شاہنواز عامر
معطل
وکیپیڈیا سے
:چھلانگ بطرف رہنمائی, تلاش
لفظ بلوچ کو مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے “بعل”، “بلوچ، بلوص، بلوس ، بلوش، بعوث، بیلوث، بیلوس اور بعلوس لکھا اور استعمال کیا ہے اہل بابل اپنے قومی دیوتا کو بال(بعل) عظیم کہا کرتے تھے یونانیوں نے اسے بیلوس کہا، عہد قدیم میں لفظ بلو چ کو بعلوث اور بیلوث لکھا جاتا تھا، اس کے بعد یہ لفظ بیلوس اور بعلوس کے طور پر تحریر و بیان میں آتا رہا، عرب اسے بروج، بلوص اور بلوش ادا کرتے ہیں اور ایرانی اسے بلوچ لکھتے اور بولتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایرانی لفظ بلوچ رائج ہے۔
اصل میں لفظ بلوص ہے جسے عربوں نے بلوش اور ایرانیوں نے بلوچ لکھا اہل ایران” ص” ادا نہیں کرسکتے اس لئے انھوں نے “ص” کو “چ” سے بدل کر اسے بلوچ کی صورت عطا کی اور عربوں نے “ص” کو “ش” سے بدلا۔
لفظ بلوچ کی وجہ تسمیہ نسبی اور سکنی اعتبار سے بھی کی جاسکتی ہے نسبی اعتبار سے بلوص نمرود کا لقب ہے۔ نمرود بابلی سلطنت کا پہلا بادشاہ تھا اور اسے احتراماً بلوص یعنی سورج کا دیوتا پکار ا جاتا تھا یہ وہی نمرود ہے جس نے حضرت ابراہیم ؑ کیلئے آگ کا الاؤ تیار کرایا تھا۔
سردار محمد خان گشکوری کی تحقیق کے مطابق بلوص نمرود کے بعد سلطنت بابل کا دوسرا بڑا شہنشاہ تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صیحح ہے کیونکہ بلوص یعنی سورج کا دیوتا بابل کا پہلا یا دوسرا دونوں بادشاہ ہوسکتے ہیں۔ رالنسن کی تحقیق کے مطابق بھی لفظ بلوچ کا مخرن بلو ص ہی ہے۔
سکنی اعتبار سے بھی بلوچ وادی بلوص کے رہنے والے ہیں۔ یہ وادی شام میں حلب کے قریب ایران کی سر حد کے ساتھ واقع ہے خاص بلوچوں کے نسب کے بارے میں بھی بڑا اختلاف ہے پوٹنگر اور خانیکوف کا خیال ہے کہ یہ ترکمان نسل سے ہیں۔
برٹن ، لینس، اسپیگل اور ڈیمز کا خیال ہے کہ یہ ایرانی نسل سے ہیں سر ٹی۔ ہولڈ چ کا خیال ہے کہ یہ نسلاً عرب ہیں۔ ڈاکٹربیلونے انہیں راجپوت لکھا ہے پروفیسر کین کے خیال میں وہ تاجک نسل سے ہیں ۔ ما کلر نے ثابت کیا ہےکہ بلوچ مکران کے قدیم باشندوں کے باقیات ہیں اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ رند بلوچ نہیں ہیں بلکہ نسلاً عرب ہیں اور االحارث العلافی کی اولاد ہیں سردار محمد خان گشکوری نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ بلوچ کلدانی اور بابلی ہیں اور مشہور حکمران نمرود کی نسل سے ہیں ۔
خود بلوچوں کے پاس ایک نظم کے سوا کوئی قدیم مواد نہیں ۔اس نظم میں آیا ہےکہ وہ امیر حمزہ ؓ کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے ۔ اس میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔ اولامیر حمزہ ؓ ھیئگوں
سوب درگاہ ءَ گو تر انت
اش حلب ءَ پاد کایوں
گوں یزید ءَ جیڑو انت
کلبلا بھمپور مس نیام ءَ
شہر سیستان منزل انت
ترجمہ:
ہم امیر حمزہ کی اولاد ہیں
نصرت ایزدی ہمارے ساتھ ہے
ہم حلب سے اٹھ کر آئے ہیں
یزید سے لڑنے کے بعد کربلا اور بمبور
کا پیچھے چھوڑ کر سیستان کے
شہر میں ہم نے ڈیر ے ڈال دئیے ہیں
بلوچ تاریخ
فردوسی نے شاہنامے میں تین بادشاہوں کے عہد میں بلوچوں کا زکر کیا ہے
اول: کیخسرو
دوم : زرکس
اور سوئم : نوشیروان
عہد کیخسرو:۔(532 ق۔ م) میں بلوچ بحر خضر کے جنوبی ساحلی علاقے اور کوہ البرز کے دامن میں بدؤوں کی طرح رہتے تھے۔ ان میں جو تھوڑے متمدن ہوگئے وہ حکومت اور فوجی خدمت کرنے لگے۔
زرکس کے عہد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے دربار میں اعلیٰ عہد وں پر فائز رہے۔ لیکن بعد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کیلئے خطرہ بن گئے ۔ اس لئے انہوں نے نہایت بے دردی سے ان کے خلاف جو مہم بھیجی تھی اس کا تذکرہ فردوسی نے شاہنامے میں بڑی تفصیل سے کیا ہے گمان ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بلوچوں کی قوت اس علاقے میں ٹوٹ گئی اور مجبوراً جنوب و مشرق کے پہاڑوں میں جاکر رہنے لگے لیکن ڈیمز نے اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” اور گینکووسکی نے اپنی کتاب “پیپل آف پاکستان” میں قیاس کیا ہے کہ سفید ہُنوں کی یورش کی وجہ سے بلوچوں نے بحر خضر کے جنوبی پہاڑوں سے کرمان کی طرف کوچ کیا۔ بہر حال اس سلسلے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاتی کرمان کے بلوچ خانہ بدوشوں کا ذکر عرب سیاحوں ، مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی کیاہے۔
