فرخ منظور
لائبریرین
پہلے آپ کو ہمارے کالم پڑنے ہونگے اس کے بعد سوچیں گے ہماارا سارا علم کالموں میں ہے
سنا ہے کالموں میں تو صرف صحافت ہوتی ہے علم تو کتابوں میں ہی ہوتا ہے -
پہلے آپ کو ہمارے کالم پڑنے ہونگے اس کے بعد سوچیں گے ہماارا سارا علم کالموں میں ہے
سنا ہے کالموں میں تو صرف صحافت ہوتی ہے علم تو کتابوں میں ہی ہوتا ہے -
اوراگر کالموں کی کتاب چھپوا دی جائے تو؟
واہ بھئ واہ واہ!!پہلے آپ کو ہمارے کالم پڑنے ہونگے اس کے بعد سوچیں گے ہماارا سارا علم کالموں میں ہے
آپ کا کالم کلام کہاں سے مل سکتا ہے پڑھنے کو؟[
/color]
سنا ہے کالموں میں تو صرف صحافت ہوتی ہے علم تو کتابوں میں ہی ہوتا ہے -
اس بارے میں سوچا نہیں کالموں کی تعداد کم ہے ویسے صحافت میں تو 1999 میں آیا ہوں اور کالم نگاری 2001 میں شروع کی تھی مگر مستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے نہ کالم مسلسل لکھ سکا اور نہ ریکارڈ رکھ رسکا اب ایک دوسا ل سے زیادہ اہتمام کر رہا ہوں دعا کریںاوراگر کالموں کی کتاب چھپوا دی جائے تو؟
سوائے مجید لاہوری، چراغ حسن حسرت اور ابنِ انشا کے کسی کے کالموں کی کتاب نہیں بکی - ان صاحبان کی بھی کم ہی بکتی ہیں -
کسی زمانے میں صحافت اور علم و ادب کا چولی دامن کا ساتھ تھا، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، مولانا ظفر علی خان، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، چراغ حسن حسرت، ایم ڈی تاثیر، پطرس بخاری، مجید لاہوری، ابنِ انشا، کس کس کا نام لیجیئے جو اخبارات و رسائل و جرائد کیلیئے نہ صرف باقاعدہ لکھتے بھی رہے بلکہ انکے مدیر بھی رہے اور علمی و ادبی مباحث پر خوب خوب لکھا۔
لیکن وائے بر مرورِ زمانہ کے اب تو صحافت کا اللہ ہی حافظ ہے، اور جو چند ایک ادیب و شعراء اب بھی اخبارات میں لکھ رہے ہیں وہ بھی صرف "سیاہ ست" پر۔[/quote
قبلہ آپ نے بہت بھاری سوال اٹھا یا ہے اگر بھاگنے کی اجازت ہو تو میں بھاگ جاوں یا واپس آ کر جواب دوں
واہ بھئ واہ واہ!!
[کالم پڑھوائے جا رہے ہیں اور وہ بھی زبردستی۔
آصف! کہیں باتوں میں نہ آ جانا۔
صحافت اگر علم نہیں تو کچھ بھی نہییں
صحافت کی کالم نگاری صنف ادب مین شامل ہے اگر صحافت علم اورمعلومات کا نام نہیں تو کچھ بھی نہیں علم تشہیر کے لیے صحافت کامحتاج ہے صحافت کسی کی محتاج نہیں اگرنئی کتابوں پر آخبارات اور میگزینوں مین تبصرے نہ ہوں ان کتابون کو دیمک چاٹ جائے زیادہ آپ میرا منہ کھلووائیں پہلے ہی ر مضان کی وجہ سے کھل گیا ہے کالم وہ تاریخ ہے جو حال کی وجہ سے آسانی سے یاد ہو جاتی ہے اگر تاریخ بھی علم نہیں تو کچھ بھی نہیں
حضور یہ آصف شفیع صاحب کی زبردستی تعلیم بالغاں پر کیوں اصرار کیا جا رہا ہے؟
ہاتھ ہلکا رکھا جائے یہ نہ ہو کہ آصف صاحب نوید صادق کو جا پکڑیں کہ میاںکہاں جا پھنسایا اور نوید صادق صاحب ہمارے سر ہو جائیں کہ ہم کو کیوں اکسایا؟
اب اگر ہم نے محفل کے لیے ایک عمدہ شاعر کا بندوبست اپنی چالاکی مکاری عیاری کو بروئے کار لاتے ہوئے کر ہی دیا ہے تو ذرا قدر بھی کیجئے
محسن صاحب! علامہ صاحب اگر ہمیں کالم پڑھوانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہم بھی تو انہیں شاعری پڑھوا رہے ہیں۔ اب دیکھیں کس کا پلہ بھاری رہتا ہے
جس دییے میں جان ہو گی، وہ دیا رہ جائے گا۔
کلام کا تو صاحب یوں ہے کہ ریت ہے زبردستی کلام پڑھوانے کی اس میں تو قطعی قباحت نہیں بڑے بڑے اساتذہ اس عادت بد میں مبتلا رہے تاہم یہ جبرا کالم پڑھوانے کی جس بدعت فاسقہ کے علامہ صاحب مرتکب ہو رہے ہیں بسیار سعی فہم و تفہیم ناقابل فہم ہے۔
اور ہم تو ایسے بھولے بھالے شاعر ہوا کرتے تھے کہ اللہ بخشے کبھی کسی کو بھولے سے بھی کلام نہیں پڑھوایا۔ قدرت نے اجر اس فعل کا کچھ یوں دیا کہ الحمداللہ ہاتھ پاؤں سلامت ہیں