آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

سید عمران

محفلین
۱) ہمیں اپنی بیٹیوں کو نرس، ڈاکٹر، ٹیچر اور جو وہ چاہیں بننے میں مدد کرنا چاہیے. بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے
۲) اگر پاکستان میں پچاس فیصد آبادی کو متروک کردیا جائے گا تو ملک کا حال اور برا ہوجائے گا
۳) مخلوط جگہوں پر کام، کام کی نوعیت پر ہے. ابھی ہمارے ہاں صرف خواتین کے اسپتال نہیں ہیں. اب کیا کریں، کیا اپنی بیٹی کا علاج نہ کرائیں اسے مرنے دیں. علاج بھی عورت سے کرانا ہے اور اپنی بیٹی کو گھر سے نکالنا بھی نہیں، پھر علاج کون کرے گا
۴) میں عورتوں کے الگ اسپتال اور اسکول کالج کا حامی ہوں مگر موجودہ صورتحال میں کیا کریں.
۵) پردہ خدا نے شاید اسی لیے واجب کیا ہے کہ عورت مخلوط ماحول میں کام کرسکے. ورنہ پردہ کیوں کیا جائے عورتوں کے درمیان.
کیا گھر میں دیور اور جیٹھ یا شوہر کے بھانجے بھتیجے نہیں آتے یا ہم نہیں جاتے ان کے گھر. یہ سب نامحرم ہیں مگر پردے کی حالت میں جاسکتے ہیں؟
۶) اپنی بیٹی کے کردار کو مضبوط بنائیے اسے معاشرے کی اچھائی برائی بتائیے اور اس پر بھروسہ کرکے معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے دیجیے
۷) گھر سے نکلنے والی عورت زیادہ بہتر جانتی ہے کہ اپنی بیٹی کی تربیت کیسے کرنی ہے لہٰذا اپنی بیوی کو بھی کام کرنے کی اجازت دیجیے
۱) ضرور کرنی چاہیے اگر اس کا نتیجہ معاشرہ اور خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں نہ نکلے۔ جس کا شکار یورپ اور امریکہ ہے۔ جہاں اسی طرح سہانے سپنے دکھا کر عورت کو در بدر کردیا۔
۲) پچاس فیصد آبادی کو کس لحاظ سے متروک کیا گیا ہے؟
۳) خواتین کا علاج کرانے کو کس نے منع کیا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں بڑے بڑے سرجن مرد ہی ہیں ۔ کیا خواتین ان سے علاج نہیں کرواتیں؟
۴) موجودہ صورت حال ایسی کون سی ہوگئی جو آج سے پہلے نہیں تھی؟
۵) خلاصہ یہی ہے کہ عورت کی عزت اور اس کا خاندانی نظام سے جڑے رہنا، یہ دو ایسے عوامل ہیں کہ ان کے ساتھ رہ کر عورت سارے کام کرے۔
۶) مطلب یہ کہ اگر ماں بیٹی کی تربیت ایسی نہ کرسکے تو اسے مخلوط ماحول میں نہ بھیجے؟
اور محض تربیت سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ کیچڑ زیادہ ہو تو بڑے بڑے ہاتھی پھسل جاتے ہیں۔ ہم آئے دن یہ تماشے دیکھتے ہیں کہ جب کسی پر دل آجاتا ہے، عشق کا روگ لگ جاتا ہے پھر نہ لڑکا رکتا ہے نہ لڑکی۔
۷) معاشرہ میں زنا کی جو صورت حال آج ہے کیا وہ پہلے کبھی تھی؟ یونیورسٹیوں میں جو قدم قدم پر لڑکے لڑکیاں چونچیں لڑائے بیٹھے ہیں اس کے تدارک کا کبھی کسی نے سوچا؟کیا اس کا سبب لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط نہیں؟ یہ جو ہمارے ڈاکٹر دوست بتاتے ہیں کہ آئے دن انہیں ناجائز بچوں کا ابارشن کروانے والے کیسز سے سامنا کرنا پڑتا ہے یہ کس کھیت کی پیداوار ہیں؟
۷) ماں باہر نکلی ہو یا نہ نکلی ہو۔ بچوں کی تربیت ہورہی ہو یا نہیں۔ معاشرہ میں بے حیائی اور تعلیمی اداروں، کاروباری اداروں اور دفاتر میں بڑھتی ہوئی بدچلنی کی روک تھام کے بارے میں کوئی ٹھوس تجاویز کیوں نہیں دیتا یا اس پر عمل پیرا کیوں نہیں ہوا جاتا؟؟؟
 

