکہ امام حسین کی طرح مصیبت میں گرفتار نہ ہو ۔

’’ امام حسین نے جماعت میں تفرقہ ڈالا اور جماعت سے الگ ہو کر آپ شیطان کے حصے میں چلے گئے۔ ‘‘ ( رشید ابن رشید ، صفحہ ۲۲۵ ۔۲۲۶ )
’’ پس حسین باغی اور بیعت توڑنے والے تھہرے ۔ ‘‘
( رشید ابن رشید ، صفحہ ۱۸۴ )
قادیانی عقیدہ ۱۷؂ :۔
’’ میں ( مرزا ) خدا کا کشتہ ہوں اور تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے ۔ پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے ۔ ‘‘ ( نزول المسیح ، صفحہ ۸۱ )

’’ کربلا ئسیت سیر ہر آنم صد حسین است در گریبا نم ‘‘
( نزول المسیح ، صفحہ ۴۷۷ )
ترجمہ : میری سیر کا ہر لمحہ ایک کربلا ہے سینکڑوں حسین میرے گریبان میں ہیں ۔

درود
عقیدہ ۱۸؂ :۔
’’ لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں اللھم صل علی سیدنا و نبینا و مولانا اشرف علی حالانکہ اب بیدار ہوں خواب نہیں ۔ ‘‘
( رسالہ الامداد ، صفحہ ۳۵ ، صفر المظفر ۱۳۳۶ ؁ ھ )
قادیانی عقیدہ ۱۸؂ :۔
’’ اللھم صل علی محمد و احمد و علی اٰل محمد و احمد کما صلیت علی ابراھیم و علی اٰل ابراھیم انک حمید مجید ۔ ‘‘
( رسالہ درود شریف ، صفحہ ۴۴ ، مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان )
 

فرقان احمد

محفلین
حضور آپ نے یہ میرے نشاندھی کرنے کے بعد فرمایا ہے!!!!! اس سے پہلے آپ کے تقی عثمانی صاحب کے دفاعی مراسلے کے بعد ایک ایسا مراسلہ موجود تھا جس میں بار بار دہریہ یہاں شرکاء محفل کو کہنے کے ثبوت موجود تھے!!!! اگر آپ اس وقت ہی یہ فرما دیتے تو آپ کے کچھ نہ کہنے پر کچھ کہنے کی نوبت ہی نہیں آتی!!!!
دوسری بات یہاں دیگر شرکاء محفل آپ کی "اس طرح" کی توجیھات کو قبول کرنے کے عادی ہونگے لیکن میں اتنی آسانی سے الفاظ کے ہیر پھیر میں آنے والا نہیں ہوں!!! اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کا آپ کے دوستوں کے لئے دفاعی منصوبہ نہیں سمجھ سکا ہوں تو آپ کی بھول ہے! سوشل میڈیا پر ایسے رویے بارہا دیکھے ہیں!
'دوستوں کے لیے دفاعی منصوبہ' ۔۔۔! :) ایک قہقہہ ہی لگایا جا سکتا ہے سر اس بات پر! گویا، یہ سازش ہم نے خود ہی تیار کی ہو گی۔ دیگر احباب کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں۔ :) اس بات کی یقین دہانی ہم آپ کو کرا دیتے ہیں۔ مانیے یا نہ مانیے، یہ آپ کی مرضی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top