پہلا باب چوتھا سین
شاہی محل
( آراستہ خواب گاہ ۔ رات کا وقت ۔ خواب گاہ کی کھڑکیوں میں سے شہر سمنگان کے گھروں کی روشنی دکھائی دے رہی ہے ۔ شاہ سمنگان اور رستم بیٹھے ہوئے ہیں۔ چند غلام ہاتھ باندھے ہوئے حکم کے منتظر کھڑے ہیں)
بادشاہ:۔ پیلسم کی زندگی اسے واپس دے کر آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ جو بہادر ہوتا ہے وہ رحم دل بھی ہوتا ہے ۔
رستم:۔ لیکن معافی ملنے کے بعد بھی پیلسم کا چہرہ حسد کی آگ کے دھوئیں سے سیاہ ہورہاتھا ۔ مجھے یقین نہیں کہ وہ میرے رحم کی قدر کرے گا۔
بادشاہ:۔ اب رات کی آنکھوں میں بھی نیند کا خمار دکھائی دے رہا ہے ۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو شب بخیر کہوں۔
رستم:۔ اس مہربانی کا شکریہ۔
شاہ سمنگان:۔ میری دعا ہے کہ آپ آرام کی نیند سوئیں اور مسرت کا خواب دیکھ کر ہنستے ہوئے بیدار ہوں۔
(غلاموں کے ساتھ جاتا ہے)
رستم:۔ موت کیا ہے ؟ ایک لمبی نیند، اور نیند کیا ہے ؟ ایک مختصر موت۔ سونا اور مرنا، دونوں موت ہی کی دو شکلیں ہیں ۔ لیکن کیسے تعجب کی بات ہے کہ انسان ایک کو آرزو اور التجاؤں سے بلاتا ہے اور دوسرے کا نام سنتے ہی خوف سے کانپ اٹھتا ہے
آسماں کے ہاتھ میں ہے چاند کا زرّیں ستار
گونج اٹّھے نغمہ وراحت سے اس کا تار تار
رات تھوڑی رہ گئی ہے صبح ہے جانا مجھے
ہاں سناؤ اے ستارو ! نیند کا گانا مجھے
(رستم سوجاتا ہے۔ پیلسم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چوروں کی طرح دبے پاؤں داخل ہوتا ہے)
پیلسم:۔ خاموش ! آہستہ !پیروں کے نیچے کی زمین بھی تمھارے پاؤں کی آواز نہ سن سکے۔
ہمراہی(۱):۔ ہاتھ میں چمکتے ہوئے خنجروں کی طرح ہمارے پاؤں بھی ہمارے قبضے میں ہیں، بڑھو۔
پیلسم:۔ ٹھہرو ! بڑھنے سے پہلے اپنی حمیت اور ہمت کا ایک بار اور امتحان کر لو۔ رستم کے ہاتھ سے سرِدربار ذلیل ہونے کے بعد بھی تم اپنی بے عزتی پر صبرکر چکے تھے۔لیکن میں نے اپنی تقریر سے تمھاری مردہ ہمتوں میں جان ڈال دی۔ تمھارے خون میں جو پانی بن گیا تھا ،اس میں پھر سے سرخی اورگرمی پیدا کی ، پھر تم سب نے اپنی ذلت کا بدلہ لینے کے لیے تلواروں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی۔
ہمراہی (۱):۔ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنی ذلت بھی یاد ہے ا ور قسم بھی۔
ہمراہی(۲):۔ دنیا کا خیال ہے کہ سیاہ رنگ پر کوئی رنگ نہیں چڑھتا۔ آخر ہم اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لیے رستم کے خون سے رات کی سیاہ چادر کو سرخ بنانے آئے ہیں۔
پیلسم:۔ تو جاؤ ، پہلے اس کے گرزاور ترکش پر قبضہ کر لو۔
(ساتھی رستم کا گرز اور ترکش اٹھالیتے ہیں)
دیکھتے ہوکس اطمینان اور آرام کے ساتھ سورہا ہے ۔ دشمنوں کے ملک میں دشمنوں کی چھت کے نیچے تم نے کسی انسان کو اس طرح نڈر ہو کر سوتے ہوئے نہ دیکھا ہوگا۔ گویا یہ فیصلہ کرنے کے بعد سویا ہے کہ دنیا میں اور سب کچھ ہے لیکن فکر ، ڈر اور موت نہیں۔
(چھُری مارنے جاتا ہے)
ہمراہی(۱):۔ (تہمینہ کو سامنے سے آتے دیکھ کر) ہوشیار! کوئی آرہا ہے ۔
پیلسم:۔ یہ کون؟ تہمینہ !رستم کی خواب گاہ میں؟ سمنگان کی شہزادی !لیکن کیوں؟ جس طرح اس کے باپ نے دشمن کو مہمان بنا کر سارے توران کو بے عزت کیا ، کیا اسی طرح یہ بھی جوانی کے نشے سے اندھی ہوکر رستم کے آغوش میں اپنے کو ذلیل کرنے آئی ہے ؟
ہمراہی(۲):۔ ہم نے تو سنا تھا کہ صورت کی طرح اس کی سیرت بھی حسین ہے ۔
ہمراہی (۳):۔چھپ جاؤ اور سنو ! اس کی باتوں سے اس کاارادہ ظاہر ہو جائے گا۔
پیلسم:۔ اگر یہ ناپاک ارادہ اور پرُاز گناہ خیال لے کر یہاں آئی ہے تو قسم ہے سمنگان کی عزت کی
نہ رہنے دوں گا کوئی نقش اس شاہی نگینے میں
یہ خنجر بھونک دوں گا سب سے پہلے اس کے سینے میں
ہزاروں کھیل دیکھے ، دیکھنا تم یہ تماشا بھی
تڑپتا ہوگا رستم کی بغل میں اس کا لاشا بھی
(سب چھپ جاتے ہیں ۔ تہمینہ خوف زدہ نگاہوں سے اِدھر اُدھردیکھتی ہوئی داخل ہوتی ہے)
تہمینہ:۔ شرم اور دل کی جنگ کسی طرح ختم نہیں ہوتی ۔ شرم کہتی ہے کہ لوٹ چل اور دل کہتا ہے آگے بڑھ۔
(سوچتی ہے)
اگر وہ جاگ کر پوچھ بیٹھا کہ تم کون ہو ؟ کیوں آئی ہو ؟ تو شرم سے سرجھکانے کے سوا اور کیا جواب دے سکوں گی ... ہمت مجھے سہارا دے...
(آہستہ آہستہ قریب جاکر سوئے ہوئے رستم کو دیکھتی اور حیرت زدہ ہو جاتی ہے) کیا دیکھا ؟ نیند کی انگوٹھی میں ایک بیش قیمت ہیرا ، بہادری، نیکی اور شرافت کی روشنی سے چمک رہا ہے ۔ ایک زمین کا چاند جس کے سامنے آسمان کا چاند بھی کرنوں کا دامن پھیلا کر مردانہ حسن کی بھیک مانگ رہا ہے
تجلّی صبح کی اور دبدبہ ہے بادشاہوں کا
یہ چہرہ دیکھنے سے نور بڑھتا ہے نگاہوں کا
(دوبارہ جھک کر غور سے دیکھتی ہے ، رستم جاگ اٹھتا ہے)
رستم:۔ (پلنگ سے دھیرے دھیرے اُٹھ کر) آنکھو ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں
عجب چہرہ ہے جس کو حسن کی کرنوں نے گھیرا ہے
یہ جلوہ ہے کہ جادو، چاندنی ہے یا سویرا ہے
(تہمینہ جانا چاہتی ہے،رستم روکتا ہے) ٹھہرو !اندھیری رات میں حسن کا چراغ لے کر آنے والی حسینہ ٹھہروا!تم کون ہو؟
تہمینہ:۔ اس سے زیادہ آپ کو جاننے کی ضرورت نہیں کہ میں سمنگان کی ایک شریف لڑکی ہوں۔
رستم:۔ تمھارا نام؟
تہمینہ:۔ تہمینہ۔
رستم:۔ اور جس کی زندگی کے باغ میں یہ حسین پھول پیدا ہوا ہے اس باغبان کا نام؟
تہمینہ:۔ شاہ سمنگان (رستم چونکتا ہے) دوست اور دشمن ہر ایک کی زبان اقرار کرتی ہے کہ آپ انسانوں میں عظیم ترین انسان اور دنیا کی پرُجلال ہستیوں میں عجیب وغریب ہستی ہیں۔ آپ کے حوصلے اور جرأت کے قصے سن سن کر میرے دل میں مدّت سے خواہش تھی کہ آپ کی زیارت کروں۔ آج وہ تمنا پوری ہوئی۔ اب اجازت چاہتی ہوں۔
(دھیرے دھیرے دروازے کی طرف لوٹتی ہے)
رستم:۔ کیا میں وہی رستم ہوں !اوہ کتنا عجیب انقلاب؟ دنیا فتح کرنے والے کو آج ایک عورت کے حسن نے فتح کر لیا (بے تابانہ)
یہی ہے جس سے ہر شے ہے حسین وزرنگار اتنی
کہاں سے لائی دنیا ورنہ حسن اتنا بہار اتنی
(تہمینہ جانا چاہتی ہے)
سنو!ٹھہرو !چلیں منہ پھیر کر کیوں خستہ جانوں سے
سمنگاں کا یہی دستور ہے کیا میہمانوں سے
تہمینہ :۔ سمنگان اچھی طرح اپنے مہمانوں کی عزت کرنا جانتا ہے ۔ کیا یہ مہمانی آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہوئی۔