ظفری

لائبریرین
اگر کسی خاتون کا ایک بیٹا یا بیٹی ہے تو اولاد کی پیدائش کے بعد سات سال تک اسے باہر کہیں کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سات سال اولاد کا حق ہے اور ماں کا کام یہ ہے کہ وہ اولاد کو شفقت اور تربیت فراہم کرے۔
اور اگر عورت کسی معاشی مجبوری کی وجہ سے زچگی کے بعد کام کرنے پر مجبور ہو تو پھر ۔۔۔ ؟
 

ظفری

لائبریرین
پھر تو یہ فقہ کا مسئلہ آگیا اور فقیہہ کی اہمیت واضح ہوگئی۔ اب اس سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
کس فقہ کی بات کر رہے ہیں ۔ ہر مکتبِ فکر اپنا ہی راگ الاپتا ہے ۔ فقہ کی اہمیت سمجھنے سے پہلے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات علم میں ہونے چاہیئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کس فقہ کی بات کر رہے ہیں ۔ ہر مکتبِ فکر اپنا ہی راگ الاپتا ہے ۔ فقہ کی اہمیت سمجھنے سے پہلے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات علم میں ہونے چاہیئے۔
خاتون جس مکتب فکر سے وابستہ ہے اس کو چاہیے کہ اسی مکتب فکر کے فقیہہ سے رابطہ کرے تا کہ مختلف راگوں کی بندشوں سے پریشاں نہ ہو۔ فقہ قرآن و سنت سے ہی استنباط کا نام ہے۔
 

سید عمران

محفلین
۱) آخری حد کا تعین بھی عورت سے مخصوص نہیں. ہر ذی شعور کو اپنی آخری حد سمجھنا چاہیے.
۲) کل ہی ایک جگہ سنا کہ رسول اللہ ص کے اوپر کسی نے اوجڑی ڈال دی. کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس کو دور کرتا. رسول کی بیٹی خود آگے بڑھیں. رسول اللہ کی وفات کے بعد بھی آپ چین سے نہ بیٹھیں اور اپنا حق مانگنے دربار تک گئیں اور لوگوں کو رسول اللہ کی وصیت یاد دلائی۔
۳)جب علی جنگوں پر ہوتے تھے اور اکثر ہوتے تھے تو بی بی ہی تمام کام کرتی تھیں کیا گھر اور کیا باہر. محلے والوں کی گندم بھی پیستی تھیں اور اپنی بھی. حسن حسین تو بہت چھوٹے تھے. باہر کے کام اور کون کرتا.
۴)جن کی دولت کی بدولت اسلام پھیلا وہ کون تھیں. ایک ورکنگ وومن.
رسول اللہ کی سب سے چہیتی بیوی جن کی موجودگی میں آپ نے دوسری شادی نہ کی. شعب ابی طالب کے واقعات دیکھیے کیا کردار ہے آپ کا.جنگوں میں مرہم پٹی کا تو سب ہی جانتے ہیں کہ کون کیا کرتا تھا. ہتھیاروں کو تیار کون کرتا تھا. ذوالفقار سے باتیں کون کرتا تھا.
۵) میرے خیال میں چودہ سو سال میں ہم دقیانوسی ہوگئے ہیں. رسول اللہ کے دور میں ہم زیادہ پروگریسو تھے.
۱) کیا ہر ذی شعور کو اتنا شعور حاصل ہے کہ وہ اس حد کا صحیح تعیین کرسکے؟
۲) ایک کام وقتی نوعیت کا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا مسلسل یہی کام نہیں کرتی رہیں۔
۳) گھر سے باہر نکل کر کبھی کسی کی ملازمت نہیں کی۔ نہ رسول اللہ ایسا کرنے دیتے نہ حضرت علی۔
۴) کیا آج کی ورکنگ وومن سے تقابل کیا جارہا ہے جو روزانہ دس گھنٹے گھر سے باہر رہتی ہے؟ کیا حضرت فاطمہ سے ثابت ہے کہ آپ گھر سے باہر نکل کر دوسروں کی ملازمتیں کرتی تھیں۔ آپ کی سب سے بڑی صفت یہی بیان کی جاتی ہے کہ چکی چلانے سے آپ کے ہاتھوں میں گٹے پڑگئے تھے۔ گھر کا چولہا جھونک جھونک کر دھوئیں سے آپ کے چہرے کی رنگت جھلس گئی تھی۔آپ کو ورکنگ وومین کا لقب دینا خانوادۂ رسول و علی کے ہرگز شایانِ شان نہیں۔
۵) جو دقیانوسیت تعلیمی اداروں میں عزت کو برہنہ کردے اس پر ہزار روشن خیالی قربان۔ دورِ رسالت کا تقابل کرتے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ کیا اُس دور میں اس طرح کا ماحول تھا کہ آج کل کی طرح مرد و عورتوں کے ناجائز تعلقات کی پینگیں بڑھ رہی ہوں؟
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
۱)عورت بغیر مجبوری بھی باہر نکل سکتی ہے. کسی نے اسے بیڑیاں نہیں ڈالیں. کسی مرد کو حق نہیں کہ عورت پر باہر نکلنے پر پابندی لگائے. خدا نے عورت کو آزاد پیدا کیا ہے. اگر کوئی مرد نظر نہ آنے والی بیڑیاں ڈالے تو یہ حبس بے جا میں شمار ہوگا

