آزاد بلوچستان

وکیپیڈیا سے
:چھلانگ بطرف رہنمائی, تلاش
لفظ بلوچ کو مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے “بعل”، “بلوچ، بلوص، بلوس ، بلوش، بعوث، بیلوث، بیلوس اور بعلوس لکھا اور استعمال کیا ہے اہل بابل اپنے قومی دیوتا کو بال(بعل) عظیم کہا کرتے تھے یونانیوں نے اسے بیلوس کہا، عہد قدیم میں لفظ بلو چ کو بعلوث اور بیلوث لکھا جاتا تھا، اس کے بعد یہ لفظ بیلوس اور بعلوس کے طور پر تحریر و بیان میں آتا رہا، عرب اسے بروج، بلوص اور بلوش ادا کرتے ہیں اور ایرانی اسے بلوچ لکھتے اور بولتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایرانی لفظ بلوچ رائج ہے۔
اصل میں لفظ بلوص ہے جسے عربوں نے بلوش اور ایرانیوں نے بلوچ لکھا اہل ایران” ص” ادا نہیں کرسکتے اس لئے انھوں نے “ص” کو “چ” سے بدل کر اسے بلوچ کی صورت عطا کی اور عربوں نے “ص” کو “ش” سے بدلا۔
لفظ بلوچ کی وجہ تسمیہ نسبی اور سکنی اعتبار سے بھی کی جاسکتی ہے نسبی اعتبار سے بلوص نمرود کا لقب ہے۔ نمرود بابلی سلطنت کا پہلا بادشاہ تھا اور اسے احتراماً بلوص یعنی سورج کا دیوتا پکار ا جاتا تھا یہ وہی نمرود ہے جس نے حضرت ابراہیم ؑ کیلئے آگ کا الاؤ تیار کرایا تھا۔
سردار محمد خان گشکوری کی تحقیق کے مطابق بلوص نمرود کے بعد سلطنت بابل کا دوسرا بڑا شہنشاہ تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صیحح ہے کیونکہ بلوص یعنی سورج کا دیوتا بابل کا پہلا یا دوسرا دونوں بادشاہ ہوسکتے ہیں۔ رالنسن کی تحقیق کے مطابق بھی لفظ بلوچ کا مخرن بلو ص ہی ہے۔
سکنی اعتبار سے بھی بلوچ وادی بلوص کے رہنے والے ہیں۔ یہ وادی شام میں حلب کے قریب ایران کی سر حد کے ساتھ واقع ہے خاص بلوچوں کے نسب کے بارے میں بھی بڑا اختلاف ہے پوٹنگر اور خانیکوف کا خیال ہے کہ یہ ترکمان نسل سے ہیں۔
برٹن ، لینس، اسپیگل اور ڈیمز کا خیال ہے کہ یہ ایرانی نسل سے ہیں سر ٹی۔ ہولڈ چ کا خیال ہے کہ یہ نسلاً عرب ہیں۔ ڈاکٹربیلونے انہیں راجپوت لکھا ہے پروفیسر کین کے خیال میں وہ تاجک نسل سے ہیں ۔ ما کلر نے ثابت کیا ہےکہ بلوچ مکران کے قدیم باشندوں کے باقیات ہیں اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ رند بلوچ نہیں ہیں بلکہ نسلاً عرب ہیں اور االحارث العلافی کی اولاد ہیں سردار محمد خان گشکوری نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ بلوچ کلدانی اور بابلی ہیں اور مشہور حکمران نمرود کی نسل سے ہیں ۔
خود بلوچوں کے پاس ایک نظم کے سوا کوئی قدیم مواد نہیں ۔اس نظم میں آیا ہےکہ وہ امیر حمزہ ؓ کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے ۔ اس میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔ اولامیر حمزہ ؓ ھیئگوں
سوب درگاہ ءَ گو تر انت
اش حلب ءَ پاد کایوں
گوں یزید ءَ جیڑو انت
کلبلا بھمپور مس نیام ءَ
شہر سیستان منزل انت
ترجمہ:
ہم امیر حمزہ کی اولاد ہیں
نصرت ایزدی ہمارے ساتھ ہے
ہم حلب سے اٹھ کر آئے ہیں
یزید سے لڑنے کے بعد کربلا اور بمبور
کا پیچھے چھوڑ کر سیستان کے
شہر میں ہم نے ڈیر ے ڈال دئیے ہیں
بلوچ تاریخ
فردوسی نے شاہنامے میں تین بادشاہوں کے عہد میں بلوچوں کا زکر کیا ہے
اول: کیخسرو
دوم : زرکس
اور سوئم : نوشیروان
عہد کیخسرو:۔(532 ق۔ م) میں بلوچ بحر خضر کے جنوبی ساحلی علاقے اور کوہ البرز کے دامن میں بدؤوں کی طرح رہتے تھے۔ ان میں جو تھوڑے متمدن ہوگئے وہ حکومت اور فوجی خدمت کرنے لگے۔