رستم:۔
ہو گیا بیگانہ کیوں آرام وضبط وہوش سے
پوچھیے یہ حال میری حیرتِ خاموش سے
جب سے میں جاگا ہوں ، لب ہے اور آہِ سرد ہے
جس جگہ پہلو میں دل تھا اب وہاں پر درد ہے
تہمینہ:۔ مرض سے بے پروائی مرض کا علاج نہیں ہے ۔ اجازت دیجیے کہ میں شاہی حکیم کو طلب کروں ۔
رستم :۔ روح کی بیماری کا علاج پیغمبرکرتے ہیں ، جسم کی بیماری کا علاج حکیم کرتے ہیں اور دل کی بیماری کا علاج محبت کی نظر کرتی ہے
بس اب اس زندگی میں زندگی کا مدعا تم ہو
مرے غم کی شفا تم ہو مرے دل کی دوا تم ہو
(رستم تہمینہ کا ہاتھ پکڑتا ہے ، تہمینہ غصے سے ہاتھ جھٹک کر)
تہمینہ:۔ میرا ہاتھ چھوڑدو ، تمھاری شرافت پر بھروسا کرنا میری غلطی تھی۔ یا د رکھو اپنی عصمت وآبروکی حفاظت کے وقت سمنگان کی ہر شریف لڑکی رستم سے زیادہ طاقتور ہے ۔
رستم:۔ (حیرت سے) یہ کیا؟ میری محبت کے پاک جذبے کو تم شک کی نظر سے دیکھتی ہو! میں کمینہ نہیں ہوں۔ شریف اپنے ہی خون سے اپنے جسم کو رنگ دے گا لیکن ذلت کے دھبوں سے اپنے نام وعزت کو کبھی داغ دار نہ کرے گا۔
تہمینہ:۔ معاف کرنا ، میں یہ سمجھی کہ ...
رستم:۔ تم جو بھی سمجھیں غلط سمجھیں۔رواج ، مذہب اور شادی کے مقدس قانون کے مطابق جو لڑکی میری قسمت میں برابر کی شریک ہو کر زندگی سے موت تک میرے رنج وراحت کی حصہ دار ہوگی، اس کے سوا رستم ہر جوان لڑکی کو اپنی بہن اور ہر بوڑھی عورت کو اپنی ماں سمجھتا ہے
کبھی ہوگا نہ داغِ جرم سے چہرہ خجل میرا
نہ گندی ہے نظر میری نہ ہے ناپاک دل میرا
تہمینہ:۔ ہر دوشیزہ لڑکی آپ جیسے شریف اور بہادر کی لونڈی بننا اپنی خوش نصیبی سمجھے گی ۔ لیکن اس بات کو نہ بھولیے کہ میں تورانی ہوں اور آپ ا یرانی ہیں۔
رستم:۔ تو کیا تم محبت کو ا یران اور توران کے لفظوں میں قید سمجھتی ہو۔ محبت کا کوئی مذہب ، کوئی قوم، کوئی وطن نہیں ہے۔ محبت خدا کے رحم کی طرح ذات اور قوم کو نہیں صرف خوبیوں کو پوچھتی ہے ۔ محبت مذہبی منصب ، ملکی نفرت ، قومی دشمنی، ذاتی غرور اور ہر اندھیرے کو، سورج کی روشنی بن کر،دورکر دیتی ہے ۔ محبت پورب اور پچھم کی طرف بہتے ہوئے دو دریاؤں کو ایک بنا کر ایک راستے پر چلنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے
محبت کی نگاہوں میں اندھیرا بھی سویراہے
نہ تورانی نہ ایرانی ، نہ تیرا ہے نہ میرا ہے
نئی تحریر لکھیں آؤ قسمت کے نوشتے میں
زباں سے ہاں کہو بندھ جائیں دو دل ایک رشتے میں
تہمینہ:۔ اس بات کا جواب دینے کا مجھے اختیار نہیں ہے ۔ ایشیا کی لڑکی شادی کے بعد شوہر کی اور شادی سے پہلے باپ کے حکم کی اطاعت کرتی ہے۔
رستم:۔ رستم اورتہمینہ کی شادی،ممکن ہے کہ آئندہ کے لیے ایران اور توران کو دوست بنادے ۔ اسی لیے مجھے کامل یقین ہے کہ تمھارے صلح پسند والد اس رشتے کو ضرور منظور کریں گے
نا امیدوں کو نویدِ راحت وآرام دیں
ایک ہوکر آؤ دنیا کو نیا پیغام دیں
(تہمینہ شرماکر سر جھکا لیتی ہے ۔ پیلسم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ پوشیدہ مقام سے باہر نکلتا ہے)
پیلسم:۔ غافل ہے باندھ لو !
(پیلسم کے ساتھی پیچھے سے رستم کو موٹی زنجیروں سے جکڑ لیتے ہیں)
تہمینہ :۔ تم کون ہو؟
رستم :۔ یہ کیا؟
پیلسم:۔ غرور کا جواب ۔ توران کی ذلت کا بدلہ
تری نخوت تری تقدیر نے دھوکا دیا تجھ کو
سمنگاں کی زمیں پر لائی تھی تیری قضا تجھ کو
نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی ہم وطن ہوگا
زمیں تیرا جنازہ آسماں تیرا کفن ہوگا
رستم:۔ احسان فراموش !دغا باز !جس طرح کتّے کے سامنے روٹی کا ٹکڑا پھینک دیتے ہیں اسی طرح میں نے دربار میں تیری چھینی ہوئی تلواراور تیری حقیر زندگی رحم کر کے تجھے دے دی تھی۔ اگر تیری ماں کے دودھ میں غیرت کا ایک قطرہ بھی ہوتا تو ذلت کو بے حیائی کی فتح سمجھ کر دوبارہ میرے روبرو آنے کی جرأت نہ کرتا ۔
گیدڑنے پھر سے روپ بھرا ہے دلیر کا
چہرہ لگا کے آیا ہے گردن پہ شیر کا
آنکھیں ہیں لال ، خوف سے پر رنگ زرد ہے
بے شرم تو شریف وجری ہے ، نہ مرد ہے
پیلسم :۔اب یہ بکواس اس زنجیر کے لوہے میں نرمی اور اس دل میں تیرے لیے رحم پیدا نہیں کر سکتی
مری شرافت پہ کر لے حملے دہن میں جب تک تری زباں ہے
یہ لن ترانی، یہ بد زبانی ، بجھی ہوئی آگ کا دھواں ہے
رستم:۔ شرافت !ان قدموں میں بیٹھ کر جن ہونٹوں سے اپنے بزدل اور ذلیل ہونے کا اقرار کر چکا ہے ان ہونٹوں سے شرافت کے لفظ کو بے عزت نہ کر ۔ کمینے ! تو اس دنیا ہی میں پیدا نہیں ہوا جس میں شرافت اور شریف رہتے ہیں
بے غیرتی کی آگ سے ، دوزخ ہے دل کا گرم
بازو میں تیرے زور، نہ آنکھوں میں تیری شرم
تو بھی کثیف ہے ترا دل بھی کثیف ہے
کتّا گلی کا تجھ سے زیادہ شریف ہے
پیلسم:۔ ہاتھی کو پکڑنے کے لیے جنگل میں گڑھا کھودنا ، سامنے سے آتے ہوئے شیر پر دور سے تیر چلانا، بھیڑیے کے پنجے میں پنجہ ڈال کر لڑنے کے بدلے دس قدم پیچھے ہٹ کر اس پر برچھا مارنا ، اگر یہ نامردی اور کمینہ پن نہیں ہے تو دشمن کو شمشیر کے بدلے تدبیر سے شکست دینا یہ بھی شرافت کے خلاف نہیں ہے ۔
فتح پانے کے لیے یہ آخری اوزار ہے
گُرز وخنجر کی طرح دھوکا بھی اک ہتھیار ہے
رستم:۔ دھوکا شیر دل شریفوں کانہیں، لومڑی کا دل اور بچھو کی روح رکھنے والے کمینوں کا حربہ ہے ۔ ایک شریف دغا ا ور فریب سے دشمن پر فتح حاصل کرنے کو فتح نہیں اپنی شرافت کی شکست اور اپنی تلوار کی بے عزتی سمجھتا ہے ۔
جری کو آبرو اور جان پیاری ہے کمینے کو
بہادر مانگتا ہے موت بے شرمی کے جینے کو
پیلسم:۔ اب تیرا جینا اور مرنا دونوں ہمارے قبضے میں ہیں۔ اپنی روح سے کہہ کہ جسم سے نکل کر موت کی پیشوائی کرے۔
(رستم کے سینے میں تلوار بھونکنے کے لیے آگے بڑھتا ہے)
تہمینہ:۔ خبر دار !(پیلسم کی کلائی پر زور سے گھونسہ مارتی ہے) پیلسم کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ جاتی ہے ۔ (تہمینہ تلوار پر پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے) انسانیت کی پیشانی پر شرم کے دھبے ! تو شیر کو دھوکے سے زنجیر میں جکڑ کر اس کے خون سے اپنی ذلیل تلوار کے منہ پر بہادری کا غازہ ملنا چاہتا ہے۔حیف ہے تجھ پر۔ مجھے آج معلوم ہوا کہ سمنگان کی مائیں تیرے جیسے کمینے لڑکے بھی پیدا کرتی ہیں
چاہتا ہے تو کہ سر جھک جائے سارے ملک کا
نام رسوا کر رہا ہے تو ہمارے ملک کا
یہ فریب ، اتنا حسد انسان کو انسان سے
یوں دغا کرتے نہیں حیوان بھی مہمان سے
پیلسم:۔ بدکار ، بد چلن۔ ملک کے دشمن کو اپنی عزت نذر کر دینے کے بعد ہمیں ملک کی عزت کرنا سکھارہی ہے۔
تہمینہ:۔ بدکار؟ بد چلن ؟ کیا کہا موذی نمک حرام؟
(جھپٹ کر پیلسم کا گلا پکڑلیتی ہے)
یہ بل ، یہ جوش ، یہاں تک بڑھا جنون تیرا
میں پی کے چھوڑوں گی ان ناخنوں سے خون تیرا
پیلسم:۔ (گلا چھڑانے کے بعد) باندھ لو۔
(پیلسم کے سپاہی دو طرف سے تہمینہ کی کلائیاں پکڑلیتے ہیں)
تہمینہ:۔ (ہاتھ چھڑاتے ہوئے) چھوڑ دو،کمینو!مجھے چھوڑدو ، اس پاجی کو اپنے گندے منہ کے ہر لفظ کا ثبوت دینا ہوگا۔ میں اس سے اپنی بے عزتی کا ثبوت مانگتی ہوں... کُتّے ! جو کچھ کہا ہے اسے ثابت کر
مرد ہے تو اپنی غیرت کو ذرا للکاردے
ایک تو تلوار لے اور اک مجھے تلوار دے
رستم:۔ بدبخت ، بیوقوف، رحم ودرگزر کو بھی مجبوری سمجھتے ہیں۔ پیلسم میری برداشت پر غلط بھروسا نہ کر، میں اور سب کچھ دیکھ سکتا ہوں لیکن بچے کی تکلیف ، بوڑھے پر ظلم اور عورت کی بے عزتی کبھی نہیں دیکھ سکتا ۔
پیلسم:۔
دیکھنا ہی ہوگا جو کچھ ہے تری تقدیر میں
دیکھنے ہی کے لیے باندھا ہے اس زنجیر میں
رستم:۔
باندھ رکھنے کے لیے کافی یہ تدبیریں نہیں
گھاس کے تنکے ہیں لوہے کی زنجیریں نہیں
(زنجیر کو توڑکر گُرز اٹھانے کے لیے دوڑتا ہے)
گُرز ترکش کیا ہوئے اچھا مری ہمت تو ہے
ہاتھ میں حربہ نہیں ، پر ہاتھ میں طاقت تو ہے
(گُرز نہ پا کر چھت کاکھمبا توڑ کر اس سے پیلسم اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کرتا ہے)
لڑائی ۔ٹیبلو
(ڈراپ سین)