ذرا وضاحت بھی کر دیں کہ اس گفتگو میں آپ کے مخاطبین میں سے کون پہلے سے دہریے ہیں اور سر عام ببانگ دہل اس کا اعلان کرتے ہیں۔ کیا آپ کچھ مثالیں دے سکتے ہیں جہاں انہوں نے ایسا کچھ اعلان کیا ہو؟ یا یہ وہی فرسودہ مائینڈ سیٹ ہے کہ جہاں کسی نے آپ کی ذاتی رائے کو اس کی جگہ پر ہی رکھا اور اسے ذاتی رائے کے بجائے مذہب کا درجہ نہ دیا تو اس پر ٹھک سے کافر، دہریے یا قادیانی کا لیبل لگ گیا؟
کیا یہاں قادیانی کا بھی لیبل لگتا رہا ہے؟؟؟؟
اگر لگتا رہا ہے تو ہم کچھ دکھانا چاہیں گے
کفریہ عقائد
عقائد
اولاد ابن سبائ حصہ دوم
ترتیب : ابو النعمان رضا
اللہ جھوٹ بولتا ہے
عقیدہ ۱ :۔
۱) ’’ کذب داخل تحت قدرت ہے ۔ ‘‘ ( فتاویٰ رشیدیہ ، جلد ۱ ، صفحہ ۱۹ )
۲) ’’ اگر حق تعالیٰ کلام کاذب پر قادر نہ ہوگا تو قدرت انسانی قدرتِ ربّا نی سے زائد ہو جائے گی ۔ ‘‘ ( الجہد المقل ، مولوی محمود الحسن دیوبندی ، صفحہ ۴۴ )
۳) ’’ کذب متنازعہ صفات ذاتیہ میں داخل نہیں بلکہ صفات فعلیہ میں داخل ہے ۔
( الجہد المقل ، صفحہ ۴۰ )
۴) ’’ امکان کذب کا مسئلہ تو اب کوئی جدید کسی نے نہیں نکالا ، بلکہ قدماء میں اختلاف ہوا ہے کہ خلف وعید آیا جائز ہے یا نہیں ۔ ‘‘
( براہین قاطعہ ، مولوی خلیل احمد انبیٹھوی ، صفحہ ۲ )
قادیانی عقیدہ ۱ :۔
’’ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات خدا تعالیٰ میری نسبت یا میری اولاد کی نسبت یا میرے کسی دوست کی ایک آنے والی بالا کی خبر دیتا ہے اور جب اس کے دفع کے لئے دعا کی جاتی ہے تو پھر دوسرا الہام ہوتا ہے کہ ہم نے اس بلا کو دفع کر دیا پس اگر اس طرح پر وعید کی پیشنگوئی ضروری الوقوع ہے تو میں بیسیوں دفعہ جھوٹا بن سکتا ہوں ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۹۸ )
’’ پس نص قرآن سے ثابت ہے کہ عذاب کی پیشنگوئی کا پورا ہونا ضروری نہیں۔ ‘‘
( تتمہ حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۳۱ )
اللہ تعالیٰ جہت اور مکان سے پاک نہیں
عقیدہ ۲ :۔
مولوی اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں ’’ تنزیہ اد تعالیٰ از زمان و مکان و جہت و اثبات روئت بلا جہت و محاذات ۔۔۔ ۔۔۔ ہمہ از قبیل بدعات حقیقیہ است راگر صاحب آں اعتقاداتِ مذکورہ را از جنس عقائد دینیہ فی شمارد ‘‘
( رسالہ ایضاح الحق ، صفحہ ۳۵ )
ترجمہ :۔ ’’ اللہ تعالیٰ کو زماں و مکاں و جہت سے پاک جاننا اور اللہ تعالیٰ کے دیدار کو بلا جہت و محاذات ماننا ، یہ بدعات حقیقیہ سے ہے ، جب کہ ان اعتقادات کو عقائد دینیہ سے شمار کرے ۔ ‘‘
قادیانی عقیدہ ۲ :۔
’’ انی مع الرسول اقوم و افطر و اصوم۔ ‘‘ ( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۰۷ )
ترجمہ :۔ میں ( اللہ تعالیٰ ) اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں اورمیں افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا ۔
’’ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اے مرزا ، خدا تری عرش پر حمد کرتا ہے اور عرش پر تیری تعریف کرتا ہے ۔ ‘‘
( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ، صفحہ ۲۲ )
خدا کون
عقیدہ ۳ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ خدا ان کا مربی وہ مربی تھے خلائق کے
مرے مولا مرے ہادی تھے بیشک شیخ ربانی ‘‘
( مرثیہ گنگوہی ، صفحہ ۸ )
مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنے ترجمہ قرآن مطبوعہ شیخ برکت اینڈ سنز لاہور کے صفحہ ۱ پر الحمد للہ رب العالمین کا ترجمہ یوں کیا ہے ’’ سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو مربی ہیں ہر ہر عالم کے ‘‘ ۔ ثابت ہوا کہ مربی اور رب دونوں ہم معنی ہیں ۔ خلائق جمع ہے ۔ خلائق کا لفظ ثابت کرتا ہے یہاں تمام عالموں کی تمام مخلوقات مراد ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ امام ربانی تمام عالموں کے تمام خلائق کے رب ہیں یعنی گنگوہی رب العالمین ہیں۔ ( العیاذ باللہ )
قادیانی عقیدہ ۳ :۔
’’ و رایتنی فی المنام عین اللہ و تیقنت اننی ھو ۔ ‘‘
( آئینہ کمالات ، صفحہ ۵۶۴ )
ترجمہ : میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ میں اللہ ہوں اور میں نے یقین کر لیا کہ بے شک میں وہی ہوں ۔
’’ اور دانیال نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں لفظی معنی میکائیل کے ہیں خدا کے مانند۔ ‘‘
( اربعین نمبر ۳ ، صفحہ ۲۵ ، حاشیہ )
اللہ کا جسم ہے
عقیدہ ۴ :۔
’’ تو ہمارے سامنے ہوتا ہم تیرے پاؤں پکڑ لیتے ۔ ہم تجھ سے چمٹ جاتے ۔۔۔۔۔۔تو ہی ہم کو جولی میں چھپالے ۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنی گود میں لے لے۔۔۔۔۔۔ ‘‘
( طارق جمیل صاحب تبلیغی کی دعا )
قادیانی عقیدہ ۴ :۔
’’ یہ مجموعہ عالم خدائے تعالیٰ کیلئے یطور ایک اندام واقع ہے ۔ قیوم العالمین ( یعنی خدا ) ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بے شمار ہاتھ بے شمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض و طول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجوداعظم کی تاریں بھی ہیں ۔ ‘‘
( توضیح المرام ، صفحہ ۳۳ )
اللہ تعالیٰ افعال قبیحہ کر سکتا ہے
عقیدہ ۵ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ افعال قبیحہ مقدور باری تعالیٰ ہیں ۔ ‘‘ ( الجہد المقل ، صفحہ ۸۳ )
’’ کلیہ مسلمہ اہل کلام ہے ، جو مقدور العبد ہے وہ مقدور اللہ ہے ۔ ‘‘ ( تذکرۃ الخلیل ، صفحہ ۱۳۵ )
قادیانی عقیدہ ۵ :۔
’’ میں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی ۔۔۔۔۔۔ کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ وحی الہٰی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا جاتا ہے اور کبھی پورا ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ خدا تعالیٰ خطا کر سکتا ہے ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۱۰۳ )
’’ حضرت مسیح موعود نے ایک موقعہ پر اپنی یہ حالت ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ‘‘
( اسلامی ٹریکٹ ، صفحہ ۳۴ ، مصنفہ قاضی یار محمد )
قبلہ
عقیدہ ۶ :۔
مولوی محمود الحسن لکھتے ہیں : ’’ پھریں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ
جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق و شوقِ عرفانی ‘‘
( مرثیہ گنگوہی ، صفحہ ۱۳ )
قادیانی عقیدہ ۶ :۔
ظہیر الدین اورپی لکھتا ہے : ’’ اور خدا کی عبادت کرتے وقت مسجد اقصیٰ اور مسیح موعود کے مقام ( قادیان ) کی طرف منہ کرنے کو ترجیح دینی ہوگی ۔ ( المبارک ، صفحہ ۳ )
انبیاء کرام جھوٹ بولتے تھے ( العیاذباللہ)
عقیدہ ۷ :۔
’’ دروغ ( جھوٹ ) بھی کئی طرح پر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کا حکم یکساں نہیں ۔ ہر قسم سے نبی کا معصوم ہونا ضروری نہیں ۔ ‘‘
