آغا حشرؔ کاشمیری کے نما ئن۔دہ ڈ را مے

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب ساتواں سین
قلعۂ سفید کا اندرونی حصہ
(جدال وقتال کے ہنگاموں ، زخمیوں کی چیخوں ، ہتھیاروں کی جھنکار، نعرہ ہائے جنگ ، بِزَن و بِگیر کا شور وغل سنائی دے رہا ہے ۔ بہرام منتّقمانہ جذبات اور شریرانہ مسرت کے ساتھ داخل ہوتا ہے)
بہرام:۔گناہ اور سزا دونوں اعتقاد کے فریب ہیں ۔ نیکی وبدی کا تخیل ، بلند پروازِعقل کی ترقیٔمعکوس ہے ۔ آج سے پیشتر اپنی شمشیر وتدبیر سے ملک کے دشمنوں کی امداد کرنا، میں ایک شرمناک گمراہی ، ایک ہیبت ناک گناہ ، ایک پروردۂ لعنت جرم سمجھتا تھا مگر اب؟ اب نہیں ۔ موت ، آگ ، بربادی نے شہر کے ہر حصے کو گھیر لیا ہے ۔ کٹے ہوئے سر خون کی لہروں میں بلبلوں کی طرح تیررہے ہیں ، ایک دریدہ دہن ، محرومِ فراست چھوکری کو ’’عقلِ کل‘‘ اور اس کی احمقانہ رائے کو دنیا کی دانش مندی کا ’’خلاصہ‘‘ سمجھنے والوں کی یہی سزا ہے ، میری تردید وتوہین کا یہی انعام ہے ۔ ایران کی تاریخ میں میرانام قاتلانِ قوم میں لکھا جائے گا۔ دنیا مجھے دشمنِ وطن کہے گی ، کہنے دو !عاقبت خراب ہوگی ، ہونے دو !مجھے تو قوم ، وطن ، عاقبت کچھ نہیں چاہیے ... انتقام !صرف انتقام!!چاہیے... بہرام چل، دست بدست جنگ میں دوبارہ سہراب کی رہنمائی کر ... سہراب کی فتح ہی تیرے انتقام کی فتح ہے ۔
(بہرام کی روانگی ، خون آلود تلوار لیے ہوئے گرد آفرید داخل ہوتی ہے)
گرد آفرید:۔ موت ایک تغییرِ ہیئت ، ایک تبدیلیٔ لباس ، ایک نقلِ مکانی ، ایک جدید آغازِ عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ سفرِ حیات میں مسافر کا پیکرِ خاکی ومقصدِ سفر بدل جاتا ہے ، لیکن منزل نہیں بدلتی ۔ موت ، جدید زندگی کی ا بتدا ہے یعنی ہم موت کے دروازے سے ، معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہی زندگی کا راز ہے اور یہ راز صرف شہیدانِ حق وحرّیت کو معلوم ہے ۔ شاباش!ایران کے فدائیو! شمعِ ملت کے پروانو !شاباش !تمھارے خون کا ہر قطرہ صبحِ عزت کا نوطلوع آفتاب اور ہماری جنگِ آزادی کا ہر لمحہ سعادتِ جاودانی کا سرمایہ دار ہے۔ سرفروشانہ موت کے بعد بھی تم مستقبل کے غیر فانی حافظے اور بقائے دوام کی لازوال دنیا میں زندہ رہوگے !تمھاری حیرت آفریں قربانیوں نے مغرور سہراب ...
(سہراب کا نام زبان پر آتے ہی دل میں محبت کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے)
