شاہنواز عامر
معطل
ٹھیک فرمایا وہ مزدور نہیں پنجاب کےتھے اور سرکاری تھے
ہمت بھیا ، آپ کو پنجاب فوبیا کیوں ہے؟۔اندازہ کرو جو لوگ اپنے گھر (پنجاب) کا یہ حال کریں کہ لوٹ کر کھاجائیں وہ باقی پاکستان کا کیا نہ کریں گے جہاں وہ قابض ہیں۔
پہلے ہی میں کہہ چکا ہوں کہ پنجاب کے کئی صوبے بنادیے جاویں تاکہ وسائل پر قبضہ کا تاثر دور ہو اور دوسرے صوبوں میں لوٹ کھسوٹ بند ہو۔
باقی رہا نا پسندیدہ لوگوں کو پھانسی پر لٹکانا تو یہ کام جاری ہے اس کی جدید مثال اکبر بگٹی ہے اور بڑی مثال بھٹو۔ یہ کام کب رکا ہے بلوچستا ن اور سرحد میں جاری ہے ۔ انجام اسکا وہی ہے جو بنگال میں ہوا
کیوں کہ وہ پنجاب کا نہیں ہےہمت بھیا ، آپ کو پنجاب فوبیا کیوں ہے؟۔
ہمت بھیا ، آپ کو پنجاب فوبیا کیوں ہے؟۔
عمران ، یہی تو وہ نکات ہیں جن کا میں نے اجمالی ذکر کیا اور آپ نے مراسلہ بالا میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی۔صوبوں کی تفریق میں جائے بغیر بھی جان سکتے ہیں کہ پاکستان کی 77 فیصد آبادی قصبوں اور گاؤں میں رہتی ہے لیکن ان کو ان کے گھر کے قریب سہولتیں ، تعلیم ، انصاف اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی بجائے چند بڑے شہروں کے مخصوص علاقوں کو "پیرس" بنانے کا کام جاری ہے۔او جناب یہاں کونسا دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ 10 سال بعد گیا تھا میں اپنے شہر ۔ایک چوک بنا ہے جس میں فوارہ لگایا تھا جو چلتا نہیں ہے شاید 2-1 لاکھ کا بنا ہو گا اور ایک گرلز کالج بنا جو اس وقت بھی پلان میں تھا جب میں بچہ تھا ۔ اسپتال - تھانہ -ٹاؤن کمیٹی - بس اڈا - ویٹرنری ہسپتال -ایکسچینج سب بالکل وہی تھا جو میں نے 10 سال پہلے چھوڑا تھا ۔ 50 اور 60 کی دہائی میں بنائی گئی عمارتیں تھی ویسی کی ویسی بلکہ مزید بوسیدہ ۔ سٹرکیں ساری کھدی پڑی تھی پوچھا ایسا کیوں ہے 10 سال پہلے تو یہ اچھی تھی ۔جواب ملا بھائی ٹھیکیدار درمیان میں چھوڑ گیا ہے اب تو 3 سال ہو چکے سارا شہر 4 سڑکوں کا ہے جس میں سے 3 کھدی پڑی ہیں 3 سال سے کوئی پرسان حال نہیں ۔ گورمنٹ کی کوئی بلڈنگ نئی نہیں بنی تھی 10 سال میں نا ہی کسی کی تزین و آرائش کی گئی تھی ۔ ریسٹ ہاؤس تھا ایک 50 سال پرانا جس میں پہلے باغ تھے درخت تھے کیاریاں تھی اس بار جا کر دیکھا تو اجڑ کر گندگی کا جوہڑ بنا کھڑا تھا جو 5-7 اس وقت کوارٹر تھے اب کھنڈر بن چکے تھے ۔ مجھے یاد ہے ہم شہتوت کے درختوں پر کھیلتے اور انہیں کھاتے تھے اب وہاں ان کا نشان تتک نہیں تھا ۔ ہزاروں کی آبادی کے لیے پینے کا کوئی صاف کرنے والا پلانٹ ہے نا اب سیورج کلین کرنے والا جو 10 سال پہلے تھا اب بند پڑا تھا ۔ پورے مشرف کے گولڈن سالوں اور زرداری کے کالے سالوں میں ایک میٹر فٹ پاتھ تک نہیں ملا میرے شہر کو اور یہ پنجاب ہے میں جس جگہ کی بات کر رہا ہوں وہ ملتان سے 75کلم دور ایک چھوٹا سا تاریخی شہر اوچ شریف ہے ۔ کیا ہمارے پاس بندوکیں نہیں ہیں ؟ یا ہمارا دماغ نہیں ہے ؟ پر اسطرح تھوڑی ہوتا ہے کہ محرومی ہے اٹھو آزادی لیں ۔ بنگلہ دیش میں مجیب نے یہی سپنے دکھائے تھے کیا بنا ؟ آج پاکستانی 300 ڈالر سے سٹارٹ کرتے ہیں خلیج میں اور بنگالی 75 ڈالر پر مل جاتے ہیں ۔ سارا پاکستان کونسا فائیو سٹار ہو گیا اور بلوچ رہ گئے ؟ یہ مسئلہ 3-4 قبائل اور حکومت کی لڑائی کا ہے نا کہ کچھ اور ۔کوئی ان میں سے یہ بھی بتائے آزاد تو اب بھی ہو اگر بفرض ایک آزاد ملک بنا دیا جائے تو کیا کرو گے آگے ؟ کچھ بھی نہیں ہو گا مزید پیچھے جائیں گے اور کیا ۔ میرے لیے ہر وہ بندہ جو ملک توڑنے کی کوشش کرے اس کی سزا موت ہے اور اسی دن دینی چاہیے ۔
میرا خیال ہے کہ یہی کافی ثبوت ہے کہ اس سوال کا مقصد یہی جاننا تھا کہ آپ پاکستانی ہیں یا نہیں۔ ورنہ آپ کا کام نہ ہو پاتا لازمی نہیں کہ گلاس آدھا خالی دکھائی دے۔ گلاس کو آدھا بھرا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بالکل مفت اور ذہنی سکون بھی ملے گا۔مجھے کراچی یونیورسٹی سے ایک مارک شیٹ نکلوانی تھی تو بہت بھاگ دوڑ کے بعد مجھے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے پاس جانا نصیب ہوا میں دفتر ھذا کے اند ر داخل ہوا تو وہاں جناب کا نام مخفی رکھ رہا ہوں اور قومیت بھی 22 گریٹ کے افسر اعلیٰ ایک کرسی پر براجمان نظر آئے اور ان کے سامنے ایک لمبی میز تھی میز کے دونوں اطراف کچھ صاحبان بھی کرسیوں پر براجمان تھے میں اندر داخل ہوا اور جیسا کہ ایک انسان ہونےکے ناطے میری عادت ہے کہ جاتے ہی مصافحہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں یہی میں نے یہاں بھی کیا تو مجھے یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ ان موصوف اعلیٰ نے مصافحہ کرنے کی بجائے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا کہ کہیں خدانخواستہ مجھے چھوت کی بیماری تو نہیں ہے -
اس دوران میرے ان کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ جوں کا توں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتا ہوں-
موصوف اعلیٰ ” کیا نام ہے؟
میں”شاہنواز“
موصوف اعلیٰ” پہلے بتاؤ کہ کون ہو؟“
میں یہ بات سن کر چند لمحات کےلئے گم صم سا ہوگیا پھر ہمت کی
میں” جی کیا مطلب“
موصوف اعلیٰ ” مطلب کہ پنجابی، سندھی، بلوچی یا مہاجر“
میں یہ سن کرپریشان ہوگیا کہ جس کام کے لئے میں آیا ہوں اگر ان میں سے کوئی ان کو پسند نہ آیا تو کیا میرا کام نہیں ہوگا تو پھر ذرا ٹھہر کر تحمل سے تھوڑا سے پاکستانی بن کر میں نے جواب دیا کہ
میں ” جی پہلے تو میں مسلمان ہوں اور پھر پاکستانی ہوں اس کے بعد کچھ اور ہوں“
یہ جواب میں نے ان کو دیا ایک بار نہیں تین بار دہرایا اب جو کہ میز کے ارد گرد کرسیوں پر جوصاحبان براجمان تھے ان میں سے ایک صاحب نے میرا جواب دہرایا اور موصوف اعلیٰ میری شکل دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے ہوں گے کہ پاگل پاکستانی بنتا پھرتا ہے پاکستانی ہیں کہاں کوئی سندھی تو پنجابی اور بلوچی مہاجر وغیرہ ان میں پاکستانی کون ہے یہ پاگل سرپھرا کہاں سے آگیا بہرحال میرا کام تو ہوگیا لیکن ہمارے تعلیمی اداروں میں بیٹھے حضرات کی یہ سوچ ہے تو قوم کہاں جائے گی قومیت اور نام میں نے اس لئے مخفی رکھا ہے کہ میرا مقصد انارکی پھیلانا نہیں بلکہ یکجہتی کو فروغ دینا ہے ایک پاکستانی بننا ہے پہجان بنانی ہے
مایوسی پھیلانا مایوس اور ناکام لوگوں کا کام ہے ۔ جب پاکستان کی تحریک قائد اعظم محمد علی جناح چلا رہےتھے تو لوگوں نے کہا تھا یہ ایک دیوانے کاخواب ہےجو دیکھا جاسکتا ہے لیکن پورا نہیں ہو سکتا۔ پھرسبز ہلالی پرچم والا پاکستان دنیا کے نقشے پر اس انداز میں ابھرا کہ دنیا کی پہلی اسلامی اٹامک پاور کا شرف حاصل کیا۔ لیکن کافروں سے ایک اسلامی ملک کا ایٹمی پاور بننا برداشت نہیں ہو رہا اس لئے وہ مایوسی پھیلا کر ہم میں پھوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔بلوچستان کا مسئلہ وہاں کے چند وڈیروں کا پیدا کردہ ہے۔ اگر بلوچستان (خدانخواستہ) کو الگ کر دیا جاتا ہے تو وہاں کی عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے۔ کیونکہ اس صورتحال میں عوام مکمل طور پر ان وڈیروں کے رحم و کرم پر ہونگے جو بلوچوں پر اپنی شخصی حکومت قائم کرنے کا خواہاں ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے
کوئی چیز ہمیشہ قائم و دائم نہیں رہ سکتی -
اللہ کے کچھ قانون ہوتے ہیں
میری زبان نہ کھلوائیں میں تو بہت کچھ ہوتا دیکھ رہاہوں
آزادی نہ سرحدوں کی وجہ سے ہوتی ہے نہ سمندر کی وجہ سے ۔ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ وگرنہ امریکی ریڈانڈین بنتے نہ ایب اوریجنل ہزاروں میل کے فاصلے پر رہنے والے لوگوں کے غلام بنتے نہ ہی انڈیا انگریز کی چاکری کرتا
ریڈ انڈین کا تعلق امریکہ سے تھا۔ آپ کی بتائی گئی فلم بھی امریکہ سے متعلق ہے۔ خود ریڈ انڈینز ہزاروں برس پیشتر دوسرے خطوں سے ہجرت کر کے آئے تھے۔dریڈ انڈین یورپ کے اصل باشندے تھے اور اس موضوع پر پہلے ایک ٹی وی سیریل بھی بن چکی ہے جس کا عنوان تھا How the west was won
تو جناب وہ سیریل دیکھیں تو پتہ چلے کہ خود انہوں نے اصل باشندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا