آزاد بلوچستان

بلوچستان آزادی کی جانب گامزن قصوروار کون حکومت؟

  • ہاں

    Votes: 2 33.3%
  • نہیں

    Votes: 4 66.7%

  • Total voters
    6
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ایسے لوگوں سے مجھے شدید نفرت ہے جو پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں اگر آپ کو پاکستان عزیز نہیں ہیں تو جاؤ چھوڑو پاکستان کو کیوں پاکستان کا کھاکر اس کی پیٹھ میں چھری گھونپتے ہو
اسلامی جہموریہ پاکستان عزیز ہے
جو اب نہیں ہے
13 سال ہوئے پاکستان چھوڑ چکے۔ پاکستان بہر حال عزیز ہے۔ اللہ کا دیا کھاتے ہیں اور پاکستان کو بھی کھلاتے ہیں۔ الحمدللہ
پاکستان جب ہی بچ سکتا ہے یہ واپس اپنے نظریے پر اجائے یا پھر کنفیڈریش قائم کرکے پاکستان کی ایک نئی شکل دی جاوے
 

قیصرانی

لائبریرین
نہیں جی آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے امریکہ میں بھی بلوچستان کی آزادی کی بات کی گئی ہے اسی طرح جیسے 1971 میں ہوا تھا بلوچستان میں کوئی غیر بلوچی نہیں جاسکتا کہ اگر جاتا ہے تو مارا جاتا ہے وہاں اسکولوں میں اسمبلی کے دوران پاکستان کا قومی ترانہ ممنوع ہے 23 مارچ 14 اگست منانے پر پابندی ہے کوئی اسکول کالج یا دفتر کوئی پاکستانی تقریب منعقد نہیں کرسکتا ہے حالات کی سنگینی بہت بڑھ گئی حتٰی کہ وہاں تو کوئٹہ کے سوا اکثر علاقوں میں اردو اور دوسری زبان بولنے پر پابندی ہے کیوں کیسے یہ سب ایک دم نہیں ہوا ہے
میرے خاندان کے نصف سے زیادہ افراد بلوچستان میں کوئٹہ، ژوب، لورالائی، قلعہ سیف اللہ اور دیگر بڑے شہروں میں ابھی بھی رہ رہے ہیں۔ ان سب کی ایک ہی رائے ہے کہ دو یا تین شہروں میں گنتی کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ محض میڈیا نے گڑبڑ مچائی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک وہ تمام افراد اور ان کی رائے بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی آپ کی رائے۔ باقی فیصلہ آپ کریں یا کوئی اور، یہ ہر فرد کی اپنی ذاتی سوچ ہے
 