زرکس کے عہد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے دربار میں اعلیٰ عہد وں پر فائز رہے۔ لیکن بعد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کیلئے خطرہ بن گئے ۔ اس لئے انہوں نے نہایت بے دردی سے ان کے خلاف جو مہم بھیجی تھی اس کا تذکرہ فردوسی نے شاہنامے میں بڑی تفصیل سے کیا ہے گمان ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بلوچوں کی قوت اس علاقے میں ٹوٹ گئی اور مجبوراً جنوب و مشرق کے پہاڑوں میں جاکر رہنے لگے لیکن ڈیمز نے اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” اور گینکووسکی نے اپنی کتاب “پیپل آف پاکستان” میں قیاس کیا ہے کہ سفید ہُنوں کی یورش کی وجہ سے بلوچوں نے بحر خضر کے جنوبی پہاڑوں سے کرمان کی طرف کوچ کیا۔ بہر حال اس سلسلے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاتی کرمان کے بلوچ خانہ بدوشوں کا ذکر عرب سیاحوں ، مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی کیاہے۔
ڈیمز نے بلوچوں کی ہجرت کے بارے میں اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” میں لکھا ہے (ترجمہ کامل القادری)
“یہ بات قرین قیاس ہے کہ بلوچوں نے دومرتبہ نقل مکانی کی اور دونوں بار ہجرت کی وجہ ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحوں کی پیش قدمی تھی پہلی ہجرت اس وقت ہوئی جب فارس میں سلجوقیوں کے ہاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ کرمان چھوڑ کر سیستان اور مغربی مکران کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے ۔ دوسری بار انہوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر مشرقی مکران اور سند ھ کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئ ۔دوسری ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادی سندھ میں قدم رکھا جس سے ان کے لئے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ ہموار ہو ا اور اس آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو ہندوستان کے میدانی علاقوں میں منتشر کردیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لنگ کے حملے اور بابر کی یورش کا زمانہ ہے”
بعض قبیلوں نے قلات پر قابض ہوکر بلوچوں کو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کردیا۔ یہ واقعہ بلوچی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے ۔اس واقعہ کے بعد یہ قوم دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی اور اب مشرقی اور مغربی بلوچوں کے درمیان قلات کے براہوی بھی نظر آتے ہیں۔
محمد سردار خان بلوچ نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ بلوچ روایت کے مطابق امیر جلال خان ان بلوچ میں قبائل کا سردار تھا جو گیارہوں عیسوی میں کرمان کے پہاڑ وں اور لوط کے ریگستان میں رہتے تھے ۔ بلوچوں کی مقبول عام روایات اسی سردار کے عہد سے شروع ہوتی ہیں۔ اس کے چار بیٹے رند ، کورائ ، لاشار، اور ھوت تھے آگے چل کر رند کی اولاد سے امیر چاکر خان رند بن امیر شہک پیدا ہوا ۔جو بلوچ نسل کا عظیم سپوت کہلاتا ہے۔ بلوچوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیا بلکہ ان دنوں جب کہ رسول اللہ مکہ میں بےیار مدد گار تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کرکے رسول اللہ کی حفاظت کے لئے بھیجے اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے۔
جکتہ پنج مرد بلوچیں
گوں رسول£ ءَ شامل ءَ
دوست نماز ءَ کہ پڑھگن
سرہ کننتی پانگی ءَ
جنگ اڑ تہ گوں کفاراں
شہ حساب ءَ زیادھی ءَ
ترونگلی تیر ءِ شلیاں
در کپاں ڈاؤزمی ءَ
جکتیش ایمان مس ہند ءَ
ڈبنگ ءَ نہ اشتش وتی ءَ
تنگویں تاجے بلوچار
داتہ آ روچ ءَ نبی ءَ

ترجمہ:
پانچ بہادر بلوچ
رسول اللہ کی خدمت میں کھڑے تھے
جب خدا کے دوست نماز پڑھتے
تو وہ پہرہ دیا کرتے تھے
جب کفار کے ساتھ لڑائی چھڑی
کفار کا لشکر بے شمار تھا
تیر اولوں کی طرح برسے
اور زمین سے دھواں اٹھنے لگا
مگر وہ ثابت قدم رہے ان کا ایمان قا ئم رہا
دشمن ان کو مغلوب نہ کرسکا
اس دن پاک نبی£ نے
بلوچ کے سر پر طلائی تاج رکھا
بلوچستان کی رومانی کہانیوں کے مطابق بلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے ۔ جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے ۔پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں (پاڑوں) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا ۔ اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے ۔بلوچ سردار نے انہیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انہیں آسانی سے میّسر آگئیں ۔کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے ۔ یہ مسلمہ امرہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے۔ جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی ۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکےا نہیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
پندرھوں صدی عیسویں میں بلوچوں کے دو قبیلوں رندو لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے ۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کردئیے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کر لی ۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوگئی۔
میر چاکر خان رند ایک عظیم بلوچ تھا۔ وہ امیر جلال خان کی اولاد میں سے تھا۔ اس کا شجر نسب یہ ہے ۔ میر چاکر خان بن امیر شہک بن امیر اسحاق بن امیر کا لو بن امیر رند بن امیر جلال خان۔
اس نے خضدار فتح کیا درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ (ان دونوں قبائل کی جنگ نے بھی کئی داستانوں کو جنم دیاہے)
بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔
شہنشاہ بابر نے لکھا ہے “میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا ۔ بھیرے اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے او ر اطاعت کا وعدہ کیا”
1539 ء کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے چونسہ کے مقام پر شکست کھائ اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑے کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔
گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گزرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کرآیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔ جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لئے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سالار میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھا۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ بلوچی زبان میں جتنی بھی کہا نیاں ملتی ہیں وہ سب میر چاکر خان رند کے زمانے یا اس کے بعد کی ہیں ۔ اس سے قبل کے زمانے کی کوئی کہانی موجود بھی ہے یا نہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
زمرہ جات:
 