( تصفیۃ العقائد ، مولوی قاسم نانوتوی ، صفحہ ۲۳ )
قادیانی عقیدہ ۷ :۔
’’ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیشنگوہی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست آئی ۔ ‘‘
( ازالہ اوہام ، صفحہ ۴۳۹ )
’’ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو ( حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ) کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی ۔ ‘‘
( حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ، صفحہ ۵ ؍۱۵ )
انبیاء گناہ سے معصوم نہیں
عقیدہ ۸ :۔
’’ بالجملہ علی العموم کذب کو منافیِ شان نبوت بایں معنی سمجھنا کہ یہ معصیت ہے اور انبیاء معاصی سے پاک ہیں ۔ خالی غلطی سے نہیں ۔ ‘‘
( تصفۃ العقائد ، مولوی قاسم نانوتوی ، صفحہ ۲۵ )
’’ ایک واقعہ کی تحقیق کی غلطی ہے جو علم و فضل یا ولایت بلکہ نبوت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہے ۔ ‘‘
( بوادرالنوادر ، مولوی اشرف تھانوی ، صفحہ ۱۹۷ )
قادیانی عقیدہ ۸ :۔
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت یحییٰ کے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کی ۔ ‘‘
( دافع البلا ، صفحہ ۴ ، حاشیہ )
انبیاء کرام سے افضلیت کا دعویٰ
جو کمالات انفرادی طور پر انبیاء کرام کو ملے تھے ان سارے کمالات کی جامع سرکارِ گنگوہیت مآب مولوی رشید احمد صاحب کی ذات ہے ۔ گنگوہی صاحب تمام انبیاء کرام سے افضل ۔
عقیدہ ۹ :۔
’’ حسن یوسف ، دم عیسیٰ ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ھمہ دارند تو تنہا داری ‘‘
( تذکرۃ مشائخ دیوبند ، صفحہ ۱۱۲ ، مفتی عزیر الرحمن نہٹوروی )
قادیانی عقیدہ ۹ :۔
’’ انبیاء گرچہ بودہ اند بسے من بعرفان نہ کمترم زکسے
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقیں ہر کہ گوید دروغ است و لعیں ‘‘
( درثمین ، ۲۸۷ ۔ ۲۸۸ )
’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے۔ آپ کا درجہ مقام کے لحاظ سے رسول کریم ﷺ کا شاگرد اور آپ کا ظل ہونے کا تھا ۔ دیگر انبیاء علیہم السلام میں سے بہتوں سے آپ بڑے تھے ۔ ممکن ہے سب سے بڑے ہوں ۔ ‘‘
( الفضل قادیان ، جلد ۱۴ نمبر ۸۵ ، مورخہ ۲۹ ، اپریل ۱۹۲۷ ء )
وحی کا نزول
عقیدہ ۱۰ :۔
ایک مرتبہ قاسم نانوتوی نے حاجی امداد اللہ سے شکایت کی : ’’ جہاں تسبیح لے کر بیٹھا ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے سو سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیے زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘
اس کا جواب حاجی صاحب نے یہ دیا : ’’ یہ نبوت کا آپ کے دل پر فیضان ہوتا ہے اوریہ وہ ثقل ( بوجھ ) ہے جو حضور ﷺ کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا تم سے حق تعالیٰ کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے ۔ ‘‘
( سوانح قاسمی ، جلد ۱ ، صفحہ ۲۵۸ ۔ ۲۵۹ )
قادیانی عقیدہ ۱۰ :۔
’’ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں ۔ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں ۔ اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں ۔ ‘‘
( حقیقۃ الوحی ، صفحہ ۲۱۱ )