او جناب یہاں کونسا دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ 10 سال بعد گیا تھا میں اپنے شہر ۔ایک چوک بنا ہے جس میں فوارہ لگایا تھا جو چلتا نہیں ہے شاید 2-1 لاکھ کا بنا ہو گا اور ایک گرلز کالج بنا جو اس وقت بھی پلان میں تھا جب میں بچہ تھا ۔ اسپتال - تھانہ -ٹاؤن کمیٹی - بس اڈا - ویٹرنری ہسپتال -ایکسچینج سب بالکل وہی تھا جو میں نے 10 سال پہلے چھوڑا تھا ۔ 50 اور 60 کی دہائی میں بنائی گئی عمارتیں تھی ویسی کی ویسی بلکہ مزید بوسیدہ ۔ سٹرکیں ساری کھدی پڑی تھی پوچھا ایسا کیوں ہے 10 سال پہلے تو یہ اچھی تھی ۔جواب ملا بھائی ٹھیکیدار درمیان میں چھوڑ گیا ہے اب تو 3 سال ہو چکے سارا شہر 4 سڑکوں کا ہے جس میں سے 3 کھدی پڑی ہیں 3 سال سے کوئی پرسان حال نہیں ۔ گورمنٹ کی کوئی بلڈنگ نئی نہیں بنی تھی 10 سال میں نا ہی کسی کی تزین و آرائش کی گئی تھی ۔ ریسٹ ہاؤس تھا ایک 50 سال پرانا جس میں پہلے باغ تھے درخت تھے کیاریاں تھی اس بار جا کر دیکھا تو اجڑ کر گندگی کا جوہڑ بنا کھڑا تھا جو 5-7 اس وقت کوارٹر تھے اب کھنڈر بن چکے تھے ۔ مجھے یاد ہے ہم شہتوت کے درختوں پر کھیلتے اور انہیں کھاتے تھے اب وہاں ان کا نشان تتک نہیں تھا ۔ ہزاروں کی آبادی کے لیے پینے کا کوئی صاف کرنے والا پلانٹ ہے نا اب سیورج کلین کرنے والا جو 10 سال پہلے تھا اب بند پڑا تھا ۔ پورے مشرف کے گولڈن سالوں اور زرداری کے کالے سالوں میں ایک میٹر فٹ پاتھ تک نہیں ملا میرے شہر کو اور یہ پنجاب ہے میں جس جگہ کی بات کر رہا ہوں وہ ملتان سے 75کلم دور ایک چھوٹا سا تاریخی شہر اوچ شریف ہے ۔ کیا ہمارے پاس بندوکیں نہیں ہیں ؟ یا ہمارا دماغ نہیں ہے ؟ پر اسطرح تھوڑی ہوتا ہے کہ محرومی ہے اٹھو آزادی لیں ۔ بنگلہ دیش میں مجیب نے یہی سپنے دکھائے تھے کیا بنا ؟ آج پاکستانی 300 ڈالر سے سٹارٹ کرتے ہیں خلیج میں اور بنگالی 75 ڈالر پر مل جاتے ہیں ۔ سارا پاکستان کونسا فائیو سٹار ہو گیا اور بلوچ رہ گئے ؟ یہ مسئلہ 3-4 قبائل اور حکومت کی لڑائی کا ہے نا کہ کچھ اور ۔کوئی ان میں سے یہ بھی بتائے آزاد تو اب بھی ہو اگر بفرض ایک آزاد ملک بنا دیا جائے تو کیا کرو گے آگے ؟ کچھ بھی نہیں ہو گا مزید پیچھے جائیں گے اور کیا ۔ میرے لیے ہر وہ بندہ جو ملک توڑنے کی کوشش کرے اس کی سزا موت ہے اور اسی دن دینی چاہیے ۔
اندازہ کرو جو لوگ اپنے گھر (پنجاب) کا یہ حال کریں کہ لوٹ کر کھاجائیں وہ باقی پاکستان کا کیا نہ کریں گے جہاں وہ قابض ہیں۔
پہلے ہی میں کہہ چکا ہوں کہ پنجاب کے کئی صوبے بنادیے جاویں تاکہ وسائل پر قبضہ کا تاثر دور ہو اور دوسرے صوبوں میں لوٹ کھسوٹ بند ہو۔
باقی رہا نا پسندیدہ لوگوں کو پھانسی پر لٹکانا تو یہ کام جاری ہے اس کی جدید مثال اکبر بگٹی ہے اور بڑی مثال بھٹو۔ یہ کام کب رکا ہے بلوچستا ن اور سرحد میں جاری ہے ۔ انجام اسکا وہی ہے جو بنگال میں ہوا
 

قیصرانی

لائبریرین
اندازہ کرو جو لوگ اپنے گھر (پنجاب) کا یہ حال کریں کہ لوٹ کر کھاجائیں وہ باقی پاکستان کا کیا نہ کریں گے جہاں وہ قابض ہیں۔
پہلے ہی میں کہہ چکا ہوں کہ پنجاب کے کئی صوبے بنادیے جاویں تاکہ وسائل پر قبضہ کا تاثر دور ہو اور دوسرے صوبوں میں لوٹ کھسوٹ بند ہو۔
باقی رہا نا پسندیدہ لوگوں کو پھانسی پر لٹکانا تو یہ کام جاری ہے اس کی جدید مثال اکبر بگٹی ہے اور بڑی مثال بھٹو۔ یہ کام کب رکا ہے بلوچستا ن اور سرحد میں جاری ہے ۔ انجام اسکا وہی ہے جو بنگال میں ہوا
یعنی جو اس کام میں خدانخواستہ کامیاب ہوا، پہلے وہی مارا جائے گا مجیب الرحمان کی طرح؟
 
میرے خاندان کے نصف سے زیادہ افراد بلوچستان میں کوئٹہ، ژوب، لورالائی، قلعہ سیف اللہ اور دیگر بڑے شہروں میں ابھی بھی رہ رہے ہیں۔ ان سب کی ایک ہی رائے ہے کہ دو یا تین شہروں میں گنتی کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ محض میڈیا نے گڑبڑ مچائی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک وہ تمام افراد اور ان کی رائے بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی آپ کی رائے۔ باقی فیصلہ آپ کریں یا کوئی اور، یہ ہر فرد کی اپنی ذاتی سوچ ہے

تین لاکھ سے زائد پاکستان ابھی بھی بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔ اور بنگلہ دیش کے بننے سے کچھ عرصہ پہلے پہلے تک "سب ٹھیک" تھا
 

عسکری

معطل
اندازہ کرو جو لوگ اپنے گھر (پنجاب) کا یہ حال کریں کہ لوٹ کر کھاجائیں وہ باقی پاکستان کا کیا نہ کریں گے جہاں وہ قابض ہیں۔
پہلے ہی میں کہہ چکا ہوں کہ پنجاب کے کئی صوبے بنادیے جاویں تاکہ وسائل پر قبضہ کا تاثر دور ہو اور دوسرے صوبوں میں لوٹ کھسوٹ بند ہو۔
باقی رہا نا پسندیدہ لوگوں کو پھانسی پر لٹکانا تو یہ کام جاری ہے اس کی جدید مثال اکبر بگٹی ہے اور بڑی مثال بھٹو۔ یہ کام کب رکا ہے بلوچستا ن اور سرحد میں جاری ہے ۔ انجام اسکا وہی ہے جو بنگال میں ہوا
تمھیں بھڑکانے کی ضرورت نہیں ہے مجھے اندازہ ہے سب کچھ کا ۔ سب صوبوں کو بجٹ ملتا ہے اور سب ایم این اے اپنا حصہ وصولتے ہیں ۔ یہ صرف تم جیسے لوگ ہیں جو سارا ملبہ پنجاب پر ڈال کر پلا جھاڑ لیتے ہیں ۔ پورے پاکستان کا ہر ایم این اے ایم پی اے پیسے لے رہا ہے اس میں سندھی اور بلوچی بھی اپنے صوبے کا لے کر کھا جاتے ہیں ۔ بلکہ وہ پنجابی حکمرانوں سے بڑے چور ہیں کیونکہ پنجاب میں کچھ نا کچھ لگتا ہے وہاں تو ایک روپیہ نہیں لگتا ۔
 
جنا ب محترم پیٹریاٹ جی میرا تعلق بھی پنجاب سے ہے سمجھے لیکن پہلے مسلمان ہوں پھر پاکستانی ہوں اس کے بعد کچھ اور ہوں سمجھے آپ پاکستانی بن کر بات کریں مسلمان اور پاکستانی بن کر بات کریں
 

عسکری

معطل
تو پھر ابھی تک انڈیا کیوں سلامت ہیں دنیا میں سب سے زیادہ آزادی کی تحریکیں انڈیا میں چل رہی ہیں
ہر جگہ چلتا ہے کبھی نرم کبھی گرم کچھ نہیں ہونے والا اسطرح انڈیا میں اسے ایکسٹریم نہیں لیتے نا میڈیا اپنی فوج اور حکومت پر گند ڈالتی ہے اسلئے چاہے 100 مر جائیں نیوز میں نہیں آتا نا کوئی رپورٹ کرتا ہے اسلئے سب ٹھیک ہے نظر آتا ہے ہمیشہ ۔
 

