آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

فاخر رضا

محفلین
آزادیء نسواں آخری حد کیا ہے
آخری حد تو وہی ہے جہاں سب نے جانا ہے. چاہے اعمال اچھے ہوں یا برے. آخرکار اللہ کے پاس جانا ہے وہیں سے آئے ہیں اور وہیں جانا ہے. اب اللہ کہاں بھیجے یہ ہماری مرضی ہے.
کسی بزرگ نے کہا تھا کہ بیٹا جہنم میں اتنی آسانی سے نہیں جاسکتے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور وہ محنت تیرے بس کی بات نہیں. پتہ نہیں کتنوں کا دل دکھانا پڑتا ہے، کتنوں پر ظلم کرنا پڑتا ہے. کتنوں کو قتل کرنا پڑتا ہے. کتنوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے لوگوں کو بے گھر کرنا پڑتا ہے. تو تو ایک بلی کے بچے کو تڑپتے نہیں دیکھ سکتا تجھ سے اتنی محنت کہاں ہوگی
جب تک انسان حقوق العباد ادا کررہا ہے اسے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے
عورتوں پر زیادہ توجہ دینا چھوڑ دیں یہ مردوں کا کام نہیں. عورتیں جو کرتی ہیں کرنے دیں. آپ سے کون سا ادھار مانگ رہی ہیں. اپنے حقوق جو وہ صحیح سمجھتی ہیں مانگ رہی ہیں. اگر وہ حق نہیں بھی رکھتیں تب بھی دے دیں. کیا فرق پڑتا ہے. کون سی کمی آجائے گی. ایک خاتون نے تاریخ میں اپنا حق مانگا تھا جو نہیں دیا گیا. آج تک اس کی توجیہات ماننے والے دے رہے ہیں مگر ابھی تک معاملہ حل نہیں کرسکے
 

فرقان احمد

محفلین
بحثیت انسان، عورت آزاد ہے۔ بحثیت انسان، مرد آزاد ہے۔ تاہم، کیا ہم کُلی طور پر، ہم ہر حوالے سے آزاد ہیں۔ ایسا نہیں ہے؛ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ ہر معاشرے میں مختلف قسم کی قدغنیں ہوتی ہیں۔ اور، یہ لازم نہ ہے کہ ہر باغی راہِ حق پر ہو، تاہم سکہ تو اکثریت کا ہی چلتا ہے کہ دنیا کا نظام یہی ہے۔ آپ کے ہم نوا زیادہ ہوں گے تو آپ کا نظریہ قبولیت حاصل کر لے گا تاہم، نظریات کا یہ اختلاف بہرصورت تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے۔ عملی طور پر، ہم یہی دیکھتے ہیں کہ یہاں کی عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ مظلوم ہے تاہم جو عورت مظلوم ہے، وہ سڑکوں پر اس طرح کے قبیح نعرے نہیں لگا رہی ہے۔ ہمیں اس مظلوم عورت کے لیے سوچنا چاہیے جس کے لیے گھر کا چولہا جلانا مشکل ہو رہا ہے اور جس کو جاب پر ہراسگی کا سامنا ہے اور تمام مرد و خواتین کو ان کے متعلق سوچنا چاہیے۔ویسے مظلوم مرد یہاں کم کم پائے جاتے ہیں تاہم ممکن ہے کہ پائے جاتے ہوں، اس لیے ان کے متعلق سوچنے میں بھی کوئی حرج نہ ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
بحثیت انسان، عورت آزاد ہے۔ بحثیت انسان، مرد آزاد ہے۔ تاہم، کیا ہم کُلی طور پر، ہم ہر حوالے سے آزاد ہیں۔ ایسا نہیں ہے؛ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ ہر معاشرے میں مختلف قسم کی قدغنیں ہوتی ہیں۔ اور، یہ لازم نہ ہے کہ ہر باغی راہِ حق پر ہو، تاہم سکہ تو اکثریت کا ہی چلتا ہے کہ دنیا کا نظام یہی ہے۔ آپ کے ہم نوا زیادہ ہوں گے تو آپ کا نظریہ قبولیت حاصل کر لے گا تاہم، نظریات کا یہ اختلاف بہرصورت تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے۔ عملی طور پر، ہم یہی دیکھتے ہیں کہ یہاں کی عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ مظلوم ہے تاہم جو عورت مظلوم ہے، وہ سڑکوں پر اس طرح کے قبیح نعرے نہیں لگا رہی ہے۔ ہمیں اس مظلوم عورت کے لیے سوچنا چاہیے جس کے لیے گھر کا چولہا جلانا مشکل ہو رہا ہے اور جس کو جاب پر ہراسگی کا سامنا ہے اور تمام مرد و خواتین کو ان کے متعلق سوچنا چاہیے۔ویسے مظلوم مرد یہاں کم کم پائے جاتے ہیں تاہم ممکن ہے کہ پائے جاتے ہوں، اس لیے ان کے متعلق سوچنے میں بھی کوئی حرج نہ ہے۔
فرقان بھائی واپس اپنے صحافتی رنگ میں آتے ہوئے
 

جاسم محمد

محفلین
میرا جسم، میری مرضی پر اعتراض کیوں؟
کچھ مرد حضرات نے یہ بھی کہا کہ یہ عورتیں اپنا جسم اور اپنی مرضی کا یہ مطلب لیتی ہیں کہ یہ طوائف بن جائیں۔ میرا جسم، میری مرضی کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ عورت طوائف کیوں بنتی ہے؟
شاد بیگم سماجی کارکن ShadBegum@
بدھ 4 مارچ 2020 9:00

73011-1212836239.jpg

اب وقت آگیا ہے کہ ہم عورتوں کی مرضی چلے۔ ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں (سوشل میڈیا/ ٹوئٹر)

میرا جسم، میری مرضی کا نعرہ جو کہ پچھلے سال ہونے والے عورت مارچ کے بعد سے ہر طرف زیر بحث ہے۔ جتنے بحث مباحثے اس حوالے سے ہوئے اس کا لبِ لباب نکالنے سے معلوم ہوتا ہے جیسے اعتراض میرے جسم پر نہیں، میری مرضی پر ہے۔ یہی تو ہمیشہ ہوتا آیا ہے، مسئلہ سارا اس مرضی کا ہے اور ہمارا معاشرہ آج بھی یہ چاہتا ہے کہ چاہے عورت کا جسم ہو، تعلیم کا حق ہو، نوکری کا حق ہو، پسند کی شادی کرنے کا حق ہو، کسی بات سے انکار کا حق ہو، اس سب میں مرضی مرد کی چلنی ہے۔ جہاں عورت نے اپنی مرضی چاہی، اس عورت کو نافرمان، بدچلن اور بری عورت قرار دیا۔

آخر اتنا خوف کیوں ہماری مرضی سے؟ یا شاید اس خوف کی وجہ یہ تو نہیں کہ آپ کو مرضی کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا؟ اس مرضی کا مطلب ہرگز وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں، کہ اگر کسی لڑکی کو شادی کے لیے پوچھا اور اس نے انکار کر دیا تو آپ کی مرضی ہے کہ آپ اس پر تیزاب پھینکیں۔ اگر کو ئی لڑکی پڑھنا لکھنا چاہے یا نوکری کرنا چاہے تو آپ نے اسے مار دیا اور اسے اپنا گھریلو ذاتی معاملہ قرار دے کر صاف بچ گئے۔ کیونکہ مرضی تو صرف آپ کی چلتی ہے۔ بیوی نے کھانا صحیح نہیں بنایا اور آپ نے تشدد کیا۔ بیٹیاں پیدا کرنے پر عورت کا جینا حرام کر دیا کیونکہ قدر تو صرف اولاد نرینہ کی ہے۔

بھائی یا باپ تیش میں آیا اور کسی کو مار دیا۔ اب اسے بچانے کے لیے خاندان سر توڑ کوشسشیں کرے گی کہ اس کی زندگی بچ جائے لہذا یہاں پھر مرد حضرات کی مرضی کام آئے گی اور وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ گھر میں موجود کسی بچی یا خاتون کو ’سورہ‘ میں دے دیا جائے اور دشمنی ختم کر دی جائے کیونکہ اس بچی یا خاتون کی کوئی مرضی تو ہے نہیں۔ اس کے بعد چاہے اس کی زندگی کا ہر دن قیامت کا دن ہو کیونکہ اس کی شادی نہیں کی جاتی اسے ایک نعم البدل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پھر اسے کے شوہر اور اس کے گھر والوں کی مرضی کہ اس دشمنی کے پاداش میں روز اسے پھانسی سنائیں یا اس کا گلہ گھونٹے، مرضی اس کی نہیں چلے گی۔

دنیا جہان میں جہاں جہاں جنگ ہوئی، ہم سب کو اس امر کا بخوبی پتہ ہے کہ مرد صرف قتل ہوتے ہیں لیکن عورت قتل سے زیادہ ریپ ہوتی ہے۔ ریپ کو جنگوں میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، کیونکہ عورت کے جسم پر اس کی مرضی نہیں، لہذا مرد آپس میں دشمنیاں اور جنگوں میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے اور بے عزت کرنے کے لیے ایک دوسرے کی عورتوں کے جسموں کو ظلم کا نشانے بناتے رہتے ہے اور دشمنی کی آگ بجھائی جاتی ہے۔

کچھ مرد حضرات نے یہ بھی کہا کہ یہ عورتیں اپنا جسم اور اپنی مرضی کا یہ مطلب لیتی ہیں کہ یہ طوائف بن جائیں سب۔ میرا جسم، میری مرضی کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ عورت طوائف کیوں بنتی ہے؟

