سیاسی تحفظ
یہ بات ذرا مشکوک ہے زونی !
مع السلام
آزادی تو برطانوی سامراج سے ہی حاصل کی تھی لیکن مسلم قومیت نے اپنے حق خود ارادیت کے تحت علیحدہ ریاست حاصل کی تھی اور آزادی کا منشور مسلمانوں کے مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی حقوق کا تحفظ تھا ۔
یہ بات مشکوک ضرور ھے لیکن بہتری کی امید رکھی جا سکتی ھے ، اس کے برعکس اگر آپ تحریک پاکستان کے پس منظر کا جائزہ لیں تو وہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ بھیانک نظر آئے گی ۔
السلام علیکم
محترمہ زونی بہنا
اللہ تعالی سدا اپنی امان میں رکھے آمین
" مسلم قومیت " سے کیا مراد ہے ۔ ؟
کیا مسلم قومیت میں جملہ مسلمانان ہند شامل ہوں گے ۔
اگر ہاں تو پھر کیا جملہ مسلمانان ہند کے مذہبی ، معاشرتی ، اور سیاسی حقوق یکساں نہیں تھے ۔
کیونکہ جملہ مسلمانان ہند نے قیام پاکستان کی حمایت نہیں کی تھی ۔
مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے خالص علمی جواب سے نوازیں گی ۔
نایاب
بہتری کی امید زونی تب ہی رکھی جاسکتی ہے جب ہم ہی سے کوئ اٹھ کے ملک کا بیڑہ اٹھائے ان سیاستدانوں کو پتہ نہیں اور کتنی دفعہ آزمانہ اور صدارت کا عہدہ دینا ہے ہم نے ہماری سب سے بڑی غلطی کہ ہم لوگ پہلے ان کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر بعد میں انہی کو گالیاں دیتے ہیں دوغلا پن تو ہم میں بھی بہت ہے !
مع السلام
جی نایاب بھائی فلحال تو میں نے مسلمانان ہند کیلئے ہی قومیت کی اصطلاح استعمال کی ھے ۔
مسلمانوں کے حقوق تو یکساں ہی تھے ورنہ تاریخکی اتنی بڑی ہجرت شاید ممکن نہ ہوتی لیکن جملہ مسلمانان سے شاید آپ نے مسلم لیڈرز مراد لیے ہیں جو کانگریس کا دم بھرتے تھے ، ان کے حقوق اور مسلمانان ہند کے حقوق میں فرق ہو سکتا ھے اور دوسرا اس وقت بھی دو قسم کے مکتبہ ہائے فکر موجود تھے اور وہ جو اسلام میں وطنیت کی مخالفت کرتے تھے اور دوسرے وہ جو اسے وقت کی ضرورت سمجھتے تھے ، دلچسپ بات یہ ھے کہ اقبال جیسے مفکر نے بھی اس وقت مسلم قومیت پہ زور دیا تھا اور الگ وطن حاصل کرنے کی بھی حمایت کی جبکہ ان کا نظریہ ملت اس سے قبل بلکل مختلف تھا ۔
تو اٹھائیں ناں بیڑہ ، کسی نے آپ کو روکا ہوا ھے کیا ؟
آپ شاید بھول رہی ہیں زونی بیڑہ اٹھانے کے لیئے بھی ساتھ کچھ حمایتی ہونے چاہیئں ورنہ جو حال شیخ رشید کا ہو رہا ہے کہیں وہ حال میرا بھی نہ ہو !'
مع السلام
نایاب بھائی کیا یہ دوغلا پن نہیں تھا کہ پاکستان بننے کے بعد آپ یہاں کی قومیت حاصل کر لیتے ہیں جبکہ پہلے آپ اس کے قیام کو ہی غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
وجوہات کا ذکر تو بہت طویل ہو جائے گا نایاب بھائی ، کوئی ایک وجہ تو نہیں تھی لیکن سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ اگر مسلمان الگ ریاست حاصل نہ کرتے تو شاید ہمیشہ کیلئے ہندوستان میں اقلیت بن کے رہ جاتے اور پھر قانون ساز اسمبلیوں میں ہندو اکثریت کی وجہ سے وہی حالات ہو جاتے جو کانگریسی وزارتوں کے زمانے میں ہوئے تھے ، موجودہ حالات میں لوگ جو بھی کہیں لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ اس وقت کے مسلم رہنماؤں کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کی بھی نمائندگی کی اگرچہ قائداعظم بھی ایک عرصہ تک مشترک ہندوستان اور کانگریس کے حامیوں میں سے تھے ۔
آزادی تو برطانوی سامراج سے ہی حاصل کی تھی لیکن مسلم قومیت نے اپنے حق خود ارادیت کے تحت علیحدہ ریاست حاصل کی تھی اور آزادی کا منشور مسلمانوں کے مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی حقوق کا تحفظ تھا ۔
شکریہ زونی ۔ آپ نے کہنے کو کچھ نہیں چھوڑا ۔ مگر لفظوں کی پٹاری کھل جائے تو کہاں کبھی کوئی مطمئن ہوا ہے ۔ متحدہ ہندوستان کے اس وقت نعرے لگانے والے اور اب بھی خواب دیکھنے والے کم نہیں ۔ مگر عارف کریم نے جو علم کا دریا بہایا ہے اسی میں سے "چند موتی" نکال کر رکھ دوں کہ غدار نہ پہلے کم تھے نہ اب کم ہیں ۔ کسی کے ڈانڈے سعودی عرب سے جا ملتے ہیں ، کوئی پس پردہ گریٹر ایران ہی کو اپنا اصل وطن سمجھتا ہے اور کسی کو متحدہ ہندوستان کی "پیڑ" اٹھتی ہے ۔ مگر یہ سب بھول جاتے ہیں کہ اگرچہ وطن پرستی ملت اسلامیہ کے متضاد چیز معلوم ہوتی ہے مگر موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کوئی چیز نہیں رہی البتہ وطن سے آپ ایک ملت ضرور تشکیل دے سکتے اور وہ تمام تر نظریات و عقائد پر ہمیشہ بھاری ثابت ہوئی ہے ۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔
وسلام
برطانوی راج سے صرف ثانوی آزادی حاصل کی تھی ۔ کیونکہ بعد کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ہمنے اپنا سرکاری، سیاسی، معاشی، عدلی اور تعلیمی نظام وہی برطانوی راج کے وقت جیسا ہی رکھا۔ اور ابھی تک ہے۔ اگر آزادی کیلئے واقعی جدو جہد کی تھی تو اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک منفرد اور بہتر نظام زندگی متعارف کر وانا چاہئے تھا۔ مگر یہ کیا کہ نعرہ آزادی کا لیکن نظام وہی پرانے آقاؤں کا!
پھر چلیں برطانوی راج کو چھوڑ دیں۔ لیاقت علی خان ہی کے دور سے پاکستان نے ریاست ہائے ہائے امریکہ سے قریبی مراسم جوڑنا شروع کر دئے۔ اور پھر امپورٹڈ جنگی دفاعی نظام جسکی اولً تو کوئی ضرورت نہیں تھی، حکومتی بجٹ کا حصہ بنا رہا۔ سوچنا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک ابھی آزاد ہوا ہے تواسکو خود مختار رکھنے کیلئے اور عوام کی فلاح کیلئے لانگ ٹرمز ترقیاتی کام شروع کئے جاتے۔ ملک کو از سر نو جدید دور کے تقاضوں کے تحت ڈیزائن کیا جاتا۔ یہ وہ کام تھا جو ابتدائی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ اسکے بر عکس ہم تو بس کبھی فوجی آمروں اور کبھی غیر قوموں کے آلہ کار بنے رہے۔ پھر انتہائی غربت و مصیبت کی حالت میں امپورٹڈ جنگی سامان کیساتھ نکل پڑے بھارت سے دو جنگیں کرنے۔ جسکا خمزیادہ ابھی تک معاشی بھونچال اور کبھی نہ ختم ہونے والے غیر ملکی قرضوں کی صورت میںبھگت رہے ہیں۔ جنگیں کرنے سے پہلے ملک کی معاشی و اقتصادی حالت تو دیکھ لیتے۔ یہ تو سمجھ لیتے کہ ان جنگوں کا حقیقی فائدہ بھارت یا پاکستان کو نہیں بلکہ محض ان غیر قوتوں کی صنعتوں کو ہونا ہے جنکی روزی روٹی اسکی سیل پر منحصر ہے۔
ہائے پاکستان کا اللہ حافظ!
آپ اسی کو سمجھنے کی کوشش کریں ، سچ اس سے اسان اور واضح تو میں بھی نہیں لکھ سکتا۔ آپ یوں سمجھیں "زمینی حقائق" بیان کرنے کی کوشش کی ہےالسلام علیکم
محترم طالوت بھائی
درست لکھا آپ نے مگر
آپ کی تحریر کچھ تشنہ محسوس ہوئی ہے ۔
یا شائد میں سمجھ نہیں پایا ۔
کچھ آسان لکھ دیں نا ۔
مہربانی
نایاب