ڈیمز نے بلوچوں کی ہجرت کے بارے میں اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” میں لکھا ہے (ترجمہ کامل القادری)
“یہ بات قرین قیاس ہے کہ بلوچوں نے دومرتبہ نقل مکانی کی اور دونوں بار ہجرت کی وجہ ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحوں کی پیش قدمی تھی پہلی ہجرت اس وقت ہوئی جب فارس میں سلجوقیوں کے ہاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ کرمان چھوڑ کر سیستان اور مغربی مکران کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے ۔ دوسری بار انہوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر مشرقی مکران اور سند ھ کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئ ۔دوسری ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادی سندھ میں قدم رکھا جس سے ان کے لئے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ ہموار ہو ا اور اس آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو ہندوستان کے میدانی علاقوں میں منتشر کردیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لنگ کے حملے اور بابر کی یورش کا زمانہ ہے”
بعض قبیلوں نے قلات پر قابض ہوکر بلوچوں کو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کردیا۔ یہ واقعہ بلوچی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے ۔اس واقعہ کے بعد یہ قوم دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی اور اب مشرقی اور مغربی بلوچوں کے درمیان قلات کے براہوی بھی نظر آتے ہیں۔
محمد سردار خان بلوچ نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ بلوچ روایت کے مطابق امیر جلال خان ان بلوچ میں قبائل کا سردار تھا جو گیارہوں عیسوی میں کرمان کے پہاڑ وں اور لوط کے ریگستان میں رہتے تھے ۔ بلوچوں کی مقبول عام روایات اسی سردار کے عہد سے شروع ہوتی ہیں۔ اس کے چار بیٹے رند ، کورائ ، لاشار، اور ھوت تھے آگے چل کر رند کی اولاد سے امیر چاکر خان رند بن امیر شہک پیدا ہوا ۔جو بلوچ نسل کا عظیم سپوت کہلاتا ہے۔ بلوچوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیا بلکہ ان دنوں جب کہ رسول اللہ مکہ میں بےیار مدد گار تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کرکے رسول اللہ کی حفاظت کے لئے بھیجے اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے۔
جکتہ پنج مرد بلوچیں
گوں رسول£ ءَ شامل ءَ
دوست نماز ءَ کہ پڑھگن
سرہ کننتی پانگی ءَ
جنگ اڑ تہ گوں کفاراں
شہ حساب ءَ زیادھی ءَ
ترونگلی تیر ءِ شلیاں
در کپاں ڈاؤزمی ءَ
جکتیش ایمان مس ہند ءَ
ڈبنگ ءَ نہ اشتش وتی ءَ
تنگویں تاجے بلوچار
داتہ آ روچ ءَ نبی ءَ
ترجمہ:
پانچ بہادر بلوچ
رسول اللہ کی خدمت میں کھڑے تھے
جب خدا کے دوست نماز پڑھتے
تو وہ پہرہ دیا کرتے تھے
جب کفار کے ساتھ لڑائی چھڑی
کفار کا لشکر بے شمار تھا
تیر اولوں کی طرح برسے
اور زمین سے دھواں اٹھنے لگا
مگر وہ ثابت قدم رہے ان کا ایمان قا ئم رہا
دشمن ان کو مغلوب نہ کرسکا
اس دن پاک نبی£ نے
بلوچ کے سر پر طلائی تاج رکھا
بلوچستان کی رومانی کہانیوں کے مطابق بلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے ۔ جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے ۔پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں (پاڑوں) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا ۔ اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے ۔بلوچ سردار نے انہیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انہیں آسانی سے میّسر آگئیں ۔کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے ۔ یہ مسلمہ امرہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے۔ جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی ۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکےا نہیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
پندرھوں صدی عیسویں میں بلوچوں کے دو قبیلوں رندو لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے ۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کردئیے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کر لی ۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوگئی۔
میر چاکر خان رند ایک عظیم بلوچ تھا۔ وہ امیر جلال خان کی اولاد میں سے تھا۔ اس کا شجر نسب یہ ہے ۔ میر چاکر خان بن امیر شہک بن امیر اسحاق بن امیر کا لو بن امیر رند بن امیر جلال خان۔
اس نے خضدار فتح کیا درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ (ان دونوں قبائل کی جنگ نے بھی کئی داستانوں کو جنم دیاہے)
بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔
شہنشاہ بابر نے لکھا ہے “میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا ۔ بھیرے اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے او ر اطاعت کا وعدہ کیا”
1539 ء کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے چونسہ کے مقام پر شکست کھائ اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑے کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔
گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گزرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کرآیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔ جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لئے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سالار میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھا۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ بلوچی زبان میں جتنی بھی کہا نیاں ملتی ہیں وہ سب میر چاکر خان رند کے زمانے یا اس کے بعد کی ہیں ۔ اس سے قبل کے زمانے کی کوئی کہانی موجود بھی ہے یا نہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
زمرہ جات:
:چھلانگ بطرف رہنمائی, تلاش
لفظ بلوچ کو مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے “بعل”، “بلوچ، بلوص، بلوس ، بلوش، بعوث، بیلوث، بیلوس اور بعلوس لکھا اور استعمال کیا ہے اہل بابل اپنے قومی دیوتا کو بال(بعل) عظیم کہا کرتے تھے یونانیوں نے اسے بیلوس کہا، عہد قدیم میں لفظ بلو چ کو بعلوث اور بیلوث لکھا جاتا تھا، اس کے بعد یہ لفظ بیلوس اور بعلوس کے طور پر تحریر و بیان میں آتا رہا، عرب اسے بروج، بلوص اور بلوش ادا کرتے ہیں اور ایرانی اسے بلوچ لکھتے اور بولتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایرانی لفظ بلوچ رائج ہے۔
اصل میں لفظ بلوص ہے جسے عربوں نے بلوش اور ایرانیوں نے بلوچ لکھا اہل ایران” ص” ادا نہیں کرسکتے اس لئے انھوں نے “ص” کو “چ” سے بدل کر اسے بلوچ کی صورت عطا کی اور عربوں نے “ص” کو “ش” سے بدلا۔
لفظ بلوچ کی وجہ تسمیہ نسبی اور سکنی اعتبار سے بھی کی جاسکتی ہے نسبی اعتبار سے بلوص نمرود کا لقب ہے۔ نمرود بابلی سلطنت کا پہلا بادشاہ تھا اور اسے احتراماً بلوص یعنی سورج کا دیوتا پکار ا جاتا تھا یہ وہی نمرود ہے جس نے حضرت ابراہیم ؑ کیلئے آگ کا الاؤ تیار کرایا تھا۔
سردار محمد خان گشکوری کی تحقیق کے مطابق بلوص نمرود کے بعد سلطنت بابل کا دوسرا بڑا شہنشاہ تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صیحح ہے کیونکہ بلوص یعنی سورج کا دیوتا بابل کا پہلا یا دوسرا دونوں بادشاہ ہوسکتے ہیں۔ رالنسن کی تحقیق کے مطابق بھی لفظ بلوچ کا مخرن بلو ص ہی ہے۔
سکنی اعتبار سے بھی بلوچ وادی بلوص کے رہنے والے ہیں۔ یہ وادی شام میں حلب کے قریب ایران کی سر حد کے ساتھ واقع ہے خاص بلوچوں کے نسب کے بارے میں بھی بڑا اختلاف ہے پوٹنگر اور خانیکوف کا خیال ہے کہ یہ ترکمان نسل سے ہیں۔
برٹن ، لینس، اسپیگل اور ڈیمز کا خیال ہے کہ یہ ایرانی نسل سے ہیں سر ٹی۔ ہولڈ چ کا خیال ہے کہ یہ نسلاً عرب ہیں۔ ڈاکٹربیلونے انہیں راجپوت لکھا ہے پروفیسر کین کے خیال میں وہ تاجک نسل سے ہیں ۔ ما کلر نے ثابت کیا ہےکہ بلوچ مکران کے قدیم باشندوں کے باقیات ہیں اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ رند بلوچ نہیں ہیں بلکہ نسلاً عرب ہیں اور االحارث العلافی کی اولاد ہیں سردار محمد خان گشکوری نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ بلوچ کلدانی اور بابلی ہیں اور مشہور حکمران نمرود کی نسل سے ہیں ۔
خود بلوچوں کے پاس ایک نظم کے سوا کوئی قدیم مواد نہیں ۔اس نظم میں آیا ہےکہ وہ امیر حمزہ ؓ کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے ۔ اس میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔ اولامیر حمزہ ؓ ھیئگوں
سوب درگاہ ءَ گو تر انت
اش حلب ءَ پاد کایوں
گوں یزید ءَ جیڑو انت
کلبلا بھمپور مس نیام ءَ
شہر سیستان منزل انت
ترجمہ:
ہم امیر حمزہ کی اولاد ہیں
نصرت ایزدی ہمارے ساتھ ہے
ہم حلب سے اٹھ کر آئے ہیں
یزید سے لڑنے کے بعد کربلا اور بمبور
کا پیچھے چھوڑ کر سیستان کے
شہر میں ہم نے ڈیر ے ڈال دئیے ہیں
بلوچ تاریخ
فردوسی نے شاہنامے میں تین بادشاہوں کے عہد میں بلوچوں کا زکر کیا ہے
اول: کیخسرو
دوم : زرکس
اور سوئم : نوشیروان
عہد کیخسرو:۔(532 ق۔ م) میں بلوچ بحر خضر کے جنوبی ساحلی علاقے اور کوہ البرز کے دامن میں بدؤوں کی طرح رہتے تھے۔ ان میں جو تھوڑے متمدن ہوگئے وہ حکومت اور فوجی خدمت کرنے لگے۔
زرکس کے عہد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے دربار میں اعلیٰ عہد وں پر فائز رہے۔ لیکن بعد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کیلئے خطرہ بن گئے ۔ اس لئے انہوں نے نہایت بے دردی سے ان کے خلاف جو مہم بھیجی تھی اس کا تذکرہ فردوسی نے شاہنامے میں بڑی تفصیل سے کیا ہے گمان ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بلوچوں کی قوت اس علاقے میں ٹوٹ گئی اور مجبوراً جنوب و مشرق کے پہاڑوں میں جاکر رہنے لگے لیکن ڈیمز نے اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” اور گینکووسکی نے اپنی کتاب “پیپل آف پاکستان” میں قیاس کیا ہے کہ سفید ہُنوں کی یورش کی وجہ سے بلوچوں نے بحر خضر کے جنوبی پہاڑوں سے کرمان کی طرف کوچ کیا۔ بہر حال اس سلسلے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاتی کرمان کے بلوچ خانہ بدوشوں کا ذکر عرب سیاحوں ، مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی کیاہے۔
ڈیمز نے بلوچوں کی ہجرت کے بارے میں اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” میں لکھا ہے (ترجمہ کامل القادری)
“یہ بات قرین قیاس ہے کہ بلوچوں نے دومرتبہ نقل مکانی کی اور دونوں بار ہجرت کی وجہ ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحوں کی پیش قدمی تھی پہلی ہجرت اس وقت ہوئی جب فارس میں سلجوقیوں کے ہاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ کرمان چھوڑ کر سیستان اور مغربی مکران کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے ۔ دوسری بار انہوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر مشرقی مکران اور سند ھ کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئ ۔دوسری ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادی سندھ میں قدم رکھا جس سے ان کے لئے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ ہموار ہو ا اور اس آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو ہندوستان کے میدانی علاقوں میں منتشر کردیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لنگ کے حملے اور بابر کی یورش کا زمانہ ہے”
بعض قبیلوں نے قلات پر قابض ہوکر بلوچوں کو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کردیا۔ یہ واقعہ بلوچی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے ۔اس واقعہ کے بعد یہ قوم دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی اور اب مشرقی اور مغربی بلوچوں کے درمیان قلات کے براہوی بھی نظر آتے ہیں۔
محمد سردار خان بلوچ نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ بلوچ روایت کے مطابق امیر جلال خان ان بلوچ میں قبائل کا سردار تھا جو گیارہوں عیسوی میں کرمان کے پہاڑ وں اور لوط کے ریگستان میں رہتے تھے ۔ بلوچوں کی مقبول عام روایات اسی سردار کے عہد سے شروع ہوتی ہیں۔ اس کے چار بیٹے رند ، کورائ ، لاشار، اور ھوت تھے آگے چل کر رند کی اولاد سے امیر چاکر خان رند بن امیر شہک پیدا ہوا ۔جو بلوچ نسل کا عظیم سپوت کہلاتا ہے۔ بلوچوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیا بلکہ ان دنوں جب کہ رسول اللہ مکہ میں بےیار مدد گار تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کرکے رسول اللہ کی حفاظت کے لئے بھیجے اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے۔
جکتہ پنج مرد بلوچیں
گوں رسول£ ءَ شامل ءَ
دوست نماز ءَ کہ پڑھگن
سرہ کننتی پانگی ءَ
جنگ اڑ تہ گوں کفاراں
شہ حساب ءَ زیادھی ءَ
ترونگلی تیر ءِ شلیاں
در کپاں ڈاؤزمی ءَ
جکتیش ایمان مس ہند ءَ
ڈبنگ ءَ نہ اشتش وتی ءَ
تنگویں تاجے بلوچار
داتہ آ روچ ءَ نبی ءَ
ترجمہ:
پانچ بہادر بلوچ
رسول اللہ کی خدمت میں کھڑے تھے
جب خدا کے دوست نماز پڑھتے
تو وہ پہرہ دیا کرتے تھے
جب کفار کے ساتھ لڑائی چھڑی
کفار کا لشکر بے شمار تھا
تیر اولوں کی طرح برسے
اور زمین سے دھواں اٹھنے لگا
مگر وہ ثابت قدم رہے ان کا ایمان قا ئم رہا
دشمن ان کو مغلوب نہ کرسکا
اس دن پاک نبی£ نے
بلوچ کے سر پر طلائی تاج رکھا
بلوچستان کی رومانی کہانیوں کے مطابق بلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے ۔ جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے ۔پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں (پاڑوں) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا ۔ اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے ۔بلوچ سردار نے انہیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انہیں آسانی سے میّسر آگئیں ۔کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے ۔ یہ مسلمہ امرہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے۔ جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی ۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکےا نہیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
پندرھوں صدی عیسویں میں بلوچوں کے دو قبیلوں رندو لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے ۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کردئیے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کر لی ۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوگئی۔
میر چاکر خان رند ایک عظیم بلوچ تھا۔ وہ امیر جلال خان کی اولاد میں سے تھا۔ اس کا شجر نسب یہ ہے ۔ میر چاکر خان بن امیر شہک بن امیر اسحاق بن امیر کا لو بن امیر رند بن امیر جلال خان۔
اس نے خضدار فتح کیا درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ (ان دونوں قبائل کی جنگ نے بھی کئی داستانوں کو جنم دیاہے)
بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔
شہنشاہ بابر نے لکھا ہے “میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا ۔ بھیرے اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے او ر اطاعت کا وعدہ کیا”
1539 ء کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے چونسہ کے مقام پر شکست کھائ اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑے کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔
گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گزرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کرآیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔ جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لئے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سالار میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھا۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ بلوچی زبان میں جتنی بھی کہا نیاں ملتی ہیں وہ سب میر چاکر خان رند کے زمانے یا اس کے بعد کی ہیں ۔ اس سے قبل کے زمانے کی کوئی کہانی موجود بھی ہے یا نہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
زمرہ جات: