آغا حشرؔ کاشمیری کے نما ئن۔دہ ڈ را مے

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب پانچواں سین
راحیل کا گھر
(راحیل کا گانا)
ترچھی نظروں سے مورا من ہر گیورے:

وہ کہتے ہیں کہ ترا دل چرا کے کیا لیتے


کہ جتنا چاہتے اتنا مجھے ستا لیتے


نہ اپنے کام کا دل ہے نہ یہ کسی قابل


وہ ایسی چیز ہی کیا تھی کہ ہم چھپالیتے

پیادل لے کے مورا سگر گیورے:

چمن میں بادِ صبا مست مست پھرتی ہے


چٹک چٹک کے ہر اک شاخ سے نکلتی ہے


جو خُم سے شیشے میں محفل میں مے ا ترتی ہے


تو منہ سے مستوں کے آواز یہ نکلتی ہے

آکے گلشن میں مورا گلِ تر گیورے:
ترچھی نظر وں سے ...

جس دن سے ہم آئے یہاں ملکِ عدم سے


دن بھر ہمیں فرصت نہ ملی رنج والم سے


دنیا میں خوشی کا نہ کبھی جام ملے گا


جب قبر میں جائیں گے تب آرام ملے گا

اوہ شہزادی میری رقیب آتی ہے ،مضائقہ نہیں ، جو حالت میری ہے وہی اس کی ہے، جیسی میں دکھی ہوں ویسی ہی وہ بھی دکھی ہے ۔
ڈیسیا:۔ او آسمان کے فرشتو !مجھے توفیق دو کہ میں باوفا مارکس کی جان بچاؤں اور شکستہ دل یہاں سے اٹھ نہ جاؤں۔
(گانا)

ساجن پر ہے کیسی سکھی بپت آئی ، سوتن جھنجلائی!


کاہے کون جتن کروں رے مائی۔ ساجن پر...


من کی کہوں کا سے کٹھن بپت کی بتیاں

آس پوری موری کرو، تورے شرن بے جگ دَھر بَر مانگن آئی ۔
راحیل:۔ حضور !کیا آپ اس جنم جلی کی دبی ہوئی آگ کو بھڑکانے آئی ہیں؟ کیا اس بجھتے چراغ کو اور جلانے آئی ہیں؟
(ڈیسیا کا آنا)
ڈیسیا:۔ اے حور شمائل راحیل!
راحیل:۔
کون ہے حور وپری ، شمس وقمر؟ آپ ، کہ ہم


کون ہے یار کی منظورِ نظر ؟ آپ، کہ ہم

ڈیسیا:۔
بخت لایا ہے مجھے تیری بڑائی کرنے


میں ترے قدموں میں آئی ہوں گدائی کرنے

راحیل:۔ جو مرامال تھا سو تم نے چھپا رکھا ہے

اب یہاں کیا ہے ، مرے ہاتھ میں کیا رکھا ہے

ڈیسیا:۔ تمھارے ہاتھ میں اس نادان مارکس کی جان ہے ۔
راحیل:۔ وہ جان ہماری جان کے ساتھ جانے کی شایان ہے ۔ ؂

بُرے کا حال دنیا میں برُا ہی ہو تو اچھا ہو


مجھے رسوا کیا جس نے الہٰی وہ بھی رسوا ہو

ڈیسیا:۔ جب میدانِ قیامت میں نفسی نفسی پکاری جائے گی ، وہاں کس کی جان تمھارے کام آئے گی۔ راحیل یہاں کی عدالت جابر ہے ، شہزادے کی جان ناحق جائے گی ۔ ؂

آئینہ عدالت کا یہاں صاف نہیں ہے


آئین ہے اس میں مگر انصاف نہیں ہے

راحیل:۔ یہی آئینی انصاف ہوگا ، اسی سے میرا آئینۂ دل صاف ہوگا ۔
ڈیسیا:۔ نہیں ، یوں کہو گو کہ اس نے تمھیں ٹھگا ہے مگر اس دغا باز کو خدا پر چھوڑ دینا اچھا ہے ۔ ؂

آپ مرجا ئے بشر ، پر غیر کی جاں بخش دے


آرزو بخشش کی رکھتا ہو تو انساں بخش دے

راحیل:۔ چھوڑدوں اس کو کہ تم چین کرو اِس کے ساتھ

چھوڑدوں اس کوکہ تم بولو، ہنسو اِس کے ساتھ

ڈیسیا:۔ میں کبھی دل نہ ان اہلِ دغا کو دوں گی

دل اگر دوں گی تو بس اپنے خدا کو دوں گی

راحیل:۔ اس کو میں آپ کی خاطر نہ کبھی چھوڑوں گی

اپنا دم توڑوں گی اور اس کا بھی دم توڑوں گی

ڈیسیا:۔ نہیں !عزیز راحیل!نیکی کا نتیجہ بے کار نہیں ، چلو آؤ عدالت میں کہہ دو کہ شہزداہ قصور وارنہیں۔
راحیل:۔ قصوروار نہیں ؟ جس نے مجھ کو گور کنارے لگا دیا وہ قصور وار نہیں ؂

میں نہ گوارا اِس کی جدائی جیتے جی منظور کروں گی


ساتھ جیوں گی ، ساتھ مروں گی ، پیار کیا ہے ، پیار کروں گی

ڈیسیا:۔ بے خبر پیار کا جینا تجھے معلوم نہیں

سچے عاشق کا قرینہ تجھے معلوم نہیں


پیار میں یار کی راحت میں توقف نہ کرے


سر بھی کٹ جائے رہِ یار میں تو اُف نہ کرے

راحیل:۔

اپنے کیے کی آپ سزا کیوں نہ پائے شمع


خود کیوں جلے اگر نہ کسی کو جلائے شمع

ڈیسیا:۔ تم اپنے جوشِ غضب میں صرف رشک ورقابت کی صداؤں پر زور لگارہی ہو ، سچی محبت کے دلربافرائض کو بھولی جارہی ہو ، مگر مجھے تم دیکھو کہ میں جنم کے ساتھ اس کی ہونے والی حق دار بیوی اس سے دست بردار ہوکر بھی اس کی سلامتی کے لیے اپنی شان کے خلاف ذلّتیں اٹھاری رہی ہوں ، تمھارے پاؤں پر سر جھکارہی ہوں ، مجھے اس کی جان کی خیرات دو، چاہے اس کے بدلے میری جان لے لو ۔
راحیل:۔ آہا !یہ قدرت کا انتقام ہے ، یہ عبرت کا مقام ہے ، کہ جو مغرور کسی کا سر ذلیل سمجھ کر ٹھکراتے ہیں وہی مجبور ہو کر ایک دن اس کے پیروں پر سر جھکاتے ہیں !اچھا اس کی جان بخشی کا انعام ؟
ڈیسیا:۔ منہ مانگا معاوضہ !جو چاہو سولو ، پر شہزادے کی جان بچالو۔
راحیل:۔ نہیں ۔ یہ ٹوٹا ہوا دل اور بھی چور چور کروں گی ، مگر تمھارا سخن نہ کبھی منظور کروں گی۔
ڈیسیا:۔ میں منظورکراؤں گی ، پاؤں پرپڑ کر تمھیں مناؤں گی ۔ اگر سچی اشر ا ف عورت ہوتومردمی دکھاؤ ۔ جہنمی دیوتا بن کرنیک عورت کا نام نہ ہنساؤ۔
راحیل:۔ نہیں نہیں ، عورتوں کا نام نہیں ہنساؤں گی ، مردوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں دو ں گی کہ ایک رومن شہزادی نے سر جھکایا اور ایک مغرور یہود ن نے رحم نہ کھایا !اٹھو، شہزادی اٹھو ۔گو میں اس میں اپنی واجبی دادنہ پاؤں گی مگر تمھاری اس گر یہ وزاری سے جفا پر بھی وفا دکھاؤں گی۔سر اٹھاؤ ، جاؤ ، خوف نہ کھاؤ ، جب میرا جسم پاک خاک میں مل جائے اور بے وفا دنیا ہماری قوم کو خود غرض بتائے ، اس وقت تم پکار کر کہہ دینا کہ شکستہ دل راحیل اگر چہ یہودی تھی، مگر سچی وفادار اور پیار کا سدابہار گلشن تھی۔
ڈیسیا:۔ آفریں !او سچے پیار کی پتلی آفریں !اگر چہ موت کا دروازہ اس وقت تمھاے سامنے کھلا ہے مگر جنت کا داروغہ تمھاری پیشوائی کو کھڑا ہے۔
راحیل:۔ میں چلوں گی اور اس بے وفا کا آخری دیدار کرکے مروں گی۔ راحیل مرجائے گی مگر جو کہا ہے اسے کر دکھائے گی ۔ بچائے گی اور اسے ضرور بچائے گی ۔ ؂

غریبوں کا بھی کوئی آسرا ہوتا تو کیا ہوتا


بتِ کافر ہمارا بھی خدا ہوتا تو کیا ہوتا



کوئی لذت نہیں ہے پھر بھی دنیا پیار کرتی ہے


خدا وندا محبت میں مزا ہوتا تو کیا ہوتا



جب اتنی بیوفائی پر دل اس کو پیار کرتا ہے


جو یارب وہ ستم گر با وفا ہوتا تو کیا ہوتا



سنا ہے حشرؔ وہ ذکرِ وفائے غیر کرتے ہیں


جو میں بھی بیچ میں کچھ بول اٹھا ہوتا تو کیا ہوتا



(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب چھٹا سین
کامک
مس روز:۔ کیوں جی، تم نے اپنے دوست کو میرا پیغام پہنچایا؟
گھسیٹا:۔ نہیں پہنچایا اور میں پہنچانا بھی نہیں چاہتا۔
مس روز:۔ کیوں کیوں؟
گھسیٹا:۔ اس لیے کہ مسٹر گھسیٹا بہادر خاں ہر گز ایسا بے وقوف آدمی نہیں ہے جوتم جیسی نقلی بیوہ کے دھوکے میں آجائے ۔
مس روز:۔ ہیں، یہ کیا جناب؟
گھسیٹا:۔جناب و ناب کچھ نہیں، بس جس طرح آدمی کے بدلے کوئی ہاتھی کا بچہ الّو کا پٹھا نہیں ہوتا اس طرح تم بھی اصل میں وہ روز نہیں ہو۔
مس روز :۔ ارے یہ تو کوئی بڑاپاگل ہے۔ میں مس روز نہیں ہوں، اس سے تمھارا مطلب؟
گھسیٹا:۔ مطلب کی بچی! ہم آپ کو جانتے ہیں،ابھی ابھی آپ کے خاوند سے ملنے کی عزت حاصل ہوئی ہے ۔
مس روز:۔ میرا خاوند!
گھسیٹا:۔ اورنہیں تو کیا آپ کے باپ؟ وہ ، وہی صاحب جو نہایت ہی غریب ہیں ! گائے کی طرح ۔ کیا نام ہے؟ وہی لکڑ توڑ۔ کفن پھاڑ۔
مس روز:۔ ارے توبہ! تجھ کو جلائے بھاڑ! کیا مسٹروڈ ، مسٹر وڈ۔
گھسیٹا:۔ ہاں ہاں، وہی ہدہد۔
مس روز:۔ مگر وہ تو دوسری میم صاحب کے خاوند ہیں۔ بے وقوف !
گھسیٹا:۔ نہیں تو وہ تمھارے خاوند نہیں؟
مس روز:۔ ہر گز نہیں
(مسیتا کاآنا)
مسیتا:۔ ارے یہ کون پاجی؟ یہ تو پھر جی گیا اورکس خوبصورتی سے مٹھار مٹھار کر باتیں کررہا ہے ۔بس میں بھی یہاں چھپ کرموقع ڈھونڈھتا ہوں۔
گھسیٹا:۔ ہاں تو جناب ذرا خلاصہ کیجیے ۔ دیکھیے میں اس گڑبڑ گھٹالے سے بہت ہی گھبرا گیاہوں۔
مس روز:۔ کس قدر دیوانگی ہے! ارے بے وقوف وہ مسٹر وڈ میری بہن ایلس کے خاوند ہیں جو جھوٹ موٹ کی بیوہ بن کر اصلی مس روز کے نام سے اس مسیتا ، تیرے دوست کے ساتھ ناچی تھی۔
مسیتا:(سائڈ میں) ارررکیا! یہ کیا کہا؟
گھسیٹا:۔ کیا کہا؟ جھوٹ موٹ ، نقلی مس روز ناچی تھی۔
مس روز:۔ہاں ہاں،وہ ایک مسخری تھی مسخری۔
گھسیٹا:۔ مسخری؟ یعنی چھوٹی سی دل لگی ! بالکل ننھی سی !
مس روز:۔ ہاں ! بس اس روز مس ایلس میرے نام سے مسیتا کے ساتھ ناچی تھی۔
مسیتا:(سائڈ میں) ارے یہ کیا تاتاتھیّا ہوئی ؟
گھسیٹا:۔ اچھااچھا ! اس احمق مسیتا کواس دن خوب بنایا۔
مسیتا:۔ (سائڈ میں ) ہیں؟ احمق تیرا باپ ہوگا ۔
مس روز:۔ اور نقلی مس روز کے ساتھ جھوٹ موٹ ناچ نچایا۔
مسیتا:(سائڈ میں) اوخدا! یہ کیا پروگرام سنایا۔
گھسیٹا:۔ ٹھیک ٹھیک ! اب میری سمجھ میں آیا ۔ جب تو تم ہی سچی مس روز ہونا؟
مس روز:۔ ہاں ہاں ، میں ہی۔
مسیتا:(سائڈ میں) ہائے ہائے ۔ تب تو میری ساری محنت برباد ہوئی۔کمبخت وہ اصلی بیوہ تویہ نکلی۔
گھسیٹا:۔ واہ! پھر تو پوبارے ہیں۔پانچوں گھی میں سرکڑھائی میں۔ اچھا تو بیگم بس اب کوئی دھوکے کی بات نہ کرنا، وہ تمھیں ہو تین ہزار روپے ما ہوار والی۔
مس روز:۔ ہاں ہاں، وہ تین ہزار روپے ماہوار والی بیوہ میں ہی ہوں ، میرے بے غرض نوجوان۔
مسیتا:(سائڈمیں) ہیں! بے غرض نوجوان یا مجسم شیطان؟
گھسیٹا:۔ جب تواے عورتوں کی لاج، مال دار وں کی سرتاج! میں نے اپنی عمر میں صرف تم ہی کواپنا دل دیا ہے ، یہ بندہ جان ودل سے آپ پر قربان ہو گیا ہے۔ او مائی ! توبہ توبہ! اپنی دولت کے واسطے شادی کرو۔
(گانا)
مس روز:۔ موئے کوّے کی خوہے ساری،کہیں ڈکھلادو، کہیں بھجوادو، مورا بھوکابھکاری ،ہے مجھ پر قربان۔
گھسیٹا:۔ جوبن رسیلے نہ باتیں بنا، تیری فرقت میں دلبرنہ پاؤں قرار۔
مس روز:۔ واہ واوا!
گھسیٹا:۔ میر ی قسم جاؤ جی جاؤ۔
مس روز:۔ نہ منہ کودکھاؤ۔
گھسیٹا:۔ اے جنیاں! نہ مجھ کو کروبے قرار موئے کوّے کی ...
مس روز:۔ ابے کیا ہوا سودائی؟
گھسیٹا:۔ گھبراؤ نہیں۔ تمھارے لیے میرے پاس ایک سفارش نامہ ہے ۔ پر کہیں وہ ڈاک سے آیا ہوا خط اور سفارشی نوشتہ دونوں ایک جگہ نہ ہو گئے ہوں، لیجیے اور اس کو پڑھیے کہ میں کیساخاندانی آدمی ہوں۔
مسیتا:۔ نہ سننا نہ سننا اس کو سرکار!
مس روز:۔ ہیں! یہ کون دوسرا مکار؟
مسیتا:۔ بیگم بیگم یہ تو ہے گھسیٹا حجّام اور میں ہوں آپ کا پرانا خادم،مسٹر مسیتا نام۔ اجی میری طرف مخاطب ہو، اے دنیاکی حسینوں میں سب سے اچھی مال دار بیوہ! لیجیے میرا سفارش نامہ ۔
گھسیٹا:۔ جھوٹاہے! اجی آپ اس نو شتے پر اپنی خوبصورت نظریں دوڑائیں۔
مسیتا:۔ ابے ہٹ تو الّو! میں چلنے نہیں دوں گا۔
گھسیٹا:۔ ابے گدھے ، بے پیندی کے کدّو۔ میں کب چلنے دوں گا۔
مسیتا:۔ ابے الّو ! سب سے پہلے تو میں عاشق ہوا ہوں یہ دیکھیے جناب بالمشافہ۔
گھسیٹا:۔ ابے گدھے ! سچی اور اصلی بیوہ کا پتہ تو میں نے لگایا ہے۔حضور یہ لیجیے لفافہ۔
مسیتا:۔ اجی اُدھر نہ جائیے اِدھر آئیے۔
گھسیٹا:۔ اجی صاحب ! اِدھر آئیے۔
مسیتا:۔ مگر اِدھر تو سنیے۔
گھسیٹا:۔ ہائے ہائے ذرا اِدھر تو دیکھیے۔
مس روز:۔ ارے ہائے ہائے ! یہ کیا مصیبت؟
مسیتا:۔ ارے ! دھکا کیوں دیتا ہے او منحوس؟
گھسیٹا:۔ ابے اوپر کیوں گرا پڑتا ہے کنجوس؟
مسیتا:۔ دوں جھانپڑ؟
گھسیٹا:۔ دوں لپّڑ؟
مسٹر وڈ:۔ او یوبلاڈی اِسکل۔ تم پھرآیا ۔ یو فارسی کتّا۔ تم پھر غل مچایا۔ یو کالے پّلے! ہم تم کو جوتی کے موافق نیچے گراے گا،اور گردن سے پکڑ کر باہر بھگائے گا۔
مس روز:۔ اوخدا ، او خدا یہ حرف؟
گھسیٹا:۔ دیکھا آخر نہ میری طرف!
مسیتا:۔ اجی یہ ہٹا دیجیے ! اس کوپڑھیے ایک طرف۔
مس روز:۔ دونوں وحشی ، دونوں دیوانے ، خدا کے کارخانے کون جانے؟ ارے دیوانو! اس خط نے تمھاری اور میری تکلیفوں کا خاتمہ کر دیا۔
گھسیٹا:۔ پھر کام پٹخ ہو گیا۔
مس روز:۔ نہیں ایلس اور مسٹر وڈ ! آپ بھی اس خط کو بغور سنیں اور لکھنے والے کی تعریف کریں۔
گھسیٹا:۔ کریں او رضرور کریں۔
مس روز:۔ میری پیاری روز! میرے خالو کے اچانک مرجانے سے جو ہمیں اپنی شادی کے چھپانے کی ضرورت ہوئی تھی اب وہ شبہ نکل گیا ۔ کیونکہ بندہ ہی تمام جائداد کامالک بن گیا، اب تم اس خط کو دیکھتے ہی فوراً کیپ ٹاؤن چلی آؤ۔ میں ہوں تمھارے انتظار میں ہاف ڈیڈ* تمھارا خاوند جان الفریڈ۔
ایلس:۔ ہیں، بہن تمھارا خاوند؟
گھسیٹا:۔ ہیں، اس کا خاوند ؟ ہائے ہائے سفارش نامہ کے بدلے میں نے کون سا کاغذ دے دیا۔ اررر ٹکر نمبر آٹھ۔
سب:۔ ہُرّے۔ ہُرّے۔
مسیتا:۔ اررر یہ بات تو بہت بُری رہی۔ یہ بیوہ تو آپ کی نہ رہی نہ میری ، تو کونہ مُوکو، چولھے میں جھونکو۔

* ہاف ڈیڈ ۔ Half Daed یعنی نیم جان
گھسیٹا:۔ ارے بُری سے بُری۔ میر ی تو ساری بنی بنائی عمارت ڈھے گئی۔ ہائے نہ ڈاک منشی، نہ بیوہ کے سکریٹری۔ کم بخت وہی موچی کے موچی۔
مسیتا:۔ ہائے کس مصیبت سے بیوہ کا پتہ لگایا۔
گھسیٹا:۔ پھر اس کو بھی خاوند والی بیوہ پایا۔
مسیتا:۔ مگر سنو جی یہ کیسا دھوکا!کیسی بے ایمانی! اس عورت پر میرے خیال میں مقدمہ چلانا چاہیے ۔
گھسیٹا:۔ ضرور چلاناچاہیے بلکہ لندن تک جانا چاہیے۔کم بخت پہلے تو بیوہ بن کر اچھے اچھے بھلے مانسوں کوشیدائی بنانا اور جب روپے دینے کا وقت آنا، تو پھر جھٹ پٹ خاوند والی بن جانا۔ ڈیم یو!
مسیتا:۔ چلو بھائی، اب ٹھنڈے ٹھنڈے گھرچلیں ۔ نہ تو کمپا لگا نہ جال، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
گھسیٹا:۔ ہائے ہائے نہ تھالی ملی نہ تھال۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
مسیتا:۔ نہ وہ حسن ملا نہ جمال نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
گھسیٹا:۔ نہ وہ بیوہ ملی نہ مال۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

(سین ختم )
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب ساتواں سین
مذہبی عدالت
بروٹس :۔ تو ہوش میں ہے؟
راحیل:۔ ہاں!
بروٹس :۔ تجھ پر کوئی دباؤ تو نہیں ڈالا گیا؟
راحیل:۔ نہیں ۔
بروٹس:۔ تو تو اپنا پہلا بیان واپس لیتی ہے ؟
راحیل:۔ ہاں۔
عزرا:۔ راحیل! راحیل!کیوں محبت میں اندھی ہو گئی ہے ؟
راحیل:۔ اس لیے کہ اب او ر کچھ نظر نہیں آتا۔
عزرا:۔ کیوں اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودرہی ہے ؟
راحیل:۔ اس لیے کہ قبر میں جاؤں گی تو بے وفاؤں کے ظلم سے نجات پاؤٔں گی ۔
عزرا:۔ عدالت اس کی باتوں کا یقین نہ کرے ، ضرور اس پر کسی نے جادو کر دیا ۔
بروٹس:۔ راحیل!میں روم کے قانون کے مطابق تجھ سے تیسری بار اور پوچھتا ہوں کہ تو شہزادہ مارکس پر لگائے ہوئے تمام الزامات واپس لیتی ہے ۔
راحیل:۔ ہاں لفظ بلفظ۔
عزرا:۔ دل آیا جب تو رک سکتا نہیں زنہار عورت کا
مزاجِ مرگ سے بھی مستقل ہے پیار عورت کا
مارکس :۔
یہ کیا معنی؟ زباں بدلی ، سخن بدلے، ادا بدلی


یہ کیوں کر اس جفا دیدہ نے پھر طرزِ وفا بدلی


چھپاتی ہے گھٹابن کر یہ میرے جرمِ عصیاں کو


الہی آج اس گلزار کی کیسی ہوا بدلی

بروٹس:۔ عزرا چونکہ تم بھی اس دعوے کی تائید کرنے والے تھے اس لیے اب تم کیا کہتے ہو ؟
عزرا:۔ جس قدر افریقہ کے بیاباں میں ریگ کے ذرے ہیں ان سے بھی زیادہ میرے پاس الفاظ تھے مگر اس ناعاقبت اندیش کی وجہ سے اب کچھ نہیں کہنا چاہتا اور عدالت کے فیصلے کے سامنے اپنا سر جھکا تا ہوں۔
بروٹس:۔ تو اب میرا فرض اتنا رہ گیا ہے کہ اپنا آخری حکم سناؤں ، شہزادہ مارکس ! عزت وآبروکے ساتھ آپ کی رہائی کی جاتی ہے۔ راحیل اور عزرا تمھیں ایک رومن شہزادے پر بلا ثبوت جھوٹا الزام لگانے کے جرم میں زندہ آگ میں جلائے جانے کی سزادی جاتی ہے۔
راحیل:۔میرے باپ کو سزا ؟ میرے باپ کو میرے جرم سے کیا سروکار؟
بروٹس :۔ اس لیے کہ یہ تمھارا معاون ومدگار ہے ۔
راحیل:۔ نہیں نہیں!یہ نا انصافی ہے ۔ ظلم ہے ۔ مجھے ماردو۔ برباد کر دو،مگر میرے بوڑھے باپ کو آزاد کر دو۔
بروٹس:۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اجلاس برخاست!
مارکس:۔ بزرگ باپ ، اس وفادار لڑکی نے چونکہ میرے ساتھ نہایت شریفانہ سلوک کیا ہے اس لیے اگر آپ اپنے ولی عہد اور ہونے والے شہر یار کو ہمیشہ کے لیے حلقہ بگوش بنانا چاہتے ہیں تو اس کی رہائی کی تدبیر فرمائیے۔
بروٹس:۔ شہزادے میرے دل میں خودنا معلوم جذبات کا تلاطم ہے ۔ میں خود اس لڑکی پر رحم کرنا چاہتا ہوں مگر افسوس کہ قانون کا شکنجہ اسے نہیں چھوڑسکتا ۔
مارکس :۔ کچھ بھی تدبیر فرمائیے ، مگر اس کی جان بچائیے۔
بروٹس:۔ اچھا آپ جائیے ، مجھ سے جو ممکن ہو گا وہ کروں گا۔ راحیل اگر تمھارا باپ تمھارے بچانے کے لیے تم سے کوئی درخواست کرے تو تم منظور کروگی؟
راحیل:۔ دل وجان سے۔
بروٹس:۔ عزرا تم اپنی لڑکی کو موت کے پنجے سے بچانا چاہتے ہو؟
عزرا:۔ دل وایمان سے ۔
بروٹس:۔ تو اجازت دو کہ یہ اپنا مذہب چھوڑکر ہمارے مذہب میں شامل ہو اور اس کے ساتھ تم بھی ہمارے مذہب میں داخل ہو ۔
عزرا:۔ کیا دو روزہ زندگی کے لیے تبدیلِ مذہب کریں ؟ نہیں زینہار نہیں ، مرنا منظور ہے مگر یہ دل فگار عزرا تبدیلِ مذہبِ آبائی سے مجبور ہے ۔ ؂

کب نباہتی ہے یہ دنیا کسی انسان کے ساتھ


قسمت اس شخص کی ، اُٹھ جائے جو ایمان کے ساتھ

بروٹس:۔ تو کیا میری صلاح منظور نہیں؟
عزرا:۔ ہر گز نہیں ، اپنی بچی کو بچانے کو اور سب کچھ کرنے کو تیار ہوں ، مگر اپنا مذہب چھوڑنے سے ناچار ہوں۔
بروٹس:۔ بدبخت یہودی میری صلاح تمھاری بقائے حیات کے لیے اور روح کی نجات کے لیے ہے ۔
عزرا:۔ آدمی کی نجات کا سچا رہنما ، اس کا دینی طریقہ اور آبائی عقیدہ ہے ۔ ؂
ہر طرف سے راستہ ہے خانۂ اللہ کا
دیر، کعبہ یا کلیسا پھیر ہے اک راہ کا
بروٹس:۔ اپنی گر جان ہے تو سب کچھ ہے ۔
عزرا:۔ اپنا ایمان ہے تو سب کچھ ہے ۔
بروٹس:۔ اپنا امکان ہے تو سب کچھ ہے ۔
عزرا:۔ اپنا یزدان ہے تو سب کچھ ہے ۔
بروٹس:۔ عزرا ، عزرا۔ یہ میری مہربانی ہے کہ میں اس وقت تیری جان بچانے کو تیا ر ہوں ورنہ تو جانتا ہے کہ میں یہودیوں کی صورت تک سے بیزار ہوں۔
عزرا:۔ ہاں! اور یہ اس بیزاری اور نفرت کا نتیجہ ہے کہ قدرت نے تمھارا غرور توڑدیا ہے ، تمھارا گھر بار، بیوی بچے سب کچھ تم سے چھین کر تمھیں اس دنیا میں تنہا جلنے اور کڑھنے کے لیے چھوڑدیا ہے ۔
بروٹس :۔ میری پچھلی زندگی کے واقعات تو کیسے جانتا ہے ؟
عزرا:۔ بے درد رومن !عزرا آج سے نہیں تجھے سولہ برس سے پہچانتا ہے ، تمھیں ہو جس نے لاکھوں بچوں کو یتیم اور لاکھوں عورتوں کو بیوہ بنایا ؂
خدا پر ہے ظلم آشکارا تمھارا
ہمیں یاد ہے زور سارا تمھارا
کُھلے گی حقیقت ہماری تمھاری
جب انصاف ہوگا ہمارا تمھارا
بروٹس:۔ میں نے تیری قوم کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اس کی مستحق تھی مگر اب میری مہربانی دیکھ کہ تجھے سراسر مجرم پاتا ہوں ، پھر بھی تیری جان بچاتا ہوں۔
عزرا:۔ مجھے اب جان کی پروا نہیں ہے۔ البتہ یہ آرزو ہے کہ مرنے سے پہلے ایک پُر فن قاتل رومن کا سارا کس بل نکال دوں اوراس کے پتھر جیسے کلیجے میں چٹکیاں لے لے کر چھالے ڈال دوں۔

میں ہنستا ہوں کلیجہ تھام کر روتا ہوا تو ہو


مری آنکھوں میں نفرت اور تری آنکھوں میں آنسو ہو

بروٹس:۔ میں تجھے سخت بیوقوف پاتا ہوں۔
عزرا:۔ میں تجھے آج سے سولہ برس پیشتر کا واقعہ یاد دلاتاہوں جب شاہ سیزر کے قلم سے تمام روما میں ہر طرف آگ بھڑکی تھی ، اس وقت تیرے گھر میں ایک خوبصورت بیوی اور بیوی کی گود میں چھ مہینے کی خوبصورت لڑکی تھی۔
بروٹس:۔ اس بات کے یاد دلانے سے تمھاری کیا مراد ہے ؟
عزرا:۔ میں پوچھتا ہوں کہ ان دونوں کے آگ میں جلنے کا واقعہ تو خوب یاد ہے ؟
بروٹس:۔ ہاں میں اس منحوس دن کو جب موت نے میری بیوی اور بچی کو مجھ سے چھین لیا، کبھی نہیں بھول سکتا۔

ابھی تک غم سے کُڑھتا ہے ابھی تک یاد کرتا ہے


مرا ٹوٹا ہوا دل آج تک فریاد کرتا ہے

عزرا:۔ تمھاری بیوی ضرور اس آگ میں جل کر مرگئی ، مگر بچّی...!
بروٹس:۔ کیا وہ زندہ رہی؟
عزرا:۔ ہاں!
بروٹس:۔ اسے کس نے بچایا؟
عزرا:۔ خدا کی قدرت نے !
بروٹس:۔ کس نے آگ سے نکالا؟
عزرا:۔ ایک رحم دل یہودی کے ہاتھ نے ۔
بروٹس:۔ وہ کون ہے؟
عزرا:۔نہیں بتا سکتا۔
بروٹس:۔ اس کا نام ؟
عزرا:۔ نہیں بتا سکتا۔
بروٹس :۔ اس کا ٹھکانا ؟
عزرا:۔ نہیں بتاسکتا ۔
بروٹس:۔ نہیں عزرا تمھیں بتانا ہوگا۔
عزرا:۔ ہرگرنہیں ، یہ میرا راز ہے جو زندگی کا دم ساز ہے۔
بروٹس:۔ نہیں عزرا ، مجھ پر رحم کرو۔
عزرا:۔ رحم ! رحم! آج پہلا روز ہے کہ رحم کا لفط تمھاری زبان پر آیا ہے ۔ اب تمھیں معلوم ہوا ہوگا کہ رحم کی ضرورت یہودیوں ہی کو نہیں ظالم رومنوں کو بھی ہوا کرتی ہے ۔ ایک کنگال ، مفلس یہودی کے پاس رحم کہاں سے آیا۔ جاؤ اپنے قانون سے مانگو، اپنے دیوتاؤں سے طلب کرو، اپنی قوم کے آگے گڑگڑاؤ ؂

کیا کیا ہے عمر میں جو رحم کی سوغات آئے


بیج ہی بو یا نہیں تو پھل کہاں سے ہات آئے

بروٹس:۔ بتادے عزرا بتادے۔ میں تجھ سے اپنے پچھلے قصوروں کی معافی چاہتاہوں ، یہ سر جو مذہبی پیشوا کا تاج پہننے کے بعد اس ملک کے بادشاہ کے سامنے بھی نہیں جھکا ، وہ تیرے قدموں میں جھکا تا ہوں۔
عزرا:۔ کیوں کیساجھٹکا لگا؟ جب اپنے سر مصیبت آئی تو کتنی جلدی گردن جھکائی۔ جب تم نے ترس کھانے سے انکار کیا تھا ، اب میں رحم کھانے سے انکار کرتا ہوں۔
بروٹس:۔ تو انکار؟
عزرا:۔ ہزار بار۔
بروٹس:۔ نہیں بتائے گا؟
عزرا:۔ نہیں ۔
بروٹس:۔ جواب نہیں دے گا۔
عزرا:۔ نہیں ۔
بروٹس:۔ رحم نہیں کرے گا؟
عزرا:۔ نہیں ، نہیں ، نہیں۔
بروٹس :۔ اچھا نہیں تو نہ سہی اب میں زبردستی تیرے سینے سے یہ راز نکلواؤں گا ۔ تیری ایک ایک بوٹی کا قیمہ بنا کر کُتّوں کو کھلاؤں گا ۔ جاؤ لے جاؤ ؂

جلادو ، بھونک دو ، جھگڑاہی سارا پاک کر ڈالو


شجر کے ساتھ ہی اس کا ثمر بھی خاک کر ڈالو


رکھو اسے بھی وہیں جس جگہ پہ آپ رہے


اب اس زمین پہ بیٹی رہے نہ باپ رہے

راحیل:۔ مغرور سردار!
بروٹس :۔ مردار !
عزرا:۔ خبر دار!
(ڈراپ سین)
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب پہلاسین
جیل خانہ​
(گانا راحیل کا)
برہن کے گھر چھائی بدریا برست ہے گھنگھور۔
پاپی پپیہا پیو نہیں آئے ۔ مور مچائے شور، من کی کلی کھِلے ، آؤ سنو ریا سونی بگیا میں مور۔ کوئلیا کالی کالی بولے بول بھولے بھولے۔ جیامیں رس گھولے۔ ہاں پاپی پپیہا ...

نہ گل پایا ، نہ باغِ دہر میں کوئی ثمر پایا


گلستاں جس کو کہتے تھے اُسے کانٹوں کا گھر پایا


کہیں اب جلد خالی ہو مرا پیمانۂ ہستی


کہ میں اس عالمِ امکاں کے میخانے سے بھر پایا

مارکس:۔ پیاری راحیل!تم کہاں ہو ؟
راحیل:۔ آہا یہ تو اسی فتنہ پر داز کی آواز ہے ؂

زہے تقدیر ، جذبِ دل نے کی تاثیر دشمن پر


پسِ مردن وہ آیا فاتحہ کو میرے مدفن پر

مارکس:۔ آہ راحیل!میں اپنے برتاؤ سے سخت شر مسار ہوں ، جو سزا دو اسے قبول کرنے کو تیار ہوں۔
راحیل:۔ پیارے منشیہ ۔ ؂

کیوں آئے بزمِ عیش سے بزمِ عزا میں تم


کیوں آئے میرے واسطے پڑنے بلا میں تم


نہ دیکھا جائے گا صدمہ تمھارے دل سے عاشق کا


مری جاں دم نکلتا ہے بڑی مشکل سے عاشق کا

مارکس:۔
اس وقت تجھ سے آنکھ چراؤں تو حیف ہے


اب بھی نہ تجھ کو پوچھنے آؤں تو حیف ہے


راحیل:۔
شہزادی سے اب عقد مری جان کرو تم


بے خوف وخطر عیش سے گزر ان کرو تم

مارکس:۔
اب پیار کسی سے مرا زنہار نہ ہوگا


جب تو ہی نہ ہوگی تو مرا پیار نہ ہوگا

راحیل:۔
تم مرے غم میں نہ دل اپنا دُکھانا پیارے


میرے خوں بہنے پہ آنسو نہ بہانا پیارے

مارکس:۔ پیاری راحیل!کیا تمھارا باپ تمھارے لیے اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتا؟
راحیل:۔ نہیں۔ ؂

وہ بندۂ حق ، راہِ وفا سے نہ پھرے گا


پھر جائے گا دنیا سے ، خدا سے نہ پھرے گا


مارکس:۔
مجھ کو کچھ ایسے وقت میں فرمان تو کرو


اظہار اپنے دل کا کچھ ارمان تو کرو

راحیل:۔ ارمان یہ ہے کہ میرے باپ کا دیا ہوا خریطہ اپنے پاس رکھنا ہم دونوں کے بعد اسے کھولنا ۔ اگر کوئی حکم قابلِ تعمیل پا ناتو اسے میری روح وجان کی خاطر بجالانا۔
مارکس:۔ ع منظور !جو کچھ خطا ہوئی ہے اسے کرنا تو عطا
راحیل:۔ ع پیارے معاف کرنا تو میرا کہا سنا

میری قسمت نے مجھے پیکِ قضا کو سونپا


جامری جان ! تجھے میں نے خدا کو سونپا

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب دوسراسین
کامک
(گھسیٹا کا آنا لباس بدل کر)
گھسیٹا:۔ تسلیم! تسلیم لڑھکا تاہوں، آداب پھینکتا ہوں، یعنی وہ بیوہ سب غتربود۔ اب ہم نے ایک اور ڈگری بڑھائی ہے یعنی اس لائن کو چھوڑ کر تک بندوں کی جون میں پناہ لی ہے۔
(مسیتا کا آنا)
مسیتا : ہیں یہ کون؟
گھسیٹا:۔ کم بخت پھر آن مرا۔ تم کون ہوبیٹا؟
مسیتا:۔ ہیں کہیں یہ وہی تو نہیں کالیا۔ ابے ہم شاعر ہیں،شاعر۔
گھسیٹا:۔ اچھا تم شاعر بن گئے،تو ہم ماعر ہیں ماعر۔
مسیتا:۔ ہیں ،ابے ماعر کیا؟
گھسیٹا:۔ ہیں، ابے یہ شاعر کیا؟
مسیتا:۔ احمق کہیں کا، ابے بے وقوف ، شاعر وہ جو شعر کہے۔
گھسیٹا:۔ گدھا کہیں کا، ابے ماعر وہ جو معر کہے۔
مسیتا:۔ بھلا معر کیا؟
گھسیٹا:۔ اور شعر کیا؟
مسیتا:۔ دیکھ بھائی شعر ایسا ہوتا ہے ؂
رفتارِ تو شرمندہ کند کبکِ دری را
گھسیٹا:۔ کیا کہا یہ کیا کہا؟
مسیتا:۔ رفتا رِتو شرمندہ کند کبکِ دری را
گھسیٹا:۔ تو مفتارِ تو مرمندہ کند مبکِ مری را
مسیتا:(ہنس کر) ہیں ہیں، ابے مُبک کیا ؟مُبک ؟
گھسیٹا:۔ اور کبک کیا ؟ کبک؟
مسیتا:۔ ارے بھائی ! کبک ایک جانور ہوتا ہے جو کوہستان میں رہتا ہے ، سنگریزے کھاتا ہے۔
گھسیٹا:۔ ارے میاں! مبک ایک جانور ہے جوموہستاں میں رہتا ہے اور ممریزے کھاتا ہے۔
مسیتا:۔ بھئی واہ۔ جوابِ جاہلاں باشد خموشی۔
گھسیٹا:۔ مواتِ ماہلاں باشدمموشی۔
مسیتا:۔ افسوس یہی لوگ ہیں جو فن شریف کوبدنام کرتے ہیں ؂
جاہلاں دانند آساں از خری
شاعری جزویست از پیغمبری
گھسیٹا:۔
مجھ سے یہ کہتی تھی اک ٹہنی ہری
پھولوں سے اپنی بھروں گی ٹوکری
مسیتا:۔
کس طرح سے رہے شعر کے منہ پر رونق
جب کہ ہیں اس کی تگ و دو میں دو احمق
گھسیٹا:۔
ابجد کم جماؤں کہ جمد جد بتاؤں حق
المغتنا العلم کہ لما تن لماتن لق
مسیتا:۔
کس کھیت کی مولی ہے یہ کیا بکتا ہے احمق
یہ کون سے الفاظ ہیں کس لفظ سے مشتق
گھسیٹا:۔
بم چق چما چا چم کہ چما چم چما قن چق
عاشق شما شق کہ شقا شما شم سما قن شق
مسیتا:۔ اچھا بے جمادن کے جما حق اگر تجھے الّو بنا کے نہ چھوڑا تو مجھے مسیتا کون کہے، اب میں جاتا ہوں اور اس کی بیوی کولے کر آتا ہوں۔
(مسیتا کاجانا )
گھسیٹا:۔ کہاں؟ہیں! کہاں؟ ابے! ہیں !ہتّے ہی پر سے القط ،رخصت(قہ قہ) کیا جھوٹی شاعری نے سچی صناعی کا ناطقہ بند کیا ہے۔
(مسیتا کی بیوی کا مسیتا کی تلاش میں)
عورت :بد بختی، مصیبت ، تباہی۔
گھسیٹا:(سائڈ میں) ارے ارے ! یہ لومڑی کہاں سے آئی؟
عورت:۔ کم بخت میرا خاوند مسیتا مدتوں سے پھنسا ہے اور سنا ہے کہ کسی مال دار بیوی کے فراق میں پھرتا ہے۔
گھسیٹا:(سائڈ میں) بھئی واہ ! کیا موقع ملا ہے ! اب ذرا میں چھپ جاؤں ۔
عورت:۔ ہائے یہ بھی کیا زمانہ ہے کہ موئے نکھٹو پرائی عورتوں کے پیچھے پھرتے ہیں اور اپنے ننگ وناموس کی خبر نہیں رکھتے ۔
گھسیٹا:۔ اجی بیگم صا حبہ سلام ، کورنس کا انتظام ، مجرے کی ٹیم ٹام۔
عورت :۔ ہیں ! تواو غلام!
مسیتا:۔ ارے میں غلام؟ بہ ایں ریش خش !بہ ایں جبہ وعمامہ ، ایسا شریف، ایسا لمبا چوڑا ، موٹا مسٹنڈا! بیوی صاحبہ میں تو ایک پرانا گریز پا مرغ بے ہنگام ہوں۔ مجھے دیکھ کر کیوں کڑکراتی ہو؟ ذرا پر جھاڑ کر میر ی بغل میں اؤ۔
عورت :۔ چل موئے بڈھے بکرے ۔ پرائی عورت کو بد نظر سے تکتا ہے۔
گھسیٹا:۔ پرائی کس کی؟ اجی یار کی عزت اپنی عزت ،یار کے بچے کچے اپنے بچے اور یار کی جورو اپنی جورو۔ بس اس میں مضائقہ ہی کیاہے۔
عورت:۔ ارے واہ رے خبطی! کہیں بھنگ تو نہیں پی گیا ہے ! اچھا مسیتا کو جانتا ہے؟
گھسیٹا:۔ اجی جاننا کیسا؟ میرا ان کا تو مہینوں استنجا لڑا ہے۔
عورت:۔ ہیں ہیں!
گھسیٹا:۔ ہیں ہیں کیا؟ ابھی ابھی وہ ایک پُر نیا کو بیاہ کر لے گیا ہے۔
عورت:۔ کیا کہا؟ کیا کہا؟
گھسیٹا:۔ یہی کہ تم اس کے لیے جھک مارتی ہو۔
عورت:۔ ہے ہے، اس کا ستیاناس ، ذرا دکھاتو سہی مجھے چل کر۔
گھسیٹا:۔ اجی دکھانا کیسا؟ جو توں سے مارمار کر اس کا بھیجا اڑا دو۔
عورت:۔ چلو تو آؤ۔
گھسیٹا:۔ آؤ تو ہاتھ ملاؤ(لے کر چلنا چاہتا ہے اور سامنے مسیتا اس کی بیوی کو نقاب پہنا کر لاتا ہے)۔
مسیتا:۔ دیکھو یہ رہا واہ! ...مگر ہیں؟
گھسیٹا:۔ ارے وہ توآگیا،مگریہ برقع والا مضمون؟
عورت:۔ کیوں ابے حجام۔ یہ اپنی بہنا کے ساتھ ہی تام جھام۔
گھسیٹا:۔ ارے باپ رے ۔ وہ تو تھا ہی حرام زادہ ، مگر یہ کون ہے، الّو کی مادہ؟
عورت:۔ کیوں موئے نکٹے؟؟ اتنے دن بعد آنا اور اپنی ماں کوبھی ساتھ لانا۔
مسیتا:۔ ارے ارے بیوی ، میری ایسی اچھی بیوی؟
عورت:۔ ہاں، اب بیوی بیوی، اور یہ کون ہے مال زادی ؟(مسیتا سے ) پھر تو کیوں نہیں بولتا لعنتی! ٹھہر پہلے نوچ تو لوں تیر ی ڈاڑھی۔
گھسیٹا:۔ ارے یہ عورت کیسی ہے پگلی ؟
مسیتا:۔ یہی ہے یہی ہے حرام زادہ ۔ پھر اب اتار بھی دے اپنا لبادہ۔(نقاب اتارنا)
گھسیٹا:۔ اررر کون بیوی چمپا؟
عورت:۔ ہاں میاں ڈاک منشی ! اب ذرا آنکھیں کھول ڈالو۔
دوسری عورت:۔ لواب چپکے سے تم بھی جوتیاں کھالو۔
گھسیٹا:۔ باپ رے ،پھر ٹکر کی بات۔
مسیتا:۔ اور ٹکر بھی ٹکر نمبر دوسوساٹھ۔
(دونوں پر جوتیاں پڑتی جاتی ہیں،وہ مارکھاتے ہوئے جاتے ہیں)
(گانا)
عورتیں:۔ کیا پڑ کے بیوقوفی میں دونوں ہوئے ہیں خوار۔
گھسیٹا:۔ سونٹا ،کبھی گھونسا، کبھی کھائی پیزار۔
مسیتا:۔ لعنت ہوتیری شکل پر موذی ہزار بار۔
چمپا:۔ حجام سے منشی بنا اور پھر ہوا چمار۔
گھسیٹا:۔ بس بس او ناری۔
سب:۔ دور دور دور دور بد شعاری ، آؤ آؤ، واہ واہ۔

(سین ختم )
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب تیسراسین
(کڑاہی والا سین)
عزرا:۔ ا و ظالم رومنو!متواتر دو صدی تک ستانے ، مٹانے اور برباد کرنے کے بعد بھی تمھارا حیوانی جوش اور حیوانی تعصب ٹھنڈا نہیں ہوا ... او خدا ، اوخدا ! آخرکب تک یہ خوں چکاں نظارہ دیکھا جائے گا۔کب تک تیر ا قہر وغضب جو انتقام کی تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھے ہوئے ان کی گستاخی کو نفرت سے دیکھ رہا ہے ، جوش میں نہ آئے گا ۔ ؂

میرے مولا کب تلک غصہ نہ ان پر آئے گا


ظالموں پر رحم آخر کب تلک فرمائے گا


کب تلک ہوتے رہیں گے بے کسوں پر ظلم وجور


کب تلک یہ منظرِ خونی تو دیکھے جائے گا

بروٹس:۔ بدبخت بڈھے! اپنا مذہب چھوڑکر ہمارے مذہب کے دائرے میں کیوں نہیں آتا ؟ اپنے خدائے نادیدہ کو چھوڑ کر کیوں نہیں ہمارے خداؤں کے سامنے سرجھکا تا ۔ ؂

درست پھر سے تیری سر گذشت ہو جائے


ابھی بدل کے یہ دوزخ بہشت ہو جائے

عزرا:۔ ظالم رومن ! فانی زندگی کا لالچ دکھا کر تو اس بوڑھے کو اپنے آبائی عقیدے اور الہی دین سے نہیں بہکا سکتا ۔ دنیا کی زندگی ایک خواب ہے اور خواب کے لیے میں اپنی آخرت کی مسرتوں کو خاک میں نہیں ملاسکتا ۔ ؂

موت کیا ہے زندگی کا لازمی انجام ہے


موت سے ڈرنا سراسر احمقوں کا کام ہے


غم تو جب ہوتا کہ میں مرتا خیالِ خام پر


جان جس نے دی ہے دے دوں گا اسی کے نام پر

بروٹس:۔ اچھا دیکھا جائے گا۔ لے جاؤ ان کو اٹھا کر کھولتے ہوئے تیل کے کڑھاؤمیں ڈال دو۔
عزرا:۔ چند منٹ صرف چند منٹ ٹھہرو۔ راحیل ، آخر وہ وقت آگیا جس کا مجھے انتظار تھا ، جس کے لیے سولہ برس سے میرا دل بیقرار تھا ۔ میرے دل میں ایک تلاطم برپاہے ۔ بتاتو دنیا اور دین دونوں میں سے کس چیز کو پسند کرتی ہے۔
راحیل:۔ ابا جان ! دکھ بیمار ی اور دیگر تکالیف سے بھری ہوئی دنیا کے لیے حقیقی مسرت اور جاودانی سرور سے آنکھیں بندکروں ؟ لعل کو ٹھوکر ما ر کر پتھر کو پسند کروں ؟ ؂

اس زندگی کے واسطے لب پر نہ آہ ہو


ہاں صرف ہو تو اَ شہدُ اَن لَّا اِلہ ہو

عزرا:۔ شاباش !اے میری نور العین شاباش ۔ ؂

یہ آگ تیرے واسطے باغِ خلیل ہو


یہ موجِ نار تیرے لیے موجِ نیل ہو

جس وقت تری جان ترے تن سے جدا ہو


اس وقت ترے ہونٹوں پہ بس نامِ خدا ہو


بروٹس:۔ جب اسے تبدیلِ مذہب پر انکار ہے تو دیر بیکار ہے ۔ جاؤ، لے جاؤ ۔ ؂

تڑپ تڑپ کے مریں اس طرح ہلاک کرو


جھلس دو آگ میں ان کو جلا کے خاک کرو

عزرا:۔ اس لڑکی پر ، صرف اس شاداب گلاب کی کلی پر رحم کرو۔
بروٹس:۔ کبھی نہیں ، بس بوڑھے۔ اگر اس کی اور اپنی جان بچانا ہے تو بتا کہ روما کی خوفناک اور تباہ کن آگ سے میری بچی کو کس نے نکالا اور کس نے پالا ۔
عزرا:۔ اچھا بتاتا ہوں ، مگر ایک شرط پر ۔
بروٹس :۔ بول وہ کیا ہے ؟
عزرا:۔ جب میں تمام راز ظاہر کر دوں تو میرے ہاتھ کا اشارہ پاتے ہی اس لڑکی کو آگ کے شعلوں میں جھونک دیا جائے اور میرے سینے میں بھی آبدار خنجر بھونک دیا جائے۔
بروٹس:۔ منظور ہے ۔
عزرا:۔ اچھا تو سنو ! روما کی آتش زدگی سے دو برس پہلے کا واقعہ ہے کہ تم نے محض سلام نہ کرنے کے جرم میں میری بچی کو اس کی ماں کی گود سے چھین کر آگ کے تنور میں ڈال دیا تھا، مگر آہ ظالم ، خونخوار رومن اس وقت جب کہ روما کی گلی کوچوں میں نیزوں کی آگ سے زلزلہ انگیز تلاطم برپا تھا ۔ میں تمھارے گھر کی چھت پر چڑھا اور تمھاری چھ مہینے کی شیر خوار بچی کو جو اپنی مردہ ماں کے سینے پر پڑی ہوئی دھو ئیں کی گرمی سے بلک رہی تھی اٹھا لیا اور اپنی اولاد بنا کرپالا۔
بروٹس:۔ تم نے ؟ آہ عزرا ! میرے مہربان عزرا !تم نے نکالا؟ اور تم نے پالا؟
عزرا:۔ ہاں ! میں نے مظلوم اور کنگال یہودی نے ، جس کی مظلوم اور بے زباں بچی کو تونے موت کے تنور میں جلایا۔ اس نے تیری اولاد کو خوفناک شعلوں کی لپیٹ اور تباہ کن آگ کے منہ سے بچایا ۔ ؂

ستم گری سے چمن میرا پائمال کیا


قصائی تو نے مرے خون کو حلال کیا


سلوک میرا ، گریباں میں ڈال منہ اور دیکھ


کہ تیری بیٹی کو ہے سنیچ کر نہال کیا

بروٹس:۔ مگر وہ کہاں ہے ؟
عزرا:۔ وہ ہے ، غور سے دیکھ۔
بروٹس:۔ کون ، یہ یہودن لڑکی راحیل؟
عزرا:۔ یہودن نہیں رومن ہے ، یہ میری نہیں تیری بچی پُر محن ہے ۔
بروٹس:۔ مگر اس کا ثبوت ؟
عزرا:۔ ثبوت چاہیے؟ دیکھ کنٹھی اور مالا۔
بروٹس:۔ آہ یہی ، یہی ہے میری لختِ جگر، نورِ نظر پولیناؔ، آمیرے دل کے سرور۔
راحیل:۔ میرا باپ ؟
عزرا:۔ خبردار وعدہ پورا کرو، چلو اس کو آگ میں جھونک دواور مجھ مبتلا ئے محن کے سینے میں آبدار خنجر بھونک دو۔
بروٹس:۔نہیں ، میرے محسن عزرا !اب یہ نہیں ہو سکتا۔
عزرا:۔ کیوں نہیں ہو سکتا ؟ ؂

غیر کی آواز کا دل میں نہ تھا کچھ رنج ودرد


اپنی حالت یاد کر کے کھینچتے تھے آہِ سرد


میری بچی جان کر ، کر تے تھے اس پر ظلم وجور


جب ہوا معلوم ، اپنی ہے ، تو پھر کرتے ہو غور

چلو ، لے جاؤ۔
بروٹس:۔نہیں عزرا رحم کر ، میرا قصور معاف کر ، میری طرف سے اپنے دل کو صاف کر۔
عزرا:۔ آہ راحیل !میری سولہ برس کی کمائی ۔ جا ۔ اپنے باپ کے دل کو ٹھنڈک پہنچا۔
بروٹس:۔ نہیں ، میرے بزرگ بھائی!چونکہ اس نورِ نظر نے جس طرح آج تک تمھیں اپنا باپ سمجھا ہے اسی طرح عمر بھر سمجھے گی اور جس دین کے دامن میں پرورش گر دان ہوئی ہے اسی میں آخری سانس تک رہے گی ۔
راحیل:۔ میرے محترم بزرگ ، میرے مقدس باپ !جس کے تقدس نے مجھے بت پرستی سے نکال کر خداکی تو حید کے گلشن کی گل چینی کا افتخار بخشا ہے ، کبھی نہ چھوڑوں گی آپ کی عزت اور ہمیشہ کی خدمت سے منہ نہ موڑوں گی۔
مارکس:۔ پیاری راحیل ! میں اپنی گزشتہ بے وفائی سے نہایت شرمسار ہوں اور جو سزا اس جرم کی دی جائے اسے قبول کرنے کو تیار ہوں ۔
راحیل:۔ میری جان !یہ دنیا مکار ، دھوکہ باز اور فریب سے پُر خار ہے ۔
ڈیسیا:۔ میری عزیز بہن ! جب کہ تم رومن نسل اور مقدس پیشوائے مذہب کی معزز بیٹی ہو تو پھر انصاف چاہتا ہے کہ جس ہاتھ کی میں امیدوار ہوں ، اسے تمھارے گلوئے آبدار کا زیور بنایا جائے ، میری خوشی میں تمھیں بھی حصہ دار بنایا جائے ۔
بادشاہ:۔ ہا ں ایسا ہی ہونا چاہیے ۔
راحیل:۔نہیں ۔ (اور وہ ڈیسیا کا ہاتھ مارکس کے ہاتھ میں دے دیتی ہے )
(سین کا بدلنا)
(سب کا آنا شادی کا اہتمام)
بادشاہ:۔ ؂

فرخ سعید رشکِ سمار و سمک رہو


زندہ رہو ، نہال رہو ، حشر تک رہو

بروٹس:۔ ؂
خوش، ایک دوسرے پہ سدا مہرباں رہو
زندہ رہو،نہال رہو،شادماں رہو
(گانا)
آؤ گُیّاں مل گاویں ، گا ویں سجن موہن کو رجھاویں
پیا جیا، میں تو پہ واروں سب جان ، آؤ...
سجن موہن آؤ ، آؤ، بربا اگن کو بجھاؤ۔
کارے نیناں من بھاویں ، لبھاویں، جیا میں بسے تورے نین، ناہے چین۔
کٹے نارین، سجن سکھ دکھلاؤ،آؤ...
(ڈراپ سین)

/////////
 

الف عین

لائبریرین
تعارف

حشرؔ کی ڈراما نگاری کے آخری دور کا یہ المیہ ڈراما ایر ان کے مشہور شاعر فردوسیؔ کے’’شاہنامہ‘‘سے ماخوذ ہے۔ حشرؔنے یہ ڈراما ۱۹۳۰؁ میں میڈن تھئیٹر لمیٹڈ کلکتہ کی پارسی امپیریل تھیئٹر یکل کمپنی کے لیے لکھا تھا۔ یہ کمپنی اس زمانے میں بمبئی میں مقیم تھی‘‘۔(۳۰) آغا جمیل صاحب کے مطابق ’’رستم وسہراب‘‘ ۱۹۲۹؁ میں لکھا گیا‘‘۔(۳۱)
یہ ڈراما تین ایکٹ پر مشتمل ہے ۔ پہلے ایکٹ میں چار سین، دوسرے میں آٹھ اور تیسرے میں چھ یعنی کل اٹھارہ سین ہیں۔
’’رستم وسہراب‘ ‘کے پلاٹ کا خمیر جذبۂ وطن پرستی کی شدّت ،عشق وفرض کی نفسیاتی کشمکش ، وفا اور دغا کی آویزش ، شاہوں کی ہوسِ اقتدارکی قربان گاہ پر خون کے رشتوں کی قربانی ، باپ کی تلاش میں بیٹے کی جگر کاوی، تاج وتخت سے وفاداری نیزدنیاکی نگاہ میں بھرم رکھنے کے لیے باپ کی سخن سازی سے اٹھایا گیا ہے۔
وطن پرستی کا جذبہ اس ڈرامے کے مختلف کرداروں بالخصوص گُرد آفریدکے سینے سے لاوے کی طرح ابلتا ہے اور ایک بحرِ نا پیدا کنار کی طوفانی موجوں کی طرح پورے ڈرامے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ ڈرامے کے الفاظ کی سطح سے نیچے اگر گہرائی میں جاکر محسوس کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس ڈرامے کے فقط کردار ہی نہیں بلکہ خود ڈراما نگار اس جذبے سے سرشار ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان پر غیر ملکی تسلط کے خلاف جو جذبہ خود آغا حشرؔ کے وجود میں تلاطم برپا کیے ہوئے تھا وہ الفاظ میں ڈھل کر گُرد آفرید کی زبان سے پگھلے ہوئے لاوے کی طرح ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے رواں دواں ہے حتیٰ کہ خود محبت جیسا شدید جذبہ بھی اس کی آنچ سے پِگھل جاتا ہے ۔ اس ڈرامے کا دوسرا نام عشق وفرض بھی اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ ڈراما نگار کی نظر میں حبِّ وطن ایسا جذبہ ہے جسے عشق ومحبت کے جذبات پر بھی غالب رہنا چاہیے ۔
پلاٹ:۔ ایران کا مشہور زمانہ جنگ جو رستم اپنے وطن ایران واپس جاتے ہوئے سمنگان میں کچھ دیر کے لیے قیام کرتا ہے اور اپنے گھوڑے کو سر سبز میدان میں چرنے کے لیے چھوڑدیتاہے ۔ چند تورانی سردار رستم کو سوتا دیکھ کر اُس کا گھوڑا چُرا کر لے جاتے ہیں ۔ جاگنے پر رستم اپنے گھوڑے کو تلاش کرتا ہے اور اس کے نہ ملنے پر تورانی سرداروں سے اس کی سخت گفتگو ہوتی ہے ۔ رستم ، شاہ سمنگان کے دربار میں پہنچ کر اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ یا تو فوراً میراگھوڑا واپس کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔
شاہ سمنگان ، رستم کی بے جگری ، اولوالعزمی اور بارعب شخصیت سے متاثر ہوکر اس کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے اور اپنی بیٹی تہمینہ کی شادی اُس سے کر دیتا ہے ۔ رستم تہمینہ کو وہیں چھوڑ کر ایران واپس چلا جاتا ہے ۔ تہمینہ کے بطن سے سہراب پیدا ہوتا ہے ۔ شجاعت اور فنِ سپہ گر ی کی دنیا میں وہ نو عمری ہی میں اپنا نام پیدا کر لیتا ہے ۔
توران کے شہنشاہِ افرا سیاب کے لیے اپنے دشمن رستم کا اپنے ہی ما تحت شاہِ سمنگان کا داماد بن جانا ایک نا قابلِ برداشت توہین تھی ۔ وہ اپنے انتقامی جذبے کی آگ کو بجھانے کے لیے سہراب کو جس کا وطن سر زمین توران ہے ، تورانی فوج کے ساتھ ایران پر حملہ کرنے کا حکم صادر کر دیتا ہے ۔ سہراب ، ایران کے قلعۂ سفید پر حملہ آور ہوتا ہے۔ قلعہ کا سردار گستہم اور دوسرے فوجی افسر سہراب کے مقابلے کی ہمت نہیں پاتے مگر اس کے سامنے سپر بھی نہیں ڈالنا چاہتے لیکن قلعۂ سفید کا ایک سردار بہرام غدّاری کرکے شکست تسلیم کرنے اور صلح کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور حاکمِ قلعہ گستہم کو بھی اس پر تیار کر لیتا ہے ۔ مگر حاکمِ قلعہ کی شیر دل ، خودداراور محب وطن بیٹی گرد آفرید ، غدّار بہرام کو سخت لعنت ملامت کرتی ہے اور اپنی ولولہ انگیز تقریر سے ایرانی فوج میں نئی زندگی دوڑا دیتی اور نیا جوش بھردیتی ہے ۔
گُرد آفرید مردانہ لباس میں خود میدانِ جنگ میں آتی ہے اور عالمِ غیظ وغضب میں سہراب کو مقابلے کے لیے للکارتی ہے ۔ دورانِ جنگ گردآفرید گھوڑے سے گرجاتی ہے جس سے اس کا خود سر سے اتر جاتا ہے اور بال بکھر جاتے ہیں۔ سہراب اس کی بہادری ، جرأت اور حسن وجمال سے مسحور ہوکر اپنا دل اُسے دے بیٹھتا ہے ۔ گرد آفرید بھی اس کی مردانہ وجاہت اور شجاعت کو دیکھ کر اُس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے لیکن اس کا عشق ، وطن کی محبت اور حفاظت کے جذبے کو مغلوب نہیں کر پاتا اور وہ ایک شدید ترین نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔ ایک طرف اس کا محبوب سہراب ہے اور دوسری طرف اس کا محبوب وطن ہے ۔ گرد آفرید کا پورا وجود ان دو مخالف محبوبوں کی محبت کی کشمکش سے سلگ اٹھتا ہے ۔ چنانچہ وہ ایک طرف تو سہراب اور اس کی فوج کو قلعے میں آنے کی دعوت دیتی ہے مگر جب سہراب پہنچتا ہے تو اس سے ملنے سے انکارکر دیتی ہے ۔ سہراب اپنی اس تذلیل کو برداشت نہیں کر سکا ۔ انتہائی جوش اور غیظ وغضب میں اپنی فوج کو قلعے پر حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن ساتھ ہی تنبیہہ کر دیتا ہے کہ گردآفرید کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ غدّار بہرام موقع پاکر گرد آفرید کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیتا ہے۔ اس واقعہ کا علم ہونے پر سہراب بپھرجاتا ہے اور بہرام کو موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے ۔ محبت کے جوش اور شدید غم کے عالم میں گرد آفرید کا سر اپنے زانو پر رکھ لیتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت کا اقرار کرتے ہیں اور گردآفرید اسی حالت میں دم توڑدیتی ہے ۔
سہراب کی پیش قدمی سرزمین ا یران میں جاری رہتی ہے ۔ اس طوفان کو روکنے کے لیے ایران کے پاس صرف ایک ہی دلاور ہے اور وہ ہے رستم جو یہ نہیں جانتا کہ جنگ آزما سہراب اس کا لختِ جگر ہے ۔ دوسری طرف سہراب یہ تو جانتا ہے کہ رستم میرا باپ ہے مگر وہ رستم کو پہچانتا نہیں۔ وہ اپنے تورانی سرداروں سے رستم کی شناخت چاہتا ہے مگر وہ رستم کو پہچانتے ہوئے بھی سہراب کو نہیں بتاتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رستم کو اگر کوئی زیر کر سکتا ہے تو صرف سہراب۔ چنانچہ باپ اور بیٹے کے ٹکراؤ سے یہ عظیم المیہ وجود میں آتا ہے ۔ غیر شعوری طور پر خون کا رشتہ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھانے سے روکتا ہے ۔ سہراب لاکھ چاہتا ہے کہ رستم یہ بتادے کہ وہ رستم ہے مگر رستم اقرار نہیں کرتا اور جو نہ ہونا چاہیے تھا وہ ہو جاتا ہے ۔رستم سہراب کو مغلوب کر کے ہلاک کر دیتا ہے مگر جب وہ سہراب کے بازو پر تہمینہ کودی ہوئی اپنی بندھی نشانی یعنی اپنا مہرہ دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ سہراب تو اسی کے جگر کا ٹکڑا ہے ۔ اپنے ہاتھوں لائی ہوئی اس بد نصیبی پر رستم کا وجود آنسوؤں میں پگھل جاتا ہے۔
کردار نگاری:۔ ڈرامے کے سبھی کردار اپنی جگہ اہم ہیں خصوصاً رستم ، سہراب، بہرام ، ہجیر، تہمینہ اور گرد آفرید کے کردار بڑے اثر انگیز ہیں۔ رستم وسہراب ، شجاعت ، جرأت اور دلیری کے پہاڑ ، بے خوفی اور جانبازی کی علامت ، اپنے اپنے وطن سے محبت کے پیکر ، ایرانی وتورانی جاہ وجلال اور عظمت کی قابلِ رشک ہستیاں ، بہرام، غدارِ قوم وملک ، بزدل اور کمینہ ، ہجیر ملک وقوم کا وفادار اور ان کی آزادی پر مرمٹنے والا ، تہمینہ ، رستم کی با وفا شریکِ حیات اور اپنے بیٹے سہراب سے بے پناہ محبت کرنے والی ماں ۔ سب سے زیادہ اثر انگیز اور دل کی گہرائیوں میں اترجانے والا کردار ہے گُردآفرید کا جو حسن وجمال اور نسائیت وپاکیز گی کا مجسمہ، عشق ومحبت کا پیکر ، شرافت ، جرأت اور حوصلہ مندی کا مرقع ، وطن پرستی اور جاں نثاری کی لازوال مثال ہے جس پر ا یرانی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ اس ڈرامے کا ہر کردار مسحور کن حد تک اثر آفریں ہے ۔ حرکت وعمل سے بھر پور یہ کردار دل پر ایک پائدارنقش قائم کرنے میں کامیاب نیز حشرؔ کے فنِ کردار نگاری کے کمال کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔
عشق وفرض کی جنگ میں گردآفرید جس روحانی اذیت اور ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتی ہے اس کااظہار حشرؔنے اپنے جادو نگار قلم سے کتنے پرُ ا ثر طریقے پر کیا ہے ۔
گُرد آفرید: ۔آؤ سہراب تمھیں دیکھ کر دل میں زند ہ رہنے کی تمنا پیدا ہو گئی، لیکن اب تمنا کا وقت نہیں رہا ۔ میرے دل کے مالک میرے فرض نے مجھے بے مرّوت بننے کے لیے مجبور کر دیا تھا ۔ حقِّ وطن کا مرتبہ عشق سے بلند تر ہے اس لیے مجھے معاف کر دو۔
پھر کہتی ہے :۔
گُُر آفرید :۔ آہ تمھیں کیا معلوم عشق وفرض کی کشمکش میں میری روح نے کتنے عذاب برداشت کیے ہیں ۔ کتنے زلزلوں سے تنہا واقفِ پیکار رہی ہے ۔ صدمہ نہ کرو۔ دوست اور دشمن ہم نام ہیں اس لیے تمھیں دھوکا ہوا ۔ میں نے اپنے پیارے سہراب سے نہیں اپنے ملک کے مخالف سے جنگ کی ہے ۔
انتہائی جری ، بہادر اور اپنی طاقت پر نازاں رستم جب اپنی تلوار سے میدانِ جنگ میں اپنے بیٹے سہراب کو قتل کر دیتا ہے تو پدرانہ محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ بیٹے کی موت پر رستم کا روحانی اور ذہنی کرب نا قابلِ برداشت ہے۔ تمام دنیا سے ٹکر لینے والے رستم اور ایک باپ میں کتنا فرق ہے ۔
رستم: ۔ آسمان ماتم کر ۔ زمین چھاتی پیٹ۔ درختو! پہاڑو! ستارو ! ٹکرا کر چور چور ہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے ۔ آج ہی دنیا کا آخری دن ہے۔ زندگی کہاں ہے !دنیا کہاں ہے !زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی ۔ سہراب ! سہراب ! سہراب!
زبان وبیان :۔ آغا حشرؔ کا یہ رزمیہ ڈراما پرُ شکوہ الفاظ ، ا ثر آفریں فقروں ، زبان کی حلاوت ، بیان کی چاشنی ، عبارت کے دروبست، شیریں فارسی تراکیب ، چست بند شوں ، حسین اور خوبصورت تشبیہات کا ایک طلسم ہے ۔ اشعار کے بر محل اور برجستہ استعمال ، مکالموں کی روانی اور اثر انگیزی، کرداروں کی داخلی کیفیت اور نفسیاتی کشمکش، عشق اور وطن پرستی کے طاقتور جذبوں کی باہمی آویزش،کرداروں کے مرتبے اور مقام کے لحاظ سے اندازِ گفتگو کی پیشکش میں حشرؔ کے جادونگار قلم نے ڈرامے کے فن کو اس کی معراج پر پہنچادیا ہے ۔
حشرؔ کا یہ رزمیہ ڈراما ، پلاٹ کی تعمیر وترتیب ، کرداروں کی تشکیل ، مکالموں کی بلند آہنگی ، خطییانہ اندازِ بیان اور منظرنگاری کے لحاظ سے ایک ادبی شاہکار اور اردو اسٹیج کا ایک غیر فانی کارنامہ ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
ڈرامے کے کردار
مردانہ

رستم:۔ سر زمیں فارس کا مشہور ومعروف پہلوان
سہراب:۔ توران کا نامور دلیر ، رستم کا فرزند
شاہِ سمنگان:۔
پیلسم:۔ شاہِ سمنگان کے فوج کا سردار
ہومان :
سہراب کی تورانی فوج کے سردار
بارمان:
شاہ افرا سیاب :۔ شنہشاہِ توران
گستہم :۔ قلعۂ سفید کا مقتدر رئیس
بہرام:۔ قلعۂ سفید کا مقتدر رئیس۔غدّار
ہجیر:۔ قلعۂ سفید کا جنگ آزمودہ محافظ
شاہ کیکاؤس:۔ شنہشاہِ ایران۔
طوس ، گودرز:۔ کیکاؤس کی فوج کے سردار
(ان کے علاوہ سردارانِ لشکر، ایران وتوران کے
سپاہی ، حاجب ، دربان چند دیہاتی وغیرہ)



زنانہ


تہمینہ:۔ شاہِ سمنگان کی دختر، رستم کی بیوی، سہراب کی ماں۔
گُرد آفرید:۔قلعۂ سفید کے حاکم کی شیردل دختر، سہراب کی محبوبہ
(ان کے علاوہ کنیز یں وغیرہ)
۔مقام۔
قدیم ایران وتوران
 