اس بات سے انتہائی غیر متفق. مجھ سے پوچھیے کہ اسپتال میں بیماری سے کون زیادہ بہتر لڑتا ہے. اگر دو بچے انڈر ویٹ داخل ہوں تو یقیناً لڑکی کے بچنے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں. مردوں کو ہارٹ اٹیک زیادہ ہوتے ہیں. ایکسیڈنٹ میں بھی زیادہ مرتے ہیں اور جنگوں میں بھی. مرد کو بنیادی طور پر مزدور بنایا گیا ہے. پتھر وغیرہ اٹھانے کے لیے اور اب تو یہ کام بھی عورتیں کررہی ہیں ہمارے تھر میں.
۱) کس مقصد کو حاصل کرنے بغیر ضرورت باہر نکلے؟ اس کی ساری ضروریات کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔
۲)چند خواتین کا عمل ساری خواتین پر لاگو نہیں ہوتا۔ اکثریت کو دیکھا جاتا ہے۔ کیا شہری ماحول میں پرورش پانے والی خواتین پتھر کوٹ سکتی ہیں؟ گٹر کی صفائی کے لیے اندر اتر سکتی ہیں؟ اور وہ ایسا کیوں کریں؟انہیں اس برائی میں پڑنے سے بچانے کی ذمہ داری مرد کو دی گئی ہے۔ اگر گھر میں مرد کی کمائی کے باوجود خرچ پورا نہیں ہوتا تو عورت کو معاونت کے لیے کمانے سے کون منع کرتا ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
خاتون جس مکتب فکر سے وابستہ ہے اس کو چاہیے کہ اسی مکتب فکر کے فقیہہ سے رابطہ کرے تا کہ مختلف راگوں کی بندشوں سے پریشاں نہ ہو۔ فقہ قرآن و سنت سے ہی استنباط کا نام ہے۔
جب مسئلہ ہی قرآن و سنت میں موجو دنہیں ہے تو پھر اس کو زبردستی مسلمان بنانا کیا ضروری ہے ۔ یہ تو معاشی ، اخلاقی قدروں کو سامنے رکھ کر اس معاملے کا فیصلہ باآسانی کیا جاسکتا ہے ۔ کیا ضروری ہے ہر معاملے کو فقہہ سےمنسلک کیا جائے ۔ فقہہ کیا ہے کسی "عالم " کی اپنی ایک رائے ہے ۔ جو قرآن و سنت کے مطابق ہونی چاہیئے ۔ مگر آسان اور سہل معاملہ جسے انسانی عقل بآسانی حل کرسکتی ہے ۔ اسے پیچیدہ بنانے کی کیا ضرورت ہے ۔
 