عسکری

معطل
جنا ب محترم پیٹریاٹ جی میرا تعلق بھی پنجاب سے ہے سمجھے لیکن پہلے مسلمان ہوں پھر پاکستانی ہوں اس کے بعد کچھ اور ہوں سمجھے آپ پاکستانی بن کر بات کریں مسلمان اور پاکستانی بن کر بات کریں
میں کسی لیبل کا محتاج نہیں سوائے بلیک لیبل :laugh: میں پہلے پاکستانی ہوں پھر پاکستانی ہوں پھر انسان بس :D
 

زین

لائبریرین
پروفیسر خورشید بلوچستان پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ پروفیسر صاحب نے گزشتہ ہفتے ملک کے مختلف اخبارات میں لکھے گئے کالم میں بلوچستان کی صورتحال کی صحیح تصویر کھینچی ہے ۔

کالم کی تیسری قسط یہاں کاپی پیسٹ کررہا ہوں ۔ پہلی اور دوسری قسط پڑھنے کے لئے نیچے دیئے گئے ربط پر کلک کریں۔


بلوچستان: پاکستانی قیادت کا مجرمانہ کردار اور امریکی کھیل

پروفیسر خورشید احمد

(تیسری اورآخری قسط)
نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت بلوچستان کا جو حصہ ملک کے محصولات (ٹیکس ریونیو) میں بنتا تھا، پہلی مرتبہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا کوئی اثر عام آدمی کی زندگی پر یا صوبے کی معاشی حالت اور ترقیاتی کام پر نظر نہیں آتا۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ بارکوں میں چلی گئی ہے مگر عملاً ایف سی اور خفیہ ایجنسیاں من مانی کر رہی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے لیکن صوبے کا وزیراعلیٰ برملا کہتا ہے کہ ایف سی میرے قابو میں نہیں۔عملاً فوجی آپریشن جاری ہے۔ صرف ۲۰۱۱ء کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دہشت گردی کے ایک ہزار ۴سو۷۶ واقعات ہوئے ہیں جن میں ۳۶ بم حملے، ۶۸دھماکے اور ۱۳۴ گیس تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔ ان حملوں میں ۱۱۷ راکٹ فائر ہوئے اور ۲۱۵ بارودی سرنگوں کے دھماکے ہوئے۔ ۲۹۱؍افراد کو اغوا کیا گیا۔ صرف ایک سال میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں لاپتا افراد کی۲۷۰ مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ ایک طرف بلوچ نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، تو دوسری طرف پنجاب اور دوسرے صوبوں سے آکربسنے والے لوگوں کے ڈھائی سو سے زیادہ بے گناہ افراد، مردوں، عورتوں، بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ پھر اس میں مسلک کی بنیاد پر کشت و خون کا بھی ایک حصہ ہے اور تازہ ترین واقعات میں پشتون مزدوروں کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ اس کشت و خون کی ذمہ داری سب پر ہے۔ فوج، ایف سی، کوسٹل گارڈز، پولیس، لیوی اور علیحدگی پسند جماعتوں کے مسلح ونگ، سب کے ہاتھوں پر معصوم انسانوں کا خون ہے اور فوج، ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کی فوج ظفر موج کے باوجود نہ اصل مجرم پکڑے جاتے ہیں اور نہ ان بیرونی ہاتھوں کی نشان دہی ہوپاتی ہے جن کا بڑے طمطراق سے باربار ذکر کیا جاتا ہے۔مسئلے کا یہ پہلو بیرونی عناصر کی شرانگیزیوں سے بھی کچھ زیادہ ہی اہم ہے اور جب تک یہ مسئلہ اپنے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوئوں کے ساتھ حل نہیں ہوتا، بیرونی قوتوں کے کردار پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اصل مسئلہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی ہے۔ حقیقی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ فوجی آپریشن کسی بھی نام یا عنوان سے ہو، وہ مسائل کا حل نہیں۔ حل کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ اس مسئلے سے متاثر تمام افراد ( اسٹیک ہولڈرز) کو افہام و تفہیم اور حق و انصاف کی بنیاد پر مل جل کر حالات کی اصلاح کے لیے مجتمع اور متحرک کرنا ہے۔ مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اعتماد کا فقدان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے اعتماد کی بحالی ہی پہلا قدم ہوسکتی ہے جس کے لیے فوجی آپریشن کا خاتمہ، عام معافی، تمام گرفتار شدہ اور لاپتا افراد کی بازیابی، نواب اکبربگٹی کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا آغاز اور بہتر فضا میں تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی شرکت سے نئے انتخابات اور ایک بہتر قیادت کا زمامِ کار سنبھالنا ناگزیر ہے۔ بیرونی قوتوں کے کھیل کو بھی اسی وقت ناکام بنایا جاسکتا ہے جب ہم اپنے گھر کی اصلاح کریں اور جو حقیقی شکایات اور محرومیاں ہیں ان کی تلافی کا سامان کریں۔ ۲۰۰۵ء کی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور ۲۰۱۰ء کا بلوچستان کا پیکج سیاسی حل اور انتظامِ نو کے لیے اولین نقشۂ کار کی تیاری کے لیے بنیاد بن سکتے ہیں۔ اصل چیز اعتماد کی بحالی، سیاسی عمل کو شروع کرنا اور تمام قوتوں کو اس عمل کا حصہ بنانا ہے۔ عوام ہی کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے سے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم ہی کو اسے بچانا اور تعمیرنو کی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر وجود ممکن ہے۔ سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کا امتحان ہے۔ اس لیے کہ ؎ یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے



قسط نمبر ۔ ایک
قسط نمبر ۔ دو
 
بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر وجود ممکن ہے۔

پاکستان کا بلاشبہ بلوچستان کے بغیر وجود ممکن نہیں مگر یہ کہنا کہ بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں صرف بات بنانے کے لیے کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں بلوچستان کو پاکستان کے باھر زیادہ خوشحال اور مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں۔ ویسے ہی جیسے سنگاپور اپنے ابتدائی دور میں پائیدار نہیں تھا نہ اب ہے مگر وہ ایشیا کی خوشحال ترین ریاستوں میں شامل ہے۔
میری رائے میں پاکستان سے الگ ہوتے ہی (امید ہے کہ الگ نہ ہوگا) بلوچستان کی ترقی کو پہیے لگ جائیں گے -باقی پاکستان میں یہ ترقی معکوس ہوگی
 

زین

لائبریرین
میرے خاندان کے نصف سے زیادہ افراد بلوچستان میں کوئٹہ، ژوب، لورالائی، قلعہ سیف اللہ اور دیگر بڑے شہروں میں ابھی بھی رہ رہے ہیں۔ ان سب کی ایک ہی رائے ہے کہ دو یا تین شہروں میں گنتی کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ محض میڈیا نے گڑبڑ مچائی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک وہ تمام افراد اور ان کی رائے بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی آپ کی رائے۔ باقی فیصلہ آپ کریں یا کوئی اور، یہ ہر فرد کی اپنی ذاتی سوچ ہے
قیصرانی بھائی۔​
دو ہزار گیارہ کے وسط تک صورتحال نسبتا بہترتھی لیکن نومبر دسمبردو ہزار گیارہ کے بعد سے ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے ۔ جن اضلاع کا آپ نے ذکر کیا ہے بشمول ان کے پشتون اضلاع میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہے لیکن بلوچ علاقے خصوصآ خضدار، قلات، مستونگ، واشک اور ایران سے متصل مکران ڈویژن کے علاقے کیچ، تربت، گوادراور پنجگور شورش زدہ ہیں جہاں روز کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے ۔کل ہی کی بات ہے کہ تربت میں ایران سے آنےوالے 3 پنجابی مزدوروں کو قتل کیا گیا ۔​
 