بلوچ لوگ

وکیپیڈیا سے
:چھلانگ بطرف رہنمائی, تلاش
بلوچ قوم انگریزی زبان والے وکی پیڈیا سے
بلوچ ( بلوچ، بلوش، بلاوش، بالوش) لوگ جو اب پاکستانی بلوچستان اور ایران، افغانستان میں آباد ہیں۔
بلوچوں کو برطانوی راج نے شروع سے مارشل لوگ کہا تھا۔ یاد رہے کہ برطانوی راج ان برطانوی مقبوضہ انڈیا کے ان لوگوں کے بارے میں استعمال کرتا تھا جو جنگ پسند اور دوران جنگ بہت تیز ہوں اور ان میں بہادری، وفاداری، خود پر انحصار، جسمانی مضبوطی، جذبہ، نظم و ضبط، محنتی، جنگ کے دوران ثابت قدم رہنا اور فوجی چالیں جانتے ہوں۔ برطانویوں نے ان لوگوں سے اپنی فوجیں منتخب کیں تاکہ ان کا راج قائم رہے۔بلوچوں کی زبان بلوچی ہے جو شمال مغربی ایرانی زبان ہے اور بلوچوں کو عموما ایرانی النسل مانا جاتا ہے۔ بلوچوں کی بہت بھاری اکثریت مسلمان ہے اور وہ حنفی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں ایک معقول تعدادذکری فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ بلوچوں کی کل تعداد کا ستر فیصد حصہ پاکستان میں رہائش پذیر ہے۔ بیس فیصد ایران میں ہیں۔ بلوچوں کی کل تعداد کا تخمینہ اڑتالیس لاکھ لگایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بلوچوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، سلیمانی اور مکرانی۔ ان دونوں کے درمیان براہوی قبائل کی ایک مضبوط حد موجود ہے۔
جغرافیائی وطن، آبادی اور سب گروپ بلوچی بولنے والی تعداد کا اندازہ ڈیڑھ سے دو کروڑ کے درمیان ہے۔ تاہم حقیقی اعداد وشمار یہ نہیں بتا سکتے کہ اصل بلوچ اور خود کو بلوچ کہلانے والوں کی اصل تعداد کتنی ہے۔ بلوچی بولنے والی تعداد سے کہیں بلوچ موجود ہیں جس کی وجہ سے نقلی بلوچ ان میں گھل مل گئے ہیں۔ براہی بلوچوں کے درمیان بہت عرصے سے رہتے چلے آئے ہیں اور انہوں نے زبان اور جینیاتی اثرات قبول کیے ہیں اور بہت سے مواقع پر دونوں میں فرق کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اگرچہ براہوی اور بلوچ قبائل بہت حد تک گھل مل گئے ہیں تاہم ابھی تک براہویوں کو الگ قبیلہ مانا جاتا ہے ۔ بلوچوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو سرائیکی، سندھی اور براہوی بولتے ہیں۔ اس سے ان کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے بلوچ جو بلوچستان سے باہر رہتے ہیں وہ ایک سے زائد زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور سندھیوں، براہویں ایرانیوں اور پشتونوں سے گھل مل گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے بلوچ صدیوں سے بلوچستان کے باہر آباد ہیں۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک اور خلیج فارس میں بھی ان کی معقول تعداد آباد ہے۔ ان کا اپنا وطن، بلوچستان تین حصوں یعنی پاکستانی بلوچستان، ایرانی بلوچستا ن اور افغانستان کے جنوبی حصوں پر مشتمل ہے۔ کئی مصنفین نے تحقیق کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ بلوچوں کی ابتدا میڈین سلطنت (728قبل مسیح سے550 قبل مسیح) کے دوران ہوئی جب بلوچوں یا کردوں کو مکران اور توران کے علاقوں کی حفاظت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ بلوچوں کی تاریخ کرمان پر سلجوکیوں کے حملے جو کہ گیارہوں صدی میں ہوا تھا، سے بلوچوں نے مشرق کی طرف ہجرت شروع کردی۔ سلجوک رہنما کوورد نے کوفچیوں جو کہ بلوچوں کے پہاڑی چھاپہ مار دستے تھے، کے خلاف مہم بھیجی۔ بلوچوں کو دبانے کے بعد سلجوکوں نے انڈیا کے راستوں پر صحرا میں واچ ٹاور اور کاروان سرائے بنائیں ۔ صفاود کی حکمرانی (1501سے 1736) تک بلوچ باغی رہے۔ انیسویں صدی میں ایران نے مغربی بلوچستان پر قبضہ کی ااور اپنی سرحد بندی 1872 میں کر دی۔ اس کے بعد ایرانیوں نے 1970 کی دہائی سے ڈیم، پن بجلی کے منصوبوں وغیرہ سے اس علاقے میں معیشی ترقی شروع کی جس کو ایرانی اسلامی انقلاب سے سخت دھچکہ پہنچا۔ زبانیں بلوچوں کی قومی زبان بلوچی ہے۔ بلوچستان میں دوسری بڑی زبان براہوی ہے جو کہ دراوڑی زبان ہے۔ کچھ مغربی مفکرین اس مغالطے میں ہیں کہ براہوی بلوچوں سے مختلف ہیں۔ درحقیقت بلوچ ایک بڑی قوم ہے جس میں کئی زبانیں ہیں۔ براہوی بولنے والے خود کو براہوی یعنی براہوی بلوچ کہتے ہیِں۔ بلوچ صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ سندھ، جنوبی پنجاب، بہاولپور، جنوبی افغانستان، شمالی ایران، خلیجی ممالک اور ترکمانستان کے ماری علاقے میں بھی آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔ بلوچ (تالپور/ لغاری) سندھ پر برطانوی راج سے قبل حکمران تھے۔ سندھ اور پنجاب کے بلوچ سندھی اور سرائیکی بولتے ہیں۔ بلوچوں کے مزید دسیوں قبائل ہیں۔ کچھ قبائل براہوی بولتے ہیں۔ کچھ بلوچی بولتے ہیں اور کچھ دونوں زبانیں بولتے ہیں۔ مری اور بگٹی قبائل جو بلوچوں کے بڑے قبائل ہیں، بلوچی بولتے ہیں۔ لانگوو قبیلہ جو کہ وسطی بلوچستان میں رہتا ہے، بلوچی کو مادری اور براہوی کو ثانوی زبان کی طرح بولتے ہیں۔ بزنجو قبیلہ جو کہ خضدار ، نال اور مکوڑہ کے کچھ علاقوں میں آباد ہے، اور محمدثانی قبیلہ بھی دونوں زبانیں استعمال کرتا ہے۔ بنگولزئی قبیلہ براہوی بولتا ہے، گارانی بلوچی بولتے ہیں اور ان کو بلوچی بولنے والی بنگولزئی کہا جاتا ہے۔ مزاری راجن پور میں بلوچوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہیں اور بلوچی بولتے ہیں۔ لغاری جو کہ ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان میں ہیں،سرائیکی بولتےہیں۔سندھ والے لغاری سندھی بولتے ہیں اور سندھ میں دیگر بلوچ قبائل سندھی اور بلوچی بولتے ہیں
زمرہ:
 
اب جبکہ بلوچوں کی تاریخ آپ کے سامنے ہے تو کیا بلوچستان کے رہنے والے وہی بلوچی نہیں ہیں کیا یہ ایرانی بلوچستان اور افغانی بلوچستان اور سندھ پنجاب کے حصوں کو بھی بلوچستان میں شامل کرسکتے ہیں اور جو اصل براہوی بلوچ ہیں وہ کہاں جائیں گے
 
Kiranies.jpg
 

زلفی شاہ

لائبریرین
بہت معلوماتی پوسٹیں ہیں آپ کی۔ اچھی ریسرچ اور محنت کی ہے آپ نے ۔ داد دینے پر ہمیں مجبور کر دیا ہے آپ نے۔ سدا خوش رہیں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
لگے رہو مُنا بھائی۔
جناب! آپ کا لہجہ، آپ کے الفاظ غیر مناسب ہیں۔ جن سے نسلی تعصب کی بو آتی ہے۔ یہ ایک فورم ہے۔ ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ اگر آپ کو اچھا نہیں لگا تو ناپسند کیجئے۔
آپ منتظم ہیں۔ آپ کو کم از کم خیال رکھنا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے کب منع کیا ہے کہ اپنی بات نہ کہیں؟ اور اس میں نسلی تعصب کہاں سے آ گیا؟
 
اصل باہر والوں نے غیر منقسم ہندوستان پر حملے کئے اور مقامی لوگوں کو زور زبردستی اپنے ساتھ ملا کر ان سے غلامانہ رویہ رکھا اور وہ بیچارے اقلیت میں چلے گئے دیکھا جائے تو بلوچستان میں آزادی مانگنے والوں کی اکثریت کم ہے اور پختونوں اور پنجابیوں کی اکثریت زیادہ ہے تو پھر آزادی کس کو مانگنی چاہیے
 