سید عمران

محفلین
جو کام عورت کو نہیں کرنا چاہیے وہ اپنے جسم کو بیچنا ہے. یہ کام ایک مکروہ بلکہ حرام ہے. اس کی بہت سی صورتیں ہیں اور سب ہی غلط ہیں
اگر عورت باہر نکل کر جسم بیچنے کا کاروبار نہ کرے، رقم لیے بغیر اپنی خواہش سے وہی کام کرے تو اس کا باہر نکلنا کیسا ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
جب مسئلہ ہی قرآن و سنت میں موجو دنہیں ہے تو پھر اس کو زبردستی مسلمان بنانا کیا ضروری ہے ۔ یہ تو معاشی ، اخلاقی قدروں کو سامنے رکھ کر اس معاملے کا فیصلہ باآسانی کیا جاسکتا ہے ۔ کیا ضروری ہے ہر معاملے کو فقہہ سےمنسلک کیا جائے ۔ فقہہ کیا ہے کسی "عالم " کی اپنی ایک رائے ہے ۔ جو قرآن و سنت کے مطابق ہونی چاہیئے ۔ مگر آسان اور سہل معاملہ جسے انسانی عقل بآسانی حل کرسکتی ہے ۔ اسے پیچیدہ بنانے کی کیا ضرورت ہے ۔
اس مسئلے پر آپ رائے دے سکتے ہیں اور فقیہہ کا رائے دینا غیر اہم کیسے ہوگیا؟
 

الف نظامی

لائبریرین
آپ رہنے دیں ۔ آپ کو علم ہی نہیں کہ آپ نے کیا بات چھیڑی تھی ۔ :grin:
آپ بھی جانے دیں۔ اور اپنی پسند کے فقیہہ کی بات سنیں
مرد و عورت کئی میدانوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مختلف ہونا لازماً کم تر اور گھٹیا ہونا نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک آدمی کی ذمہ داری اور کار کردگی کے لیے ایک میدان ہوتا ہے اور دوسرے کے لیے دوسرا۔مثلاً اولاد جننا، اسے دودھ پلانا ،یہ تو عورتوں ہی کے ساتھ خاص ہے، مرد اس معاملے میں صفر پر کھڑے ہیں۔ بچوں کی ابتدائی تربیت میں ماں کا کردار زیادہ ہوتا ہے اور باپ کا کم۔ گھر کے کام کاج، مثلاً کھانا پکانا، گھر سنبھالنا، اس میں بھی عورتوں ہی کا غلبہ ہے۔ معاش کی محنت مشقت ، کسان کی طرح تپتی دھوپ میں زمین پر ہل چلانا، دور دراز کے سفر کرکے سامان تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، مزدوروں، مزارعوں اور کسانوں کی طرح کام کرنا یا ان سے کام لینا، اس میں بھی عام طور پر مرد حضرات ہی آگے دکھائی دیے ہیں۔ خوف ناک حالات میں اپنے لائف پارٹنر کو شیلٹر دینا، مثلاً اسے شیر، چیتے، بھیڑیے، ریچھ یا اس چوہیا ہی سے بچانے کی کوشش کرنا جو کمرے میں گھس آئی ہو، یہ سب کام عام طور پر مردوں کے ساتھ خاص ہیں، عورتیں زیادہ تر ان کاموں میں پیچھے رہنا ہی پسند کرتی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
۱) کیا ہر ذی شعور کو اتنا شعور حاصل ہے کہ وہ اس حد کا صحیح تعیین کرسکے؟