آہ کتنا شجاع !کیسا شریف !!اس کی تجلی بار چہرے کی طرف دیکھنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسی چہرے کے نور سے آفتاب ومہتاب کی آفرینش ہوئی ہے۔ سہراب !میری روح کو محبت کی روشنی سے منور کرنے والے سہراب!تم توران میں کیوں پیدا ہوئے؟ اگر تم مادرِ ایران کے فرزند ہوتے تو میں کنیز بن کر تمھاری خدمت کو کامرانی ، نشاط، اور تمھاری پرستش کو وسیلۂ نجات سمجھتی اور ... (خیال بدلتا ہے)... بیوقوف عورت !کیا عشق کی بجلیوں کی چمک کو جذبۂ جنگ کی تڑپ بن کر ، ملک اور قوم کے اعتبار کو دھوکا دے رہی ہے؟ کیا تو دل سے نہیں، صرف زبان وتلوار سے سہراب کی مزاحمت کر رہی ہے؟ ہوشیار! تیرا گنہگار خیال تجھے جرم کی مہیب دنیا میں کھینچے لیے جارہا ہے ...اس دنیا میں جہاں لعنت ہے ، رحمت نہیں !سزا ہے ، کفارہ نہیں ! نفرت کر ، سہراب سے نفرت کر ، دل سے بھی اور روح سے بھی۔
(پھر شعلۂ محبت بھڑکتا ہے)
لیکن میں نفرت نہیں کرتی اور نہیں کر سکتی تو باعث تعجب کیوں ہے ؟ دنیا میں کون عورت ہے جو ایسے پیکرِ شجاعت ، وفادار، رحیم ، جمیل کو اپنا دل اور اپنا مقدر سپرد نہ کر دے گی؟ اسے دیکھنے کے بعد اس حسن وجاذبیت سے معمور دنیا کی کسی شے کی طرف دیکھنے کی تمنا باقی نہیں رہتی ۔ وہ صانعِ فطرت کی نظر افروز صنعت اور مصوّرِ قدرت کا حسین ترین شاہکاہے (دوبارہ خیال کی رَوبدلتی ہے)...دور ہو !اے عورت کی فطری کمزوری دور ہو !محبت باغیانہ شورش ، فرض کی آواز اور ضمیر کی پکار کو مغلوب نہیں کر سکتی ۔ جس قدر کمینہ شرافت سے ، غدار اپنے ملک سے ، بزدل عزت کی موت سے نفرت کرتا ہے ، میں بھی، ہاں میں بھی ، اسی قدر سہراب سے نفرت کروں گی۔ اس کے چہرے کی نظر فریبی صرف ایک حسین لعنت ہے۔ وطن کا دشمن اگر ارضِ وطن کی طرح خوب صورت ، نعرۂ آزادی کی طرح پرُ جلال ، محبتِ قومی کی طرح قابلِ پرستش ہو تب بھی وہ دنیا کی بدترین ہستی ہے ۔ محبت پیچھے ہٹ! فرض آگے بڑھ!
(خوف واضطراب کی حالت میں گستہم داخل ہوتا ہے)
گستہم:۔ اوہ !وہم بھی نہ تھا کہ وہ انسان جس کو چمنِ کائنات کاگلِ سرسَبَد ، قدرت کا نقشِ آخر ، آفر نیش کا خلاصہ ، کتابِ تخلیق کا تکملہ کہا جاتا ہے وہ بھیڑیے سے زیادہ خونخوار اور کتے سے زیادہ رذیل ثابت ہوگا... اے خدا !تونے اس بد نہاد شخص ، اس متحرک لعنت کے ڈھیر کو کیوں پیدا کیا؟ کیا اس ننگِ ہستی کے بغیر تیرے بے عیب ومکمل نظام کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی؟
گُر آفرید:۔ آپ کا ہر لفظ خطرے کا اعلان کررہا ہے !کیا ہوا؟
گستہم:۔ دغا!شرمناک دغا۔
گرد آفرید:۔ دغادی!کس نے !غیر ت نے؟ ہمت نے ؟ قسمت نے؟
گستہم:۔ ا یرانی ماں کے پلے ہوئے سانپ نے ، قوم کُش ، خائنِ ملت بہرام نے۔
گرد آفرید:۔ ملعون ... دوزخی !
گستہم :۔ اس نے سہراب کے پاس اپنا ایمان اور دوزخ کے پاس اپنی روح فروخت کر دی۔ اس کی جفاکوشی وبے حمیتی دیکھ کر مجھے تعجب ہورہا ہے ۔
گرد آفرید:۔ تعجب کیوں کرتے ہو؟ ہمیشہ ملک کے نمک حراموں ہی نے غیروں کی غلامی کے طوق سے اپنے ملک کی گردن کی زینت افزائی کی ہے ۔ غداری کی تاریخ پڑھو ! بہرام کی وطن دشمنی دنیا کا پہلا عجیب واقعہ نہیں ہے۔
گستہم:۔ اس کی امدادو رہنمائی سے سہراب کی فوج نے قلعہ کے محفوظ مقامات اور سامانِ جنگ کے ذخیروں پر قبضہ کر لیا ہے ۔ عنقریب قسمت جنگ کی کمان سے اپنے ترکش کا آخری تیر چلانا چاہتی ہے ۔ اب ہمارے لیے کوئی امید باقی نہیں رہی۔
گرد آفرید:۔(تڑپ کر)کیوں باقی نہیں رہی۔ جب تک غلامی سے نفرت باقی ہے ، غیرت باقی ہے، جسم میں ایک بھی سانس اور قلعے میں ایک بھی جانباز باقی ہے ، امید بھی باقی رہے گی۔ ہم فانی دنیا میں لا زوال زندگی لے کر نہیں آئے ہیں۔ جب مدتِ حیات محدود ، فنا لازمی، اجل یقینی ہے تو عزت وشرافت کے ساتھ مرو۔ بہادروں کی طرح مرو ، بوڑھے ، اپاہج، ناکارہ ہوکر بیماری کے بستر پر ایٹریاں رگڑ رگڑ کے مرنے کے بدلے قوم پر قربان ہوکر مادرِ وطن کی آغوش میں مرو۔ ناامیدی سامنے سے دور ہو ۔ آؤ!بس فتح یا موت۔
(تصویرِغضب بنی ہوئی گستہم کے ساتھ جاتی ہے )
(بہرام اور سپاہیوں کے ہمراہ سہراب داخل ہوتا ہے)
سہراب:۔ گرد آفرید میری روح کی تمنا اور میرے خوابِ تمنا کی تعبیر ہے۔وہ میری امید کی امید میری زندگی کی زندگی ہے۔ اسے زندہ گرفتار کر لو ۔ خبردار !اس کے سر کے ایک بال اور پاؤں کے ایک ناخن کو بھی صدمہ نہ پہنچے ۔
بہرام:۔ لیکن گرد آفرید ہی نے ایرانیوں کی مردہ ہمتوں میں دوبارہ حرکتِ حیات اور قوتِ عمل پیدا کی تھی۔
سہراب:۔ اس لیے؟
بہرام:۔ وہ رحم کی مستحق نہیں ہے ۔
سہراب:۔ عشق کی اتنی مجال نہیں کہ وہ حسن کو اس کے جرم کی سزا دے سکے ۔ جاؤ!(بہرام اور سپاہیوں کی روانگی ) ناز سراپا غرور۔ اورنیاز ہمہ تن شکر ہوتا ہے ۔ میں اس بے دید ، بے مہرسے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ خوبصورتی اور بے وفائی کا آپس میں کون سا رشتہ ہے ؟ چہرہ حسین ، دل بہادر ، آنکھیں بے مروت۔ میں نے دنیا میں ایسی عجیب عورت نہیں دیکھی۔
(گرد آفرید کی تلاش میں جاتا ہے)

