سید زبیر
اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے دو طریقے ثابت ہیں
نمبر 1: اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں
حوالہ
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : تکبیر کا واجب ہونا اور نماز کا شروع کرنا
حدیث نمبر : 732
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أنس بن مالك الأنصاري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا، فجحش شقه الأيمن، قال أنس ۔ رضى الله عنه ۔ فصلى لنا يومئذ صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، ثم قال لما سلم " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا سجد فاسجدوا وإذا قال سمع الله لمن حمده. فقولوا ربنا ولك الحمد".
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے یہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور ( گر جانے کی وجہ سے ) آپ کے دائیں پہلو میں زخم آ گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ اس دن ہمیں
آپ نے ایک نماز پڑھائی، چونکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلام کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو
نمبر 2: امام کے ساتھ دائیں جانب نائب امام کھڑا ہو جائے ۔ امام بیٹھ کر نماز پڑھائے اور یہ نائب امام اسکی اقتداء کرے لیکن کھڑا ہو کر اور پچھلی صفوں والے مقتدی اس نائب امام کی اقتداء کریں ۔
حوالہ
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ لَهَا أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ بَلَى ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ فَقُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَتْ وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ قَالَتْ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ رَجُلًا رَقِيقًا يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ قَالَتْ فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ وَقَالَ لَهُمَا أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ قَائِمٌ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَاتِ فَعَرَضْتُ حَدِيثَهَا عَلَيْهِ فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ قُلْتُ لَا قَالَ هُوَ عَلِيٌّ
صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استخلاف الإمام إذا عرض لہ عذر من مرض ح 418
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے واقعات بتائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا کہ نہیں، بلکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ ہمارے لئے برتن میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، اس کے بعد چلنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غش آگیا۔ اور جب افاقہ ہوا تو پھر پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لئے طشت ( تھال ) میں پانی رکھو۔ چنانچہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا پھر آپ چلنے کے لئے تیار ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ غش آگیا۔ اور پھر ہوش میں آنے کے بعد پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سب لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور ادھر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سب نماز عشاء کے لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے مسجد میں منتظر تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا کہ آپ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ اس آدمی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل تھے ( وہ جلد رونے لگتے تھے ) اس لئے انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے عمر ! تم نماز پڑھا دو۔ جس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں، آپ ہی امامت کے زیادہ مستحق ہیں اور آپ ہی کو نماز پڑھانے کے لئے حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کئی دن تک نماز پڑھائی۔ اسی دوران ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ذرا ہلکی ہوئی تو آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نماز ظہر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تھے ( جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے ) غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اس وقت پہنچے جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بحیثیت امام نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹو اور اپنے ساتھ والوں سے کہا کہ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر میں بٹھا دو۔ چنانچہ ان دونوں نے آپ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر بٹھا دیا۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھنے لگے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ویسے ہی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں پیروی کرنے لگے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقتدی اور تمام صحابہ کرام حسب سابق اس فرض نماز ظہر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی کر رہے تھے۔ عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر کہا کہ میں آپ کو وہ حدیث سناتا ہوں جو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجھے سنائی ہے اور ان کی طلب پہ میں نے پوری حدیث ان سے کہہ سنائی جسے سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ پوری حدیث بالکل صحیح ہے۔ پھر پوچھا کہ دوسرے شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کیا ان کا نام ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نہیں بتایا؟ میں نے جواب دیا کہ جی نہیں تو انہوں نے کہا کہ دوسرے آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