آزاد بلوچستان

بلوچستان آزادی کی جانب گامزن قصوروار کون حکومت؟

  • ہاں

    Votes: 2 33.3%
  • نہیں

    Votes: 4 66.7%

  • Total voters
    6
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ساجد

محفلین
اندازہ کرو جو لوگ اپنے گھر (پنجاب) کا یہ حال کریں کہ لوٹ کر کھاجائیں وہ باقی پاکستان کا کیا نہ کریں گے جہاں وہ قابض ہیں۔
پہلے ہی میں کہہ چکا ہوں کہ پنجاب کے کئی صوبے بنادیے جاویں تاکہ وسائل پر قبضہ کا تاثر دور ہو اور دوسرے صوبوں میں لوٹ کھسوٹ بند ہو۔
باقی رہا نا پسندیدہ لوگوں کو پھانسی پر لٹکانا تو یہ کام جاری ہے اس کی جدید مثال اکبر بگٹی ہے اور بڑی مثال بھٹو۔ یہ کام کب رکا ہے بلوچستا ن اور سرحد میں جاری ہے ۔ انجام اسکا وہی ہے جو بنگال میں ہوا
ہمت بھیا ، آپ کو پنجاب فوبیا کیوں ہے؟۔
 
میں بار بار عرض کر چکا ہوں کہ ایک پاکستانی کی بات کریں ہم کچھ نہیں ہیں صرف اور صرف پاکستانی ہیں ایک ہوکر پورے پاکستان کے بارے میں سوچو ہمارا گرم موضوع ہے کہ بلوچستان کو اتحاد میں کیسے رکھا جائے گا
 
ہمت بھیا ، آپ کو پنجاب فوبیا کیوں ہے؟۔

بلکہ میں تو پاکستان کومضبوط کرنے کی بات کرتا ہوں
ہمیشہ میں نے یہ کہا ہے کہ پاکستان دو صورت میں مضبوط ہوسکتا ہے۔ (1) پاکستان اپنے اس نظریہ پر واپس اجائے جس کے لیے بنا تھا یا (2) پاکستان میں کئی ریاستیں وجودمیں ائیں جو خودمختار ہوں اور ایک کنفیڈریشن کی شکل میں ہوں
مجھے موجودہ حالات میں صورت نمبر2 قابل عمل لگتی ہے
واضح رہے میں قوم پرست سیاست کا سخت مخالف ہوں مگر زمینی حقائق یہی کہتےہیں جو اوپر لکھاہے
 

شمشاد

لائبریرین
تو کیوں نہ سب صوبوں کو توڑ کر ون یونٹ بنا لیا جائے۔

یہ گورنروں، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں کی فوج ظفر موج سے جان چھوٹے، ان کی جگہ سرکاری ملازمین کام کریں۔
 
کنفیڈریشن تو علیحٰدگی کی جانب قدم بڑھانے کے مترادف ہے گلگت بلتستان ایک کنفیڈریشن کی شکل تو ہے کہ اس کو صوبہ کی شکل دی گئی کیا اس کو ساتھ رکھنے کے جتن نہیں کئے جارہے ہیں تو باقی پاکستان کو موجودہ پاکستان کے تمام علاقےفاٹا سمیت قومی اکائی میں لانا ہوں گے ورنہ نئی کہانیاں جنم لیتی رہیں گی
 

ساجد

محفلین
او جناب یہاں کونسا دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ 10 سال بعد گیا تھا میں اپنے شہر ۔ایک چوک بنا ہے جس میں فوارہ لگایا تھا جو چلتا نہیں ہے شاید 2-1 لاکھ کا بنا ہو گا اور ایک گرلز کالج بنا جو اس وقت بھی پلان میں تھا جب میں بچہ تھا ۔ اسپتال - تھانہ -ٹاؤن کمیٹی - بس اڈا - ویٹرنری ہسپتال -ایکسچینج سب بالکل وہی تھا جو میں نے 10 سال پہلے چھوڑا تھا ۔ 50 اور 60 کی دہائی میں بنائی گئی عمارتیں تھی ویسی کی ویسی بلکہ مزید بوسیدہ ۔ سٹرکیں ساری کھدی پڑی تھی پوچھا ایسا کیوں ہے 10 سال پہلے تو یہ اچھی تھی ۔جواب ملا بھائی ٹھیکیدار درمیان میں چھوڑ گیا ہے اب تو 3 سال ہو چکے سارا شہر 4 سڑکوں کا ہے جس میں سے 3 کھدی پڑی ہیں 3 سال سے کوئی پرسان حال نہیں ۔ گورمنٹ کی کوئی بلڈنگ نئی نہیں بنی تھی 10 سال میں نا ہی کسی کی تزین و آرائش کی گئی تھی ۔ ریسٹ ہاؤس تھا ایک 50 سال پرانا جس میں پہلے باغ تھے درخت تھے کیاریاں تھی اس بار جا کر دیکھا تو اجڑ کر گندگی کا جوہڑ بنا کھڑا تھا جو 5-7 اس وقت کوارٹر تھے اب کھنڈر بن چکے تھے ۔ مجھے یاد ہے ہم شہتوت کے درختوں پر کھیلتے اور انہیں کھاتے تھے اب وہاں ان کا نشان تتک نہیں تھا ۔ ہزاروں کی آبادی کے لیے پینے کا کوئی صاف کرنے والا پلانٹ ہے نا اب سیورج کلین کرنے والا جو 10 سال پہلے تھا اب بند پڑا تھا ۔ پورے مشرف کے گولڈن سالوں اور زرداری کے کالے سالوں میں ایک میٹر فٹ پاتھ تک نہیں ملا میرے شہر کو اور یہ پنجاب ہے میں جس جگہ کی بات کر رہا ہوں وہ ملتان سے 75کلم دور ایک چھوٹا سا تاریخی شہر اوچ شریف ہے ۔ کیا ہمارے پاس بندوکیں نہیں ہیں ؟ یا ہمارا دماغ نہیں ہے ؟ پر اسطرح تھوڑی ہوتا ہے کہ محرومی ہے اٹھو آزادی لیں ۔ بنگلہ دیش میں مجیب نے یہی سپنے دکھائے تھے کیا بنا ؟ آج پاکستانی 300 ڈالر سے سٹارٹ کرتے ہیں خلیج میں اور بنگالی 75 ڈالر پر مل جاتے ہیں ۔ سارا پاکستان کونسا فائیو سٹار ہو گیا اور بلوچ رہ گئے ؟ یہ مسئلہ 3-4 قبائل اور حکومت کی لڑائی کا ہے نا کہ کچھ اور ۔کوئی ان میں سے یہ بھی بتائے آزاد تو اب بھی ہو اگر بفرض ایک آزاد ملک بنا دیا جائے تو کیا کرو گے آگے ؟ کچھ بھی نہیں ہو گا مزید پیچھے جائیں گے اور کیا ۔ میرے لیے ہر وہ بندہ جو ملک توڑنے کی کوشش کرے اس کی سزا موت ہے اور اسی دن دینی چاہیے ۔
عمران ، یہی تو وہ نکات ہیں جن کا میں نے اجمالی ذکر کیا اور آپ نے مراسلہ بالا میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی۔صوبوں کی تفریق میں جائے بغیر بھی جان سکتے ہیں کہ پاکستان کی 77 فیصد آبادی قصبوں اور گاؤں میں رہتی ہے لیکن ان کو ان کے گھر کے قریب سہولتیں ، تعلیم ، انصاف اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی بجائے چند بڑے شہروں کے مخصوص علاقوں کو "پیرس" بنانے کا کام جاری ہے۔
میں فیروز پور روڈ پر رہتا ہوں اور لاہور میں ڈویلپمنٹ کا سب سے زیادہ کام اسی روڈ پر ہو رہا ہے۔ پچھلے 4 سال میں یہ علاقہ اس قدر بدل چکا ہے کہ آنکھیں حیران رہ جائیں۔ ذاتی طور پہ میرے اور دیگر لاہور باسیوں کے لئے یہ بات بڑی خوش آئند ہے لیکن ملک اور عوام کی مجموعی صورت حال اس سے عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے ، خاص طور پر ان حقائق کو مد نظر رکھ کر دیکھیں جو آپ نے اپنے مراسلہ میں بیان کئے ہیں کہ آپ کے علاقہ میں تنزلی کو فروغ ملا ہے۔ اب اس تنزلی کی انتہا دیکھئے کہ جو گیس ملک کے اکثر حصوں میں آسانی سے ملتی ہے وہ بلوچستان کے باسیوں کے نصیب میں شاذ ہی ہے۔ گوادر سٹی کا انتظام و انصرام کراچی سے چلایا جا رہا ہے۔ دیگر بھی درجنوں عوامل ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ ان کم ترقی یافتہ علاقوں کی اس بری حالت کے سب سے بڑے ذمہ دار ان کے منتخب ایم پی اے اور ایم این اے ہیں ، جو بہ الفاظ دیگر اسمبلیوں کے رکن ہونے کے ناطے حکومت ہی ہیں، جو ووٹ تو اپنے علاقے سے لیتے ہیں لیکن لاہور ، کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں کوٹھیاں بنا کر رہتے ہیں۔ وہ عوام میں جا کر ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کو اپنا کمی سمجھتے ہیں۔ اپنے علاقے اور عوام کی تعلیم ان کے لئے گھاٹے کا سودا ہوتی ہے کیوں کہ تعلیم لوگوں میں حقوق کا شعور بیدار کرتی ہے۔ یہی بات آپ کے مراسلے میں بھی بیان کی گئی ہے۔ جب عوام محرومی کا شکار ہو کر غصے کا اظہار کرتے ہیں تو یہ ڈرامہ باز خود بدعنوانی سے با زآنے کی بجائے عوام کو علیحدہ صوبے یا آزاد ملک کی تشکیل کا خواب دکھا کر انہیں روشن مستقبل کا لالچ دیتے ہیں۔ان تقسیموں کے پیچھے ان کی عیاری کار فرما ہے۔ اور ہماری قومی و صوبائی حکومتیں ان عیاروں کے چنگل میں جمہوریت کے نعرے بلند کرنے کے بے وقوفانہ نعرے بلند کر رہی ہیں۔ یہ نہ تو جمہوریت ہے نہ انسانیت۔
جب تک ہم ایسے اقدامات سے خود کو غیر مستحکم اور اپنی عوام کو غیر مطمئن کرتے رہیں گے تب تک اس مرکز گریزی کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا اور نہ ہی بیرونی ممالک کو پاکستان میں علیحدگی کے بیج بونے سے باز رکھا جا سکتا ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ان تلخ حقیقتوں کو تسلیم کر کے ان کا فوری حل نکالا جائے۔
 
اس کے بعد کیا ہوگا خود کسی کے غلام بن جائیں گے جیسے بنگلہ دیش انڈیا یا برما اور انڈیا نیپال کے ساتھ بھی یہی کہانی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
وہ ون یونٹ تو نہیں تھا، دو یونٹ تھے اور دونوں میں ہزاروںمیل کا فاصلہ تھا اور اس فاصلے میں کون تھا، آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے کراچی یونیورسٹی سے ایک مارک شیٹ نکلوانی تھی تو بہت بھاگ دوڑ کے بعد مجھے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے پاس جانا نصیب ہوا میں دفتر ھذا کے اند ر داخل ہوا تو وہاں جناب کا نام مخفی رکھ رہا ہوں اور قومیت بھی 22 گریٹ کے افسر اعلیٰ ایک کرسی پر براجمان نظر آئے اور ان کے سامنے ایک لمبی میز تھی میز کے دونوں اطراف کچھ صاحبان بھی کرسیوں پر براجمان تھے میں اندر داخل ہوا اور جیسا کہ ایک انسان ہونےکے ناطے میری عادت ہے کہ جاتے ہی مصافحہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں یہی میں نے یہاں بھی کیا تو مجھے یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ ان موصوف اعلیٰ نے مصافحہ کرنے کی بجائے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا کہ کہیں خدانخواستہ مجھے چھوت کی بیماری تو نہیں ہے -
اس دوران میرے ان کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ جوں کا توں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتا ہوں-
موصوف اعلیٰ ” کیا نام ہے؟
میں”شاہنواز“
موصوف اعلیٰ” پہلے بتاؤ کہ کون ہو؟“
میں یہ بات سن کر چند لمحات کےلئے گم صم سا ہوگیا پھر ہمت کی
میں” جی کیا مطلب“
موصوف اعلیٰ ” مطلب کہ پنجابی، سندھی، بلوچی یا مہاجر“
میں یہ سن کرپریشان ہوگیا کہ جس کام کے لئے میں آیا ہوں اگر ان میں سے کوئی ان کو پسند نہ آیا تو کیا میرا کام نہیں ہوگا تو پھر ذرا ٹھہر کر تحمل سے تھوڑا سے پاکستانی بن کر میں نے جواب دیا کہ
میں ” جی پہلے تو میں مسلمان ہوں اور پھر پاکستانی ہوں اس کے بعد کچھ اور ہوں“
یہ جواب میں نے ان کو دیا ایک بار نہیں تین بار دہرایا اب جو کہ میز کے ارد گرد کرسیوں پر جوصاحبان براجمان تھے ان میں سے ایک صاحب نے میرا جواب دہرایا اور موصوف اعلیٰ میری شکل دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے ہوں گے کہ پاگل پاکستانی بنتا پھرتا ہے پاکستانی ہیں کہاں کوئی سندھی تو پنجابی اور بلوچی مہاجر وغیرہ ان میں پاکستانی کون ہے یہ پاگل سرپھرا کہاں سے آگیا بہرحال میرا کام تو ہوگیا لیکن ہمارے تعلیمی اداروں میں بیٹھے حضرات کی یہ سوچ ہے تو قوم کہاں جائے گی قومیت اور نام میں نے اس لئے مخفی رکھا ہے کہ میرا مقصد انارکی پھیلانا نہیں بلکہ یکجہتی کو فروغ دینا ہے ایک پاکستانی بننا ہے پہجان بنانی ہے
میرا خیال ہے کہ یہی کافی ثبوت ہے کہ اس سوال کا مقصد یہی جاننا تھا کہ آپ پاکستانی ہیں یا نہیں۔ ورنہ آپ کا کام نہ ہو پاتا :) لازمی نہیں کہ گلاس آدھا خالی دکھائی دے۔ گلاس کو آدھا بھرا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بالکل مفت اور ذہنی سکون بھی ملے گا۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
بدقسمتی سے پاکستان پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے
کوئی چیز ہمیشہ قائم و دائم نہیں رہ سکتی -
اللہ کے کچھ قانون ہوتے ہیں
میری زبان نہ کھلوائیں میں تو بہت کچھ ہوتا دیکھ رہاہوں

آزادی نہ سرحدوں کی وجہ سے ہوتی ہے نہ سمندر کی وجہ سے ۔ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ وگرنہ امریکی ریڈانڈین بنتے نہ ایب اوریجنل ہزاروں میل کے فاصلے پر رہنے والے لوگوں کے غلام بنتے نہ ہی انڈیا انگریز کی چاکری کرتا
مایوسی پھیلانا مایوس اور ناکام لوگوں کا کام ہے ۔ جب پاکستان کی تحریک قائد اعظم محمد علی جناح چلا رہےتھے تو لوگوں نے کہا تھا یہ ایک دیوانے کاخواب ہےجو دیکھا جاسکتا ہے لیکن پورا نہیں ہو سکتا۔ پھرسبز ہلالی پرچم والا پاکستان دنیا کے نقشے پر اس انداز میں ابھرا کہ دنیا کی پہلی اسلامی اٹامک پاور کا شرف حاصل کیا۔ لیکن کافروں سے ایک اسلامی ملک کا ایٹمی پاور بننا برداشت نہیں ہو رہا اس لئے وہ مایوسی پھیلا کر ہم میں پھوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔بلوچستان کا مسئلہ وہاں کے چند وڈیروں کا پیدا کردہ ہے۔ اگر بلوچستان (خدانخواستہ) کو الگ کر دیا جاتا ہے تو وہاں کی عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے۔ کیونکہ اس صورتحال میں عوام مکمل طور پر ان وڈیروں کے رحم و کرم پر ہونگے جو بلوچوں پر اپنی شخصی حکومت قائم کرنے کا خواہاں ہیں۔
یہ پاکستان اولیاء کرام کی دعاؤں کا ثمر ہے آج بھی ان اولیاء کرام کا سبز ہلالی پرچم پر سایہ ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ یہ قائم رہے گا اس کو مٹانے والے اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ انشاءاللہ۔ اسلام زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد۔
 

