الف عین
لائبریرین
دوسرا باب ساتواں سین
قلعۂ سفید کا اندرونی حصہ
(جدال وقتال کے ہنگاموں ، زخمیوں کی چیخوں ، ہتھیاروں کی جھنکار، نعرہ ہائے جنگ ، بِزَن و بِگیر کا شور وغل سنائی دے رہا ہے ۔ بہرام منتّقمانہ جذبات اور شریرانہ مسرت کے ساتھ داخل ہوتا ہے)قلعۂ سفید کا اندرونی حصہ
بہرام:۔گناہ اور سزا دونوں اعتقاد کے فریب ہیں ۔ نیکی وبدی کا تخیل ، بلند پروازِعقل کی ترقیٔمعکوس ہے ۔ آج سے پیشتر اپنی شمشیر وتدبیر سے ملک کے دشمنوں کی امداد کرنا، میں ایک شرمناک گمراہی ، ایک ہیبت ناک گناہ ، ایک پروردۂ لعنت جرم سمجھتا تھا مگر اب؟ اب نہیں ۔ موت ، آگ ، بربادی نے شہر کے ہر حصے کو گھیر لیا ہے ۔ کٹے ہوئے سر خون کی لہروں میں بلبلوں کی طرح تیررہے ہیں ، ایک دریدہ دہن ، محرومِ فراست چھوکری کو ’’عقلِ کل‘‘ اور اس کی احمقانہ رائے کو دنیا کی دانش مندی کا ’’خلاصہ‘‘ سمجھنے والوں کی یہی سزا ہے ، میری تردید وتوہین کا یہی انعام ہے ۔ ایران کی تاریخ میں میرانام قاتلانِ قوم میں لکھا جائے گا۔ دنیا مجھے دشمنِ وطن کہے گی ، کہنے دو !عاقبت خراب ہوگی ، ہونے دو !مجھے تو قوم ، وطن ، عاقبت کچھ نہیں چاہیے ... انتقام !صرف انتقام!!چاہیے... بہرام چل، دست بدست جنگ میں دوبارہ سہراب کی رہنمائی کر ... سہراب کی فتح ہی تیرے انتقام کی فتح ہے ۔
(بہرام کی روانگی ، خون آلود تلوار لیے ہوئے گرد آفرید داخل ہوتی ہے)
گرد آفرید:۔ موت ایک تغییرِ ہیئت ، ایک تبدیلیٔ لباس ، ایک نقلِ مکانی ، ایک جدید آغازِ عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ سفرِ حیات میں مسافر کا پیکرِ خاکی ومقصدِ سفر بدل جاتا ہے ، لیکن منزل نہیں بدلتی ۔ موت ، جدید زندگی کی ا بتدا ہے یعنی ہم موت کے دروازے سے ، معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہی زندگی کا راز ہے اور یہ راز صرف شہیدانِ حق وحرّیت کو معلوم ہے ۔ شاباش!ایران کے فدائیو! شمعِ ملت کے پروانو !شاباش !تمھارے خون کا ہر قطرہ صبحِ عزت کا نوطلوع آفتاب اور ہماری جنگِ آزادی کا ہر لمحہ سعادتِ جاودانی کا سرمایہ دار ہے۔ سرفروشانہ موت کے بعد بھی تم مستقبل کے غیر فانی حافظے اور بقائے دوام کی لازوال دنیا میں زندہ رہوگے !تمھاری حیرت آفریں قربانیوں نے مغرور سہراب ...
(سہراب کا نام زبان پر آتے ہی دل میں محبت کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے)
آہ کتنا شجاع !کیسا شریف !!اس کی تجلی بار چہرے کی طرف دیکھنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسی چہرے کے نور سے آفتاب ومہتاب کی آفرینش ہوئی ہے۔ سہراب !میری روح کو محبت کی روشنی سے منور کرنے والے سہراب!تم توران میں کیوں پیدا ہوئے؟ اگر تم مادرِ ایران کے فرزند ہوتے تو میں کنیز بن کر تمھاری خدمت کو کامرانی ، نشاط، اور تمھاری پرستش کو وسیلۂ نجات سمجھتی اور ... (خیال بدلتا ہے)... بیوقوف عورت !کیا عشق کی بجلیوں کی چمک کو جذبۂ جنگ کی تڑپ بن کر ، ملک اور قوم کے اعتبار کو دھوکا دے رہی ہے؟ کیا تو دل سے نہیں، صرف زبان وتلوار سے سہراب کی مزاحمت کر رہی ہے؟ ہوشیار! تیرا گنہگار خیال تجھے جرم کی مہیب دنیا میں کھینچے لیے جارہا ہے ...اس دنیا میں جہاں لعنت ہے ، رحمت نہیں !سزا ہے ، کفارہ نہیں ! نفرت کر ، سہراب سے نفرت کر ، دل سے بھی اور روح سے بھی۔
(پھر شعلۂ محبت بھڑکتا ہے)
لیکن میں نفرت نہیں کرتی اور نہیں کر سکتی تو باعث تعجب کیوں ہے ؟ دنیا میں کون عورت ہے جو ایسے پیکرِ شجاعت ، وفادار، رحیم ، جمیل کو اپنا دل اور اپنا مقدر سپرد نہ کر دے گی؟ اسے دیکھنے کے بعد اس حسن وجاذبیت سے معمور دنیا کی کسی شے کی طرف دیکھنے کی تمنا باقی نہیں رہتی ۔ وہ صانعِ فطرت کی نظر افروز صنعت اور مصوّرِ قدرت کا حسین ترین شاہکاہے (دوبارہ خیال کی رَوبدلتی ہے)...دور ہو !اے عورت کی فطری کمزوری دور ہو !محبت باغیانہ شورش ، فرض کی آواز اور ضمیر کی پکار کو مغلوب نہیں کر سکتی ۔ جس قدر کمینہ شرافت سے ، غدار اپنے ملک سے ، بزدل عزت کی موت سے نفرت کرتا ہے ، میں بھی، ہاں میں بھی ، اسی قدر سہراب سے نفرت کروں گی۔ اس کے چہرے کی نظر فریبی صرف ایک حسین لعنت ہے۔ وطن کا دشمن اگر ارضِ وطن کی طرح خوب صورت ، نعرۂ آزادی کی طرح پرُ جلال ، محبتِ قومی کی طرح قابلِ پرستش ہو تب بھی وہ دنیا کی بدترین ہستی ہے ۔ محبت پیچھے ہٹ! فرض آگے بڑھ!