عسکری

معطل
قیصرانی بھائی۔​
دو ہزار گیارہ کے وسط تک صورتحال نسبتا بہترتھی لیکن نومبر دسمبردو ہزار گیارہ کے بعد سے ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے ۔ جن اضلاع کا آپ نے ذکر کیا ہے بشمول ان کے پشتون اضلاع میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہے لیکن بلوچ علاقے خصوصآ خضدار، قلات، مستونگ، واشک اور ایران سے متصل مکران ڈویژن کے علاقے کیچ، تربت، گوادراور پنجگور شورش زدہ ہیں جہاں روز کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے ۔کل ہی کی بات ہے کہ تربت میں ایران سے آنےوالے 3 پنجابی مزدوروں کو قتل کیا گیا ۔​
جیسے جیسے پریشر بڑھا اور آئی ایس آئی نے آنکھیں دکھائی سی آئی اے کو ویسے ویسے حالات بگڑے یہی سچ ہے۔ یاد رہے مئی میں اسامہ مرا تھا بھائی جی پچھلے سال تب سے آئی ایس آئی اور سی آئی اے میں ٹھن گئی ہے
 
مجھے کراچی یونیورسٹی سے ایک مارک شیٹ نکلوانی تھی تو بہت بھاگ دوڑ کے بعد مجھے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے پاس جانا نصیب ہوا میں دفتر ھذا کے اند ر داخل ہوا تو وہاں جناب کا نام مخفی رکھ رہا ہوں اور قومیت بھی 22 گریٹ کے افسر اعلیٰ ایک کرسی پر براجمان نظر آئے اور ان کے سامنے ایک لمبی میز تھی میز کے دونوں اطراف کچھ صاحبان بھی کرسیوں پر براجمان تھے میں اندر داخل ہوا اور جیسا کہ ایک انسان ہونےکے ناطے میری عادت ہے کہ جاتے ہی مصافحہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں یہی میں نے یہاں بھی کیا تو مجھے یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ ان موصوف اعلیٰ نے مصافحہ کرنے کی بجائے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا کہ کہیں خدانخواستہ مجھے چھوت کی بیماری تو نہیں ہے -
اس دوران میرے ان کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ جوں کا توں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتا ہوں-
موصوف اعلیٰ ” کیا نام ہے؟
میں”شاہنواز“
موصوف اعلیٰ” پہلے بتاؤ کہ کون ہو؟“
میں یہ بات سن کر چند لمحات کےلئے گم صم سا ہوگیا پھر ہمت کی
میں” جی کیا مطلب“
موصوف اعلیٰ ” مطلب کہ پنجابی، سندھی، بلوچی یا مہاجر“
میں یہ سن کرپریشان ہوگیا کہ جس کام کے لئے میں آیا ہوں اگر ان میں سے کوئی ان کو پسند نہ آیا تو کیا میرا کام نہیں ہوگا تو پھر ذرا ٹھہر کر تحمل سے تھوڑا سے پاکستانی بن کر میں نے جواب دیا کہ
میں ” جی پہلے تو میں مسلمان ہوں اور پھر پاکستانی ہوں اس کے بعد کچھ اور ہوں“
یہ جواب میں نے ان کو دیا ایک بار نہیں تین بار دہرایا اب جو کہ میز کے ارد گرد کرسیوں پر جوصاحبان براجمان تھے ان میں سے ایک صاحب نے میرا جواب دہرایا اور موصوف اعلیٰ میری شکل دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے ہوں گے کہ پاگل پاکستانی بنتا پھرتا ہے پاکستانی ہیں کہاں کوئی سندھی تو پنجابی اور بلوچی مہاجر وغیرہ ان میں پاکستانی کون ہے یہ پاگل سرپھرا کہاں سے آگیا بہرحال میرا کام تو ہوگیا لیکن ہمارے تعلیمی اداروں میں بیٹھے حضرات کی یہ سوچ ہے تو قوم کہاں جائے گی قومیت اور نام میں نے اس لئے مخفی رکھا ہے کہ میرا مقصد انارکی پھیلانا نہیں بلکہ یکجہتی کو فروغ دینا ہے ایک پاکستانی بننا ہے پہجان بنانی ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top