الف عین

لائبریرین
پہلاباب پہلا سین

(تورانی سرحد۔ ایک سرسبز وشاداب پہاڑی مقام ۔ آسمان میں صبح کا آفتاب۔رستم گھوڑے کی پِیٹھ پر سوار دکھائی دیتا ہے )۔
رستم:۔ دنیا کے لیے روشنی، پھولوں کے لیے مسکراہٹ ، پر ندوں کے لیے زمزمہ ، دریاؤں کے لیے ترنم ریز روانی ، سوئے ہوئے قوائے عمل کے لیے بیداری کا پیغام لانے والا آفتاب افقِ مشرق کی پیشانی پرتاجِ زرنگار کی طرح چمک رہا ہے ۔ کتنا پرُجلال نظارہ !یوں معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب نہیں ایک نورانی کتاب ہے جس میں دنیا جاگنے کے بعد اپنے ماضی کے خواب کی تعبیر پڑھ رہی ہے ، ستاروں کے ملک سے آیا ہوا ایک نورانی فرشتہ ہے جس سے کائنات کی ہر شے زندگی کی برکتیں مانگ رہی ہے ۔ آسمان کی مانند ، اس زمیں پر بھی ، ہر روز اس طرح طلوع وغروب کے منظر دکھائی دیتے ہیں۔ انسانوں کی قسمت کا ستارہ اور قوموں کے اقبال کا آفتاب بھی یو نہیں گمنامی کی رات کا سیاہ پردہ ہٹاکر شہرت کی فضا میں چمکتا،کامیابی کے سنہرے دنوں پر حکومت کرتا اور آخر دنیا کی یادداشت وتواریخ کے صفحوں پر اپنے دھندلے یا روشن نشان چھوڑ کر شامِ فنا کی تاریکی میں غائب ہو جاتا ہے ؂

دنیائے بے ثبات میں ہر شے ہے تیز گام


ہر دن کے ساتھ رات ہے ہر صبح کی ہے شام


رنگِ زوال سے ہیں رنگے ، گل بھی خار بھی


دھوکا ہے اس چمن کی خزاں بھی ، بہار بھی

(گھوڑے کی پیٹھ سے ا تر تاہے)
آفتاب کی سنہری کرنوں کے ساتھ چاروں طرف خوب صورتی اور رنگینی بکھری ہوئی ہے اور پرندوں کے ترانوں پر ہوائیں رقص کر رہی ہیں ۔ زمین پر صبح کی روشنی پھولوں کی خوشبو اور بلبل کے نغموں کا سیلاب بہ رہا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگل قدرت کا بنایا ہوا ایک شعر اور یہ سرخ وزرد پھول اس شعر کے حسین استعارے ہیں ۔
(پیار سے گھوڑے کی گردن تھپتھپا تا ہے )
میرے بچپن کے رفیق !جوانی کے دوست !میدانِ جنگ کے وفا دار ساتھی! وہ دیکھو ہر ے بھرے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں تمھارے لیے دور تک سبز مخمل کا دسترخوان بچھا ہوا ہے ۔ خوشبو میں نہائے ہوئے ہوا کے جھونکے بار بار تمھیں بلانے آرہے ہیں۔ جاؤ ، ان کی دعوت قبول کرو۔
(گھوڑے کو چرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے )
سردی ، گرمی ، بھوک ، پیاس کی تکلیفوں سے بے پروا ہو کر آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح جو فضا میں راستہ بھول گیا ہو دو مہینے سے شکار کے پیچھے جنگلوں اور پہاڑوں میں بھٹکتا پھررہا ہو ، بس شکار اور سفر دونوں ختم ہوئے ۔ تھکے ہوئے جسم کو تھوڑا آرام دینے کے بعد آج ہی ایران روانہ ہو جاؤنگا (ڈھال کا تکیہ بنا کر زمین پر لیٹ جاتا ہے ) نیند!پیاری نیند!تم فطرت کی لاڈلی بیٹی ہو ، برکتوں کے ملک کی ملکہ ہو ، آرام کی سلطنت کی شہزادی ہو ؂

راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو ٹھکراتی ہوئی


آؤ ، آؤ ، مسکراتی ، پھول برساتی ہوئی


روح کو تسکین دو اور جسم کو آرام دو


زندگانی کو خدا کا بہترین انعام دو

(رستم سوجاتا ہے ، چند تورانی سردار جو ایران کی سیاحت سے واپس ہوکر اپنے وطن سمنگان کی طرف جارہے ہیں داخل ہوتے ہیں)
سردار نمبر ۱:۔ دنیا کے عجائبات میں تم بھی ایک عجیب چیز ہو ۔ بہشت کو دیکھنے کے بعد بھی کہتے ہوکہ بہشت خوب صورت نہیں ہے ؟
سردار نمبر ۲:۔ ہاں ۔
سردار نمبر۱:۔ تب یقینا تم ایران کے سفر میں آنکھیں ساتھ لے کر نہیں گئے تھے۔ مجھے تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ جمشید اور فریدوں کی سرزمیں میں نہیں کسی شاعر کے خیال کی رنگین دنیا میں سیر کر رہاہوں۔
سردار نمبر ۲:۔ جس طرح موت اور زندگی ،ظلمت اور نور ،اہر من اور یزداں میں ازل سے جنگ ہورہی ہے اسی طرح قد یم ایران اور توران بھی ایک دوسرے کی دشمنی کو اپنی زندگی کا واجب الادا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہم توارنی ہیں ، تورانی کے گلے پر خنجر رکھ دو تب بھی ایران کی تعریف نہ کرے گا۔
سردار نمبر۱:۔ تعریف نہ کرے گا !کیوں؟
سردار نمبر۲:۔کیونکہ وہ ہمارے دشمنوں کا ملک ہے ۔
سردار نمبر ۱:۔ ا یرانی قوم تورانی قوم کی دشمن ہے لیکن ایران کے پُر عظمت پہاڑ ، خوب صورت شہر، شاداب جنگل،پریوں کی زلفوں کی طرح لہراتے بل کھاتے ہوئے دریا ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ کیا اس سفر میں تورانی سمجھ کر ایران کے آسمان نے تمھیں اپنے سورج چاند کی روشنی نہیں دی؟ ایران کے چشموں نے تمھاری پیاس نہیں بجھائی؟ ایران کی زمین نے تمھیں بیٹھنے سونے کی جگہ دینے سے انکار کیا ؟ تم دشمنی سے اپنے ہونٹوں کو سچ بولنے کی اجازت نہ دو لیکن میں تو توران کے بادشاہ کے سامنے بھی بے خو ف ہوکرکہہ دوں گا کہ دنیا کا بہشت ایشیا ہے اور ایشیا کا بہشت ایران ہے ۔
سردار نمبر۲ :۔ بس بس میں ایران کی تعریف میں قصیدہ سننا نہیں چاہتا ۔ تم شاعر نہیں سپاہی ہو!
سردار نمبر۱:۔ میں تمھارے جیسا چھوٹا دل، تنگ نظر اور پست خیال لے کر اس دنیا میں نہیں آیا ہوں۔ اچھے کو اچھا کہنا شاعری نہیں انصاف ہے ، تم جتنے ایران کے دشمن ہو اس سے زیادہ انصاف اور عقل کے دشمن ہو۔
سردار نمبر ۲:۔تمھارے الفاظ زہر کی طرح کڑوے اور چھری کی نوک کی طرح تیز ہیں۔ (تلوار کھینچ کر ) واپس لو،معافی کر ان لفظوں کو واپس لو، ورنہ مجھے اس کا جواب تلوار سے دینا ہوگا۔
سردار نمبر۱ :۔ تو اس جواب کا جواب بھی تلوار ہی کی زبان سے سننا ہوگا۔
(دونوں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں)
سردار نمبر ۳:۔ (روک کر) یہ کیا !تلوار اور طاقت کا ایسا ذلیل استعمال !کیا دنیا میں اب ہمارا کوئی دشمن نہیں رہا جو تلوار کو زنگ سے بچانے کے لیے ہم نے آپس میں جنگ شروع کر دی؟ تورانیوں کے پاس حربہ ، لشکر ، دولت طاقت ہمت سب کچھ ہے ، صرف ایک چیز اتفاق نہیں ہے اس لیے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی فتح شکست بن جاتی ہے ۔ تلواریں پھینک دو ٹوٹی ہوئی محبت کو جوڑنے کے لیے ہا تھ ملاؤ۔ جو قوم ہمدردی اور اتفاق کے ساتھ ایک دل ایک خیال ہوکر دنیا میں زندگی بسر کرنا نہیں جانتی، یاد رکھو اس کی قسمت کے نوشتے پر دائمی ذلت کی مُہرلگ چکی ہے ۔ وہ آزاد دنیا میں غلامی کے لیے پیدا ہوئی ہے اور آخری سانس تک غیر قوم کی غلام رہے گی ؂


گردِلوں میں اتفاق اور خواہشوں میں میل ہے


زندگی کی راحتوں کو فتح کرنا کھیل ہے


کامیابی کے لیے احساسِ حالت چاہیے


ایک ہو جاؤ اگر دنیا میں عزت چاہیے

سردار نمبر۱:۔دوست!ندامت کے ساتھ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔
سردار نمبر۲:۔ یہ لڑائی نہ تھی ، ہماری دوستی نے ایک لمحے کے لیے تلواروں کی جنگ کا خواب دیکھا تھا۔
سردار نمبر۳:۔ ہمیں شام ہونے سے پہلے سمنگان پہونچ جانا چاہیے۔تلواریں تیز کر چکے ۔ اب قدم تیز کرو۔
(آگے بڑھتے ہیں ، سوئے ہوئے رستم پر نظر پڑتی ہے )
سردار نمبر۱:۔کو ن؟ یہ انسان ہے یا قدرت کے جلال ، پہاڑ کی مضبوطی اور شیر کی ہیئت نے انسانی جسم اختیار کر لیا ہے !
سردار نمبر۳:۔یہ معلوم ہوتاہے کہ گوشت اور ہڈی سے گھرا ہوا طاقت کا سمندر نیند میں چھاتی پھلا کر دھیرے دھیرے سانس لے رہا ہے ۔
سردار نمبر ۱:۔ اس کے چہرے کی طرف جتنا دیکھو اتنا ہی تعجب بڑھتا ہے ۔ قدرت بھی پیدا کرنے کے بعد مدتوں حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھتی رہی ہوگی۔
سردار نمبر۲:۔ (گھوڑے کو دیکھ کر) وہ دیکھو !ہرن کی آنکھیں، مورکی گردن،گینڈے کی چھاتی،چیتے کی کمر،ہنس کی چال،تمام خوبصورتیوں کو ایک آئینے میں دیکھنا ہوتو سامنے دیکھو!
سردار نمبر۱:۔ کیا شاندار گھوڑا ہے! گو یا ہری بھری گھاس پر جنگل کا بادشاہ گھوم رہاہے ۔
سردار نمبر۳:۔ اسے باندھ کر سمنگان لے چلو۔ بادشاہ کو نذر کریں گے۔
سردار نمبر ۱:۔ لیکن یہ چوری ہے ۔
سردار نمبر ۳:۔ یہ چوری نہیں کیوں کہ چور کو سزا ملتی ہے اور ہمیں بادشاہ سے انعام ملے گا۔
(سب جاتے ہیں ۔ رستم آہستہ آہستہ بیدار ہوتا ہے)
رستم :۔ جس طرح گرمی کی گود میں دم توڑتے ہوئے کھیت بارش ہو جانے کے بعد زندہ ہو جاتے ہیں اسی طرح جاگنے کے بعد سونے اور محنت کے بعد آرام انسان کے جسم میں نئی زندگی اور نئی طاقت پیدا کر دیتا ہے (اُٹھ کر) آفتاب ، شہنشاہ کیکاؤس کے اقبال کی طرح ، بلند ہوتا جاتا ہے اور اس کی دھوپ سخی کی ہمت کی طرح بڑھتی جاتی ہے (گھوڑے کو پکارتا ہے ) آؤ ! آؤ! میرے دوست آؤ !ا یران کا راستہ میری واپسی کا انتظار کر رہا ہے ، نہیں سنا ،کہاں ہو ؟ رخش کیا دور نکل گئے؟ جنگ، سیر ، سفر ، ہر جگہ ساتھ دینے والے دوست آؤ!
(گھوڑے کی تلاش میں جاتا ہے ،دو دیہاتی داخل ہوتے ہیں)
دیہاتی۱:۔ گھوڑا تھا یا طوفان! اس کی نسوں میں لہو کی جگہ بجلی بھری ہوئی تھی۔
دیہاتی۲:۔ اس کے جسم کے ہر جھٹکے کے ساتھ دو چار آدمی زمین پر گیند کی طرح لڑھکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔
دیہاتی۱:۔ اور ہر لا ت پر دو چار پسلیوں کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔
دیہاتی ۲:۔ جب گھوڑا اتنا بہادر ہے تو اس کا مالک کتنا بہادر ہوگا۔
دیہاتی۱:۔ یہ کون آرہا ہے !ماتھے پر شکن ، بھنوؤں میں کھچاؤ، آنکھوں میں سرخی، چہرے پر غصے کی تمتما ہٹ!کیا اس جنگل کو اس کے کسی جرم کی سزا دینا چاہتا ہے ؟
(رستم واپس آتا ہے)
رستم:۔ کہیں دکھائی نہیں دیا ۔ کہیں پتہ نہیں ملا ۔ کیا میں یقین کر لوں کہ جس طرح بڑھاپے میں انسان کو تندرستی چھوڑدیتی ہے،دوسری جگہ لیاقت سے زیادہ تنخواہ مل جانے پرآقا کو نمک حرام نوکر چھوڑ دیتا ہے، مصیبت آنے پر خوشامدی مصاحب اور جھوٹے دوست چھوڑ دیتے ہیں ۔اسی طرح دنیا سے دغا بازی سیکھ کر آج میرے رخش نے بھی مجھے چھوڑ دیا !نہیں !نہیں! یہ ناممکن ہے،پھرکہاں ڈھونڈوں؟کس سے پوچھوں؟ آسمان سے پوچھا، زمین سے پوچھا، چشمے کی لہروں ، ہوا کے جھونکوں ، جنگل کے درختوں سے پوچھا۔ لیکن کوئی جواب نہیں دیتا ۔ سب چپ ہیں۔ سنو سنو درختو سنو! تمھارے ہی سبز سائے کے نیچے میری زندگی کا سایہ غائب ہوا ہے ، اسے پیدا کرو ورنہ اس جنگل میں آگ لگا کر تمھیں دھوئیں اور بربادی میں دفن کر دوں گا ؂
زمیں کنیز ہے میری فلک غلام مرا
اجل کی طرح ہے بے رحم انتقام مرا
زمانہ جس سے لرزتا ہے میں وہ رستم ہوں
نہیں سنا ہے تو اب سن لو مجھ سے نام مرا
دیہاتی۱:۔ یہاں سے نکل چلو ، یہ آدمی بھوکے شیر کی طرح خوفناک ہورہا ہے ۔
(بھاگنا چاہتے ہیں ۔ رستم انھیں روکتا ہے)
رستم:۔ ٹھہرو !
دیہاتی۲:۔ آپ آگ بگولے کی طرح گرم ہورہے ہیں ، ذرا ٹھنڈے ہو جائیے ہم لوٹ کر ابھی آتے ہیں ۔
رستم:۔ (زمین پر لات مار کر ) میں حکم دیتا ہوں ٹھہرو ۔ تمھیں موت کا حکم تو نہیں سنایا گیا ۔ پھر کانپ کیوں رہے ہو؟
دیہاتی۱:۔ جناب کانپتا کون ہے ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اس لیے ذرا ٹانگوں کو سردی معلوم ہورہی ہے ۔
رستم:۔ (ڈانٹ کر) تم کون ہو؟
دیہاتی۲:۔ ہم ، ہم آدمی ہیں۔
رستم:۔ میں کب کہتا ہوں تم گھاس یا پتھر ہو ۔
(دونوں دیہاتی خوف سے گر پڑتے ہیں)
دیہاتی۱:۔ گھر سے نکلتے وقت آج ضرور ہم نے کسی منحوس کا منہ دیکھا تھا۔
رستم:۔ بزدلو !اٹھ کھڑے ہو اور جو پوچھوں اس کا جواب دو... اٹھتے ہو یا... (گھونسہ تان کر)
دیہاتی ۲:۔ (اٹھتے ہوئے) اٹھو بابا ، ہم زمین سے نہ اٹھے تو یہ ہمیں دنیا ہی سے اٹھادے گا۔
رستم:۔ تم دونوں کہاں رہتے ہو؟
دیہاتی ۱:۔ اس جنگل سے تھوڑی دور پر ایک گاؤں میں۔
رستم:۔ تم قریب کے گاؤں میں رہتے ہو ۔
دیہاتی ۲:۔ جناب ہم دونوں غریب کسان ہیں۔ بادشاہ کے محل میں پیدا نہیں ہوئے جنت کے لائق نہیں ۔ پھر گاؤں میں نہ رہیں گے تو کہاں رہیں گے۔
رستم:۔ تم یہیں کے رہنے والے ہو تو ضرور دیکھا ہوگا۔
دیہاتی۱:۔ کسے دیکھا ہوگا۔
رستم:۔ خبردار !میرے سامنے جھوٹ بولنے کی جرأت نہ کرنا (گلا پکڑکر) اقرار کرو۔
دیہاتی۲:۔مگرگردن توڑنے سے پہلے یہ تو بتادیجیے کہ کس بات کا اقرار کریں؟
رستم:۔کہ تم نے میرے وفا دار گھوڑے کو دیکھا ہے ۔
دیہاتی۱:۔ ارے !تو کیا وہ شیرنی کے دودھ سے پلا ہوا گھوڑا آپ ہی کا تھا؟
رستم:۔ ہاں!وہ کہا ں ہے ؟
دیہاتی۱:۔ تورانی سرداروں کے قبضے میں ۔
دیہاتی۲:۔ وہ اسے گرفتار کرکے اپنے بادشاہ کو نذر دینے کے لیے سمنگان لے گئے ہیں ۔
رستم:۔ تو بکتا ہے ، جھوٹا ہے ، پاگل ہے ، نا ممکن کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ طوفان زنجیروں میں نہیں جکڑا جاسکتا ۔ بجلی رسیوں میں نہیں باندھی جاسکتی ۔ اس دنیا میں کسی ماں نے ایسا جری بے خوف لڑکا نہیں پیدا کیا جو رستم کے رخش نامی گھوڑے کی پیٹھ پر اپنی سواری کی زین کس سکے ۔ تیری آنکھو ں نے تجھے دھوکا دیا اور تو مجھے دھوکا دے رہا ہے ۔
دیہاتی۱:۔ میں نہیں بلکہ سچ بات کا یقین نہ کرکے آپ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔
رستم:۔ تیری سچائی کا ثبوت۔
دیہاتی۲:۔ ثبوت اور گھوڑا ، دونوں آپ کو سمنگان میں ملیں گے۔
(دونوں چلے جاتے ہیں)
رستم:۔ سمنگان۔کون سمنگان؟توران کی ایک چھوٹی سی ریاست !زمین کے نقشے میں ایک دھندلاسانشان!دنیاکے جغرافیہ میں ایک حقیر نقطہ ! (ڈھال اور گرز اٹھا کر) دیکھوں گا، دیکھوں گا ، سمنگان!دیکھوں گا ، کہ تیرے قلعے کی دیواریں ، تیرے بادشاہ کے تخت کے پائے ، تیرے بہادروں کے دل اور بازو کتنے مضبوط ہیں ۔ اپنے سپاہیوں سے کہ دے کہ اپنی کمانیں چڑھالیں، اپنے ترکشوں میں تیر بھر لیں۔ اپنی تلواروں پر سان دھر لیں۔ تیرے آسمان کے لہو کے چھینٹوں سے اور تیری زمین کو لاشوں سے ڈھاک دینے کے لیے رستم آندھی اور طوفان بن کر تیری طرف آرہا ہے ؂

پیے گا خون ، کہ غصہ ہے تشنہ لب میرا


کہیں پناہ نہ دے گا تجھے ، غضب میرا


گھِرا ہے شعلوں میں تو بھی ، ترا مقدر بھی


بجھا سکے گا نہ اس آگ کوسمندر بھی

(جوش وخروش کے ساتھ سمنگان کی طرف روانہ ہو جاتا ہے )

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
پہلا باب دوسرا سین
(دربارِ سمنگان)
(امرائے سلطنت حاضر ہیں ۔ حبشی تاتاری غلام کندھوں پر شراب کی زرنگار صراحیاں اور ہاتھوں میں طلائی جام لیے ہوئے ہیں ۔ شاہِ سمنگان تخت پر رونق افروز ہیں)
شاہِ سمنگان:۔ سمنگان کے ستارو !تاج کے وفادارو !یہ دنیا ازل سے ابد کی طرف جانے والا ایک راستہ ہے ۔ اس راستے پرخدا کے سوا خدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز سفر کررہی ہے ۔ آج میری عمر کے مسافر نے بھی زندگی کے سفر میں اپنے راستے کی پچاس منزلیں طے کر لی ہیں ؂

کل بڑھاپا بھی نہ ہوگا نوجوانی کی طرح


ساتھ دنیا کے بہے جاتے ہیں پانی کی طرح


کس طرف کو جارہے ہیں یہ پتا کوئی نہیں


اس سفر کی ابتدا ہے ، انتہا کوئی نہیں

وزیر:۔
حیاتِ جاودانی دے خدا اس دارِ فانی میں


ہماری عمر بھی مل جائے تیری زندگانی میں


پیلسم:۔
خوشی کا دن ، مسرت کا زمانہ باربار آئے


ہزاروں بار یوں ہی اس گلستاں میں بہار آئے

(کنیزوں کا رقص، رقص کے بعدساقی امرائے دربار کے سامنے جامِ شراب پیش کرتے ہیں ۔ اس وقت رستم غصے اور جوش میں داخل ہوتا ہے)
رستم:۔(آکر) بس بس،دنیا میں تمھاری خوشی کے دن ختم ہوچکے۔پیالے پھینک دو۔ صراحیاں توڑ دو، اپنی ہستی کو آنسوؤں میں غرق کر دو ۔ (بادشاہ سے) تمھیں سمنگان کے بادشاہ ہو ؟ (درباریوں سے ) ہاں تمھیں اس تخت وتاج کی حفاظت کرنے والے بہادر ہو ؟یہی آنکھیں ہیں جو اپنے سوا تمام دنیا کو حقارت سے دیکھتی ہیں ۔ یہی ہاتھ ہیں جو شیر کی کلائی موڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ ؂

کمانیں بھی ہیں، ڈھالیں بھی ہیں، کندھوں پر تبر بھی


کرو ثابت کہ ان سینوں میں ہے دل بھی جگر بھی


بڑھو ، جوہر دکھاؤ، آج اگر تلوار باندھی ہے


میں آیا ہوں کہ دیکھو ، کون بجلی کون آندھی ہے

پیلسم :۔ شاہی دربار میں آج تک کسی نے اس جوش ودلیری کے ساتھ گفتگو کی جرأت نہیں کی۔ تم مظلوم ہو ، فریادی ہو، دیوانے ہو ، آخر کون ہو؟
رستم:۔ میں کون ہوں؟ اس تخت کے لیے زلزلہ، اس سلطنت کے لیے بربادی اور تم سب کے لیے موت کی گرج ؂

عدو کو پھونک دے وہ برقِ شعلہ فام ہوں میں


خدا کے قہر کا اک نقشِ انتقام ہوں میں


فنا کے ہونٹ سے نکلا ہوا پیام ہوں میں


اجل کے ہاتھ کی شمشیرِ بے نیام ہوں میں


یہ بزمِ عیش چمکتی ہے جو ستاروں سے


جلے گی ا ب مری تلوار کے شراروں سے

پیلسم:۔ ادب سیکھ ادب !یہ ہمارے بادشاہ کا انتہائی رحم ہے کہ ابھی تک تجھے اس گستاخی کی سزا نہیں دی گئی۔
رستم:۔ عورتوں کی طرح تمھاری زبان میں طاقت ہے مگر مجھے سزا دینے کے لیے تمھارے بازوؤں میں طاقت نہیں ہے ؂

ہستیٔ نا چیز ، ٹھہرے گی فنا کے سامنے!


شمع کی لَو ، سر اٹھائے گی ہوا کے سامنے !


گھاس کا تنکا ، سزا دے ، اور کسے؟ طوفان کو!


تم نے دیکھا ہی نہیں اب تک دلیر انسان کو

پیلسم:۔بس !اس سے زیادہ تحمل نہیں ہو سکتا۔ تیری گستاخی برداشت کی حد سے آگے بڑھ رہی ہے ؂

زباں اور سر کٹا دیتی ہیں تلخ وتیز تقریریں


نہ لہرائیں کہیں نا گن کی صورت سر پہ شمشیریں


ہماری بھی رگوں میں زندگی کا خون بہتا ہے


سمجھ رکھا ہے کیا تونے ہمیں بے جان تصویریں

رستم:۔ زمین پر اُگی ہوئی گھاس جیسے پیروں سے روندتا ہوا یہاں تک آیا ہوں میں اس سے بھی زیادہ تمھیں بے حقیقت سمجھتا ہوں ۔ سنو !تم سمنگان کے شاہی دربار میں نہیں بلکہ قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے مجرموں کی طرح میرے غصے کی عدالت میں کھڑے ہو ۔ اگر دنیا میں زندہ رہنے کی خواہش ابھی پوری نہیں ہوئی ہے تو میرے غضب کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ، سر جھکا کر، ہاتھ جوڑ کر ، اپنے قصور کے لیے معافی اور اپنی زندگی کے لیے رحم مانگو ۔
بادشاہ:۔ اے شخص !میں بڑی دیر سے تیری دیوانگی آمیزگستاخیوں کو حیرت سے دیکھ رہا ہوں۔کسی مقدمے میں انصاف ، کسی قصور کی معافی ، کسی خدمت کا انعام ؟ بیان کر تو کیا چاہتا ہے ؟
رستم:۔ میں اپنا رخش نامی گھوڑا چاہتا ہوں۔ تیری سلطنت میں شریفوں کا چہرہ لگا کر پھرنے والے ڈاکو اسے تورانی سرحد سے چرا لائے ہیں ۔ اگر تو نے آج ہی، اسی وقت ، اسی جگہ اسے حاضر نہ کیا تو اس دنیا میں تیری ہستی اور اس زمیں پر سمنگان دکھائی نہ دے گا ؂

قسم خورشید کی ، نوری زرہ جس کے بدن پر ہے


قسم مہتاب کی، جو لشکرِ انجم کا افسر ہے


قسم ہے کہکشاں کی ، جو کمانِ چرخِ اخضر ہے


قسم ہے آسماں کی جو شفق کے خون سے تر ہے


دکھائی دو گے یوں تم آبِ خنجر کی روانی میں


بہیں ، ٹوٹی ہوئی کشتی کے تختے ، جیسے پانی میں

بادشاہ:۔تو اس دعوے سے بات کر رہاہے گویا تباہی تیرے اشارے اور موت تیرے غصے کا نام ہے ۔انسان اتنا خوف ناک نہیں ہوتا۔میں تیرا نام جاننا چاہتا ہوں۔
رستم:۔ میرا نام سنتے ہی اس دربار کی دیواریں کانپ اٹھیں گی ، یہ شراب اور غرور کے نشے سے سرخ چہرے زرد ہو جائیں گے اور تو آندھی کے تھپیڑے سے ہل گئے درخت کی طرح تخت سے نیچے گر پڑے گا ؂
روح یوں لرزے گی گویا دب گئی ہے برف میں
اس قدر ہیبت ہے میرے نام کے ہر حرف میں
شورسے گونجا ہوا ہر شہر ہر ویرانہ ہے
نام میرا شیر کا ایک نعرۂ مستانہ ہے
بادشاہ:۔ چاہے تیرا نام سنتے وقت ہمارے کانوں کے پاس ہزاروں بادل ایک ساتھ گرج اٹھیں ، پھر بھی ہم تیرا نام سننا چاہتے ہیں ۔
رستم:۔ بازوؤں کی طاقت نے شہرت کی سنہری روشنائی سے ایران اور توران کے ذرے ذرے پر میرا نام لکھ دیا ہے ۔ میں سام اور نریمان کا جگر بند ، زال ورود ابہ کا فر زند، زا بلستان کا جّرار، فارس کا مددگار ؂

شاہ کیکاؤس کے اقبال کی تنویر ہوں


فاتحِ ملکِ شجاعت ، مالکِ شمشیر ہوں


تیر وترکش میرے خادم ، گرزہے ہمدم مرا


کام ہے میداں نوازی ، نام ہے رستم مرا

(سب چونک پڑتے ہیں ۔ شاہ گھبرا کر تخت سے اتر آتا ہے )
بادشاہ:۔ رستم ؟ رستم ؟ کیا وہی رستم جس کی عظمت مآب ہستی پر آج ایران فخر کرتاہے۔
رستم:۔ ہاں میں وہی رستم ہوں ۔ گھوڑا دویا جنگ کرو۔ بولو، زندگی اور موت دونوں میں سے کسے پسند کرتے ہو!
بادشاہ:۔ نامور رستم !ا یرانی اور تورانی تلواروں کے ٹکرانے کی جگہ شاہی دربار نہیں، میدانِ جنگ ہے۔ آئیے بیٹھیے! آپ ہمارے مہمان ہیں۔میں میزبان کی حیثیت سے آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
رستم :۔اس دنیا میں میرا سب سے بڑا دوست میرا وفادار گھوڑا ہے ، جب تک وہ نہ مل جائے میں تمھاری طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاسکتا۔
بادشاہ:۔ آپ دو روز تک ہماری مہمانی قبول کیجیے ، سمنگان سے رخصت ہونے سے پہلے آپ کا گھوڑا آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔
رستم :۔ اپناہ وعدہ وفا کروگے؟
بادشاہ:۔اگر انسان ہونے کا دعویٰ ہے ؟
رستم :۔مہمان بنا کر دھوکا تو نہ دوگے؟
بادشاہ:۔ اگر کمینہ کہلانے کی شرم ہے؟
پیلسم:۔ ٹھہریے جلالت مآب ٹھہریے !اس تاج وتخت کی حفاظت کرنے والے جان نثاروں کی طرف سے سمنگان کی وفادار رعیت کی طرف سے ، تورانیوں کی حمیت وغیرت کی طرف سے ، میں یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ آپ کس کی مرضی سے توران کے سب سے بڑے دشمن کو مہمان بنارہے ہیں؟
بادشاہ:۔ اس سوال کا مطلب؟
پیلسم:۔جس طرح رعایا اپنے بادشاہ کی اطاعت گزار ہوتی ہے اسی طرح بادشاہ بھی ملک کی آواز اور رعیت کی مرضی کا تابع ہوتا ہے ۔ جب تک بادشاہ اور رعیت کی مرضی میں اتفاق نہ ہو حکومت اور سلطنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔
بادشاہ:۔ میں دوبارہ پوچھتا ہوں کہ ان لفظوں کا کیا مطلب ہے ؟
پیلسم :۔ آب خود مختار اور آزاد نہیں ، شنہشاہِ افراسیاب کے ما تحت ہیں ، اس لیے توران کے دشمن کو مہمان بنا کر دنیا میں تورانیوں کو بزدل اور بے حمیت ثابت نہ کیجیے۔اس شرمناک جرأت کو نہ سمنگان کی رعیت معاف کرے گی اور نہ توران کا شہنشاہ افراسیاب معاف کرے گا۔
رستم:۔ افراسیاب؟ کون افرا سیاب؟ وہی جو صدہا مرتبہ اپنی نامردی سے میدانِ جنگ کو ذلیل کر چکا ہے ، جو کتنی ہی بار رستم کی تلوار سے زندگی کی بھیک مانگ چکا ہے ؂

سرکشی میں جو فلک ہے ، روندے جانے میں زمیں


جس میں ہمت ہے ، نہ غیرت ، جس کی دنیا ہے نہ دیں


دم بھرے اس کا جو تجھ سا بزدل ونا مرد ہے


تیرا وہ افرا سیاب ان ٹھوکروں کی گَردہے


پیلسم:۔ (دربایوں سے)جس کے پہلے ہی لفظ پر تلواروں کو میان سے تڑپ کر باہر نکل آنا چاہیے تھا اس کی بد زبانی کا جواب دینے کے لیے ابھی تک تمھاری زبانوں اور ہاتھوں کو حرکت نہیں ہوئی ؂

شرم ہے تم پر ، اگر دنیا میں یہ زندہ رہے


ہاں بڑھو توران کا اقبال تابندہ رہے

(پیلسم اور اس کے ساتھی رستم پر حملہ کرتے ہیں ، رستم حملہ آوروں کو شکست دینے کے بعد پیلسم کو زمیں پر گراکر خنجر نکالتا ہے )
ٹیبلو
(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
پہلا باب تیسرا سین
سمنگان کی شاہی محل سرا
(شہزادی تہمینہ اور کنیزیں آتی ہیں)
تہمینہ :۔ نیلا آسمان ، ہنستا ہوا چاند، جگمگاتے ہوئے ستارے ،کتنی حسین رات ہے دن کے ختم ہوتے ہی دنیا کی خوب صورتی جاگ اٹھی ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ درخشاں نظارے قدرت کی شاعری ہیں اور رات چاند کی چادر اوڑھے ہوئے اس حسین شاعری کا مطالعہ کررہی ہے ۔
کنیز(۱):۔اور مجھے یہ معلوم ہوتاہے کہ سمنگان کی شہزادی کے حسن کامقابلہ کرنے کے لیے نیلم کے تخت پر بیٹھی ہوئی رات کی ملکہ چاند کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنے سیاہ بالوں میں تاروں کے موتی پرو رہی ہے ۔
تہمینہ:۔ تم نے میرے حسن کی تعریف کرناکس سے سیکھا ہے؟
کنیز(۱):۔ آپ کا آئینہ ، وہی آئینہ جس کے اندر آپ کا چہرہ اس طرح نظر آتاہے گویا چاندی کے چشمے میں سونے کا پھول تیر رہا ہے ۔
تہمینہ:۔ آئینہ تو خوشامدی ہوتا ہے ۔
کنیز(۱):۔ معاف کیجیے وہ بد صورت چہرے کی کبھی خوشامد نہیں کرتا ۔
تہمینہ :۔اری بیوقوف !عورت کا حسن تو وہم کا خواب ، خیال کی حماقت اور یقین کی دیوانگی ہے۔ وہ خوبصورتی جو عمر بڑھنے کے ساتھ کم ہو جاتی ہے ، ڈوبتے ہوئے دن کی روشنی کی طرح پھیکی پڑ جاتی ہے اور بجلی کی طرح چمک کر پھول کی خوشبو کی طرح اڑجاتی ہے۔ میں اس آنی اور فانی خوبصورتی کو عورت کے ساتھ جوانی کا مذاق سمجھتی ہوں ؂

بہار دلربائی ایک دھوکا ایک سایا ہے


یہ کچا رنگ ، مٹی کے کھلونوں پر چڑھایا ہے


کہاں کا حسن ، پاگل ہے جو اترائے جوانی پر


ہوا سے کچھ لکیریں بن گئی ہیں بہتے پانی پر

( ایک کنیز کا داخلہ)
کنیز (۲):۔حضور،حضور !سنتے ہی چونک اٹھیے گا ۔ میں آپ کے لیے اس پرانی دنیا کی ایک نئی خبر لائی ہوں ۔
تہمینہ:۔ نئی خبر !
کنیز (۲):جی ہاں نئی ، اچھوتی ، کنواری خبر۔اس دنیا کے سارے جھگڑوں کی جڑ تین چیز یں ہیں یعنی زمین، زر اور زن ۔ سلطنت کے لیے ، دولت کے لیے ، عورت کے لیے ، تو لڑائیاں ہوا ہی کرتی ہیں لیکن ایک گھوڑے کے لیے خون خرابہ ہوتے ہوئے آج ہی دیکھا ہے ۔
تہمینہ:۔ لڑائی ہوئی ۔کہاں؟
کنیز (۲):دربار میں۔
تہمینہ:۔ کس سے؟
کنیز (۲):۔ ہمارے وزیر جنگ پیلسم اور ایران کے سپہ سالا ر رستم سے۔
تہمینہ:۔ ا یران کے دربار کی زینت رستم، سمنگان کے دربار میں کیسے آگیا؟
کنیز(۲):۔ اپنے کھوئے ہوئے گھوڑے کی تلاش میں۔
تہمینہ:۔ تو لڑائی کی وجہ؟
کنیز (۲):۔ انسانیت وشرافت کا فرض سمجھ کر ہمارے بادشاہ نے گھر آئے ہوئے قومی دشمن کو مہمان بننے کے لیے دعوت دی ۔ اس دعوت کو پیلسم اور اس کے ہم خیال سرداروں نے توران کی بے عزتی سمجھا ۔ اس بنا پر بات بڑھ گئی اور ایک خوف ناک جنگ شروع ہو گئی۔
تہمینہ:۔کہاں رستم!کہاں سمنگان!اری پاگل تو ضرور کوئی خواب دیکھ کر آئی ہے ۔
کنیز (۲):۔ تلواروں کی گھٹامیں رستم کو بجلی کی طرح چمکتے ہوئے دیکھ کر مجھے بھی اس نظارے پر خواب ہی کا دھوکا ہوا تھا لیکن اپنے حریف کو شکست دینے کے بعد رستم کو جہاں پناہ کے ساتھ آرام کے لیے محل میں جاتے ہوئے دیکھا تب یقین ہوا کہ میں خواب نہیں دیکھ رہی ہوں، جاگ رہی ہوں۔
تہمینہ :۔وہ سمنگان میں کب تک رہے گا؟
کنیز (۲):۔ پرسوں شام تک ، کیوں کہ گھوڑے کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے جہاں پناہ نے دودن کا وعدہ کیا ہے ۔
تہمینہ:۔ میں برسوں سے رستم کا پُر جلال نام اور اس کی جرأت اور دلیری کے عجیب وغریب کارنامے سن رہی ہوں ۔جب دشمن بھی بے اختیار ہوکر اس کی بے مثال بہادری کی تعریف کرتے ہیں تو میں سوچ میں پڑجاتی ہوں کہ وہ کتنا اقبال مند اور کیسا شان دار آدمی ہوگا جس کی شہرت نے تمام دنیا کو فتح کر لیا ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ ایک بار اس کو چھپ کر دیکھوں اور معلوم کروں کہ دنیا اس کی اتنی تعریف اور عزت کیوں کررہی ہے ۔
کنیز:۔ (۲):۔ آپ رستم کو دیکھنا چاہتی ہیں؟
تہمینہ:۔ اگر ممکن ہو،لیکن چھپ کر اور وہ بھی صرف ایک بار۔
کنیز(۲):۔مگر یہ خیال رہے کہ رستم نے دنیا کو فتح کرنے کی قسم کھائی ہے اور آپ بھی دنیا کی حسین ترین شے ہیں کہیں وہ محبت کی طاقت سے آپ کو بھی فتح نہ کرے۔
تہمینہ:۔ تو مجھ سے مذاق کرتی ہے۔
کنیز(۲):یہ مذاق نہیں پیشین گوئی ہے۔ کیوں کہ میں حسن وعشق کی قسمت کا حال بتانے والی نجومی ہوں ۔
(کنیز یں ہنستی ہیں۔ تہمینہ شرم وحیا سے گردن جھکا لیتی ہے )

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
پہلا باب چوتھا سین
شاہی محل
( آراستہ خواب گاہ ۔ رات کا وقت ۔ خواب گاہ کی کھڑکیوں میں سے شہر سمنگان کے گھروں کی روشنی دکھائی دے رہی ہے ۔ شاہ سمنگان اور رستم بیٹھے ہوئے ہیں۔ چند غلام ہاتھ باندھے ہوئے حکم کے منتظر کھڑے ہیں)
بادشاہ:۔ پیلسم کی زندگی اسے واپس دے کر آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ جو بہادر ہوتا ہے وہ رحم دل بھی ہوتا ہے ۔
رستم:۔ لیکن معافی ملنے کے بعد بھی پیلسم کا چہرہ حسد کی آگ کے دھوئیں سے سیاہ ہورہاتھا ۔ مجھے یقین نہیں کہ وہ میرے رحم کی قدر کرے گا۔
بادشاہ:۔ اب رات کی آنکھوں میں بھی نیند کا خمار دکھائی دے رہا ہے ۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو شب بخیر کہوں۔
رستم:۔ اس مہربانی کا شکریہ۔
شاہ سمنگان:۔ میری دعا ہے کہ آپ آرام کی نیند سوئیں اور مسرت کا خواب دیکھ کر ہنستے ہوئے بیدار ہوں۔
(غلاموں کے ساتھ جاتا ہے)
رستم:۔ موت کیا ہے ؟ ایک لمبی نیند، اور نیند کیا ہے ؟ ایک مختصر موت۔ سونا اور مرنا، دونوں موت ہی کی دو شکلیں ہیں ۔ لیکن کیسے تعجب کی بات ہے کہ انسان ایک کو آرزو اور التجاؤں سے بلاتا ہے اور دوسرے کا نام سنتے ہی خوف سے کانپ اٹھتا ہے ؂

آسماں کے ہاتھ میں ہے چاند کا زرّیں ستار


گونج اٹّھے نغمہ وراحت سے اس کا تار تار


رات تھوڑی رہ گئی ہے صبح ہے جانا مجھے


ہاں سناؤ اے ستارو ! نیند کا گانا مجھے

(رستم سوجاتا ہے۔ پیلسم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چوروں کی طرح دبے پاؤں داخل ہوتا ہے)
پیلسم:۔ خاموش ! آہستہ !پیروں کے نیچے کی زمین بھی تمھارے پاؤں کی آواز نہ سن سکے۔
ہمراہی(۱):۔ ہاتھ میں چمکتے ہوئے خنجروں کی طرح ہمارے پاؤں بھی ہمارے قبضے میں ہیں، بڑھو۔
پیلسم:۔ ٹھہرو ! بڑھنے سے پہلے اپنی حمیت اور ہمت کا ایک بار اور امتحان کر لو۔ رستم کے ہاتھ سے سرِدربار ذلیل ہونے کے بعد بھی تم اپنی بے عزتی پر صبرکر چکے تھے۔لیکن میں نے اپنی تقریر سے تمھاری مردہ ہمتوں میں جان ڈال دی۔ تمھارے خون میں جو پانی بن گیا تھا ،اس میں پھر سے سرخی اورگرمی پیدا کی ، پھر تم سب نے اپنی ذلت کا بدلہ لینے کے لیے تلواروں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی۔
ہمراہی (۱):۔ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنی ذلت بھی یاد ہے ا ور قسم بھی۔
ہمراہی(۲):۔ دنیا کا خیال ہے کہ سیاہ رنگ پر کوئی رنگ نہیں چڑھتا۔ آخر ہم اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لیے رستم کے خون سے رات کی سیاہ چادر کو سرخ بنانے آئے ہیں۔
پیلسم:۔ تو جاؤ ، پہلے اس کے گرزاور ترکش پر قبضہ کر لو۔
(ساتھی رستم کا گرز اور ترکش اٹھالیتے ہیں)
دیکھتے ہوکس اطمینان اور آرام کے ساتھ سورہا ہے ۔ دشمنوں کے ملک میں دشمنوں کی چھت کے نیچے تم نے کسی انسان کو اس طرح نڈر ہو کر سوتے ہوئے نہ دیکھا ہوگا۔ گویا یہ فیصلہ کرنے کے بعد سویا ہے کہ دنیا میں اور سب کچھ ہے لیکن فکر ، ڈر اور موت نہیں۔
(چھُری مارنے جاتا ہے)
ہمراہی(۱):۔ (تہمینہ کو سامنے سے آتے دیکھ کر) ہوشیار! کوئی آرہا ہے ۔
پیلسم:۔ یہ کون؟ تہمینہ !رستم کی خواب گاہ میں؟ سمنگان کی شہزادی !لیکن کیوں؟ جس طرح اس کے باپ نے دشمن کو مہمان بنا کر سارے توران کو بے عزت کیا ، کیا اسی طرح یہ بھی جوانی کے نشے سے اندھی ہوکر رستم کے آغوش میں اپنے کو ذلیل کرنے آئی ہے ؟
ہمراہی(۲):۔ ہم نے تو سنا تھا کہ صورت کی طرح اس کی سیرت بھی حسین ہے ۔
ہمراہی (۳):۔چھپ جاؤ اور سنو ! اس کی باتوں سے اس کاارادہ ظاہر ہو جائے گا۔
پیلسم:۔ اگر یہ ناپاک ارادہ اور پرُاز گناہ خیال لے کر یہاں آئی ہے تو قسم ہے سمنگان کی عزت کی ؂

نہ رہنے دوں گا کوئی نقش اس شاہی نگینے میں


یہ خنجر بھونک دوں گا سب سے پہلے اس کے سینے میں


ہزاروں کھیل دیکھے ، دیکھنا تم یہ تماشا بھی


تڑپتا ہوگا رستم کی بغل میں اس کا لاشا بھی

(سب چھپ جاتے ہیں ۔ تہمینہ خوف زدہ نگاہوں سے اِدھر اُدھردیکھتی ہوئی داخل ہوتی ہے)
تہمینہ:۔ شرم اور دل کی جنگ کسی طرح ختم نہیں ہوتی ۔ شرم کہتی ہے کہ لوٹ چل اور دل کہتا ہے آگے بڑھ۔
(سوچتی ہے)
اگر وہ جاگ کر پوچھ بیٹھا کہ تم کون ہو ؟ کیوں آئی ہو ؟ تو شرم سے سرجھکانے کے سوا اور کیا جواب دے سکوں گی ... ہمت مجھے سہارا دے...
(آہستہ آہستہ قریب جاکر سوئے ہوئے رستم کو دیکھتی اور حیرت زدہ ہو جاتی ہے) کیا دیکھا ؟ نیند کی انگوٹھی میں ایک بیش قیمت ہیرا ، بہادری، نیکی اور شرافت کی روشنی سے چمک رہا ہے ۔ ایک زمین کا چاند جس کے سامنے آسمان کا چاند بھی کرنوں کا دامن پھیلا کر مردانہ حسن کی بھیک مانگ رہا ہے ؂

تجلّی صبح کی اور دبدبہ ہے بادشاہوں کا


یہ چہرہ دیکھنے سے نور بڑھتا ہے نگاہوں کا

(دوبارہ جھک کر غور سے دیکھتی ہے ، رستم جاگ اٹھتا ہے)
رستم:۔ (پلنگ سے دھیرے دھیرے اُٹھ کر) آنکھو ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؂

عجب چہرہ ہے جس کو حسن کی کرنوں نے گھیرا ہے


یہ جلوہ ہے کہ جادو، چاندنی ہے یا سویرا ہے

(تہمینہ جانا چاہتی ہے،رستم روکتا ہے) ٹھہرو !اندھیری رات میں حسن کا چراغ لے کر آنے والی حسینہ ٹھہروا!تم کون ہو؟
تہمینہ:۔ اس سے زیادہ آپ کو جاننے کی ضرورت نہیں کہ میں سمنگان کی ایک شریف لڑکی ہوں۔
رستم:۔ تمھارا نام؟
تہمینہ:۔ تہمینہ۔
رستم:۔ اور جس کی زندگی کے باغ میں یہ حسین پھول پیدا ہوا ہے اس باغبان کا نام؟
تہمینہ:۔ شاہ سمنگان (رستم چونکتا ہے) دوست اور دشمن ہر ایک کی زبان اقرار کرتی ہے کہ آپ انسانوں میں عظیم ترین انسان اور دنیا کی پرُجلال ہستیوں میں عجیب وغریب ہستی ہیں۔ آپ کے حوصلے اور جرأت کے قصے سن سن کر میرے دل میں مدّت سے خواہش تھی کہ آپ کی زیارت کروں۔ آج وہ تمنا پوری ہوئی۔ اب اجازت چاہتی ہوں۔
(دھیرے دھیرے دروازے کی طرف لوٹتی ہے)
رستم:۔ کیا میں وہی رستم ہوں !اوہ کتنا عجیب انقلاب؟ دنیا فتح کرنے والے کو آج ایک عورت کے حسن نے فتح کر لیا (بے تابانہ) ؂

یہی ہے جس سے ہر شے ہے حسین وزرنگار اتنی


کہاں سے لائی دنیا ورنہ حسن اتنا بہار اتنی

(تہمینہ جانا چاہتی ہے)

سنو!ٹھہرو !چلیں منہ پھیر کر کیوں خستہ جانوں سے


سمنگاں کا یہی دستور ہے کیا میہمانوں سے

تہمینہ :۔ سمنگان اچھی طرح اپنے مہمانوں کی عزت کرنا جانتا ہے ۔ کیا یہ مہمانی آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہوئی۔
رستم:۔
ہو گیا بیگانہ کیوں آرام وضبط وہوش سے


پوچھیے یہ حال میری حیرتِ خاموش سے


جب سے میں جاگا ہوں ، لب ہے اور آہِ سرد ہے


جس جگہ پہلو میں دل تھا اب وہاں پر درد ہے

تہمینہ:۔ مرض سے بے پروائی مرض کا علاج نہیں ہے ۔ اجازت دیجیے کہ میں شاہی حکیم کو طلب کروں ۔
رستم :۔ روح کی بیماری کا علاج پیغمبرکرتے ہیں ، جسم کی بیماری کا علاج حکیم کرتے ہیں اور دل کی بیماری کا علاج محبت کی نظر کرتی ہے ؂

بس اب اس زندگی میں زندگی کا مدعا تم ہو


مرے غم کی شفا تم ہو مرے دل کی دوا تم ہو

(رستم تہمینہ کا ہاتھ پکڑتا ہے ، تہمینہ غصے سے ہاتھ جھٹک کر)
تہمینہ:۔ میرا ہاتھ چھوڑدو ، تمھاری شرافت پر بھروسا کرنا میری غلطی تھی۔ یا د رکھو اپنی عصمت وآبروکی حفاظت کے وقت سمنگان کی ہر شریف لڑکی رستم سے زیادہ طاقتور ہے ۔
رستم:۔ (حیرت سے) یہ کیا؟ میری محبت کے پاک جذبے کو تم شک کی نظر سے دیکھتی ہو! میں کمینہ نہیں ہوں۔ شریف اپنے ہی خون سے اپنے جسم کو رنگ دے گا لیکن ذلت کے دھبوں سے اپنے نام وعزت کو کبھی داغ دار نہ کرے گا۔
تہمینہ:۔ معاف کرنا ، میں یہ سمجھی کہ ...
رستم:۔ تم جو بھی سمجھیں غلط سمجھیں۔رواج ، مذہب اور شادی کے مقدس قانون کے مطابق جو لڑکی میری قسمت میں برابر کی شریک ہو کر زندگی سے موت تک میرے رنج وراحت کی حصہ دار ہوگی، اس کے سوا رستم ہر جوان لڑکی کو اپنی بہن اور ہر بوڑھی عورت کو اپنی ماں سمجھتا ہے ؂

کبھی ہوگا نہ داغِ جرم سے چہرہ خجل میرا


نہ گندی ہے نظر میری نہ ہے ناپاک دل میرا

تہمینہ:۔ ہر دوشیزہ لڑکی آپ جیسے شریف اور بہادر کی لونڈی بننا اپنی خوش نصیبی سمجھے گی ۔ لیکن اس بات کو نہ بھولیے کہ میں تورانی ہوں اور آپ ا یرانی ہیں۔
رستم:۔ تو کیا تم محبت کو ا یران اور توران کے لفظوں میں قید سمجھتی ہو۔ محبت کا کوئی مذہب ، کوئی قوم، کوئی وطن نہیں ہے۔ محبت خدا کے رحم کی طرح ذات اور قوم کو نہیں صرف خوبیوں کو پوچھتی ہے ۔ محبت مذہبی منصب ، ملکی نفرت ، قومی دشمنی، ذاتی غرور اور ہر اندھیرے کو، سورج کی روشنی بن کر،دورکر دیتی ہے ۔ محبت پورب اور پچھم کی طرف بہتے ہوئے دو دریاؤں کو ایک بنا کر ایک راستے پر چلنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے ؂

محبت کی نگاہوں میں اندھیرا بھی سویراہے


نہ تورانی نہ ایرانی ، نہ تیرا ہے نہ میرا ہے


نئی تحریر لکھیں آؤ قسمت کے نوشتے میں


زباں سے ہاں کہو بندھ جائیں دو دل ایک رشتے میں

تہمینہ:۔ اس بات کا جواب دینے کا مجھے اختیار نہیں ہے ۔ ایشیا کی لڑکی شادی کے بعد شوہر کی اور شادی سے پہلے باپ کے حکم کی اطاعت کرتی ہے۔
رستم:۔ رستم اورتہمینہ کی شادی،ممکن ہے کہ آئندہ کے لیے ایران اور توران کو دوست بنادے ۔ اسی لیے مجھے کامل یقین ہے کہ تمھارے صلح پسند والد اس رشتے کو ضرور منظور کریں گے ؂

نا امیدوں کو نویدِ راحت وآرام دیں


ایک ہوکر آؤ دنیا کو نیا پیغام دیں

(تہمینہ شرماکر سر جھکا لیتی ہے ۔ پیلسم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ پوشیدہ مقام سے باہر نکلتا ہے)
پیلسم:۔ غافل ہے باندھ لو !
(پیلسم کے ساتھی پیچھے سے رستم کو موٹی زنجیروں سے جکڑ لیتے ہیں)
تہمینہ :۔ تم کون ہو؟
رستم :۔ یہ کیا؟
پیلسم:۔ غرور کا جواب ۔ توران کی ذلت کا بدلہ ؂

تری نخوت تری تقدیر نے دھوکا دیا تجھ کو


سمنگاں کی زمیں پر لائی تھی تیری قضا تجھ کو


نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی ہم وطن ہوگا


زمیں تیرا جنازہ آسماں تیرا کفن ہوگا

رستم:۔ احسان فراموش !دغا باز !جس طرح کتّے کے سامنے روٹی کا ٹکڑا پھینک دیتے ہیں اسی طرح میں نے دربار میں تیری چھینی ہوئی تلواراور تیری حقیر زندگی رحم کر کے تجھے دے دی تھی۔ اگر تیری ماں کے دودھ میں غیرت کا ایک قطرہ بھی ہوتا تو ذلت کو بے حیائی کی فتح سمجھ کر دوبارہ میرے روبرو آنے کی جرأت نہ کرتا ۔ ؂

گیدڑنے پھر سے روپ بھرا ہے دلیر کا


چہرہ لگا کے آیا ہے گردن پہ شیر کا


آنکھیں ہیں لال ، خوف سے پر رنگ زرد ہے


بے شرم تو شریف وجری ہے ، نہ مرد ہے

پیلسم :۔اب یہ بکواس اس زنجیر کے لوہے میں نرمی اور اس دل میں تیرے لیے رحم پیدا نہیں کر سکتی ؂

مری شرافت پہ کر لے حملے دہن میں جب تک تری زباں ہے


یہ لن ترانی، یہ بد زبانی ، بجھی ہوئی آگ کا دھواں ہے

رستم:۔ شرافت !ان قدموں میں بیٹھ کر جن ہونٹوں سے اپنے بزدل اور ذلیل ہونے کا اقرار کر چکا ہے ان ہونٹوں سے شرافت کے لفظ کو بے عزت نہ کر ۔ کمینے ! تو اس دنیا ہی میں پیدا نہیں ہوا جس میں شرافت اور شریف رہتے ہیں ؂

بے غیرتی کی آگ سے ، دوزخ ہے دل کا گرم


بازو میں تیرے زور، نہ آنکھوں میں تیری شرم


تو بھی کثیف ہے ترا دل بھی کثیف ہے


کتّا گلی کا تجھ سے زیادہ شریف ہے

پیلسم:۔ ہاتھی کو پکڑنے کے لیے جنگل میں گڑھا کھودنا ، سامنے سے آتے ہوئے شیر پر دور سے تیر چلانا، بھیڑیے کے پنجے میں پنجہ ڈال کر لڑنے کے بدلے دس قدم پیچھے ہٹ کر اس پر برچھا مارنا ، اگر یہ نامردی اور کمینہ پن نہیں ہے تو دشمن کو شمشیر کے بدلے تدبیر سے شکست دینا یہ بھی شرافت کے خلاف نہیں ہے ۔ ؂

فتح پانے کے لیے یہ آخری اوزار ہے


گُرز وخنجر کی طرح دھوکا بھی اک ہتھیار ہے

رستم:۔ دھوکا شیر دل شریفوں کانہیں، لومڑی کا دل اور بچھو کی روح رکھنے والے کمینوں کا حربہ ہے ۔ ایک شریف دغا ا ور فریب سے دشمن پر فتح حاصل کرنے کو فتح نہیں اپنی شرافت کی شکست اور اپنی تلوار کی بے عزتی سمجھتا ہے ۔ ؂

جری کو آبرو اور جان پیاری ہے کمینے کو


بہادر مانگتا ہے موت بے شرمی کے جینے کو

پیلسم:۔ اب تیرا جینا اور مرنا دونوں ہمارے قبضے میں ہیں۔ اپنی روح سے کہہ کہ جسم سے نکل کر موت کی پیشوائی کرے۔
(رستم کے سینے میں تلوار بھونکنے کے لیے آگے بڑھتا ہے)
تہمینہ:۔ خبر دار !(پیلسم کی کلائی پر زور سے گھونسہ مارتی ہے) پیلسم کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ جاتی ہے ۔ (تہمینہ تلوار پر پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے) انسانیت کی پیشانی پر شرم کے دھبے ! تو شیر کو دھوکے سے زنجیر میں جکڑ کر اس کے خون سے اپنی ذلیل تلوار کے منہ پر بہادری کا غازہ ملنا چاہتا ہے۔حیف ہے تجھ پر۔ مجھے آج معلوم ہوا کہ سمنگان کی مائیں تیرے جیسے کمینے لڑکے بھی پیدا کرتی ہیں ؂

چاہتا ہے تو کہ سر جھک جائے سارے ملک کا


نام رسوا کر رہا ہے تو ہمارے ملک کا


یہ فریب ، اتنا حسد انسان کو انسان سے


یوں دغا کرتے نہیں حیوان بھی مہمان سے

پیلسم:۔ بدکار ، بد چلن۔ ملک کے دشمن کو اپنی عزت نذر کر دینے کے بعد ہمیں ملک کی عزت کرنا سکھارہی ہے۔
تہمینہ:۔ بدکار؟ بد چلن ؟ کیا کہا موذی نمک حرام؟
(جھپٹ کر پیلسم کا گلا پکڑلیتی ہے)

یہ بل ، یہ جوش ، یہاں تک بڑھا جنون تیرا


میں پی کے چھوڑوں گی ان ناخنوں سے خون تیرا

پیلسم:۔ (گلا چھڑانے کے بعد) باندھ لو۔
(پیلسم کے سپاہی دو طرف سے تہمینہ کی کلائیاں پکڑلیتے ہیں)
تہمینہ:۔ (ہاتھ چھڑاتے ہوئے) چھوڑ دو،کمینو!مجھے چھوڑدو ، اس پاجی کو اپنے گندے منہ کے ہر لفظ کا ثبوت دینا ہوگا۔ میں اس سے اپنی بے عزتی کا ثبوت مانگتی ہوں... کُتّے ! جو کچھ کہا ہے اسے ثابت کر ؂

مرد ہے تو اپنی غیرت کو ذرا للکاردے


ایک تو تلوار لے اور اک مجھے تلوار دے

رستم:۔ بدبخت ، بیوقوف، رحم ودرگزر کو بھی مجبوری سمجھتے ہیں۔ پیلسم میری برداشت پر غلط بھروسا نہ کر، میں اور سب کچھ دیکھ سکتا ہوں لیکن بچے کی تکلیف ، بوڑھے پر ظلم اور عورت کی بے عزتی کبھی نہیں دیکھ سکتا ۔
پیلسم:۔

دیکھنا ہی ہوگا جو کچھ ہے تری تقدیر میں


دیکھنے ہی کے لیے باندھا ہے اس زنجیر میں

رستم:۔

باندھ رکھنے کے لیے کافی یہ تدبیریں نہیں


گھاس کے تنکے ہیں لوہے کی زنجیریں نہیں

(زنجیر کو توڑکر گُرز اٹھانے کے لیے دوڑتا ہے)

گُرز ترکش کیا ہوئے اچھا مری ہمت تو ہے


ہاتھ میں حربہ نہیں ، پر ہاتھ میں طاقت تو ہے

(گُرز نہ پا کر چھت کاکھمبا توڑ کر اس سے پیلسم اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کرتا ہے)
لڑائی ۔ٹیبلو

(ڈراپ سین)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب پہلا سین
سمنگان کا شاہی محل
تہمینہ:۔ امیداور انتظار میں ہوا کے جھونکے کی طرح زندگی کے سولہ برس گزر گئے ۔ یا خدا... عورت کا دل اس قدر کمزور اور مرد کا اتنا بے رحم ہوتا ہے ۔ عورت محبت کا نشہ پی کر تمام عمر ہوش میں نہیں آتی اور مرد پیالہ ہونٹوں سے جُدا ہوتے ہی اس شراب کی لذت اور سرور کو فراموش کر دیتا ہے ؂

دل کی فضا میں برق سی چمکی نکل گئی


کیا دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل گئی



پیالہ تھا ، مَے تھی ، عیش وخوشی کا شباب تھا


شادی نہ تھی وہ میری جوانی کا خواب تھا


(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب دوسرا سین
توران کا شاہی محل
(امرائے سلطنت کے ساتھ جوش اور غصے کی حالت میں توران کے شہنشاہ افراسیاب کا داخلہ)
افراسیاب:۔ توران کے سب سے بڑے دشمن رستم کو اپنا مہمان بنا کر اسے اپنی بیٹی تہمینہ کا حسن و شباب نذر دینا ، اسی شادی کے شرمناک نتیجے میں سہراب کی پیدائش کا حل پندر ہ برس تک اپنے آقا و شہنشاہ سے پوشیدہ رکھنا، کیا یہ مجرمانہ جرأت نہیں ہے ۔ کیا یہ تورانیوں کی توہین اور شہنشاہ توران سے کھلی بغاوت نہیں ہے۔ سمنگان کے شاہی محل میں رہنے والے کتّے!مصلحت تیری سفارش کررہی ہے اس لیے میری رگ میں گرجتا ہوا غصے کا طوفان ایران کی تباہی تک خاموشی اختیار کرے گا۔ اس کے بعد تیرے لیے نہ معافی ہے اور نہ زندگی ہے ۔ ہومان !بارمان!
ہومان ۔ بارمان:۔ ولیٔ نعمت!
افراسیاب:۔ میرا حکم تھا کہ تورانی لشکر کے بارہ ہزار بہادر سامانِ جنگ کے ساتھ سفر کے لیے تیار رہیں۔
ہومان ۔ بارمان:۔ (ہاتھ باندھ کر) خدا وند!
افرا سیاب :۔ سمنگان کے بادشاہ کا نواسہ سہراب ، کیکاؤس کے سر کو شاہی تاج سے محروم کرنے کے لیے ایران کی سرزمین کو اپنے گھوڑے کی ٹاپوں سے روندنا چاہتا ہے ۔میرا خط اور تحفہ لے کر تم آج ہی سمنگاں روانہ ہو جاؤ۔ سہراب سے کہنا کہ ایران کی مغرور چھاتی میں توران کی عزّت کا جھنڈا گاڑنے جارہے ہو اس لیے توران کا شہنشاہ افراسیاب تمھاری کا میابی کے لیے دعا کرتا اور فتح یابی سے قبل ہی تمھیں ایران کی فتح کی مبارک باد دیتا ہے۔
ہومان:۔ جہاں پناہ نے جو حکم دیا ہے ہم دونوں غلام اس کے ایک ایک حرف کی تعمیل کریں گے۔
افرا سیاب:۔ سنو! قدر دانی یا ہمدردی کے جذبے نے مجھے سہراب کی مدد پر مائل نہیں کیا ۔سانپ کا بچہ بھی سانپ ہی ہوتا ہے اور بڑا ہوکر سانپ ہی کی طرح ڈستا ہے۔ رستم کے خون اور طاقت کا وارث سہراب اگر زندہ رہا تو ایک دن وہ بھی توران کے تاجدار کے لیے دوسرا رستم ثابت ہوگا۔ ضرورت ہے کہ پہلے جوان بیٹے کے ہاتھوں بوڑھے باپ کو قتل کرادوں ۔ اس کے بعد دعوت میں بلا کر زہر یا خنجر سے سہراب کا بھی خاتمہ کر دوں۔ اس لیے کوشش کرنا کہ میدان جنگ میں قسمت کا آخری فیصلہ ہونے تک باپ بیٹے ایک دوسرے کو پہچان نہ سکیں۔ سمجھ گئے۔ جاؤ۔ دیوان خانے میں انتظار کرو ۔ میں بہت جلد تحفے کی کشتیاں اور اپنا خط تمھارے پاس بھیجتا ہوں ۔ سب کچھ بھولنا لیکن دو باتیں نہ بھولنا ، میرا حکم اور اپنا فرض۔
دونوں:۔ شاہی اقبال کی فتح ہو!
(دونوں جاتے ہیں)
افرا سیاب:۔ (وزیر سے ) سنتے ہو ! میرا حکم ہے کہ آج سے ہر وقت گھوڑوں کی پیٹھ پر زین اور تورانی بہادروں کے جسم پر زرہ بکتر اور ہتھیار سجے رہیں۔ رستم کی موت کی خبر ملتے ہی بجلی کی طرح پوری طاقت کے ساتھ ایران کے سر پر ٹوٹ کر اُس کے غرورکو ریز ہ ریزہ کر دوں گا اور وہی دن میری زندگی کا بہترین دن ہوگا۔
وزیر :۔ اعلیٰ حضرت !یہ سلطنت کا قدیم نمک خوار حضور کی خیر خواہی اور ملک کی بہبود کے خیال سے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔
افراسیاب:۔عرض ،عرض، تو ہمیشہ عرض اورگزارش کی آڑ میں ما بدولت کے جوش کو سرد کرنے کے لیے وعظ شروع کر دیتا ہے۔ بول ، عرض کر۔ لیکن یہ خیال رہے کہ ایران پر حملہ کرو اور کیکاؤس کو تباہ کر دو، ان دو جملوں کے سوا میں ا ور کچھ سننا نہیں چاہتا ۔
وزیر:۔ میری یہ عرض ہے کہ آپ اپنی رعیت کے مالک ہیں لیکن آسمان کی گردش ، قسمت کی تحریر اور خدا کی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اپنی طاقت ، اپنا خزانہ ، اپنی رعیت کے لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرکے بھی آج تک ا یران کو تباہ نہ کر سکے ۔ جب ایران کی تباہی خدا کوہی منظور نہیں ہے تو ایران پر حملہ کرنا خدا کی مرضی سے جنگ کرنا ہے۔
افرا سیاب:۔ میرا دماغ پچھلی ذلتوں کی یاد سے دوزخ بنا ہوا ہے اس لیے سہراب کو میں اپنے غضب کا حربہ بنا کر ایران سے ضرور بدلہ لوں گا۔
وزیر:۔ میں معافی مانگ کر پھر عرض کروں گا کہ ملک اور سلطنت کی بہبوداسی میں ہے کہ جو کچھ ہے اس کی حفاظت کیجیے اور جو نہیں ہے اور نہیں مل سکتا اسے زبردستی حاصل کرنے کا خیال ترک کر دیجیے۔ ؂

نہ زندگی ہے ہمارے بس میں نہ موت ہی اختیار میں ہے


کسے بنانا کسے مٹانا یہ قبضۂ کردگار میں ہے


نہ رکھیے ا یرا ن سے عداوت ، نہ ہوگا کچھ اور نہ ہو سکا ہے


اِدھر ہیں آپ اُدھر ہے قدرت اِدھر بشر ہے اُدھر خدا ہے

افراسیاب:۔ میں خدا کی مرضی کو مجبور کروں گا کہ ایران کی قسمت کی تحریر افراسیاب کے قلم سے دوربار ہ لکھی جائے ۔ افراسیاب کی غلامی ، یہی ایران کی آخری قسمت ہے۔
وزیر:۔ جہاں پناہ !بادشاہ رعیت کا باپ ہوتا ہے ۔ آپ باپ ہوکر اپنی رعایا کے بوڑھوں کوبے اولاد ،بچوں کویتیم اورعورتوں کو بیوہ نہ بنائیے۔ رعیت کے خون پسینے کی کمائی کا جو روپیہ آپ قہر وغضب کی نمائش ، فوج کی تیاری اور جنگ کا سامان خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں وہی روپیہ رعایا کے بچوں کی تعلیم ، یتیموں اور بیواؤں کی پرورش ، بھوکے کسانوں اور غریب مزدوروں کی ترقی وفلاح میں خرچ کیجیے ؂

بچا تا ہے یہی دشمن کے حملوں اور بلاؤں سے


کوئی لشکر نہیں بڑھ کر رعایا کی دعاؤں سے


وہی ہے بادشہ رکھتا ہے جو حربہ محبت کا


زمانہ اس نے جیتا جس نے دل جیتا رعیت کا

افراسیاب:۔ تیری پچھلی وفاداریوں اور خدمتوں کا خیال کرکے میں اب تک تجھے معاف کرتا رہا ، لیکن اب دیکھتا ہوں کہ تو میرے رحم کو غضب سے بدلنا چاہتا ہے ۔
وزیر:۔ خدا وندِ نعمت !تنخوا ہ اور انعام کے روپوں سے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے اپنے آقا کو غلط راستے کی طرف لے جانا خدمت نہیں ہے بلکہ جان ومال سے بے پروا ہوکر مالک کی بھلائی کے لیے سچائی کا آئینہ بن کر اس کی بھول اس کے سامنے ظاہرکر دیناہی حقیقی جاں نثاری اور سچی وفاداری ہے ؂

جسے خدا سے خطر فرض پر نگاہ نہیں


وہ زر کا یار ہے مالک کا خیر خواہ نہیں


جہاں میں جھوٹ، خوشامدہی جس کا دھندا ہے


وہ صرف پیٹ کا کتّا ، غرض کا بندہ ہے

افراسیاب:۔ معلوم ہوا تو ضرور رشوت لے کر ایرانیوں سے مِل گیا ہے ۔ لے جاؤ اس دوست کے لباس میں چھپے ہوئے دشمن کو قتل کر دو۔ اگر یہ زندہ رہا تو اپنی نامردانہ باتوں سے تمام تورانیوں کو بزدل بنادے گا۔
(جاتا ہے)
وزیر :۔ ظالم بادشاہوں سے تمام زندگی کی خیر خواہی اور وفاداری کا آخر میں یہی انعام ملتا ہے۔ ان غرور کے بولتے ہوئے پتلوں کی نظر میں سچ بولنا دنیاکا سب سے بڑا جرم ہے ۔ چوری ، ڈاکا ،دھوکا ، قتل ، بغاوت ، یہ ہر گنا ہ معاف کر دیتے ہیں لیکن سچائی کا جرم کبھی معاف نہیں کرتے۔ (سپاہیوں سے) چلو ! سچ بولنے کی سزا دینے کے لیے مجھے موت کی عدالت کی طرف لے چلو ؂

ریت کی دیوار پر بنیاد ہے ہر بات کی


بادشاہوں کی عنایت، دھوپ ہے برسات کی


(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب تیسرا سین
سمنگان کا شاہی محل
(شاہِ سمنگان ، تہمینہ ، کنیزیں، بارمان اور ہومان موجود ہیں)
شاہِ سمنگان:۔ بیٹی !بادل کے کما ن سے نکل کر زمیں کی طرف آتا ہوا بجلی کا تیراور سہراب کا ارادہ ہماری منتوں سے اپنا راستہ نہیں بدل سکتا اس لیے اپنی مامتا کو اس کی سرکش مرضی کے ساتھ صلح کرنے کے لیے مجبور کرو۔
تہمینہ:۔ ابّا جان !میری زبان نے مجبوری سے اسے ایران جانے کی اجازت دے دی ہے لیکن مامتا کی آگ سے جلتا ہوا دل ابھی تک اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ؂

اُدھر کہتا ہے وہ ، ماں مجھ کو قسمت آزمانے دے


اِدھر کہتا ہے دل میرا ، نہ جانے دے نہ جانے دے


نہ وہ مانے نہ یہ مانے، کروں کیا ، سخت مشکل ہے


اُدھر بپھرا ہوا سہراب ، اِدھر بگڑا ہوا دل ہے

ہومان:۔محترم بانو! توران کے شہنشاہ افراسیاب نے محبت کے تحفوں کے ساتھ تورانی فوج کے جو بارہ ہزار بہادر بھیجے ہیں ان میں ہر سپاہی بارہ ہزار دلیروں کی طاقت کا مالک ہے ۔ ان بارہ ہزار تورانی شیروں کے ساتھ آپ کانا مور فرزند جس زمین پر قدم رکھے گا ؂
سر جھکا دے گا زمانہ جبہ سائی کے لیے
آئے گی خود فتح بڑھ کر پیشوائی کے لیے
غم نہ کیجیے آپ اس کے نیک وبدے کے واسطے
قسمت واقبال حاضر ہیں مدد کے واسطے
(سہراب جوش میں داخل ہوتا ہے)
سہراب:۔ رستم کا فرزند اپنے بازو اور تلوار کے سوا کسی سے مدد کا طلب گار نہیں ہے۔ (ہومان ، بارمان سے) میں نے صرف ناشکر گزاری کے الزام سے بچنے کے لیے تاج دار توران کی فوجی مدد قبول کر لی ہے لیکن سہراب تورانی لشکر کے اعتماد پر نہیں اپنی جرأت وطاقت کے بھروسے پر ایران کے غرور کو للکارنے جارہا ہے ۔ خدا میرا حافظ ، ہمت میری ہمدم، تلوار میری خادم، میدانِ جنگ میرا راستہ اور کیکاؤس کا تخت میرے سفر کی آخری منزل ہے ۔ اس سفر کے آغاز کا نام ہے استقلال اور اس سفر کے خاتمے کا نام ہے فتح۔
بارمان:۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ اپنے زورِ بازو سے ضرور ایران کی تاریخ بدل دیں گے۔
سہراب:۔ ماں !جس رستم کی پیدائش پر آسمان زمیں کو مبارک باد دیتا ہے ، جس رستم کا نام سن کر بہادری غرور کے نشے سے جھوم اٹھتی ہے اس رستم کا بیٹا ہونا میرے لیے شرم کا نہیں فخر کا باعث ہے ۔ پھر آج تک میری حقیقت کو پردے میں رکھنے کی کیا وجہ تھی ؂

دل میں رکھا راز ، دنیا کو خبر ہونے نہ دی


شامِ گمنامی کی تم نے کیوں سحر ہونے نہ دی

تہمینہ:۔ اس غصے اور رحم بھرے سوال کا جواب ماں سے نہیں ماں کی مامتا سے پوچھ۔ تیری پیدائش کا راز ظاہر ہونے سے اندیشہ تھا کہ تیرا باپ تجھے اپنے پاس بلا کر میری دنیا کی روشنی مجھ سے چھین لے گا اور مجھ بد نصیب کی آنکھیں شوہر کے چہرے کی طرح بیٹے کی صورت دیکھنے کے لیے بھی بے رحم قسمت کے سامنے فریاد کرتی رہیں گی ؂

نہ زہر گھول دے تقدیر میرے جینے میں


چھپا رکھا تھا اسی سے یہ بھید سینے میں

سہراب:۔ماں ! رستم جیسا باپ اور سہراب جیسا بیٹا ۔ ان دونوں آفتاب ومہتاب کی موجودگی میں دنیا کو حقیر ستاروں کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں خدا اور دنیا کے سامنے کیکاؤس کو تخت سے اتارکر اپنے باپ کو ایران کا بادشاہ اور تمھیں ایران کی ملکہ بنانے کا عہدکر چکا ہوں ۔ اس عہدکو پورا کرنے کے لیے اب تم سے آخری مرتبہ اجازت مانگنے آیا ہوں۔
تہمینہ:۔ (روتے ہوئے ) سہراب !
سہراب:۔ کیا ماں !روتی ہو ۔ روؤ نہیں۔ مائیں لائق کے لیے نہیں نا لائق اولاد کے لیے روتی ہیں ۔ تمھارا بیٹا عزت کی دنیا فتح کرنے جارہا ہے اس لیے یہ رونے کا نہیں خوش ہونے کا وقت ہے ۔ ہنستے ہوئے ہونٹوں سے اجازت دے کر مجھے میدانِ جنگ کی طرف رخصت کرو ۔ سمنگان کے قلعے کے دروازے پر فوج اور ایران کی زمین پر شہرت تمھارے سہراب کا انتظار کررہی ہے۔
تہمینہ:۔ سہراب ،ایران کی زمین جادو کی زمین ہے جہاں جاتے ہی انسان اپنے پیاروں اور اپنی پچھلی محبت کو بھول جاتا ہے ۔ مجھے خوف ہے کہ یہاں سے جانے کے بعد اپنے باپ کی طرح کہیں تو بھی غریب تہمینہ کو نہ بھول جائے ؂
تری صورت تری باتیں مرے دوہی سہا رے ہیں
تجھی کو دیکھ کر دنیا میں اتنے دن گزارے ہیں
کلیجے سے لگالینے کو پاؤں گی کہاں تجھ کو
کرے گا کون ضد مجھ سے کہے گا کون ماں مجھ کو
سہراب:۔ ماں!ماں !یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ تم میری نجات کا وسیلہ ہو ، میری زندگی کی برکت ہو ؂

بھول جاؤں فرض کو ایسی نہیں اولاد میں


اپنی اک اک سانس میں تم کو کروں گا یاد میں

تہمینہ:۔ اچھا تو خدا کی مرضی پوری ہو ۔ (مہرہ نکال کر) یہ تیرے باپ کی دی ہوئی نشانی ہے ۔ اس نے سمنگان سے رخصت ہوتے وقت تاکید کی تھی کہ اگر لڑکی ہوتو مہرہ اسکے سر کے بالوں میں اور لڑکا ہو تو اس کے بازو پر ضرور باندھ دینا ۔ لاہاتھ بڑھا ۔ پندرہ برس سے آج ہی کے دن کے لیے اس محبت کی یاد گار کی حفاظت کر رہی تھی ۔ اس مہرہ پر نظر پڑتے ہی باپ بیٹے کو ، خون خون کو پہچان لے گا (سہراب کے بازو پر مہرہ باندھ دیتی ہے) میرے لال !تجھے سچّے بہادر اور سچّے سپاہی کا فرض سکھانے کی ضرورت نہیں ہے ، پھر بھی رخصت کرنے سے پہلے نصیحت کرتی ہوں کہ ہمیشہ تلوار کو کمزور کا محافظ سمجھنا ، ظلم کو ذلیل جاننا اور پیروں میں پڑے ہوئے دشمن کو رحم مانگنے پر معاف کر دینا ؂

دیکھنا جرأت وطاقت پہ نہ الزام آئے


لب پہ شاباش ہو سہراب کا جب نام آئے

سہراب:۔ پیاری ماں ! میں لوہے کے ہتھیاروں سے سج کر میدانِ جنگ کی طرف ناموری کی تلاش میں جارہا ہوں ۔ یہ آہنی ہتھیار دشمن کی ہمتوں کو ، جسموں کو، فوجو ں کو اور قلعوں کو فتح کر سکتے ہیں لیکن عزت اور شہرت پر فتح پانے کے لیے مجھے ایک اور حربے کی ضرورت ہے ۔
تہمینہ:۔ میرے بچے وہ کون ساحربہ ہے؟
سہراب:۔ (تہمینہ کے قد موں میں بیٹھ کر ) ماں کی دعا ؂

ہو نہ یہ حربہ تو پھر بیکار میرے ہاتھ ہیں


ساتھ ہے دنیا اگر ماں کی دعائیں ساتھ ہیں

تہمینہ:۔ (سہراب کے سر پر ہاتھ رکھ کے) ؂

دعا دیتی ہوں تجھ کو وقتِ رخصت ، بخت یا ور ہو


زمانہ پاؤں کے نیچے ، خدا کا ہاتھ سر پہ ہو


(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب چوتھا سین
ایرانی سرحد، قلعۂ سفید کا اندرونی حصہ
(قلعہ کے رئیس گستہم اور فوجی سردار بیٹھے ہوئے غمگین نظر وں سے سامنے کھڑے ہوئے بہرام کی طرف دیکھ رہے ہیں)
بہرام:۔ سہراب زوال کا نقیب ، تخریب کا علمبردار ، فنا کاپیامی ، موت کی سانس کا شعلہ ہے ، ہمارا قلعۂ سفیدویرانۂ عبرت ، ہمارے نگارستانِ عیش مقتلِ آرزو، ہمارے محلات وباغات گھوڑوں کے طویلے بن جائیں، ہماری آسودگی ، معاشرتی شیرازہ ، ملکی نظام ، قومی دربار ، جنگی ذخیرے، سربرآوردہ افراد اور بہترین سپاہیوں کی زندگیاں برباد ہوں، ان یقینی المناک نتائج کے سوا اِس لشکرکَشی، صف آرائی کا اور کوئی حاصل نہیں ہے ۔ سہراب کی تلوار کی جھنکار کو ہمیں اپنی شومئی قسمت کی طرف سے اعلانِ جنگ تصور کرنا چاہیے۔
گستہم :۔ لیکن ہم نتیجے کے ظہور سے پہلے ہی کیون یقین کر لین کہ تقدیر ہمارے خلاف اس جنگ کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ جب تک ہمارے پاس قلعۂ سفید کی بلند ومستحکم دیواریں ہیں ، حوصلوں میں توانائی ہے، آزادی کی محبت ہے ،سر فروشی کا جذبہ ہے ، جوشِ فدائیت کی فراوانی ہے اس وقت تک ایک کم عمر ، نو خیز قوت کے سامنے تلوار یں پھینک کرا یران وتوران کی نظر میں اپنے دعوائے شجاعت کو ذلیل نہ کرنا چاہیے۔
سردار(۱):۔ بے شک!حوصلوں کی پستی ، ذلت کی طرف مرد کا پہلا قدم ہے۔ مجھے ابھی تک ارادوں کی پسپائی کا کوئی معقول سبب نظر نہیں آتا ۔ دنیا امید کی جلوہ گاہ ہے ، مایوسی کا ظلمت کدہ نہیں ہے۔احساس کا نام زندگی اور جوشِ عمل کا نام کامیابی ہے ۔
سردار(۲):۔ آپ کی رائے مرض کی صحیح تشخیص ہے۔دشمن کا خوف حملے سے زیادہ ہیبت ناک ہوتا ہے ۔ یہ صرف ہمارا وہم ہے جو ہمارے سامنے شکست یافتہ مستقبل کی اشک بار تصویر پیش کررہا ہے۔
بہرام:۔ امید آپ لوگوں کی توقعات کو فریب دے رہی ہے ۔ ہوا میں گرہ دینے کی نا کام وبے نتیجہ کوشش نہ کیجیے۔ اپنی طاقت کا غلط اندازہ کرنے پر آپ کی پہلی غلطی اور سہراب کو طفلِ شیر خوار یا معمولی نبردآزما سمجھنا یہ دوسری غلطی ہے ۔ میں ملک کی بہبودکے لیے بہترین مشورہ دے کر اپنی ذمہ داری اور قومی فرض سے سبکدوش ہوچکا ۔ ہر شخص اپنی رائے کا مالک ہے۔ لیکن خوش ہونے سے پیشتر ایک بار بھر متنبہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے امن وآشتی کا دروازہ بند کررہے ہیں۔ وقت کی آنکھیں بدل چکی ہیں۔ سہراب کے قوائے حربی اور فتوحاتِ جلیلہ کو ہیچ سمجھ کر اس سے بر سرِ جنگ ہونا جنگ نہیں خودکُشی ہے۔
گستہم:۔ (حاضرین سے) مجھے اپنی رائے صائب یا خطا ہونے پر اصرار نہیں ۔ قیاس کی پیشین گوئی صحیح بھی ہوتی ہے اور غلط بھی۔ میں نے جلسۂ مشاورت کے سامنے اپنا ذاتی خیال پیش کر دیا ۔ اب آپ لوگ متفق ہوکر خود فیصلہ کریں کہ پیشِ نظر مشکلات میں کیا کرنا چاہیے ۔ جنگ یا صلح !
سردار (۳):۔ جب لشکر بے حوصلہ ، اسبابِ مدافعت کمزور ، حالات ناموافق ، تدبیر خلافِ امید ، فتحِ موہوم اور قوی بازو دشمن کے حملے کا میاب ہیں تو ایسے برگشتہ وقت میں ضرورتِ صلح کا احساس نہ کرنا، اپنی آسائشِ حیات اور ذرائع نجات سے دست بردار ہونا ہے ۔ میری رائے صلح کے حق میں ہے۔
سردار(۴):۔سہراب کا حملہ اتفاقی آندھی ہے جو تھوڑی دیر مطمئن فضا میں اضطراب پیدا کرکے اپنی طاقت کی نمائش کے لیے دوسری طرف روانہ ہو جائے گی ۔ اس لیے ابلہانہ جوش سے مشتعل ہوکر ہنگامی آفت کو دائمی مصیبت نہ بنانا چاہیے ورنہ زندگی کی غلطیوں میں یہ سب سے زیادہ ہولناک غلطی ہوگی۔
گستہم :۔ (بہرام سے) جب کثرتِ رائے جنگ کی مخالف ہے تو آپ ہماری جانب سے صلح کے قاصد بن کر جائیے۔ سہراب سے کہیے کہ دوستی کی نسیمِ بہار سے دشمنی کا موسمِ خزاں ختم ہوا ۔ ہم جان ومال کی سلامتی کے وعدے پراپنا قلعہ حوالے کرنے پر تیار ہیں ...
بہرام:۔ وقت کی یہی پکار تھی ۔ ضرورت ومصلحت کا یہی مطالبہ تھا۔ ملک کی بنیادیں آنے والے زلزلے کی دہشت سے کانپ رہی تھیں۔ آپ نے اس فیصلے سے بند باندھ کرخون اور تباہی کے سیلاب کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بربادی کے ہاتھ کے حربے چھین لیے ۔ بدبختی کی امیدیں توڑدیں ۔ میں آپ کی دانائی اور مآل اندیشی کو مبارک باد دیتا ہوں ۔ میری زبان سے سہراب کا شکریہ آمیز جواب سننے کے لیے آمادہ رہیے۔
(جوش میں جانا چاہتا ہے ، گرد آفرید داخل ہوتی ہے اور اس کے سینے پر اپنی تلوار کی نوک رکھ دیتی ہے)
گرد آفرید:۔ ٹھہرو !کہاں جاتے ہو؟
بہرام:۔ صلح کرنے ۔
گرد آفرید :۔ کس سے؟
بہرام:۔ سہراب سے۔
گرد آفرید:۔ سہراب سے!ایران کے بدترین بدخواہ سے ، قوم کے دشمن سے؟ جبر واستبداد کے نمائندے سے؟ طاقتور سے کمزور کا ، پتھر سے شیشے کا ، آندھی سے تنکے کا کبھی اتحاد نہیں ہوتا۔ صلح برابر والوں میں ہوتی ہے اور طاقت کا ثبوت دینے کے بعد ہوتی ہے ۔ یہ غیر مساوی صلح پست ہمتی کا اظہارِ بے کسی ہے ، ذلت کی پرستش کا معاہدہ ہے ، ملک فروشی کی دستاویز ہے ، تمھاری غیرت کی پیشانی پر دائمی غلامی کی مُہر اور تمھاری مادرِ وطن کے پُر جلال چہرے پر شرم کی سیاہی کا داغ ہے ؂

مردود ہے وہ کوشش ، ملعون ہے وہ خامہ


آزادیٔ وطن کا ، لکھے جو بیع نامہ


عزت سمجھ رہے ہو غیروں کی بندگی میں


مرجاؤ، گر ہے جینا ذلت کی زندگی میں

بہرام:۔ گرد آفرید !حریف کی طاقت اور ملک کی کمزوری کا صحیح اندازہ کرنے کے بعد رائے ظاہرکرو، غلط جوش عقل کی گمراہی ہے ۔ جس سہراب نے اس قلعۂ سفید کے محافظ ہجیر جیسے طاقت کے پہاڑ کو گھوڑے سمیت اٹھاکر مٹّی کے ڈھیلے کی طرح زمین پر پھینک دیا اس محبوبِ تقدیر وخداوندِشمشیرکو ہم پا شکستہ تدبیروں اور مجنونانہ تقریروں سے فتح نہیں کر سکتے۔
گرد آفرید:۔ فتح جرأت وعزیمت سے ملا کرتی ہے ۔ سوچنے ، رونے اور بیوہ عورت کی طرح ہائے ہائے کرنے سے نہیں ملتی ۔ فتح بے عزتی کے غلاموں کی ملکہ اور ہمت کے آقاؤں کی کنیز ہے۔ بزدل قسمت سے فتح کی بھیک مانگنے اور جری قسمت کے منہ پر تھپڑ ما رکر فتح کو اپنی مِلک اور حق سمجھ کر زبردستی حاصل کرتے ہیں ؂

جرأت ہے جس کے پاس وہی فتح مند ہے


جُھک جائے گا جہاں جو ہمت بلند ہے


اٹھو بڑھو دکھاؤ کہ طاقت ہے پاؤں میں


ملتی ہے فتح مرد کو خنجر کی چھاؤں میں

بہرام :۔ لیکن جب صلح کر لینے سے ہمارا قلعہ ، وجاہت ، ثروت، زندگی ، ہرشے شامت وہلاکت سے محفوظ رہتی ہے تو فولادپیکر سہراب سے پنجہ کشی کر کے ہمیں دنیا میں اپنی حماقت کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
گرد آفرید:۔ شر م کر!شرم کر!خود غرضی کے بازار میں دولت وراحت کے مصنوعی سکّوں پر قوم کا اقتدار و حرمت فروخت کر دینے کو تو شرافت کا سودا جانتا ہے ؟ پالتو کتّے کی طرح گلے میں سہراب کی اطاعت کا پٹّا ڈال کر اس کے پاؤں چاٹنے کو عزت کی زندگی سمجھتا ہے ؂

تری زباں ہے فسا نہ نمک حرامی کا


سبق پڑھاتا ہے اوروں کو بھی غلامی کا

بہرام:۔خبردار !گردآفرید توکسی معمولی شخص سے ہمکلام نہیں۔میری شخصیت وحیثیت کا ادب کر ، جا گھرمیں جا ۔ سلطنت کے انتظام میں عورت کو دخل دینے کا حق نہیں ہے ۔
گرد آفرید:۔ شرافت باختہ، بزدل،بے حیا !تو مجھے عورت کہتا ہے ۔ آ!عمل کے آئینے میں ہم دونوں اپنے چہرے دیکھیں ۔ اس وقت تیری حقیقت تیرے سامنے بے نقاب ہو جائے گی ۔ تیری نگاہیں شرم کے بوجھ سے دب کر زمین میں دفن ہو جائیں گی اور تجھے معلوم ہو جائے گا کہ گردآفرید عورت نہیں، بہرام عورت ہے۔کیوں کہ میں عورت ہو کر بھی دنیا کے شریف ترین مرد کی طرح ملک اور قوم کے دشمن کا سراپنے پیر وں سے روندنا چاہتی ہوں اور تو مرد ہو کر بھی ایک آبرو فروش عورت کی طرح اپنی پلکوں سے سہراب کے پاؤں کی گرد صاف کرنا اور اس کی پاپوش کو اپنے سر کا تاج بنانا چاہتا ہے ۔
بہرام:۔ ذلیل ! زبان دراز!
(بہرام گرد آفرید پر تلوار سے حملہ کرتا ہے ۔ گرد آفرید اسے اٹھاکر زمین پر دے مارتی ہے اور کلائی مروڑکر تلوار چھین لیتی ہے )
گرد آفرید:۔کتّا شیرنی پر حملہ نہیں کر سکتا ۔ وطن کے دشمن !جا (لات مارکر) سہراب کے کفش برداروں کی فہرست میں نام لکھا کر اپنی عزت افزائی پر فخر کر ! تیری قسمت میں نہ شریفوں کی زندگی ہے نہ بہادروں کی موت۔
بہرام:۔ گرد آفرید !میں اس توہین کا خوفناک بدلہ لوں گا ۔ تجھ سے بھی اور جو یہ نظارہ دیکھ کر اپنی مجرمانہ خاموشی سے تیری تائیدکر رہے ہیں ان سے بھی۔
(غصے میں سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا چلا جاتا ہے)
گرد آفرید :۔ ایران کے دلیرو !یہ دوست نما منافق جس کے پاس مردانہ روح، شرم،ایمان کچھ نہیں ہے ۔ ذاتی مفاد کی نگہداشت جس کی سرشت، مطلب پرستی جس کی زندگی کا معیار ومعراج اور دغا جس کا خمیر ہے، اپنی گویائی کی حرارت سے تمھارے دل میں ہمت کے لہراتے ہوئے چشموں کو خشک کرکے تمھیں بھی اپنی طرح مردودِخلائق بنانا چاہتا تھا۔خدا نے ہمیں اس نگوں ساری وخواری سے بچالیا ۔ بہادرو ! سہراب اس دنیا میں ، دنیا سے علیٰحدہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہ بھی تمھاری ہی طرح مٹی پانی سے بنا ہوا انسان ہے ۔ وہ بھی تمھاری طرح اپنی زندگی کی مدّت اور موت کے وقت سے بے خبر ہے ۔ اس لیے تنکے کو پہاڑ اور پہاڑ کو آسمان سمجھ کر اپنی قوتوں کو حقیر نہ سمجھو۔ اٹھو... اٹھو مست ہاتھی کی طرح جھوم کر ، آندھی کی طرح جھلا کر ، بادل کی طرح گرج کر، پُر غیظ بجلی کی طرح تلواریں کھینچ کر حفاظتِ وطن کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔ جہاں بزدلی ہے وہیں شکست ہے اور جہاں جرأت ہے وہیں فتح ہے ۔
گستہم:۔ خوف ،خیال کا خواب ہے ۔ تم نے اس خواب سے ہمیں بیدار کر دیا۔
سب:۔ زندہ بادگردآفرید !
گرد آفرید:۔ زندہ باد ا یران !
(سب جوش میں تلواریں کھینچ لیتے ہیں)
ٹیبلو
(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب پانچواں سین
میدانِ جنگ کا ایک حصہ
(ہومان ، بارمان اور قلعۂ سفید کے محافظ ہجیر کے ساتھ سہراب کا داخلہ ، ہجیر کے دونوں ہاتھ کمند سے بندھے ہوئے ہیں)
سہراب:۔ تم قلعۂ سفید کے محافظ ہو؟
ہجیر :۔ ہاں!
سہراب:۔ تمھارا نام؟
ہجیر:۔ ہجیر۔
سہراب:۔ قلعے کے حاکم کا نام ؟
ہجیر:۔ گستہم۔
سہراب:۔ اگر قید کی زندگی کو جس کے سر پرموت کی تلوارلٹک رہی ہے آزاد زندگی میں بدلنا چاہتے ہو توتنبیہ آمیز خط لکھ کر انجام سے غافل گستہم کو آگاہ کر دو کہ خوفناک مستقبل تباہی وبربادی کے جلو میں قلعے کے پھاٹک کے سامنے پہنچ گیا ہے اس لیے رحم ومعافی حاصل کرنے کے لیے میرے حضور میں آکر نذرانۂ اطاعت پیش کرے۔
ہجیر:۔ قویٰ کے ساتھ میری قوتِ حافظہ بھی ضعیف ہو گئی ہے اس لیے عمر کے آخری دنوں میں غداری کا سبق یاد نہیں کر سکتا۔
سہراب:۔ یعنی ؟
ہجیر:۔تم نے میدانِ جنگ میں شکست دے کر میرے جسم کو قید کر لیا ہے میری روح تمھارے قید وبند میں نہیں ہے ۔ میرا ضمیر اور میرا جذبۂ وطن پرستی آزاد ہے اور ہمیشہ آزاد رہے گا۔ خلش وخطرہ سمجھ کر انتہائی عقوبتوں کے ساتھ قتل کر دو یا فتح کی یاد گار سمجھ کر زندہ رکھو۔ لیکن میں لالچ سے مغلوب اور تکلیفوں سے دہشت زدہ ہوکر اپنے ملک کی غلامی کے کاغذ پر کبھی دستخط نہ کر وں گا۔
سہراب:۔عقل کی شرکت میں اپنی غلط کار رائے پر نظرِ ثانی کر۔موت کے جبڑے میں ملک کو نہ جھونک ۔ میری اطاعت ہی میں تیرے اہلِ وطن کی زندگی ہے۔
ہجیر:۔ زمین پر رینگتے ہوئے حقیر کیڑوں کی طرح صرف حرکت کرنے اور سانس لینے کا نام زندگی نہیں ہے ۔ آزادی اور اختیار سے محروم ہوکر پامال گھاس کے مانند جینا انسانیت کی موت ہے ۔ میری تمنا اور دعا ہے کہ میرے اہل وطن جیئیں لیکن غلام بن کر نہیں ، آقا بن کر ۔ کتّے کی طرح نہیں ،شیر کی طرح۔
سہراب:۔ گستہم کو خط لکھ کر تسلیمِ شکست کا مشورہ دینا تری طرف سے اس وقت ملک کی سب سے بڑی خدمت تھی۔ تیرے انکار نے ثابت کر دیا کہ تو سخت بیوقوف ہے ۔
ہجیر:۔ ملک کے نمک حراموں کو ملک کے دشمن بھی احترام کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ میں بیوقوف کہلانا پسند کرتا ہوں لیکن بے داغ معزّز نام کے ساتھ دغاباز اور قوم فروش کے خطاب کا اضافہ نہیں چاہتا ۔
سہراب:۔ اچھا تو اب میرے غضب کی ہولناکیوں کو کوئی الزام نہیں دے سکتا ۔ (ہومان، بارمان سے) خونریزی وتباہ کاری کے مقید درندوں کو زنجیریں کھول کر قلعۂ سفید پر حملہ آور ہونے کے لیے آزاد کر دو اور غم کی سیاہ رات میں برباد شدہ وطن کو تودۂ خا ک پر اُلّو کی طرح ماتم کرنے کے لیے اس بدبخت کو قید میں رکھو ۔ لے جاؤ۔ یہی نا شکری کی کم از کم سزا ہے ۔
(ہومان ، بارمان ہجیر کو لے جاتے ہیں)
فریب خوردہ ، یہ نیم مجنوں ایرانی ، امید کی زمین میں ہنسی بور ہے ہیں ۔ لیکن انھیں جلد آنسوؤں کی فصل کاٹنی ہوگی ؂

میرے قدموں کو بوسہ دے گی جھک جھک کر جبیں تیری


بساطِ عجز بن جائے گی سجدوں سے زمیں تیری


اٹھا سکتا نہیں سرتیغِ جوہر دار کے آگے


سُن او ایران! جھک جا اب مری تلوار کے آگے

(مردانہ لباس میں انتہائی جوش وغضب کے ساتھ گرد آفرید داخل
ہوتی ہے)
گرد آفرید:۔ ایران کی تاریخ شرفِ انسانیت وفتوحاتِ شرافت کا صحیفۂ زریں ہے۔فروتنی وپامالی کا فسانۂذلّت نہیں ہے۔ا یران اپنی علمی ، اخلاقی ، تمدنی اور جنگی قوتوں کے سامنے دنیا کا سرجھکانے کے لیے پیدا ہوا ہے ۔ جھکنے کے لیے پیدا نہیں ہوا ؂

ایران کے قدموں میں ہے جیحون سے تا گنگ


اس خاک سے پیدا ہوئے طہمورث وہوشنگ


ہر ذرّہ ہے خورشید کے ہم پایہ وہم رنگ


ہر قطرہ ہے طوفانِ قضا پوش دمِ جنگ


ہر فرد یہاں کوہ فگن ، زور شکن ہے


یہ شیرون کا گہو ارہ ، شجاعت کا وطن ہے

سہراب:۔ تیرے پاس پُر شکوہ استعاروں اور فصیح وبلیغ لفظوں کا وافر سرمایہ معلوم ہوتا ہے لیکن تو اپنی گویائی کے اسراف سے ایرانیوں کے حوصلے کی بے مائیگی اور عزم وہمت کے افلاس پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ قسمت کے افق پر صبحِ زوال کی پہلی کرن دکھائی دے رہی ہے، پھر بھی احمق ایران ابھی تک زندگی کو شبِ راحت سمجھ کر دیرینہ عظمت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔
گرد آفرید :۔ آفتاب کی عظمت وجلالت کا انکار بے بصر ہونے کا اقرار ہے ۔ غرور کے مرض سے تیری بینائی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اس لیے تیری نظرپلکوں کی حدسے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
سہراب:۔ جنگ کا میدان ، شاعروں کی بزمِ خیال، منطقیوں کی مجلس ، فلسفے کا مدرسہ نہیں ہے۔ یہاں کی شعریت کا نام زخم ، منطق کا نام تلوار اور فلسفے کا نام طاقت ہے ۔ اچھا ظاہرکر ، تو کو ن ہے؟ تیری موت کے بعد قلعۂ سفید میں کس نام سے تیرا ماتم کیا جائے گا۔
گرد آفرید :۔

دشمنِ نخوت حر یفِ شعلہ سامانی ہوں میں


بس مرا نام ونشاں یہ ہے کہ ایرانی ہوں میں


سیلِ خوں میں موجِ آہن کی روانی دیکھ لے


آج تو بھی بُرّشِ تیغِ کیانی دیکھ لے

(سہراب پر حملہ ۔ دونوں مین خوف ناک جنگ ۔ گرد آفرید کی شکست ۔ گھوڑے سے زمیں پر گرتے وقت خود علیٰحدہ ہو جانے سے گرد آفرید کے بال کھل کر بکھر جاتے ہیں اور مرد کے لباس میں ایک حسین دوشیزہ کو دیکھ کر سہراب حیرت زدہ ہو جاتا ہے )
سہراب:۔ رعنائی انسانیت کی جمیل ترین تصویر ، مردانہ مرقع میں !حسن کی دنیا کا ماہِ کامل، زرہ بکتر کے بادل میں !!موسمِ بہار کے تبسم کی رنگینی ، جنگی نقاب میں !!! ؂

چمک رہا ہے نگارِ قدرت کا تاجِ زر خاک کی جبیں پر


کہ شاخِ انجم سے گر گیا ہے کوئی گلِ روشنی زمیں پر


طلوعِ قوسِ قُزح کا عالم ہے جلوۂ جسم ناز نیں پر


نثار ہے حسنِ شامِ جنت بہارِ گیسوئے عنبریں پر


حسین آنکھوں میں سحرِ ناطق نظر میں انداز دلبری کے


بلوریں گردن پہ روئے روشن، چراغ ہے ہاتھ میں پری کے

گردآفرید:۔ اقبال مند سہراب!ایران کی وہ بہادر لڑکی جس کے بازؤوں میں طاقت کا طوفان ، جس کی تلوار میں بجلیوں کا سیلاب ،جس کے حملے میں کوہِ آتش فشاں کا ہنگامہ پوشیدہ تھا ، جو حریف کو کتابِ زندگی کا مہمل لفظ اور فتح کو اپنے گُرز کی ضرب کی صدائے بازگشت سمجھتی تھی آج اس کے اعتقاد کی دنیا نا کامی کے زلزلے سے تباہ ہو گئی ہے ۔ اس کے یقین کا فلک بوس قلعہ بنیادوں سے اکھڑ کر عاجزی کی سر زمین پر سرنگوں ہو گیا ہے ۔ مجھے امان دو، میں اظہارِ در ماند گی کے ساتھ اپنی شکست کا اقرار کرتی ہوں۔
سہراب:۔ بہادر ناز نیں!زندگی کی سلطنت میں عورت حاکموں کی حاکم اور فاتحوں کی فاتح ہے، جو خون کا ایک قطرہ گرائے بغیر اپنی رنگین مسکراہٹ سے ایک لمحے میں آدھی دنیا کو قتل کر سکتی ہے ، جو شرم آلود نگاہوں کے اشارے سے چشمِ زدن میں بادشاہوں کا تاج اور دلیروں کی تلوار چھین سکتی ہے ، اسے تیر وشمشیرلے کر میدانِ جنگ میں آنے کی کیا ضرورت ؟ جس کے مقابلے میں ہمیشہ مرد کے غرور کو شکست ہوتی ہے۔ اٹھو ! یہ میری فتح نہیں ، تمھاری فتح ہے ۔
گرد آفرید:۔ (دل میں)کس قدر شریف !جتنا چہرہ خوبصورت ہے اتنا ہی دل بھی خوبصورت ہے ۔ (چونک کر) ارے !میں کدھر جارہی ہوں۔
سہراب:۔ فتح یاب حسینہ!پنکھڑیوں کا دروازہ کھول کر باہر نکل آنے والی خوشبو کی طرح تم اپنی اصلی شکل میں عیاں ہو گئیں تو اب تمھیں اپنا نام ونشان بھی ظاہرکر دینا چاہیے ۔ یہ میرا حکم نہیں بارگاہِ حسن میں مؤد بانہ درخواست ہے ۔
گرد آفرید:۔ میرے نام میں کوئی ایسی شیرینی اورموسیقی نہیں ہے جس سے سماعت لذت اندوز ہو سکے ۔ میں قلعۂ سفید کے حاکم گستہم کی بیٹی گرد آفرید ہوں۔
سہراب:۔ اور جانتی ہو ، میں کون ہوں ؟
گرد آفرید:۔جس گرد آفرید کی ہیبت سے بہادروں کی رگوں کا سرخ خون زرد ہو جاتا تھا تم اسے شکست دینے والے سہراب ہو۔
سہراب:۔ تمھاری نظر تمھیں مغالطہ دے رہی ہے ۔ آفتاب کی تجلی میں شمع کی روشنی کی طرح میری ہستی تمھارے حسن کے جلال میں گم ہو گئی ہے۔ اس چہرے کی پرستش کے لیے اب نیا نام ، نیا جسم ، نئی زندگی اختیار کی ہے ۔ ؂

مجروحِ شوق ، جورکشِ روز گار ہوں


زخمی جگر کا شور ، وفا کی پکار ہوں


دل کو نشہ ہے عشق کا آنکھوں کو دیدکا


سہراب اب غلام ہے گرد آفرید کا

گرد آفرید:۔ (دل میں) اس کی باتیں فردوس کا نغمہ کیوں معلوم ہوتی ہیں!کیا میری روح میں تبدیلی ہورہی ہے ؟
سہراب:۔ پیاری آفرید!عرضِ تمنا کے جواب میں تمھاری ایک مختصر ہاں عشق کی عقیدت مندی کا بہترین انعام ہے ۔ میرے دل کو تحفۂ محبت سمجھ کر قبول کرو۔
گرد آفرید:۔ (دل میں) ایک نامعلوم جذبہ انتقام کے شعلوں کو سرد کیے دے رہا ہے۔ (چونک کر) مگر نہیں ، عظمتِ وطن کے قاتل کا جرم ، میں کبھی معاف نہیں کر سکتی ۔ ( سہراب سے) سہراب تمھاری تلوار نے گردآفرید کو فتح کیا تھا لیکن تمھارے شریفانہ سلوک نے غیر مغلوب نفرت کو شکست دے کرگرد آفرید کی روح کے ہر گوشے اور دل کے ہر ذرے کو فتح کر لیا ۔ تم اب تک دشمن تھے لیکن اب میری جان کے مالک اور میرے ملک کے مہمان ہو۔ میں تمام ملک کی طرف سے تمھیں اور تمھاری بہادر فوج کو قلعۂ سفید میں تشریف آوری کی دعوت دیتی ہوں۔ اجازت دو کہ قلعہ جاکر تمھارے شاہانہ خیرقدم کی تیاریوں سے جذبات کی فضا میں محبت کا بہشت تعمیرکروں۔
سہراب:۔ اب میں تمھاری مرضی کی مخالفت نہیں کر سکتا ، تمھارا حکم میری زندگی کا واجب الاطاعت قانون ہے کیوں کہ تم حسن کی سطلنت کی ملکہ ہو اور میں اس سلطنت کی وفادار رعیت ہوں ۔
گرد آفرید:۔ تم ... تم... میرے دل کی دنیا کے بادشاہ ہو ۔

(دونوں جاتے ہیں )
ٹیبلو
(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسر ا باب چھٹا سین
قلعۂ سفید کا دروازہ
(ہومان ، بارمان اور سردارانِ فوج مع لشکر موجود ہیں)
ہومان:۔ دنیا کے حربوں میں سب سے زیادہ خوفناک حربہ عورت کا حسن ہے ۔
بارمان:۔ اور حسن ہی کا دوسرا نام عورت کی فتح ہے۔
ہومان:۔ یہاں بھی حسن وعشق کا معرکۂ کا رزار شروع ہو گیا ہے ۔
بارمان:۔ پہلی جنگ میں گرد آفرید کو شکست ہوئی تھی، اس جنگ میں سہراب کو شکست ہو گئی۔
(از خود رفتہ حالت میں سہراب داخل ہوتا ہے)
سہراب :۔ محبت !محبت!تو زندگی کی حلاوت ہے ، دل کی جنت ہے ، روح کا نشہ ہے ، دنیا کا حسن ہے ، عروسِ آفرینش کا سنگار ہے ، دوشیزۂ قطرت کے رنگینیٔ شباب کی فردوس آفرینی ہے ؂

زندہ ہے تجھ سے کیفِ طرب کائنات میں


تو نغمۂ ازل ہے ربابِ حیات میں


آسودگیٔ روح، نشاطِ نظر نہیں


دنیا میں کچھ نہیں ہے محبت اگر نہیں

ہومان:۔ اے ضیغمِ توران !اے تورانیوں کے مرکزِ امید ! آپ معبدِ عشق میں حسنِ نسوانی کے بُتِ رعنا کے روبرو اظہار عبودیت کے لیے نہیں آئے ہیں۔ اپنا عہد وارادہ یاد کیجیے۔ میدانِ مبارزت میں محبت کی فتح یابی تورانیوں کی فتح نہیں ہے ۔
بارمان:۔ میری بھی یہی گزارش ہے کہ اس ارضِ داروگیر میں ہستی وعدم کی درمیانی زمین پر آپ کے ولولہ حرب وضرب کو صنم پرستی میں مشغول دیکھ کر محبت کے لفظ کی تکرار بیمار عقل کا ہذیان ہے ۔
سہراب:۔تم پتھرہو،سرد ہو،بے کیف ہو،زندگی کی بہترین لذت سے محروم ہو ، تمھارے دل میں محبت کی حِس ہوتی تو تم بھی اقرار کرتے کہ دنیا کا نور عورت کا حسن ہے اور حسن گرد آفرید ہے ۔
ہومان:۔ افسوس!
سہراب:۔ ا فسوس ان کے لیے ہے جو محبت کے آبِ حیات کو زہر سمجھتے ہیں (قلعے کے پھاٹک کے قریب جاکر ) تعجب!!ابھی تک دروازہ بند ہے ۔ یہ کیا!
بارمان:۔ اور دنیا کے خاتمے تک بند ہی رہے گا
سہراب:۔ کیوں ؟
ہومان:۔تاکہ دنیا پر ثابت ہو جائے کہ آپ نے گرد آفرید کی نمائشی، مصنوعی پرُفریب محبت پر یقین کر کے ناقابلِ تلافی غلطی کی ہے۔
سہراب:۔ خبردار !تم میرے یقین کو دیوانگی کہہ سکتے ہو ، میری آنکھوں کو الزام دے سکتے ہو ، لیکن گرد آفرید کی محبت کو جھوٹی محبت کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔ تم نے ان پھول کی پنکھڑیوں سے شہد ٹپکتے نہیں دیکھا ۔ ایسے خوبصورت ہونٹ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
بارمان:۔اے دامِ فریب کے خوش اعتقاد اسیر !اب بھی اپنی غلطی کا اعترا ف کر۔ دشمن کے جنگی قلعے کا دروازہ عورت کے وعدوں سے نہیں زورِ بازو سے کھُلتا ہے ۔
(فصیلِ قلعہ پر گرد آفرید دکھائی دیتی ہے)
سہراب:۔ (ہومان اور بارمان سے) وہ دیکھو!اُدھر دیکھو اور اپنے قیاس کی ناتواں بینی پر نادم ہو ؂

کہتے تھے تم کہ مرہمِ زخمِ جگر نہیں


دنیائے انتظار میں شب ہے سحر نہیں


ہر ذرّہ چشمِ شوق ہے ارمانِ دید میں


پھیلا ہوا ہے نور فضائے امید میں

(بیتا بانہ دیوارِ قلعہ کے نزدیک جاکر)
پیاری آفرید!روح سے قریب ہو کر اب اس قدر دور کیوں ہو ؟ فصیلِ قلعہ سے جلووں کی بارش ہورہی ہے لیکن اس سے تشنہ تمناؤں کی تسکین نہیں ہو سکتی۔
(ہومان اور بارمان کی طرف اشارہ کرکے)

بجلی گرادے ان کے خیال اور یقین پر


آمیرے دل کے چاند اتر آ زمین پر

گرد آفرید:۔ زمین کی لعنت !دنیا ،ظلم فروشی کا بازار ، غلام سازی کا کارخانہ ، وقارِ انسانیت کی قتل گاہ، عزتِ نفس کا مذبح نہیں ہے ۔ ہوا ، پانی ، روشنی کی طرح خدا کی عطا کر دہ بے شمار نعمتوں میں سے آزادی بھی ایک نعمت ہے ۔ ہر خطۂ دنیا اُسے اپنا قدرتی ورثہ اور ہر انسان اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے ۔ ایرانی قوم نے تیرے ملک کی آزادی ، دولت ، صنعت ، حرفت ، تجارت ، دنیا کی برکتوں میں سے کون سی برکت اور زندگی کی مسرتوں میں سے کون سی مسرت چھین لی تھی جو تو بِلاا شتعال ، بلا سبب ، بلا جرم ، اس کا تمدنی ومعاشرتی نظام غارت کرنے اور اس کے دل کا اطمینان اور ملک کی متاعِ نشاط لوٹنے آیا ہے ؟ تو بہادر نہیں رہزن ہے ۔ جا !واپس جا!بہشت کے آستانے پرا ہر من کے کارندے کا اور قلعۂ سفید کے دروازے پر ایک ننگِ انسانیت ڈاکو کا خیر مقدم نہیں ہو سکتا ۔
سہراب:۔ پیاری آفرید!یہ اہلِ وفا کی زبان اور محبت کا لہجہ نہیں ہے ۔ تم اس طرح غیر شناسابن کر گفتگو کر رہی ہو گویا ہماری ملاقات اس دنیا کے بدلے خواب وخیال کی دنیا میں ہوئی تھی ۔ کیا اتنی دو ر سے مجھے پہچان نہیں سکتیں ؟ غور سے دیکھو میں سہراب ہوں۔ وہی سہراب جو حسن کی پرستش کو عشق کا مذہب اور تمھارے تصوّرِ رنگین کو اپنی روح کی بہشت سمجھتا ہے۔
گرد آفرید:۔خبر دار !ان سامعہ خراش لفظوں سے میرے مقدس حسن کی توہین نہ کر، مغرور !اپنی اتفاقی کامیابیوں کو وقت کی سِفلہ نوازی اور قسمت کی غلط بختی سمجھنے کے بدلے یہ سمجھ رہا ہے کہ تو جہان پر جا برانہ حکومت کرنے کے لیے اور یہ جہان مجبور بیل کی طرح اپنے زخمی کندھون پر اطاعت کا جوا رکھ کر تیرے دائرۂ حکم میں گردش کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے ۔ لیکن ارضِ ایران کی وسعت قلعۂ سفید کی چہار دیواری میں محدود نہیں ہے ۔ ہماری موت کے بعد بھی ایران اپنی قوت وصولت کے ساتھ زند رہے گا اور ثابت کر دے گا کہ سہراب وقت کے کھیلنے کا کھلونا اور اتفاقات کی ہوا میں قسمت کی لہروں میں ناچتے ہوئے بلبلے کا تماشا تھا ۔ ؂

آنکھوں میں تری حسن کھٹکتا ہے چمن کا


دشمن ہے مری قوم کا قاتل ہے وطن کا


مت دیکھ لٹیرے ہوسِ خام سے مجھ کو


نفرت ہے تری شکل ، ترے نام سے مجھ کو

سہراب :۔پیاری آفرید !عورت دنیا کی سب سے زیادہ حسین ومحبوب شے ہے ۔ جذبات اس کا نام سنتے ہی ناچ اٹھتے ہیں ، روح اس کی تصور سے روشن ہو جاتی ہے ا ورعشق اپنی تمام نیازمندیوں کے ساتھ اس کے قدموں پر سجدے میں گرپڑتاہے۔ تمھاری اس محبت آزارگفتگو سے اس کی رفعت ومحبوبیت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ عورت کی تغیر پذیر فطرت کے بارے میں کتابوں کے ورق اور انسانوں کے تجربوں نے جو رائے دی ہے کیا تم اس غلط رائے کو آج صحیح ثابت کرنا چاہتی ہو ؂

کیوں کیا مخمور وبے خود بادۂ سر جوش سے؟


کیوں دیا پیغامِ الفت نرگِس مَے نوش سے؟


ایک فتنہ اور بالائے زمیں پیدا کیا


کیوں مرے دل میں محبت کا یقیں پیدا کیا؟

گرد آفرید:۔ محبت کا یقین دلائے بغیر تیری قید سے رہا ہونا نا ممکن تھا۔ بیوقوف سُن!اپنے اہلِ وطن کی روح میں نا مردانہ زندگی کی حقارت اور شجاعانہ موت کا احترام پیدا کرنے اور پیدا شدہ جذبے کو آخری سانس تک قائم وشعلہ فشاں رکھنے کے لیے مجھے زندہ رہنے کی ضرورت تھی۔ شکر ہے کہ میں زندہ ہوں لیکن سہراب کے لیے نہیں، اپنے ملک کے لیے۔ محبت کے لیے نہیں ، اپنے وطن کی خدمت کے لیے۔ تو مسمار گھروں اور بے کفن لاشوں پر قبضہ کر سکتا ہے لیکن ہماری زندگی میں ہمارے قلعے اور ہماری آزادی پر قبضہ نہیں کر سکتا ؂

جا ، پلٹ جا ، اور نہیں کہتی کہ خالی ہاتھ جا


حسرتوں کے ساتھ آیا ، ذلتوں کے ساتھ جا

سہراب:۔ (انتہائی حیرت سے) گردآفرید؟ گرد آفرید؟
گرد آفرید:۔ رُعونت کے پتلے !یہ ا یران وتوران کی کشاکش نہیں، مصافِ حیات میں خود غرضی وظلم سے ایثار وقربانی کی آویزش ہے ۔ یہ جنگ جابروں کے لیے سرمایۂ لعنت اور ستم رسیدوں کے لیے تلقینِ خودداری ودرسِ حرّیت ہے۔اگرقسمت کی شرکت واعانت سے تو کا میاب بھی ہوا تو تیری فتح شکست سے زیادہ ذلیل اور وقت کی نامساعدت سے ہم سپرانداز بھی ہوئے تو ہماری شکست فتح سے زیادہ شاندار ہوگی۔ تاریک سائے میں ڈوبتے ہوئے شام کے آفتاب کی طرح دنیا نظروں سے غائب ہو جاتی ہے ، اب دو چیزیں دھوئیں کے کا غذ پر لکھے ہوئے آگ کے حرفوں کی طرح دکھائی دے رہی ہیں معزز زندگی یا ۔ معزز موت۔
(چلی جاتی ہے)
سہراب:۔حسین جسم میں دغاباز روح !صندل میں سوزش !چاندنی میں دوپہر کی دھوپ کی تپش!(ہومان بارمان سے)تم سچ کہتے تھے!حسن نے کبھی وفادار دل کی قدر نہیں کی ۔ حملہ کرو... حملہ کرو... اس قلعۂ سفید ، اس حصارِ سنگین کی ہستی، عورت کے وعدے سے بھی زیادہ کمزور ہے ۔ اُف کتنا فریب!عورت !تو صرف ایک خوبصورت دھوکا ہے !! بِزَن ...
(تورانی لشکر حملہ کرتا ہے ۔ فصیلِ قلعہ سے کھولتے ہوئے تیل ، گراں وزن پتھروں اور تیروں کی خونی بارش ہوتی ہے ، شدید ومہیب جنگ کے بعد سہراب کے گرز سے دروازہ ٹوٹ کر گڑ پرتا ہے اور حملہ آور فوج قلعے میں فاتحانہ جوش کے ساتھ داخل ہوتی ہے )
ٹیبلو
(سین ختم)
 
Top