بھائی جس معا شرے میں عورت کی تعلیم پر پابندی ہے۔ عورت کی تعلیم کے لیے ادارے نہ ہونے کے برابر ہوں، مناسب ملازمتیں نہ ہوں، وہاں عورت طوائف نہیں بنے گی تو کیا کرے گی؟ لیکن سوال تو یہ بنتا ہے کہ طوائف کے پاس جاتا کون ہے؟ مرد۔ وہ مرد جس کی مرضی ہے، جہاں جائے، جو کرے، کوئی مائی کا لال مرد کی مرضی پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔

اسی مرد کی مرضی میں آتا ہے تو کم سن اور معصوم بچے بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر بےدردی سے مار دے گا کیونکہ اس کی مرضی ہے۔

اپنے ارگرد نظر دوڑائیں اور مرد کی مرضی کی ایسی بہت سی مثالیں آپ کو نظر آئیں گی جو روز انسانیت کا جنازہ نکالتی ہوں گی لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں کبھی مرد کی مرضی پر سوال نہیں اٹھایا گیا اس لیے ہمیں یہ کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ اس مرضی پر سوال اٹھائیں اور اس کو روکنے کی بات کریں۔ عورت جس مرضی کی بات کر رہی ہے وہ ہرگز وہ مرضی نہیں جو آج تک ایک مرد کرتا اور سمجھتا آ رہا ہے۔

000_1258O0.jpg

ایک متوازن معاشرے کی بنیاد ہی ایک ترقی یافتہ، پر امن اور خوشحال معاشرے کی ضامن ہے (اے ایف پی)

اب وقت آگیا ہے کہ ہم عورتوں کی مرضی چلے۔ ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔ ہمارے جسم ہماری ملکیت ہیں۔ کسی مرد یا کسی انسان کو ہمارے جسم پر کوئی حق اور سروکار نہ ہو۔ ہم بھی ترقی کی منازل طے کریں۔ اپنی مرضی سے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں۔

ہزار مشکلات اور جانفشانی کے بعد آج کی عورت جس طرح سے دنیا کے ہر کونے اور ہر شعبے میں کامیابی کی منازل طے کر رہی ہے، اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ عورت کو اپنی مرضی کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے۔ اپنی مرضی اور خوشی سے جینا ہر انسان کا حق ہے لیکن پھر صرف ہم پر اعتراض کیوں؟

ہمارے معاشرے میں کنفرنٹیشن کی وبا ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ کنفرنٹیشن سے مزید تنازعے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہم سب کو تھوڑے توقف سے سوچنے اور سمجھنے کے بعد اپنی بات کو مدلل طریقے سے آگے رکھنا چاہیے اور ترجیح اصلاح ہو۔ نہ کہ اپنی ذاتی انا اور جھوٹے وقار کی پرستش ہو۔

ایک متوازن معاشرے کی بنیاد ہی ایک ترقی یافتہ، پر امن اور خوشحال معاشرے کی ضامن ہے۔ میری یہ تحریر پڑھنے کے بعد گالی کا خیال دل میں آئے تو یہ سوچ لیجیے گا کہ آپ میری بات سمجھے نہیں لہذا توقف سے کام لیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ میری مرضی سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں لہذا مطمئن رہیں۔

خود بھی جییں اور دوسرں کو بھی جینے دیں۔
 

فہد مقصود

محفلین
پاکستانی علماء کے اتنے سارے لیکچرز اور وہ بھی بے حیائی اور بے شرمی پر!

نصحیت کون کر رہا ہے شرم و حیا کی؟ پاکستانی علماء!

آئیے، پہلے کیوں نا پاکستانی علماء کا کردار پرکھتے ہیں کہ یہ نصحیت کرنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں؟

اشرف علی تھانوی کی ایک کتاب قصصُ الاکابر ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 56 اور 57 پر ایک مولانا کے علیل ہونے اور پھر صحتیاب ہونے کا واقعہ درج ہے۔ صحت ملتی ہے ایک خواب کی بدولت جو کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ یہاں لکھ سکوں۔ پہلے اس کتاب کے صفحات کی تصاویر شامل کی تھیں لیکن شک ہے کہ مراسلہ اس وجہ سے اپروو نہ ہوا۔ اگر کوئی قارئین یہ واقعہ پڑھنا چاہیں تو یہ کی ورڈز "حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خواب دیوبند" لکھ کر سرچ کریں اور محدث فورم کا لنک "علماء دیوبند اور صحابہ کی گستاخی" پڑھیں۔ پہلے دو مراسلوں میں ثبوت مل جائیں گے۔

مذکورہ کتاب کے صفحات پڑھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اپنی علماء سے دلی وابستگی کو الگ کر کے رکھ دیجئے گا اور غور کیجئے گا کہ ذکر کس کا ہو رہا ہے؟ دختر رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اور ذرا غور کیجئے کہ کیا ان سے منسوب کر کے لکھا گیا ہے۔ ہم کیا جانیں اس خواب کے بارے میں؟ کیا ہر خواب سچا ہوتا ہے؟ اگر کسی نے دیکھ بھی لیا (نعوذباللہ) تو اس خواب کا کتاب میں ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ غور کیجئے کسی کی بزرگی کو ثابت کرنے کے لئے یہ خواب دلیل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جو کہ (نعوزباللہ) حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی پردے داری کی نفی کرنے کا باعث بن رہا ہے! ایسی بزرگی کو سات سلام!!!

ایمانداری سے اپنے آپ سے پوچھئے کہ یہ جو کچھ بھی لکھا گیا ہے کیا آپ اس پر یقین کرسکتے ہیں؟ کیا آپ دوبارہ اُن سطروں کو پڑھنے کی ہمت کرسکیں گے؟

اگر عقل اور دل نہیں میں جواب دے تو چھوڑ دیجئے ایسے علماء کی اقتدا جن کی کتابوں میں ایسی دین مخالف باتیں درج ہیں۔ خود سچ تلاش کرنے کی جستجو کریں اور عقل سے کام لیں۔ یہ کیا بتائیں گے شرم و حیا کی باتیں؟ ان کی کتب میں ایسی ایسی آر ریٹڈ باتیں درج ہیں کہ انسان اکیلے میں بھی پڑھتے ہوئے گھبرائے۔ پہلے اپنی تعلیمات پر یہ نظر ثانی کریں، وحدت الوجود جیسے گمراہ کن فلسفے سے جان چھڑائیں اس کے بعد یہ مذہبی راہنما بننے کے بارے میں سوچیں۔ دوسروں کے کردار پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے اپنے آپ پرغور کریں۔ اپنے راستے کی جانچ پڑتال کریں کہ یہ اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی بتایا ہوا راستہ ہے یا پھر کوئی اور ہی راہ ہے جس پر یہ چل نکلے ہیں!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
آزادیء نسواں آخری حد کیا ہے
آخری حد تو وہی ہے جہاں سب نے جانا ہے. چاہے اعمال اچھے ہوں یا برے. آخرکار اللہ کے پاس جانا ہے وہیں سے آئے ہیں اور وہیں جانا ہے. اب اللہ کہاں بھیجے یہ ہماری مرضی ہے.
کسی بزرگ نے کہا تھا کہ بیٹا جہنم میں اتنی آسانی سے نہیں جاسکتے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور وہ محنت تیرے بس کی بات نہیں. پتہ نہیں کتنوں کا دل دکھانا پڑتا ہے، کتنوں پر ظلم کرنا پڑتا ہے. کتنوں کو قتل کرنا پڑتا ہے. کتنوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے لوگوں کو بے گھر کرنا پڑتا ہے. تو تو ایک بلی کے بچے کو تڑپتے نہیں دیکھ سکتا تجھ سے اتنی محنت کہاں ہوگی
جب تک انسان حقوق العباد ادا کررہا ہے اسے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے
عورتوں پر زیادہ توجہ دینا چھوڑ دیں یہ مردوں کا کام نہیں. عورتیں جو کرتی ہیں کرنے دیں. آپ سے کون سا ادھار مانگ رہی ہیں. اپنے حقوق جو وہ صحیح سمجھتی ہیں مانگ رہی ہیں. اگر وہ حق نہیں بھی رکھتیں تب بھی دے دیں. کیا فرق پڑتا ہے. کون سی کمی آجائے گی. ایک خاتون نے تاریخ میں اپنا حق مانگا تھا جو نہیں دیا گیا. آج تک اس کی توجیہات ماننے والے دے رہے ہیں مگر ابھی تک معاملہ حل نہیں کرسکے
مردوں کی طرح عورتیں بھی آزاد ہیں، انہیں کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں نہ ہی کوئی انہیں کچھ دے رہا ہے۔۔۔
لیکن غلط کام مرد کرے یا عورت اسے روکا جائے یا سمجھایا جائے گا، ورنہ کم از کم دل میں ضرور برا سمجھا جائے جو از روئے حدیث ایمان کی آخری حد ہے۔۔۔
باقی جن خاتون کا آپ ے ذکر کیا وہ یک طرفہ بات کی ہے، اسے پورے تناظر میں دیکھا جائے جس میں غیروں کے علاوہ ان کے سرتاج کا عمل بھی شامل ہے جو ہم سب کے لیے قابل اتباع ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
بحثیت انسان، عورت آزاد ہے۔ بحثیت انسان، مرد آزاد ہے۔ تاہم، کیا ہم کُلی طور پر، ہم ہر حوالے سے آزاد ہیں۔ ایسا نہیں ہے؛ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ ہر معاشرے میں مختلف قسم کی قدغنیں ہوتی ہیں۔ اور، یہ لازم نہ ہے کہ ہر باغی راہِ حق پر ہو، تاہم سکہ تو اکثریت کا ہی چلتا ہے کہ دنیا کا نظام یہی ہے۔ آپ کے ہم نوا زیادہ ہوں گے تو آپ کا نظریہ قبولیت حاصل کر لے گا تاہم، نظریات کا یہ اختلاف بہرصورت تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے۔ عملی طور پر، ہم یہی دیکھتے ہیں کہ یہاں کی عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ مظلوم ہے تاہم جو عورت مظلوم ہے، وہ سڑکوں پر اس طرح کے قبیح نعرے نہیں لگا رہی ہے۔ ہمیں اس مظلوم عورت کے لیے سوچنا چاہیے جس کے لیے گھر کا چولہا جلانا مشکل ہو رہا ہے اور جس کو جاب پر ہراسگی کا سامنا ہے اور تمام مرد و خواتین کو ان کے متعلق سوچنا چاہیے۔ویسے مظلوم مرد یہاں کم کم پائے جاتے ہیں تاہم ممکن ہے کہ پائے جاتے ہوں، اس لیے ان کے متعلق سوچنے میں بھی کوئی حرج نہ ہے۔

یہاں صرف ایک ٹاپک پر توجہ مرکوز ہے وہ ہے بے حیائی کا فروغ اور اس کا سد باب۔۔۔
باقی جو کچھ آپ نے کہا اگرچہ موضوع سے ہٹ کر ہے لیکن بالکل درست ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
میرا جسم، میری مرضی پر اعتراض کیوں؟
کچھ مرد حضرات نے یہ بھی کہا کہ یہ عورتیں اپنا جسم اور اپنی مرضی کا یہ مطلب لیتی ہیں کہ یہ طوائف بن جائیں۔ میرا جسم، میری مرضی کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ عورت طوائف کیوں بنتی ہے؟
شاد بیگم سماجی کارکن ShadBegum@
بدھ 4 مارچ 2020 9:00

73011-1212836239.jpg

اب وقت آگیا ہے کہ ہم عورتوں کی مرضی چلے۔ ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں (سوشل میڈیا/ ٹوئٹر)

میرا جسم، میری مرضی کا نعرہ جو کہ پچھلے سال ہونے والے عورت مارچ کے بعد سے ہر طرف زیر بحث ہے۔ جتنے بحث مباحثے اس حوالے سے ہوئے اس کا لبِ لباب نکالنے سے معلوم ہوتا ہے جیسے اعتراض میرے جسم پر نہیں، میری مرضی پر ہے۔ یہی تو ہمیشہ ہوتا آیا ہے، مسئلہ سارا اس مرضی کا ہے اور ہمارا معاشرہ آج بھی یہ چاہتا ہے کہ چاہے عورت کا جسم ہو، تعلیم کا حق ہو، نوکری کا حق ہو، پسند کی شادی کرنے کا حق ہو، کسی بات سے انکار کا حق ہو، اس سب میں مرضی مرد کی چلنی ہے۔ جہاں عورت نے اپنی مرضی چاہی، اس عورت کو نافرمان، بدچلن اور بری عورت قرار دیا۔

آخر اتنا خوف کیوں ہماری مرضی سے؟ یا شاید اس خوف کی وجہ یہ تو نہیں کہ آپ کو مرضی کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا؟ اس مرضی کا مطلب ہرگز وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں، کہ اگر کسی لڑکی کو شادی کے لیے پوچھا اور اس نے انکار کر دیا تو آپ کی مرضی ہے کہ آپ اس پر تیزاب پھینکیں۔ اگر کو ئی لڑکی پڑھنا لکھنا چاہے یا نوکری کرنا چاہے تو آپ نے اسے مار دیا اور اسے اپنا گھریلو ذاتی معاملہ قرار دے کر صاف بچ گئے۔ کیونکہ مرضی تو صرف آپ کی چلتی ہے۔ بیوی نے کھانا صحیح نہیں بنایا اور آپ نے تشدد کیا۔ بیٹیاں پیدا کرنے پر عورت کا جینا حرام کر دیا کیونکہ قدر تو صرف اولاد نرینہ کی ہے۔

بھائی یا باپ تیش میں آیا اور کسی کو مار دیا۔ اب اسے بچانے کے لیے خاندان سر توڑ کوشسشیں کرے گی کہ اس کی زندگی بچ جائے لہذا یہاں پھر مرد حضرات کی مرضی کام آئے گی اور وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ گھر میں موجود کسی بچی یا خاتون کو ’سورہ‘ میں دے دیا جائے اور دشمنی ختم کر دی جائے کیونکہ اس بچی یا خاتون کی کوئی مرضی تو ہے نہیں۔ اس کے بعد چاہے اس کی زندگی کا ہر دن قیامت کا دن ہو کیونکہ اس کی شادی نہیں کی جاتی اسے ایک نعم البدل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پھر اسے کے شوہر اور اس کے گھر والوں کی مرضی کہ اس دشمنی کے پاداش میں روز اسے پھانسی سنائیں یا اس کا گلہ گھونٹے، مرضی اس کی نہیں چلے گی۔

دنیا جہان میں جہاں جہاں جنگ ہوئی، ہم سب کو اس امر کا بخوبی پتہ ہے کہ مرد صرف قتل ہوتے ہیں لیکن عورت قتل سے زیادہ ریپ ہوتی ہے۔ ریپ کو جنگوں میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، کیونکہ عورت کے جسم پر اس کی مرضی نہیں، لہذا مرد آپس میں دشمنیاں اور جنگوں میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے اور بے عزت کرنے کے لیے ایک دوسرے کی عورتوں کے جسموں کو ظلم کا نشانے بناتے رہتے ہے اور دشمنی کی آگ بجھائی جاتی ہے۔

کچھ مرد حضرات نے یہ بھی کہا کہ یہ عورتیں اپنا جسم اور اپنی مرضی کا یہ مطلب لیتی ہیں کہ یہ طوائف بن جائیں سب۔ میرا جسم، میری مرضی کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ عورت طوائف کیوں بنتی ہے؟

بھائی جس معا شرے میں عورت کی تعلیم پر پابندی ہے۔ عورت کی تعلیم کے لیے ادارے نہ ہونے کے برابر ہوں، مناسب ملازمتیں نہ ہوں، وہاں عورت طوائف نہیں بنے گی تو کیا کرے گی؟ لیکن سوال تو یہ بنتا ہے کہ طوائف کے پاس جاتا کون ہے؟ مرد۔ وہ مرد جس کی مرضی ہے، جہاں جائے، جو کرے، کوئی مائی کا لال مرد کی مرضی پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔

اسی مرد کی مرضی میں آتا ہے تو کم سن اور معصوم بچے بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر بےدردی سے مار دے گا کیونکہ اس کی مرضی ہے۔

اپنے ارگرد نظر دوڑائیں اور مرد کی مرضی کی ایسی بہت سی مثالیں آپ کو نظر آئیں گی جو روز انسانیت کا جنازہ نکالتی ہوں گی لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں کبھی مرد کی مرضی پر سوال نہیں اٹھایا گیا اس لیے ہمیں یہ کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ اس مرضی پر سوال اٹھائیں اور اس کو روکنے کی بات کریں۔ عورت جس مرضی کی بات کر رہی ہے وہ ہرگز وہ مرضی نہیں جو آج تک ایک مرد کرتا اور سمجھتا آ رہا ہے۔

000_1258O0.jpg

ایک متوازن معاشرے کی بنیاد ہی ایک ترقی یافتہ، پر امن اور خوشحال معاشرے کی ضامن ہے (اے ایف پی)

اب وقت آگیا ہے کہ ہم عورتوں کی مرضی چلے۔ ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔ ہمارے جسم ہماری ملکیت ہیں۔ کسی مرد یا کسی انسان کو ہمارے جسم پر کوئی حق اور سروکار نہ ہو۔ ہم بھی ترقی کی منازل طے کریں۔ اپنی مرضی سے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں۔

ہزار مشکلات اور جانفشانی کے بعد آج کی عورت جس طرح سے دنیا کے ہر کونے اور ہر شعبے میں کامیابی کی منازل طے کر رہی ہے، اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ عورت کو اپنی مرضی کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے۔ اپنی مرضی اور خوشی سے جینا ہر انسان کا حق ہے لیکن پھر صرف ہم پر اعتراض کیوں؟

ہمارے معاشرے میں کنفرنٹیشن کی وبا ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ کنفرنٹیشن سے مزید تنازعے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہم سب کو تھوڑے توقف سے سوچنے اور سمجھنے کے بعد اپنی بات کو مدلل طریقے سے آگے رکھنا چاہیے اور ترجیح اصلاح ہو۔ نہ کہ اپنی ذاتی انا اور جھوٹے وقار کی پرستش ہو۔

ایک متوازن معاشرے کی بنیاد ہی ایک ترقی یافتہ، پر امن اور خوشحال معاشرے کی ضامن ہے۔ میری یہ تحریر پڑھنے کے بعد گالی کا خیال دل میں آئے تو یہ سوچ لیجیے گا کہ آپ میری بات سمجھے نہیں لہذا توقف سے کام لیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ میری مرضی سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں لہذا مطمئن رہیں۔

خود بھی جییں اور دوسرں کو بھی جینے دیں۔
مرضی عورت کی چلے یا مرد کی اس پر کسی کو اعتراض نہیں۔۔۔
مسئلہ وہاں اٹھتا ہے جہاں دین کی یا ملکی قوانین کی حد ٹوٹے!!!
 

سید عمران

محفلین
پاکستانی علماء کے اتنے سارے لیکچرز اور وہ بھی بے حیائی اور بے شرمی پر!

نصحیت کون کر رہا ہے شرم و حیا کی؟ پاکستانی علماء!

آئیے، پہلے کیوں نا پاکستانی علماء کا کردار پرکھتے ہیں کہ یہ نصحیت کرنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں؟

اشرف علی تھانوی کی ایک کتاب قصصُ الاکابر ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 56 اور 57 پر ایک مولانا کے علیل ہونے اور پھر صحتیاب ہونے کا واقعہ درج ہے۔ صحت ملتی ہے ایک خواب کی بدولت جو کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ یہاں لکھ سکوں۔ پہلے اس کتاب کے صفحات کی تصاویر شامل کی تھیں لیکن شک ہے کہ مراسلہ اس وجہ سے اپروو نہ ہوا۔ اگر کوئی قارئین یہ واقعہ پڑھنا چاہیں تو یہ کی ورڈز "حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خواب دیوبند" لکھ کر سرچ کریں اور محدث فورم کا لنک "علماء دیوبند اور صحابہ کی گستاخی" پڑھیں۔ پہلے دو مراسلوں میں ثبوت مل جائیں گے۔

مذکورہ کتاب کے صفحات پڑھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے اپنی علماء سے دلی وابستگی کو الگ کر کے رکھ دیجئے گا اور غور کیجئے گا کہ ذکر کس کا ہو رہا ہے؟ دختر رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اور ذرا غور کیجئے کہ کیا ان سے منسوب کر کے لکھا گیا ہے۔ ہم کیا جانیں اس خواب کے بارے میں؟ کیا ہر خواب سچا ہوتا ہے؟ اگر کسی نے دیکھ بھی لیا (نعوذباللہ) تو اس خواب کا کتاب میں ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ غور کیجئے کسی کی بزرگی کو ثابت کرنے کے لئے یہ خواب دلیل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جو کہ (نعوزباللہ) حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی پردے داری کی نفی کرنے کا باعث بن رہا ہے! ایسی بزرگی کو سات سلام!!!

ایمانداری سے اپنے آپ سے پوچھئے کہ یہ جو کچھ بھی لکھا گیا ہے کیا آپ اس پر یقین کرسکتے ہیں؟ کیا آپ دوبارہ اُن سطروں کو پڑھنے کی ہمت کرسکیں گے؟

اگر عقل اور دل نہیں میں جواب دے تو چھوڑ دیجئے ایسے علماء کی اقتدا جن کی کتابوں میں ایسی دین مخالف باتیں درج ہیں۔ خود سچ تلاش کرنے کی جستجو کریں اور عقل سے کام لیں۔ یہ کیا بتائیں گے شرم و حیا کی باتیں؟ ان کی کتب میں ایسی ایسی آر ریٹڈ باتیں درج ہیں کہ انسان اکیلے میں بھی پڑھتے ہوئے گھبرائے۔ پہلے اپنی تعلیمات پر یہ نظر ثانی کریں، وحدت الوجود جیسے گمراہ کن فلسفے سے جان چھڑائیں اس کے بعد یہ مذہبی راہنما بننے کے بارے میں سوچیں۔ دوسروں کے کردار پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے اپنے آپ پرغور کریں۔ اپنے راستے کی جانچ پڑتال کریں کہ یہ اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی بتایا ہوا راستہ ہے یا پھر کوئی اور ہی راہ ہے جس پر یہ چل نکلے ہیں!
انتہائی واہیات اور فضول بات ہے۔۔۔
اگر آپ نے کسی مخصوص شخص کی ساری زندگی میں سے کسی ایک برائی پر نظر کی ہے تو اس کی زندگی بھر کی خوبیاں اور نیکیاں بھی بیان کریں۔۔۔
پھر موازنہ کریں کہ نیکیاں زیادہ ہیں یا گناہ۔۔۔
انسان کو اس مکھی کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو صاف جسم چھوڑ کر صرف زخم پر جا کر بیٹھتی ہے۔۔۔
اور اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لیں کہ ہماری نیکیاں کتنی ہیں اور برائیاں کتنی۔۔۔
جب اپنے آپ کو تقویٰ اور پاکیزگی کے اس معیار پر پائے جہاں کوئی نہیں پہنچ سکتا پھر کسی پر تنقید کرنا اچھا بھی لگتا ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
صاحب ہوائی فائرنگ بند کیجیے۔ ثبوت اور دلائل کے ساتھ اپنا موقف بیان کیجیے۔ میں نے ابھی تک آپ کی جتنی پوسٹیں پڑھی ہیں ان کا ماخذ قران ہے نہ حیات رسول اور نہ کوئی ٹھوس ثبوت یا ایسی دلیل جسے عقل کی کسوٹی پہ پرکھا جا سکے۔
مثلا؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
2-پہلی بات مشرق میں صرف مسلم مالک یا پاکستان ہی نہیں آتا بلکہ مشرق بہت وسیع ہے۔ دوسری بات اگر مغرب پہ تنقید جائز ہے تو مشرق میں نہ تو فرشتے رہتے ہیں نہ خدا بلکہ وہی انسان ہیں جو مغرب میں رہتے ہیں۔ اس لیے تنقید کا معیار مشرق مغرب نہیں بلکہ انسانی مغالطے اور غلط اقدام ہیں۔
بے حیائی کا موزانہ کریں تو بالکل واضح ہے کہ کہاں زیادہ ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
میرا محبوب مشغلہ سچ کی تلاش ہے اور ظاہر ہے ایسا تو مذہبی ٹریڈ مارکہ برادری کو بالکل قبول نہیں جو اپنے باپ دادا کی باتوں اپنے مسلک کے پیروکاروں اور پیشواؤں کی باتوں پہ سوال اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتی۔ مجھے بے بنیاد بغیر ثبوتوں پہ مذہبی ٹریڈ مارکہ برادری کی طرح کسی ملک پہ کسی قوم پہ الزام لگانے کا شوق نہیں ہے بلکہ اپنی کوتاہیوں پہ غلط اقدام پہ سوال اٹھانا ہے تاکہ جو غلطیاں ہو گئی ہیں اس سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جا سکے۔
مغرب کی ہر عورت عریانی کا چلتا پھرتا ثبوت ہے، اگر آپ اسے عریانی سمجھیں تو۔۔۔
اگر عریانی کا تصور آپ کے ذہن میں بالکل نہیں یا کچھ اور ہے اور آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو ہمت کرکے اپنی خواتین کو شارٹ اسکرٹ یا نیکر میں بازاروں میں گھماکر دکھائیں۔۔۔
اگرچہ وہاں کی عورتوں کا ساحل سمندر پر کچھ اور عالم ہوتا ہے تاہم اس کا ذکر نہیں کرتے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
آپ کا الزام: حالاں کہ اصل حقائق وہ بھی جانتے ہیں کہ کیا ہیں۔۔۔
جواب: مضحکہ خیز دعوی۔ مجھے حیرانی نہیں اس دعوے پہ ظاہر ہے اندھی تقلید والا ہر چیز کو بے بنیاد تیقن کی نظر سے دیکھتا ہے اور علم اور سچ کی جستجو کرنے والا شک کی نظر سے۔
سوال گندم جواب چنا!!!
 

سید عمران

محفلین
آپ کا الزام: مگر بے چارے جا بے جا سینہ کوبی کی عادت کہاں لے جائیں۔۔۔
جواب: ظاہر ہے سازشی تھیوریوں پہ ایمان رکھنے والا شخص اپنے خیالات سے ہٹ کر خیالات رکھنے والے کو دشمن کی نظر سے دیکھتا ہے اس لیے ہر جگہ یہی ایک ہی راگ الاپتا رہتا ہے۔ مذہبی ٹریڈ مارکہ برادری جلسے کرے خطابات کرے میڈیا چلائے اور اس طرح کے فورمز پہ کھل کے اظہار گفتگو کرے لیکن اگر کوئی دوسرا کر دے تو فورا آگ لگ جاتی ہے۔ برداشت کا مادہ پیدا کیجیے یوں الزام تراشیوں سے مسائل حل نہیں ہونے والے۔
پھر کیا راگ الاپے؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
آپ کا الزام: مغرب کی بے حیائی کا عشر عشیر بھی ابھی مسلم ممالک میں نہیں پہنچا۔۔۔
جواب: بڑا دلچسپ دعوی کیا ہے آپ نے ظاہر ہے آپ کے پاس ثبوت وغیرہ تو ہونگے تو اگلی پوسٹ میں شرح لکھ کر اور ان کا ریفرنس دے کر ایسی کوئی تحقیق ہمارے ساتھ بھی شریک کریں۔ ورنہ مجھے تو یہ دعوی بے بنیاد مغرب دشمنی اور ریومرز کی بنیاد پہ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ ان رپورٹڈ واقعات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ ہو نہیں رہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور بغض کی عینک اتار کر اپنے ہی محلے میں نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے مغرب تک جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
آپ بھی ذرا عینک لگا کر کھلے معاشروں کا تقابل کرلیجیے۔۔۔
گھروں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں پڑے گی!!!
 
Top