’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی وحی اپنی جماعت کو سنانے پر مامور ہیں ۔ جماعت احمدیہ کو اس وحی اللہ پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے کیونکہ وحی اللہ اسی غرض کے واسطے سنائی جاتی ہے ورنہ اس کا سنانا اور پہنچانا ہی بے سود اور لغو فعل ہوگا ۔ جب کہ اس پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا مقصود بالذات نہ ہو۔
یہ شان بھی صرف انبیاء ہی کو حاصل ہے کہ ان کی وحی پر ایمان لایا جاوے حضرت محمد ﷺ کو بھی قرآن شریف مین یہی حکم ملا اور ان ہی الفاظ میں ملا اور بعدہ حضرت احمد علیہ السلام کو ملا ۔ پس یہ امر بھی آپ کی ( مرزا صاحب ) کی نبوت کی دلیل ہے ۔ ‘‘
( موسومہ النبوۃ فی الالہام ، صفحہ ۴۸ ، مولفہ قاضی محمد یوسف )
رحمۃ للعالمین کون
عقیدہ ۱۱ :۔
’’ سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ رحمۃللعالمین مخصوص آنحضرت ﷺ سے ہے یا ہر شخص کو کہہ سکتے ہیں ؟
جواب : لفظ رحمۃ للعالمین صفت خاصہ رسول اللہ ﷺ کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیاء و انبیاء اور علماء ربانیین بھی موجب رحمت عالم ہوتے ہیں اگر چہ جناب رسول اللہ ﷺ سب میں اعلیٰ ہیں لہذا اگر دوسرے پر اس لفظ کو بتاویل بول دیوے تو جائز ہے ۔فقط ‘‘
( فتاویٰ رشیدیہ ، صفحہ ۲۴۵ )
قادیانی عقیدہ ۱۱ :۔
’’ و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین ‘‘
( حقیقۃالوحی ، صفحہ ۸۲ )
ترجمہ : اور ہم نے تجھے ( اے مرزا ) تمام دنیا پر رحمت کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔
تحریفِ قرآن
عقیدہ ۱۲ :۔
’’ میں ( انور شاہ ) کہتا ہوں کہ لازم آتا ہے اوپر اس مذہب کے کہ ہو قرآن بھی تحریف شدہ کیونکہ بیشک تحریف معنوی نہیں ہے تھوڑی اس میں بھی اور جو بات ثابت ہے ۔ میرے نزدیک یہ ہے کہ تحریف ہے اس میں لفظی بھی تاہم یہ جو ہے ارادے سے ہے ان کے ( صحابہ کے ) یا مغالطے سے ہے پس اللہ خوب جانتا ہے یہ بات ۔ ‘‘
( فیض الباری ، انور شاہ کاشمیری ، جلد ۳ ، صفحہ ۳۹۸ )
قادیانی عقیدہ ۱۲ :۔
’’ قرآن دنیا سے اٹھ گیا تھا ۔ میں اس کو دوبارہ آسمان سے لایا ہوں ۔ ‘‘
( ازالہ الاوہام ، صفحہ ۷۲۱ )
خاتم النبیین میں معنوی تحریف
عقیدہ ۱۳ :۔
’’ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم ( ﷺ ) کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں ، مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے ؟ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۳ )
قادیانی عقیدہ ۱۳ :۔
’’ جو کچھ احمدی کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ’’ خاتم النبیین ‘‘ کے وہ معنی جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہیں نہ تو قرآن کریم کی مذکور بالا آیت پر چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ان سے رسول کریم ﷺ کی عزت و شان اس طرح ظاہر ہوتی ہے جس عزت اور شان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ ‘‘
( احمدیت کا پیغام ، صفحہ ۹ ، مؤ لفہ مرزا محمود امحمد )
’’ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ۔ اس آیت مین ایک پیشنگوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب بنوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے اور بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت ﷺ کا وجود ہے ۔ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے اور چونکہ وہ بروزی محمدی جو قدیم سے موعود تھا ۔ وہ میں ہوں اس لئے بروزی رنگ کی نبوت پر مہر ہے ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدی کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا ۔ سو وہ ظاہر ہوگیا ۔ اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمے سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں۔
( ایک غلطی کا ازالہ ، صفحہ ۷۵ )
ختم نبوت
عقیدہ ۱۴ :۔
’’ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو ، جب بھی آپ ( ﷺ ) کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ۔ ‘‘
’’ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ بنوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۱۳ ، صفحہ ۲۴ )
قادیانی عقیدہ ۱۴ :۔
’’ ایسے نبی بھی آسکتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کے لیے بطور ظل کے ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کے نبیوں کی آمد سے آپ ( ﷺ ) کے آخر الانبیاء ہونے میں فرق نہیں آتا ۔ ‘‘
( دعوت الامیر ، صفحہ ۲۵ ، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود )
’’ خاتم النبیین ﷺ کے بعد ایک ہزار نبی پیدا ہو سکتا ہے ۔ ‘‘
( ایک غلطی کا ازالہ ، صفحہ ۳ )
امتی عمل میں نبی سے ممتاز
عقیدہ ۱۵ :۔
’’ انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں ، باقی رہا عمل ، اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں ، بلکہ بڑھ جاتے ہیں ۔ ‘‘
( تحذیر الناس ، صفحہ ۵ )
قادیانی عقیدہ ۱۵ :۔
’’ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے ۔ حتی کہ محمد ﷺ سے بڑھ سکتا ہے ۔ ‘‘
( الفضل ، قادیان ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ ء )
سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی
امام حسین کی گستاخی
عقیدہ ۱۷ :۔
مولوی حسین علی دیوبندی لکھتتے ہیں: ’’ کو ر کور انہ مرد در کربلا
تا نیفتی چوں حسین اندر بلا ‘‘
( بلغۃ الحیران ، صفحہ ۳۹۹ )
ترجمہ : اے اندھے اندھا ہوکر کربلا میں نہ جانا تاکہ امام حسین کی طرح مصیبت میں گرفتار نہ ہو ۔
’’ امام حسین نے جماعت میں تفرقہ ڈالا اور جماعت سے الگ ہو کر آپ شیطان کے حصے میں چلے گئے۔ ‘‘ ( رشید ابن رشید ، صفحہ ۲۲۵ ۔۲۲۶ )
’’ پس حسین باغی اور بیعت توڑنے والے تھہرے ۔ ‘‘
( رشید ابن رشید ، صفحہ ۱۸۴ )
قادیانی عقیدہ ۱۷ :۔
’’ میں ( مرزا ) خدا کا کشتہ ہوں اور تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے ۔ پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے ۔ ‘‘ ( نزول المسیح ، صفحہ ۸۱ )
’’ کربلا ئسیت سیر ہر آنم صد حسین است در گریبا نم ‘‘
( نزول المسیح ، صفحہ ۴۷۷ )
ترجمہ : میری سیر کا ہر لمحہ ایک کربلا ہے سینکڑوں حسین میرے گریبان میں ہیں ۔
درود
عقیدہ ۱۸ :۔
’’ لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں اللھم صل علی سیدنا و نبینا و مولانا اشرف علی حالانکہ اب بیدار ہوں خواب نہیں ۔ ‘‘
( رسالہ الامداد ، صفحہ ۳۵ ، صفر المظفر ۱۳۳۶ ھ )
قادیانی عقیدہ ۱۸ :۔
’’ اللھم صل علی محمد و احمد و علی اٰل محمد و احمد کما صلیت علی ابراھیم و علی اٰل ابراھیم انک حمید مجید ۔ ‘‘
( رسالہ درود شریف ، صفحہ ۴۴ ، مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان )