آزادی مارچ اپڈیٹس

زرقا مفتی

محفلین
1530442_873123402730081_4828088979244721636_n.jpg
 
سید زبیر
اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے دو طریقے ثابت ہیں
نمبر 1: اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر پڑھیں
حوالہ
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : تکبیر کا واجب ہونا اور نماز کا شروع کرنا
حدیث نمبر : 732
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أنس بن مالك الأنصاري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا، فجحش شقه الأيمن، قال أنس ۔ رضى الله عنه ۔ فصلى لنا يومئذ صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، ثم قال لما سلم ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا سجد فاسجدوا وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے یہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور ( گر جانے کی وجہ سے ) آپ کے دائیں پہلو میں زخم آ گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ اس دن ہمیں آپ نے ایک نماز پڑھائی، چونکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلام کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو
نمبر 2: امام کے ساتھ دائیں جانب نائب امام کھڑا ہو جائے ۔ امام بیٹھ کر نماز پڑھائے اور یہ نائب امام اسکی اقتداء کرے لیکن کھڑا ہو کر اور پچھلی صفوں والے مقتدی اس نائب امام کی اقتداء کریں ۔
حوالہ
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ لَهَا أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ بَلَى ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ فَقُلْنَا لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَتْ وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ قَالَتْ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ رَجُلًا رَقِيقًا يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ قَالَتْ فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ وَقَالَ لَهُمَا أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ قَائِمٌ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَاتِ فَعَرَضْتُ حَدِيثَهَا عَلَيْهِ فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ قُلْتُ لَا قَالَ هُوَ عَلِيٌّ

صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استخلاف الإمام إذا عرض لہ عذر من مرض ح 418

عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے واقعات بتائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا کہ نہیں، بلکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ ہمارے لئے برتن میں پانی رکھو۔ ہم نے پانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، اس کے بعد چلنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غش آگیا۔ اور جب افاقہ ہوا تو پھر پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لئے طشت ( تھال ) میں پانی رکھو۔ چنانچہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا پھر آپ چلنے کے لئے تیار ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ غش آگیا۔ اور پھر ہوش میں آنے کے بعد پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سب لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور ادھر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سب نماز عشاء کے لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے مسجد میں منتظر تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا کہ آپ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ اس آدمی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل تھے ( وہ جلد رونے لگتے تھے ) اس لئے انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے عمر ! تم نماز پڑھا دو۔ جس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں، آپ ہی امامت کے زیادہ مستحق ہیں اور آپ ہی کو نماز پڑھانے کے لئے حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کئی دن تک نماز پڑھائی۔ اسی دوران ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ذرا ہلکی ہوئی تو آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نماز ظہر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تھے ( جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے ) غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اس وقت پہنچے جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بحیثیت امام نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹو اور اپنے ساتھ والوں سے کہا کہ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر میں بٹھا دو۔ چنانچہ ان دونوں نے آپ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر بٹھا دیا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھنے لگے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ویسے ہی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں پیروی کرنے لگے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقتدی اور تمام صحابہ کرام حسب سابق اس فرض نماز ظہر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی کر رہے تھے۔ عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر کہا کہ میں آپ کو وہ حدیث سناتا ہوں جو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجھے سنائی ہے اور ان کی طلب پہ میں نے پوری حدیث ان سے کہہ سنائی جسے سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ پوری حدیث بالکل صحیح ہے۔ پھر پوچھا کہ دوسرے شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کیا ان کا نام ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نہیں بتایا؟ میں نے جواب دیا کہ جی نہیں تو انہوں نے کہا کہ دوسرے آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھنے لگے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ویسے ہی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں پیروی کرنے لگے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقتدی اور تمام صحابہ کرام حسب سابق اس فرض نماز ظہر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی کر رہے تھے۔

یعنی جماعت کی امامت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کررہے تھے؟
 

زرقا مفتی

محفلین
سانحہ ملتان کے سلسلے میں یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ لوگ اسٹیج کے سامنے بے ہوش ہوتے رہے اور راہنما اپنی تقاریر کرتے رہے ۔ کچھ بے ہوش افراد کو اسٹیج پر منتقل کیا گیا۔
اسٹیج کے اطراف میں تحریک کے کارکنان بے ہوش افراد کی طبی امداد کرتے رہے ۔موسم کی حدت اور اسٹیج کے قریب زیادہ رش کی وجہ سے گھٹن اور حبس پیدا ہو گیا۔ اس لئے کچھ افراد کو اسٹیج پر منتقل کر کے تازہ ہوا اور پانی فراہم کیا گیا
عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران بے ہوش ہونے ایک لڑکے کی فوری مدد کی ہدایت کی ۔ ڈی جے بٹ نے پانی اور ایمبولینس کے لئے اعلانات کئے ۔ اسٹیج کے قریب یا کسی تقریر کے دوران کسی کارکن کی موت واقع نہیں ہوئی
کارکنان کی اموات خونی گیٹ کے سامنے بھگدڑ کے دوران ہوئیں۔ جسے ایس پی جلال پور نے تالا لگوایا ۔ اور جہاں واٹر گن سے ہجوم پر پانی برسایا گیا ۔ اسٹیڈیم سے خونی گیٹ کا راستہ ڈھلوانی تھا
میپکو نے ساڑھے سات بجے ٹرانسفارمر اتار کر اندھیرا کر دیا ۔
ڈھلوانی راستے پر پیچھے سے آنے والوں کا دباؤ بڑھتا گیا ۔ پانی سے مزید پھسلن پیدا ہوئی اور یہ المناک حادثہ رونما ہوا
 
یہ منتخب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف صاحب مد ظلہ العالی سچ مچ کا نیا پاکستان بنانا تو نہیں شروع ہو گئے۔۔۔۔ !!! کوئی انھیں بتائے کہ یہ ذمہ داری آپ کی نہیں ہے۔۔۔:battingeyelashes::battingeyelashes:




10690329_920240878004337_6928258268542642296_n.jpg
 

سید زبیر

محفلین
یار کوئی پتہ بتاو ۔ میں بھی میاں نواز شریف کو درخواست دوں کہ ہمارے محلے میں ٹوٹے ہوئے پانی کے نلکے کو کسی نے بند کردیا ۔ وہاں آکر ٹونٹی لگادیں ۔ عوام کا پر زور اصرار ہے ۔ اگر شہباز شریف خادم اعلٰ ہیں تو نوز شریف تو خادم عظیم ہوئے نا ۔ امور سلطنت تو سرکاری بابو نمامغربی گماشتے چلا رہے ہیں ۔ اب گلی محلوں کی نالیاں ، ٹونٹیاں آخر خادمین مغربین ہی کریں گے ۔ ذرا خادم عظیم کے پیروکاروں کو دیکھیں اپنی سرکار کے فن کے صحیح قدردان نظر آرہے ہیں ۔
 
دھرنے کا خاتمہ اور تین سوال
طلعت حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
ڈاکٹر طاہرالقادری دھرنے کی جگہ چھوڑ کر واپسی کا وعدہ کرتے ہوئے چلے گئے ہیں۔ چونکہ حکومت اپنی نااہلیوں کی وجہ سے مسلسل بیک فٹ پر ہے لہٰذا جانے کے لیے انھوں نے جو بھی وضاحت کی وہ کسی بڑی بحث کا حصہ نہیں بنی۔ عمران خان دھرنے سے عملاً اٹھ گئے ہیں۔ جلسے جلسوں سے اب اپنی سیاست کا نیا دور شروع کر چکے ہیں۔ چونکہ اسلام آباد میں تحریک انصاف ٹوکن نمایندگی کے ساتھ موجود ہے لہٰذا یہ تصور ابھی باقی ہے کہ تقریبا دو ماہ پہلے شروع ہونے والا یہ سیاسی دائو اب بھی جاری ہے حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تحریک انصاف کا دھرنا ختم ہو چکا ہے۔

دونوں جماعتوں کو پچھلے دو ماہ میں ہونے والے تمام واقعات کا قریب سے جائزہ لینا ہو گا۔ حکومت کے خلاف ابلتے ہوئے جذبات سے پرے ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا ہو گا کہ انھوں نے اس دوران کیا کھو یا کیا پایا۔ تمام کوشش کا حاصل بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر جلسے میں یہی تاثر دیا جاتا ہے پاکستان تبدیل ہو گیا ہے۔ سیاسی شعور اور آگاہی وہ معاملات ہیں جو اس قوم نے اپنی تاریخ میں کئی بار آتے اور جاتے دیکھے ہیں۔ احتجاج سے ہیجان برپا ہوتا ہے تو آگاہی بڑھ جاتی ہے۔ جب سیاسی گرما گرمی کم ہوتی ہے تو یہی آگاہی عام زندگی گزارنے کے طریقے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

دل میں شکایات رکھنے کے باوجود لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ پاکستان حتمی طور پر تبدیل ہو گیا ہے اُس احاطہ فکر کی نشاندہی کرتا ہے جس میں سیاسی کارکن، تجزیہ نگار رہتے ہوئے زندگی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے تبدیلی کے معاملے کو اسی نکتے پر چھوڑ دینا چاہیے۔ حتمی فیصلہ تاریخ کرے گی کہ جو کچھ تبدیل ہوا وہ انقلاب تھا یا پانی کا بلبلہ۔ مگر دونوں جماعتوں کی سیاست کے بارے میں سوالوں کو تاریخ کے کسی فیصلے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے جوابات زمانہ حال میں ہی دینے ہوں گے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ دھرنے کے اہداف کا تعین کرتے ہوئے دونوں جماعتوں نے کن محرکات پر تکیہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف چند گھنٹوں میں مستعفی ہو جائیں گے۔ لا کھوں لوگوں کے سامنے ذرایع ابلاغ میں اتنا بڑا دعویٰ کسی وقتی دبائو اور خواہش کے ذریعے تو نہیں کیا جا سکتا۔ اس ہدف کا تعین کرنے سے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی ہوئی ہو گی۔ سوچ اور فکر سے بھرے ہوئے کئی مباحثے ہوئے ہوں گے۔ دونوں جماعتوں نے اپنا تمام سیاسی تجربہ بروئے کار لا کر نواز شریف کے استعفیٰ کے گھنٹوں میں آنے والا وعدہ کرنے کا سوچا ہو گا۔ دونوں جماعتوں کو اپنے کارکنان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ فوری استعفیٰ کا دعویٰ کیو ں کیا گیا تھا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ استعفیٰ کیوں نہیں مل سکا۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ عمران خان اور طاہرالقادری نے مل کر پاکستان بھر کے تمام عوام کے دل جیت لیے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ لیں کہ جیسے لاہور سے چلنے والا قافلہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کی خواہشات کا نمایندہ تھا۔ تو یہ سوال پھر بھی بہت اہم بن جاتا ہے اگر یہ قوم انقلاب کی کیفیت میں آج سے دو ماہ پہلے داخل ہو گئی تھی تو پھر اس ریلے نے موجودہ نظام کو تہس نہس کیوں نہیں کیا۔ اگر حکومت وقت اور اس کے اتحادی دیمک زدہ اوراق کی طرح ہیں جو ہوا کے ایک جھونکے سے بکھر سکتے ہیں تو پھر وہ ابھی تک قائم کیوں ہیں۔

کیا ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کو اپنی پارٹی اور اس قوم کے ان تمام لوگوں کو یہ وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے جنہوں نے ان کو تحمل سے 60 دن سنا کہ ’’پرانا نظام ‘‘ ابھی تک قائم کیوں ہے۔ یہ کیا انقلاب ہے کہ ابھی تک اسمبلی سے صرف ایک استعفیٰ آیا ہے اور وہ بھی جاوید ہاشمی کا۔ اگر انقلاب آ گیا ہے تو حکومت کو موجود نہیں ہونا چاہیے اور اگر حکومت موجود ہے تو پھر انقلاب نہیں آیا ہو گا۔ سب کچھ بدل بھی گیا ہے پھر بھی سب کچھ باقی ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دونوں کو یہ بتا نا ہو گا کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر وہ نواز شریف کا استعفیٰ نہیں لے پائے۔

تیسرا سوال اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک 48 گھنٹوں میں استعفیٰ دو ہفتے میں عبوری نظام کی تشکیل اور چھ سے نو مہینے میں نئے انتخابات کا عزم لیے اسلام آبا د میں آئے تھے۔ انھوں نے اپنی پارٹیوں کے کروڑوں اور ملک کے اربوں کے علاوہ قوم کے ہزاروں گھنٹے اور کئی قیمتی جانوں کا خرچا کیا ہے۔ عام شہری کی تکالیف اور ہزیمت کو چھوڑ دیجیے یہ دونوں تو سستی چیز یں ہیں۔ ہر دوسری دکان پر مل جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد دونوں جماعتیں اپنے بیان کردہ عزائم میں سے ایک بھی حاصل نہیں کر پائیں۔ اس کا حساب کتاب اپنی جگہ ہے۔

کسی اور معاشرے میں اس قسم کی ناکامی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی۔ مگر اس ملک خداداد میں ایسا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا جو ہو چکا ہے اسکو فی الحال پرے رکھیے۔ تیسرے سوال پر توجہ دیجیے۔ سوال یہ ہے کہ اب یہ دونوں جماعتیں جو کر رہی ہیں اس سے یہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ عمران خان دھرنوں سے پہلے والے جلسوں کی روش میں واپس آ گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے یقینا بڑے جلسے کیے ہیں ان میں سے بعض فقید المثال بھی کہے جا سکتے ہیں۔ مگر جلسہ گاہوں میں لوگوں کو بھرنے کے بعد کیا ہو گا۔ افراد شریک ہوتے ہیں۔ میڈیا گھنٹوں تقاریر دکھاتا ہے۔ پھر سب اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔

اس سے حکومت یا حکومتوں کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ وہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اگر پارلیمان سے چند منٹ کے فاصلے پر تمام مدد اور میڈیا کی فراخ دلانہ و ہمدردانہ معاونت کے باوجود اسلام آباد میں کچھ نہیں بدلا۔ تو سیکڑوں میل دور شہروں میں جلسے کرنے سے کیا بدل جائے گا۔ یہ اس قسم کا سوال ہے جو میں نے عمران خان سے اسلام آباد دھرنے سے قبل ایک انٹرویو میں پوچھا تھا۔ انھوں نے اِس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اب میں دو ماہ پہلے کے حالات دیکھتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہو ں کہ ان کے پاس فوج کی مداخلت کے ذریعے نواز شریف کو نکالنے کے سوا اور کوئی جواب نہیں تھا۔

اور وہ یہ جواب کیمرے کے سامنے نہیں دے سکتے تھے۔ وہ سب کچھ نہیں ہوا لہٰذا دھرنے کے لائحہ عمل کو منہ کی کھانی پڑی۔ اب عمران خان اور طاہر القادی نے دھرنے کا میچ بیچ میں چھوڑ کر ایک نیا ٹورنامنٹ شروع کر دیا ہے۔ ان کی کارکردگی اس مقابلے میں اسلام آباد دھرنے سے کیونکر اور کیسے مختلف ہو گی۔ یہ سوال ہے جو پہلے دو سوالوں کی طرح ان دونوں جماعتوں کے کارکنان اور اس قوم نے طاہرالقادری اور عمران خان سے پوچھنا ہے۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ اس سوال کے جواب میں وہ یہی کہیں گے کہ چونکہ پاکستان تبدیل ہو گیا لہٰذا اس بحث کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ اور ویسے بھی وہ سب کا احتساب کرنے آئے ہیں۔ وہ اپنی فکر و دانش اور قابلیت کے بارے میں جواب کیوں دیں گے۔
 

حسیب

محفلین
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھنے لگے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ویسے ہی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں پیروی کرنے لگے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقتدی اور تمام صحابہ کرام حسب سابق اس فرض نماز ظہر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی کر رہے تھے۔

یعنی جماعت کی امامت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کررہے تھے؟
پیچھے نماز پڑھنے والے لوگوں کے امام سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے جبکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے امام نبی کریم ﷺ تھے
مزید وضاحت اس حدیث سے ہو جاتی ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ بِلاَلٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاَةِ فَقَالَ ‏"‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى مَا يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاَهُ يَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ ذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي قَاعِدًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ رضى الله عنه‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابومعاویہ محمد بن حازم نے بیان کیا ، انہوں نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا ، انہوں نے ابراہیم نخعی سے ، انہوں نے اسود سے ، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ۔ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دینے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو ۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو ( شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے ۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو ۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے ۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو ۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں ۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے ۔ اس طرح چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے ۔ جب ابوبکر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء ۔
صحیح بخاری کتاب الاذن حدیث نمبر 713
 
پیچھے نماز پڑھنے والے لوگوں کے امام سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے جبکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے امام نبی کریم ﷺ تھے
مزید وضاحت اس حدیث سے ہو جاتی ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ بِلاَلٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاَةِ فَقَالَ ‏"‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى مَا يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاَهُ يَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ ذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي قَاعِدًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ رضى الله عنه‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابومعاویہ محمد بن حازم نے بیان کیا ، انہوں نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا ، انہوں نے ابراہیم نخعی سے ، انہوں نے اسود سے ، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ۔ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی خبر دینے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو ۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو ( شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے ۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو ۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے ۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو ۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں ۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے ۔ اس طرح چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے ۔ جب ابوبکر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء ۔
صحیح بخاری کتاب الاذن حدیث نمبر 713

علما کیا کہتے ہیں کہ اس حدیث کے تفسیر کے بارے میں؟
کیا ایک ہی جماعت کے دو امام ممکن ہیں۔
ویسے یہ صورت استثنائی ہے یا اس سے کوئی اصول نکلتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اپنے طور پر کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے اہل رائے سے مستفید ہونا ضروری ہے۔
 
Top