(خوف واضطراب کی حالت میں گستہم داخل ہوتا ہے)
گستہم:۔ اوہ !وہم بھی نہ تھا کہ وہ انسان جس کو چمنِ کائنات کاگلِ سرسَبَد ، قدرت کا نقشِ آخر ، آفر نیش کا خلاصہ ، کتابِ تخلیق کا تکملہ کہا جاتا ہے وہ بھیڑیے سے زیادہ خونخوار اور کتے سے زیادہ رذیل ثابت ہوگا... اے خدا !تونے اس بد نہاد شخص ، اس متحرک لعنت کے ڈھیر کو کیوں پیدا کیا؟ کیا اس ننگِ ہستی کے بغیر تیرے بے عیب ومکمل نظام کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی؟
گُر آفرید:۔ آپ کا ہر لفظ خطرے کا اعلان کررہا ہے !کیا ہوا؟
گستہم:۔ دغا!شرمناک دغا۔
گرد آفرید:۔ دغادی!کس نے !غیر ت نے؟ ہمت نے ؟ قسمت نے؟
گستہم:۔ ا یرانی ماں کے پلے ہوئے سانپ نے ، قوم کُش ، خائنِ ملت بہرام نے۔
گرد آفرید:۔ ملعون ... دوزخی !
گستہم :۔ اس نے سہراب کے پاس اپنا ایمان اور دوزخ کے پاس اپنی روح فروخت کر دی۔ اس کی جفاکوشی وبے حمیتی دیکھ کر مجھے تعجب ہورہا ہے ۔
گرد آفرید:۔ تعجب کیوں کرتے ہو؟ ہمیشہ ملک کے نمک حراموں ہی نے غیروں کی غلامی کے طوق سے اپنے ملک کی گردن کی زینت افزائی کی ہے ۔ غداری کی تاریخ پڑھو ! بہرام کی وطن دشمنی دنیا کا پہلا عجیب واقعہ نہیں ہے۔
گستہم:۔ اس کی امدادو رہنمائی سے سہراب کی فوج نے قلعہ کے محفوظ مقامات اور سامانِ جنگ کے ذخیروں پر قبضہ کر لیا ہے ۔ عنقریب قسمت جنگ کی کمان سے اپنے ترکش کا آخری تیر چلانا چاہتی ہے ۔ اب ہمارے لیے کوئی امید باقی نہیں رہی۔
گرد آفرید:۔(تڑپ کر)کیوں باقی نہیں رہی۔ جب تک غلامی سے نفرت باقی ہے ، غیرت باقی ہے، جسم میں ایک بھی سانس اور قلعے میں ایک بھی جانباز باقی ہے ، امید بھی باقی رہے گی۔ ہم فانی دنیا میں لا زوال زندگی لے کر نہیں آئے ہیں۔ جب مدتِ حیات محدود ، فنا لازمی، اجل یقینی ہے تو عزت وشرافت کے ساتھ مرو۔ بہادروں کی طرح مرو ، بوڑھے ، اپاہج، ناکارہ ہوکر بیماری کے بستر پر ایٹریاں رگڑ رگڑ کے مرنے کے بدلے قوم پر قربان ہوکر مادرِ وطن کی آغوش میں مرو۔ ناامیدی سامنے سے دور ہو ۔ آؤ!بس فتح یا موت۔
(تصویرِغضب بنی ہوئی گستہم کے ساتھ جاتی ہے )
(بہرام اور سپاہیوں کے ہمراہ سہراب داخل ہوتا ہے)
سہراب:۔ گرد آفرید میری روح کی تمنا اور میرے خوابِ تمنا کی تعبیر ہے۔وہ میری امید کی امید میری زندگی کی زندگی ہے۔ اسے زندہ گرفتار کر لو ۔ خبردار !اس کے سر کے ایک بال اور پاؤں کے ایک ناخن کو بھی صدمہ نہ پہنچے ۔
بہرام:۔ لیکن گرد آفرید ہی نے ایرانیوں کی مردہ ہمتوں میں دوبارہ حرکتِ حیات اور قوتِ عمل پیدا کی تھی۔
سہراب:۔ اس لیے؟
بہرام:۔ وہ رحم کی مستحق نہیں ہے ۔
سہراب:۔ عشق کی اتنی مجال نہیں کہ وہ حسن کو اس کے جرم کی سزا دے سکے ۔ جاؤ!(بہرام اور سپاہیوں کی روانگی ) ناز سراپا غرور۔ اورنیاز ہمہ تن شکر ہوتا ہے ۔ میں اس بے دید ، بے مہرسے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ خوبصورتی اور بے وفائی کا آپس میں کون سا رشتہ ہے ؟ چہرہ حسین ، دل بہادر ، آنکھیں بے مروت۔ میں نے دنیا میں ایسی عجیب عورت نہیں دیکھی۔
(گرد آفرید کی تلاش میں جاتا ہے)
(سین ختم)