دوسرا باب تیسرا سین
م۔۔کان دل آرا
(دل آرا ا ور بیرم کا آنا)
دل آرا:۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس خط کے لکھتے وقت اس بیوقوف نے اپنے انجام پر بھی نگاہ نہ کی۔
بیرم :۔ مجھے خود تعجب ہے ۔ اور قسم ہے اس سر کی کہ خیر خواہی کے واسطے میں نے اپنی سعادت مندی کی بھی پروا نہ کی۔
دل آرا:۔ تو کیا ایسے دغاباز کو سخت سزانہ دینی چاہیے۔
بیرم :۔ کیو ں نہیں دینی چاہیے ، مگر میں کیسے کہہ سکتا ہوں ۔ اس لیے کہ ...
دل آرا:۔ اس لیے کہ تمھارا باپ ہے ۔
بیرم:۔ اگر میرا باپ نہ ہوتا تو میں خود اپنے ہاتھ سے اسے پھانسی دیتا۔
دل آرا:۔ خیر! یہ فرض تمھاری طرف سے ہم بجالائیں گے۔
بیرم:۔ میری بھی کیا بری قسمت ہے ! یہ سب جانتے ہیں کہ میں نے بڑی نمک حلالی کا کام کیا ہے مگر پھر بھی لوگ مجھے بدنام کریں گے۔
دل آرا:۔ پیارے بیرم ! میں نے اپنا دل جو شوہر کی امانت تھا تمھیں دے دیا۔ خدا تک کی پروا نہ کی اور تم انسانوں کی پروا کرتے ہو۔
ماہ پارہ:۔ میں نے نمک حرام سعدان کی گرفتاری کے لیے کتّے چھوڑرکھے ہیں ۔
دل آرا:۔تواب وہ بچ نہیں سکتا ۔
ماہ پارہ :۔ا گر وہ یہاں آیا تو میں اس کی بوٹیاں نچوادوں گی۔
دل آرا:۔اور میں اس کی ہڈیاں کچلوادوں گی۔
ماہ پارہ:۔میں اس کی ہڈیوں کو جلا کر خاک کر دوں گی۔
دل آرا:۔ اور میں اس خاک کو اپنی ٹھوکروں سے اُڑا دوں گی۔
بیرم:۔ جناب ! انصاف تو اس سے بھی زیادہ سخت سزا تجویز کرتا ہے مگر چونکہ آپ رحم دل ہیں اس لیے تھوڑا رحم کیجیے اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو مجھے اجازت دیجیے تاکہ میں چلا جاؤں کیوں کہ میں اپنے باپ کو برائی کا بدلہ پاتے ہوئے دیکھوں گا تو مجھے شرم آئے گی ۔
دل آرا:۔ کتنا نیک معاش ہے !
ماہ پارہ :۔ یہ اتنا ہی شریف ہے جتنا اس کا باپ بدمعاش ہے۔ (سعدان کا آنا) ادھرآ۔ پاجی ! کتّے!
دل آرا:۔ ذلیل!نمک حرام!
سعدان:۔ شرافت کو نہ بدنام کرو۔ تمھارا باپ شریف ہے اور تمھاری ماں بھی شریف تھی اور میں بھی شریف ۔ اس لیے تم بھی شریف بنو اور شریفانہ کلام کرو۔
ماہ پارہ :۔ تو کتّے سے بھی زیادہ ذلیل ہے ۔
سعدان:۔ اس کی کیا دلیل ہے ؟
دل آرا:۔ یہ کہ تو دغاباز اور جھوٹا ہے ۔
سعدان:۔ سچ کہتی ہو! میں نے ہی تو خوشامد سے اپنے باپ کو لوٹا ہے!
ماہ پارہ :۔ بدمعاش تو نے خاقان کو زارا کے پاس کس لیے بھیجا ہے ۔
سعدان:۔ اس لیے کہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ تو اس کے ضعیف جسم کو ایذا پہنچائے یا اپنے ناخونوں سے اس کے جُھرّیاں پڑے چہرے کو نوچ نوچ کر کھائے۔
ماہ پارہ:۔ بدمعاش!
سعدان:۔ ظالمو !جنگل خوفناک ۔ رات مہیب ۔ اس پر بجلی کی گرج ، آندھی ، پانی ان سب آفتوں کی طغیانی اور اس میں ایک بوڑھا ضعیف شخص خستہ وخراب تھا ۔ اس وقت تم اور تمھار ا ہر نوکر محوِ خواب تھا ۔ میں آیا ۔ میں گڑ گڑایا ۔ میں نے سمجھایا مگر تم نے اپنے باپ پر ذرا ترس نہ کھایا اور اتنا نہ کہا کہ جاؤ دروازہ کھول دو اور اسے اندر بلالو۔ او وحشیو! جلاّدو! اس وقت اگر میرے دروازے پر کوئی بھیڑیا بھی آکر غل مچاتا تو میں کہتا دروازہ کھول دے اور اس کو گھر میں چھپالے۔
ماہ پارہ :۔ اس جرم پر ہم تیری بوٹیاں بھیڑیوں کو کھلوائیں گے ۔
دل آرا:۔ اس کی زبان کاٹ لو۔
سعدان:۔ ہاں جلدی کرو ورنہ تمھارے سب عیب کُھل جائیں گے ۔
ماہ پارہ:۔ خط لکھوا کر دوسرے کے نوکروں کو پُھسلانا یہ کارروائی کس قدر ذلیل ہے۔
سعدان:۔ایک نا واقف کو سانپ کی دوستی سے بچانا شرافت اور انسانیت کی دلیل ہے ۔
دل آرا:۔ وہ بیوقوف ہے ۔
سعدان:۔ او ر تو مکّار ہے ۔
ماہ پارہ:۔ وہ مصیبت ہی کے لایق ہے ۔
سعدان:۔ اور تو لعنت ہی کی سزا وار ہے ۔
دل آرا:۔ تو بوڑھے لباس میں شیطان ہے ۔
سعدان:۔ اور تو عورت کے جامے میں حیوان ہے ۔
ماہ پارہ:۔ بدمعاش تو ایسا بے خوف ہوکر ہم سے کلام کرتا ہے ۔
سعدان:۔ جس کو خدا کا خوف ہوتا ہے وہ انسانوں سے نہیں ڈرتا ہے ۔
ماہ پارہ:۔ تو اور یہ زبان درازی۔
سعدان:۔ بیٹی اور باپ سے دغابازی۔
ماہ پارہ:۔ یہ دماغ اور ایسا بیہودہ جنون۔
سعدان:۔ اولاد اور ایسا سفید خون۔
ماہ پارہ:۔ بدمعاش پاجی !جلاّد! مارہاتھ تاکہ یہ سر اِن قدموں پہ لوٹے۔
سعدان:۔
اے فرشتو ! سن رکھو ، روحِ صداقت رکھ نگاہ
اے زمیں دینا شہادت ، اے فلک رہنا گواہ
فرضِ ایماں ، حقِ مالک آج ادا میں کر چکا
بڑھ اِدھر تلوار کھینچ اور وار کر! ہے سر جھکا
جلاّد :۔ ہے اجازت؟
ماہ پارہ:۔ پوچھتا کیا ہے ؟
دل آرا:۔ اُڑا موذی کا سر؟
جلاّد:۔ بد نصیب انسان ۔ آہ ! (دل آرا کا شوہر اکرم داخل ہوکر جلاّد کا سر تلوار سے اُڑا دیتا ہے )
ماہ پارہ:۔ یہ کیا کیا بیداد گر؟
شوہر دل آرا:۔ وہ کیا جس کا یہ سزا وار تھا۔
دل آرا:۔ مگر کیا یہ تمھارا خطا وار تھا؟
شوہر دل آرا:۔ اور کیا یہ تیرا گنہگا رہے ؟
دل آرا:۔ بیشک یہ موذی مکار ہے ۔
ماہ پارہ:۔ اس نے ہم کو دھوکا دیا۔
شوہردل آرا :۔ اور تم نے اپنے باپ کو دھوکا دیا اور دھوکا بھی وہ دھوکا کہ جس کا نام سن کر شیطان تک لرز جاتا ہے ۔
دل آرا:۔ مجھے تمھاری عقل پر افسوس آتا ہے ۔
ماہ پارہ:۔ تم بڑے ذلیل ہو ۔ تمھارا دل بزدلی اور بے عزتی اٹھانے کے لیے بناہے۔
شوہر دل آرا:۔عقل اور نیکی کی باتیں بدوں کوہمیشہ بری معلوم ہوتی ہیں ۔ تم نے کیا کیا ؟ اس غریب کو چیلوں کی طرح نوچ نوچ کر کھالیا۔ کیا تم اس کی بیٹیاں نہیں ہو ؟ کیا وہ تمھارا باپ نہیں ہے؟ ایسے سفیدسرکو جسے ریچھ بھی تعظیم سے چومتا ہے تم نالائقوں نے اسے پاگل بنادیا ۔ اگر اس کے دل میں رحم آیا، اس کے خون نے جوش کھایا ، اگر یہ نمک خواری کا فرض بجالایا ، تو اس نے کون سی گنہگاری کی ؟ تم نے بیٹیاں ہوکر اسے راحت نہ دی اور اس نے غیر ہوکر خدمت گزاری کی۔
سعدان:۔او خدا !ان کے دل میں انصاف پیداکر۔
ماہ پارہ:۔ چپ بدمعاش کیا یہ انصاف نہیں ہے کہ تو خاک وخون میں ملایاجائے اور بیرم کا جس نے ہم پر تیرا پُر فریب خط ظاہر کیا ہے عزت اور رتبہ بڑھایا جائے۔
سعدان:۔ او خدا ! کیا بیٹے نے باپ سے فتنہ پردازی کی ۔ افسوس ! افسوس! اب میری آنکھ کھل گئی۔ ضرور غریب پرویز کے ساتھ بھی اِسی نے دغابازی کی؟
دل آرا:۔ ایسی اندھی عقل بھی کس کام کی جو یہ بھی نہیں دیکھ سکتی کہ ایسی نیکی کرنے سے کیا برائی ہوگی؟
شوہر دل آرا:۔ اور تو بھی تو دیکھ کہ شیطان میں بھی اتنی برائیاں نہیں جتنی تم عورتوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔
ماہ پارہ:۔ کیسا بزدل ہے کہ ہمت کا ایک لفظ بھی زبان پر نہیں آتا!
شوہر دل آرا:۔ تو مجھے کیوں غصہ دلاتی ہے ؟ اگر عورت نہ ہوتی تو میں تیری ہڈیاں پیس ڈالتا۔ سپاہیو! چھوڑ دو اس کو۔
دل آرا:۔ یہ نہیں چھوٹ سکتا۔
شوہر:۔ میں کہتا ہوں کہ اسے چھوڑ دو۔
دل آرا:۔ اور میں بھی کہتی ہوں کہ یہ نہیں چھوٹ سکتا ۔
شوہر:۔ تم نے نہیں سنا۔
ماہ پارہ:۔ وہ نہیں سن سکتے ۔
شوہر:۔ میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ ان دونوں کو قید کر لو۔
دل آرا:۔ اور میں بھی حکم دیتی ہوں کہ اس کا سر کاٹ لو۔
شوہر:۔ اوہ ! خبیثو ! بدمعاشو! آہ !
سعدان:۔ اوہ خدا ! یہ کیا ہورہا ہے ؟
ماہ پارہ:۔ ٹھہر ۔ بدمعاش ۔ تو کہاں جاتا ہے؟
سعدان :۔ آہ !
ٹیبلو
(سین ختم)