عثمان

محفلین
یہ پانچ منٹ کی ایک انیمیشن ویڈیو ہے۔ جس میں یورپ کی رومن ایمپائر سے لے کر اب تک کی جغرافیائی تاریخ محض بدلتی لکیروں سے دیکھائی گئی ہے۔
ان میں بھی کبھی لوگ بستے ہونگے جن کی کل شناخت ان سرحدوں سے وابستہ ہوگی۔ جن کے کل جذبات ، کل تمنائیں ، کل دعائیں ، ان لکیروں پر قائم ریاستوں کے لئے وقف ہونگی۔ ان کے پاس بھی اپنے ملک کے خوشنما مستقبل کے لئے کیسے کیسے خواب ہونگے ، نہ جانے کتنی اور کیسی کیسی بشارتیں ہونگی جو ان کے اولیاؤں نے انھیں دی ہونگی۔ ایک ایک لکیر کے بدلنے میں کتنی کتنی جنگیں ہوئی ہونگی۔ کیسی کیسی سازشیں ترتیب دی گئی ہونگی۔ آبادیوں کی آبادیاں ، وسائل کے وسائل ان پر صرف ہوئے ہونگے۔ انھیں بھی کامل ترین یقین ہوگا کہ ان کی شناخت ، پہچان ، فخر ، قوم ، ملک اور ریاست ہزاروں برس رہنے والی ہیں۔ لیکن محض دو ہزار سال میں کتنی لکیریں بدلتی ہیں ، اور ان لکیروں کے پیچھے کتنا کچھ بدلتا ہے۔ شمار مشکل ہے۔
عروج و زوال ، تعمیر و تخریب ، ہجرت و حرکت کے قوانین فطرت اپنے عروج پر ، ایک نئے انداز، ایک نئے پہلو کے ساتھ!

 
dریڈ انڈین یورپ کے اصل باشندے تھے اور اس موضوع پر پہلے ایک ٹی وی سیریل بھی بن چکی ہے جس کا عنوان تھا How the west was won
تو جناب وہ سیریل دیکھیں تو پتہ چلے کہ خود انہوں نے اصل باشندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا
 

عثمان

محفلین
dریڈ انڈین یورپ کے اصل باشندے تھے اور اس موضوع پر پہلے ایک ٹی وی سیریل بھی بن چکی ہے جس کا عنوان تھا How the west was won
تو جناب وہ سیریل دیکھیں تو پتہ چلے کہ خود انہوں نے اصل باشندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا
ریڈ انڈین کا تعلق امریکہ سے تھا۔ آپ کی بتائی گئی فلم بھی امریکہ سے متعلق ہے۔ خود ریڈ انڈینز ہزاروں برس پیشتر دوسرے خطوں سے ہجرت کر کے آئے تھے۔
 
______________________امریکہ کی مذمت کی بجائے بلوچستان میں ظلم بند کریں !_
ان سب کی جدوجہد اگرچہ آزاد بلوچستان کے لئے ہے ، مگر ظاہر ہے طریقہ کار میں فرق ہے، سپانسر بھی مختلف ہیں اور آپس میں لڑائیاں بھی ۔ مجھے کبھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ بلوچستان مشرقی پاکستان بن سکے گا، اس کی کئی وجوہات ہیں، سب سے اہم کہ جس تحریک میں اتنی فراست ہی نہ ہو کہ اپنے صوبے کی اہم ترین ابادی کو ساتھ ملا لے، وہ کیسے کامیاب ہوسکتی ہے؟ جو تحریک اخلاقی برتری سے محروم ہوجائے ، اسے تاریخی طور پر تو ہمیشہ ناکامی ہی دیکھنی پڑی ہے، پھر تیسرا اہم فیکٹر جغرافیائی مشکلات ہیں، ان کی آزادی کسی بھی ریجنل ملک کو وارے نہیں کھاتی ۔
بلوچستان کا ایک بہت اہم فریق پشتون ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ بات رواروی میں کہہ دیتے ہیں کہ پورے بلوچستان میں کہیں پر قومی جھنڈا نہیں لہرایا جا سکتا یا پورا بلوچستان جل رہا ہے۔ پوری ذمہ داری سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ پشتون ایک فیصد بھی بلوچ مسلح جدوجہد یا بلوچ قوم پرست تحریک کے ساتھ نہیں۔ بلکہ درست لفظوں میں خود بلوچ مزاحمت کاروں نے بھی پشتونوں کو ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی۔ عدم اعتماد اس قدر زیادہ ہے کہ پشتونوں کے سب سے بڑے قبیلے جوگیزئی کے ایک ممتاز سردار سے میں نے پوچھا کہ آپ لوگ بلوچوں کا ساتھ کیوں نہیں دے رہے، انہوں نے برجستہ جواب دیا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ سیٹلرز کے بعد اگلا نشانہ ہم ہی ہوں گے۔ کاکڑ سے لے کر تمام اہم پشتون قبیلے بلوچ تحریک سے یکسر لاتعلق ہیں۔
ویسے جب پشتونوں کی بات کریں گے تو ہم پشتون قوم پرست میپ کے ساتھ ساتھ مولوی صاحبان کا بھی ذکر لازمآ کریں گے، جن کی اپنی اہم پاور پاکٹس ہیں، اب تو خیر جے یوآئی نظریاتی بھی تشکیل پا چکی ہے۔ مولوی صاحبان کو اپنے کردار کی بنا پر تنقید کا نشان بنایا جاتا ہے ، مگر بلوچستان میں ان کا کردار بڑا اہم ہے کہ وہ ہمیشہ وفاقی سیاست کرتے ہیں۔ایک فریق بلوچ روایتی سردار بھی ہیں۔ خان آف قلات تو خیر باہر ہیں اور آزاد بلوچستان کا نعرہ لگاتے پھر رہے ہیں، مگر قبائلی اعتبار سے یعنی پرانی ترتیب کے مطابق جام آف لسبیلہ دوسرے نمبر پر آتے ہیں، پھر چیف آف جھالاوان اور چیف آف ساروان ہیں۔ جام لسبیلہ تو جام یوسف ہیں، ان کا نقطہ نظر سب کو معلوم ہی ہے، لسبیلہ ویسے بھی مزاحمتی فالٹ لائن سے قدرے ہٹ کر ہے۔ چیف آف جھالاوان ثنا اللہ زہری ہیں جو مسلم لیگ ن میں شامل ہیں، چیف آف ساراوان نواب رئیسانی ہیں جو وزیراعلیٰ ہیں۔ ان کے علاوی تین اہم سرداروں میں خیر بخش مری، بگٹی سردار اور مینگل شامل ہیں۔ سردار خیر بخش کا تو سب کااندازہ ہے ہی، بگٹی سرداری عجیب مخمصے میں پڑی ہوئی ہے، مینگل سردار عطااللہ نے البتہ میان نواز شریف سےملاقات کے بعد بی بی سی کو جو انٹرویو دیا ،وہ بڑا حوصلہ افزا تھا۔
اس پہلو سے کسی نے لکھا یا کہا نہیں مگر مجھے سردار مینگل کے اس موقف کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلق ان کے سیاسی مخلاف سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے نوجوان صاحبزادے شفیق مینگل کے گھر پر کچھ ہی عرسہ قبل ہونے والا حملہ ہے ، جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے ،مگر شفیق بچ نکلے۔ خیال یہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ شفیق مینگل جو مقتدر حلقوں سے خاصے قریب ہیں، جوابی طور پر لشکر بلوچستان پر بہت زیادہ دبائو ڈال سکتے تھے، جو کہ سردار عطا اللہ مینگل کے تازہ ترین انٹرویو کے بعد تقریبآ ناممکن ہو چکا ہے۔
ایک فریق وہ سردار یا وڈیرے بھی ہیں جو مری، بگٹی اور دیگر قبائل سے تعلق رکھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ یا ریاست کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ دلچسپ حقیقت بھی آپ لوگوں کے علم میں ہوگی کہ مری اور بگتی دونوں سردار اپنے قبیلے کی ذیلی اقلیتی شاخوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بڑی شاخوں کے سردار اب ان کے مخالف ہوچکے ہیں۔ مری قبیلے کی سب سے بڑی شاخ بجارانی نواب خیر بخش کی نہ صرف مخالف ہو چکی ہے بلکہ ان کے مابین ایک دوسرے کے لوگ قتل کرنے کے الزام بھی لگ چکے ہیں، اپنے مخالفوں کو قتل کرنے کے الزام میں بوڑھے خیربخش مری کو چند ماہ تک قید بھی رہنا پڑا۔ دوسری طرف نواب بگٹی رائجہ بگٹی تھے ،مگر کلپر اور مسوری بگٹی دونوں بڑی شاخین اس وقت براہمداغ کے مخالف ہیں۔ کلپروں کے ساتھ تو خود نواب بگٹی نے بہت کچھ کر لیا تھا، مسوریوں کے ساتھ اب براہمداغ کی شدید دشمنی ہے ۔
اس وقت مسوریوں کا سردار میر دائود ہی سوئی میں بیٹھا ہے ، اس سے پہلے وہاں عالی بگتی کو سرکار والے لے گئے تھے ، مگر عالی اس وقت غالبآ کراچی میں ہیں۔ دوسری طرف کوہلو میں بجارانی مریوں کا کنٹرول ہے ۔ یہ سردار جو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دے رہے ہیں، یہ بھی اس تنازع کا ایک فریق ہیں ۔ انہیں یہ شکوہ ہے کہ ریاست ان کو ا ستعمال کرتی ہے، وہ اپنے بچے مرواتے ہیں، مخالفتیں مول لیتے ہیں ،مگر پھر مذاکرات کے بعد ان کے دشمن سرداروں کو تمام تر اختیارات دے کر دوبارہ پہلی جیسی جگہ دے دی جاتی ہے۔ بعض ایسے قبائل بھی ہیں جو کچھ عرصہ قبل مزاحمت کاروں کے ساتھ تھے ، مگر اب مختلف وجوہات کی بنا پر وہ فورسز کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان میں لانگو قبیلہ بھی شامل ہے، یادر ہے کہ رازق بگٹی کا قتل ایک لانگو جنگجو -ہی نے کیا تھا۔
اب آ جائیں اہم ترین فریق ،یعنی ریاست کی جانب ، ویسے تو صوبائی حکومت بھی اس کا حصہ ہے ، مگر موجودہ حکومت تو خیر حکومت کہلوانے کی مستحق نہیں، تاہم ماضی میں بھی اصل فیصلے اسٹیبلشنٹ ہی کرتی رہی ہے ریاست کی جانب سے ۔ اسٹیبلشمنٹ کا سب سے افسوسناک اور قابل مذمت کردار مسنگ پرسن کا ہے۔ اس رویے کی کسی بھی صورت مین جواز نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ قانون پر ہر حال میں عمل ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت قتل کی کسی صورت جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ عدالتیں اس حوالے سے شائد کچھ کر سکیں ۔ ایف سی کے رویے پر بھی تنقید ہوتی ہے۔ آئی ایس آئی کا بھی ایک خاص کردار ہے۔ اگرچہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فری ہینڈ نہیں دیا جاتا ، کبھی مذاکرات کی بات ہوتی ہے ، تو کبھی آپریشن کی، کبھی دہشت گردوں یا انتہا پسندوں کوختم کرنے کے لئے دبائو ڈالا جاتا ہے تو کبھی ان پر ہاتھ ہولا رکھنے کا کہا جاتا ہے۔ یوں کچھ بھی نہیں ہو رہا اور بدنامی ہی حصہ بن رہی ہے۔
ایک فریق سیٹلرز بھی ہیں۔ سب سے مظلوم اور کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ غیر اہم مخلوق۔ بارہ سو افراد پچھلے چار برسوں میں قتل ہوچکے ہیں۔ ان میں نائی، دھوبی، مزدوروں سے لے کر ٹیچر ،ڈاکٹر تک سب شامل ہیں۔ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان بے گناہ مرنے والوں کی ہی مذمت کر دے۔ ایک بھی بلوچ قوم پرست سردار کو ایسا کرنے کی اخلاقی جرات نہیں ہوئی نہ ہی نام نہاد ہیومن رائٹس این جی اوز نے ان کے لئے آوازاٹھائی۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو بیس پچیس تیس برسوں سے وہاں رہ رہے تھے ، کئی تو نصف صدی سے بھی زائد مگر اچانک ہی سب سیٹلرز قرار پائے۔ ان میں وہ سرائیکی بلوچ بھی شامل تھے جو ڈی جی خان ،راجن پور سے محنت مزدوری کرنے بلوچستان گئے تھے۔ ان میں وہ خاتون پروفیسر ناظمہ طالب بھی شامل ہیں جو کراچی سے بلوچستان پڑھانے کے لے آئی تھئں۔ان سب کے قتل عام کو کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ مگر یہ سب مار دیے گئے ، ان کے حوالے سے ایک تضاد یہ بھی ہے کہ ان کی لاشوں کو کبھی کسی نے مسخ لاش نہیں لکھا۔ لاش تو ہر ایک کی چند گھنٹوں بعد مسخ ہو جاتی ہے ،مگر یہ پہلی بار بلوچستان میں دیکھا گیا کہ کسی سرائیکی ، پنجابی یا اردو بولنےو الے سیٹلر کی لاش کسی ویرانے سے ملتی ہے ،مگر اسے مسخ کوئی نہیں کہتا، بلوچ مزاحمت کاروں کی لاشیں البتہ ظاہر ہے مسخ ہی قرار پاتی ہیں۔ ہمارے نزدیک تو دونوں ہی مظلوم اور بے کس ہیں، مگر مذمت کرنے والوں کو دونوں کی کرنی چاہیے۔ یک طرفہ مذمت دیانتداری نہیں ۔
سب سے اہم فریق بلوچ عوام ہیں، جنہیں کبھی کچھ نہیں ملا۔ سرداروں نے بھی زیادتی کی، اسٹیبلشمنٹ نے بھی ، سیاستدانوں نے بھی اور ڈکٹیٹروں نے بھی۔ ریاست کے لئے عوام اولاد کی مانند ہوتے ہیں، بلوچ ایسی اولاد ہے ،جس کے ناز نخرے اٹھائے گئے نہ ہی ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا گیا۔ ان میں تلخی فطری طور پر نمودار ہوئی۔ ان کے اپنے دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں نے زیادہ بڑی زیادتی کی کہ بلوچ قوم کی فکری تربیت ہی نہیں کی، انہیں عمل پر نہین اکسایا، پسماندہ قوموں کی جو خامیاں ہوتی ہین ،جو ہم سرائکیوں مین بھی بدرجہ اتم موجود ہیں، جنہیں دور کرنے کے لئے باقاعدہ تحریک چلانی پڑتی ہے، بلوچ دانشوروں نے ایسا نہیں کیا۔
ان تمام فیکٹرز کی بنا پر میں یہ کہتا ہوں کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل چند فقروں میں پیش کرنا ممکن نہیں۔حل ضرور نکالنا چاہیے ، مگر کیسے ؟ عشروں کی بداعتمادی کو انتا جلد دور نہیں کیا جا سکتا۔ ان مسلح گروپوں سے کیسے مذاکرات ہو سکتے ہیں جو اس کے لئے تیار ہی نہیں ،جو بھارتی یا دیگر قوتوں کے پے رول پر ہیں یاوہاں سے فنڈنگ لیتے ہیں۔ ان سے کیسے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں؟ البتہ شدت پسندوں کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے ، عوام تک ترقی کے ثمرات پہنچا کر ۔ جہاں تک نیا سوشل کنٹریکٹ کا تعلق ہے ، یہ خاکسار ہمیشہ اس کا حامی رہا ہے مگر صرف بلوچوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستانی عوام کے لئے۔ البتہ نئے معاہدہ عمرانی سے کیا مراد ہے، اس کی وضاحت بھی آنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایسی اصطلاح ہے جس کی ہر ایک اپنے انداز میں تعبیر وتشریح لے سکتا ہے ۔
 
نئے عمرانی معاہدہ سے مراد نیم خودمختار بلوچستان ہے بلکہ بلوچستان کے بھی دوصوبے بنادیے جائیں جو نیم خودمختار ہوں اوراپنے معاملات کے خودمالک ہوں ۔ ویسے ہی جیسے کراچی اور حیدراباد اور سکھر پر مشتمل نئی ریاست ہو جو نیم خودمختار ہو
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top