جی ہاں بلوچستان میں کوئٹہ پسنی گوادر تربت قلات اور اسی طرح دوسرے علاقوں میں تو پنجابی بڑی تعداد میں ہیں اس کا بھی ثبوت دے دوں گا اور میرا فورم صوبہ جات کو فوراً بحال کیا جائے اس کو مقفل سے غیر مقفل کیا جائے
 

میر انیس

لائبریرین
جی ہاں بلوچستان میں کوئٹہ پسنی گوادر تربت قلات اور اسی طرح دوسرے علاقوں میں تو پنجابی بڑی تعداد میں ہیں اس کا بھی ثبوت دے دوں گا اور میرا فورم صوبہ جات کو فوراً بحال کیا جائے اس کو مقفل سے غیر مقفل کیا جائے
آپ کی معلومات حقیقت پر مبنی نہیں گوادر میں تربت اور قلات میں پنجابی اکثریت میں ہیں:confused:۔ شاید آپ نے کبھی ان علاقوں کا دورہ نہیں کیا۔ میرے بھائی اگر آپ کراچی سے حب کے راستے گوادر جائیں تو اگر آپ پنجابی ہیں تو شاید آپ کو اپنی شناخت بھی تبدیل کرنا پڑے۔ یہ میں مانتا ہوں کہ کوئٹہ اور ملحقہ علاقوں میں پختون برادری کی اکژریت ہے پر اگر اپ یہ کہیں کہ بلوچستان میں پنجابیوں اور پختونوں کی اکثریت ہے اور بلوچ اقلیت میں ہیں تو یہ تو ایک بہت ہی بے سرو پا بات ہوگی۔ یہ تو وہی بات ہو گئی کہ میں کراچی اور حیدر آباد میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یہ کہ دوں کہ سندھ میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے ہر صوبے میں اس زبان کے لوگوں ک ساتھ ساتھ دوسرے زبان والے بھی کافی تعداد میں موجود ہوتے ہیں کیوں کہ کسی کو بھی زبان کے لحاظ سے کسی صوبے میں رہنے کی پابندی نہیں ہے۔ سندھ میں بھی پنجابی اور بلوچ پٹھان ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں اسی طرح پختون خواہ میں بھی پنجابیوں اور ہندکو بولنے والے کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مگر انکی جسطرح ان صوبوں میں اکثریت نہیں ۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی تمام قومیں پائی جاتی ہیں پر اکثریت بلوچوں کی ہے۔
 

دوست

محفلین
میرے کزن عرصہ دراز تک پنجگور میں قصائی کا کام کرتے رہے۔ لیکن یہ کُت خانہ پڑنے سے چند سال قبل وہ واپس آ گئے تھے۔
 

زین

لائبریرین
جی ہاں بلوچستان میں کوئٹہ پسنی گوادر تربت قلات اور اسی طرح دوسرے علاقوں میں تو پنجابی بڑی تعداد میں ہیں اس کا بھی ثبوت دے دوں گا اور میرا فورم صوبہ جات کو فوراً بحال کیا جائے اس کو مقفل سے غیر مقفل کیا جائے

بھائی بغیر تحقیق کے بات نہ کریں وہاں قتل و غارت گری کی بناء پر پنجابی ہجرت کرکے پنجاب یا سندھ میں جابسے ہیں
ہم بلوچستانیوں کےلئے یہ نیا انکشاف ہے :shock:
کیا آپ اپنی اس تحقیق سے محکمہ شماریات پاکستان کو بھی فیض یاب کرسکتے ہیں جنہیں بڑی غلط فہمی ہے کہ
1998ء میں (جب صوبے میں فضاء پرامن تھی اور پنجابیوں کو ہدف بناکر قتل کے واقعات نہیں ہورہے تھے ) بلوچستان کی کل آبادی کا صرف 2.52 فیصد پنجابی بولنے والے تھے۔
 
Top