۲) ایک کام وقتی نوعیت کا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا مسلسل یہی کام نہیں کرتی رہیں۔
۳) گھر سے باہر نکل کر کبھی کسی کی ملازمت نہیں کی۔ نہ رسول اللہ ایسا کرنے دیتے نہ حضرت علی۔
۴) کیا آج کی ورکنگ وومن سے تقابل کیا جارہا ہے جو روزانہ دس گھنٹے گھر سے باہر رہتی ہے؟ کیا حضرت فاطمہ سے ثابت ہے کہ آپ گھر سے باہر نکل کر دوسروں کی ملازمتیں کرتی تھیں۔ آپ کی سب سے بڑی صفت یہی بیان کی جاتی ہے کہ چکی چلانے سے آپ کے ہاتھوں میں گٹے پڑگئے تھے۔ گھر کا چولہا جھونک جھونک کر دھوئیں سے آپ کے چہرے کی رنگت جھلس گئی تھی۔آپ کو ورکنگ وومین کا لقب دینا خانوادۂ رسول و علی کے ہرگز شایانِ شان نہیں۔
۵) جو دقیانوسیت تعلیمی اداروں میں عزت کو برہنہ کردے اس پر ہزار روشن خیالی قربان۔ دورِ رسالت کا تقابل کرتے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ کیا اُس دور میں اس طرح کا موحول تھا کہ آج کل کی طرح مرد و عورتوں کے ناجائز تعلقات کی پینگیں بڑھ رہی ہوں؟
وقت بدل گیا ہے تو طرز معاشرت بھی تبدیل ہو گئی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ بھی جانے دیں۔ اور اپنی پسند کے فقیہہ کی بات سنیں
مرد و عورت کئی میدانوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مختلف ہونا لازماً کم تر اور گھٹیا ہونا نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک آدمی کی ذمہ داری اور کار کردگی کے لیے ایک میدان ہوتا ہے اور دوسرے کے لیے دوسرا۔مثلاً اولاد جننا، اسے دودھ پلانا ،یہ تو عورتوں ہی کے ساتھ خاص ہے، مرد اس معاملے میں صفر پر کھڑے ہیں۔ بچوں کی ابتدائی تربیت میں ماں کا کردار زیادہ ہوتا ہے اور باپ کا کم۔ گھر کے کام کاج، مثلاً کھانا پکانا، گھر سنبھالنا، اس میں بھی عورتوں ہی کا غلبہ ہے۔ معاش کی محنت مشقت ، کسان کی طرح تپتی دھوپ میں زمین پر ہل چلانا، دور دراز کے سفر کرکے سامان تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، مزدوروں، مزارعوں اور کسانوں کی طرح کام کرنا یا ان سے کام لینا، اس میں بھی عام طور پر مرد حضرات ہی آگے دکھائی دیے ہیں۔ خوف ناک حالات میں اپنے لائف پارٹنر کو شیلٹر دینا، مثلاً اسے شیر، چیتے، بھیڑیے، ریچھ یا اس چوہیا ہی سے بچانے کی کوشش کرنا جو کمرے میں گھس آئی ہو، یہ سب کام عام طور پر مردوں کے ساتھ خاص ہیں، عورتیں زیادہ تر ان کاموں میں پیچھے رہنا ہی پسند کرتی ہیں۔
قبلہ آپ تو برا مان گئے ۔ :grin:
 

سید عمران

محفلین
۱) اپ سب کی یہ گفتگو پڑھ کر اور زیادہ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو نے لگاہے ۔ کاش میں ایک عورت نہ ہوتی ۔
۲) آپ سب کو کمزور عورت کی مجبوری کی کیا خبر ....یہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتی ہے ۔ یہ تو آپ سب کو ماننا پڑے گا کہ یہ دنیا زور آوروں کی ہے اور عورت سدا کی کمزور تھی ، ہے اور رہے گی ۔
۳) رہی بات جاب کی تو عورتوں کی اکثریت جاب نہیں کرتی ۔ پھر بھی معاشرہ اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہے ۔ اصل میں والدین نے اپنے بچوں کی تربیت کرنا چھوڑ دی ہے ۔ نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ اور بڑوں نے بھی اپنی زمہ داری سے تقریبا تقریبا ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔
۴) اگر خواتین پڑھانے والی نہ ہوں گی تو لیڈی ڈاکٹر، خواتین ٹیچرز اور نرس کہاں سے پڑھ کر آگے آئیں گی
۵) البتہ مخلوط دفاتر میں کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔
۶) رہی بات پردہ کی تو لڑکیوں /خواتین کو پردہ کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ لڑکوں / مردوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ خواتین کا احترام کرے ۔
۷) بامر مجبوری گھر سے نکلنا اسلام میں بھی جائز ہے ۔ یہ بات مجھے کہنی تو نہیں چاہیے کہ میرے رب نے تین مختلف گھرانوں کی کفالت کی زمہ داری مجھ کمزور و ناتواں کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے ۔ یہ میرے لیے برے اعزاز کی اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کی خدمت و کفالت کے لیے چنا ہے ۔ وہ گھرانےمیری تنخواہ ملنے کے منتطر ہوتے ہیں ۔ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں سوائے ان کے رازق کے جس نے مجھے وسیلہ بنایا ہے ۔حالانکہ یہ گھرانے جس جس کمیونٹی میں آباد ہیں وہاں بڑے بڑے غیرت مند اور کماؤ مرد رہتے ہیں ۔
۸) اگر یہ معاشرہ مکمل اسلامی معاشرہ ہوتا تو بیواوں مسکینوں لاچاروں کی کفالت، ریاست ہی کی زمہ داری تھی ۔
۱) آپ کو عورت ہونے پر کم مائیگی کا احساس نہ ہونا چاہیے۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ خدا نے نہ تو عورت پر دنیا کی ذمہ داری ڈالی نہ آخرت بنانے کے لیے مردوں کی طرح پُر کٹھن اعمال دئیے۔ کہ مرد گھر سے باہر نکل کر پیسے کمانے کے لیے دھکے کھائے، کبھی باس کی، کبھی گاہکوں کی اوٹ پٹانگ سنے، منہ ماری کرے، گرمی کی تپتی ہوئی لو ہو یا بارش میں بھیگتے لڑکھڑاتے ہوئے گھر جانے والے راستے کو ٹٹول ٹٹول کر گھسٹنا ہو یا سردیوں کی ہڈیوں میں اتر جانے والی یخ بستہ ہواؤں میں گرم گھر کا آرام چھوڑ کر باہر سرد ہواؤں کے جھونکوں کی یلغار سے نبرد آزمانا ہو۔ یا پھر جہاد میں ہاتھ پاؤں کا اڑنا، جسموں کا جل کر راکھ ہونا، آنکھ ناک کٹنا ہو۔ اللہ تعالیٰ نےتو عورت کو ان تما گھٹناؤں سے بچا کر عزت و چین سے گھر بیٹھ کر زندگی گزارنے کا سکون دیا ہے۔۔۔
اگر کوئی عورت کو ایسا کرنے نہیں دیتا تو یہ اس کی طرف سے ظلم ہے!!!
۲) اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت مرد کے لحاظ سے کمزور ہے اور رہے گی۔ مغرب میں آج بھی عورت کمزور ہے۔ اسی کمزوری کے باعث وہاں مردوں نے اسے بھنبھوڑ ڈالا ہے۔شکر ہے یہاں حالات اتنے برے نہیں ہیں۔ اگرچہ اسی مغربی روشن خیالی کا جھانسہ دے کر حالات اسی نہج پر لے جانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
۳) صرف جاب نہیں، تعلیمی اداروں میں لڑکے لڑکیوں کا اختلاط، سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا۔ یہ مرد اور عورت سب کے ذہن خراب کر رہا ہے۔ کیا آپ میڈیا کے حوالے سے کوئی ایسی مثال دے سکتی ہیں کہ یہ ہمیں اجتماعی طور پر نیکی و بھلائی کی طرف راغب کررہا ہے؟؟؟ یا فحاشی و عریانی پھیلانے، میاں بیوی کو ایک دوسرے سے نفرت دلانے، بڑے بزرگوں سے بدتمیزی کرنے کا سبق پڑھا رہا ہے؟؟؟
۴) ضرور پڑھیں۔ آگے بڑھیں۔ لیکن خود کو اور معاشرے کو خراب کرنے کی قیمت پر نہیں۔
۵) صحیح کہا۔ فساد کی جڑ یہی ہے۔
۶) صحیح بات ہے۔ برائی دونوں جانب سے ہوتی ہے، تنہا نہیں۔ تربیت دونوں کی ضروری ہے ورنہ کام نہیں بنے گا۔
۷) عورت کمانے لگے تو بے غیرت مردوں کو بھی ان کی کمائی کے مزے لگ جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ مزید ہڈ حرام ہوجاتے ہیں۔ خود گھر میں پڑے پلنگ توڑتے ہیں اور عورت کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور مشقتیں اٹھانے کے لیے گھر سے نکال دیتے ہیں۔
۸) معاشرہ اسلامی ہوتا تو بہت بہتر تھا۔ لیکن ہم تو اسلامی ہوسکتے ہیں۔ اللہ کے احکامات پر عمل کرسکتے ہیں۔ ناممکن ہے کہ ہم اللہ کی مانیں اور وہ ہماری حاجت روائی نہ کرے۔
 
آخری تدوین:
Top