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب آٹھواں سین
اندرونِ قلعہ کا دوسرا حصہ
(دُور کُشت وخون کا ہنگامہ،بگیرو بزن کا شور ،آگ اوردھوئیں سے محصورگھروں کا نظارہ ،گرد آفریدتھکان سے نڈھال ، زخموں سے چور،لہو میں شرابور لڑکھڑاتی ہوئی داخل ہوتی ہے)
گرد آفرید:۔ آزادی کا آفتاب ،تلواروں کی فضا میں خون سے رنگین افق پر آخری بار چمک کرغروب ہو گیا ۔ دغا وخیانت نے قلعۂ سفید کی قسمت کو غدار بہرام کا تیار کردہ سیاہ کفن پہنادیا ۔ بیواؤں کے شیون ، یتیموں کی فریاد ، خاک وخون میں لتھڑی ہوئی لاشوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔
(تلوار کو مخاطب کرکے)
تلوار!پیاری تلوار !!میں غارت شدہ حیاتِ قومی کا بقیہ ، آتشِ افسردہ کا دھواں،کا روانِ رفتہ کا پس ماندہ غبار ، ہنگامۂ تباہی کی آخری گونج ہوں۔ اس جسم سے روح کی علیٰحدگی کا وقت بھی قریب آپہنچا ہے ۔ جب تک موت ان دونوں کو جدا نہ کر دے ، میری زندگی کی وفادار سہیلی !تو مجھ سے جدا نہ ہونا۔ ایک بار سہراب کے خون میں ۔ (جذبۂ محبت سے مغلوب ہوکر)... آہ کیسا خوبصورت نام ، کتنا شیریں نام !! اس نام کو سنتے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ دل کی دنیا میں محبت کے زمزموں کی بارش ہورہی ہے (خیال میں تبدیلی) محبت!کس کی محبت ؟ سہراب کی محبت!!خبردار ، دل !خبردار ۔ اگر تونے تصور کے آئینے میں ملک وقوم کے دشمن کی محبت کا عکس بھی پڑنے دیا تو میں تجھے سینے سے نکال کر پیروں سے مسل کر ، ذلت کی ٹھوکر مار کر ، بھوکے کتّوں کے آگے پھینک دوں گی۔ آہ کیا تھا !اورکیا ہو گیا!انسانی امید اور انسانی زندگی بے حقیقت چیز یں ہیں ۔ وقت کی گردش نے ثابت کر دیا کہ امید تاریک فضا میں آسمان سے ٹوٹے ہوئے ستارے کی عارضی روشنی اور زندگی ہوا کی لہروں میں بہتے ہوئے پرندے کے متحرک پروں کا زمین پر بھاگتا ہوا سایہ ہے ۔
(تورانی سپاہیوں کے ساتھ بہرام داخل ہوتا ہے)
بہرام:۔ تلاش کامیاب ہوئی، گرفتار کر لو۔ گرد آفرید !میرے مشورے پر ہنسنے اور میری اہانت پر اظہارِ پسندیدگی کرنے والوں کی قسمت کا انقلاب دیکھا؟ کہاں ہیں آزادیٔ ملت کے فدائی، کہاں ہے تیرا غرور ، کہاں ہیں تیرے گرجتے ہوئے دعوے؟

دیکھ آئینے میں چہرہ ، زخم بھی ہے ، خاک بھی


خون میں ڈوبا ہوا ہے جسم بھی پوشاک بھی


گر رہے ہیں آنکھ سے آنسو تنِ صد پاش پر


رو رہی ہے کیوں کھڑی ہو کر وطن کی لاش پر

گرد آفرید:۔کیا تیری روح اہرمن کے دل کی تاریکی سے پیدا ہوئی ہے ؟ کیا تیری پرورش ایرانی ماں کے دودھ کے عوض درندے کے خون سے کی گئی ہے ؟ موذی ! ... جلاّد!اگر تیرے ایمان کی طرح تیری بصارت وسماعت بھی غارت نہیں ہوچکی ہے تو دشمنوں کی ٹھوکروں کی ضرب سے زخمی ملک کی درد ناک حالت دیکھ اور ڈوب مر!بندگی و پیچار گی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مادرِ وطن کی شرربار فریاد سن اور شرم کر! اِس خانماں ویرانی کا باعث ،اس سیلابِ ذلت کا منبع ، اس طوفانِ ہلاکت کا مخزن ، اس نا قابلِ عفو ، ناقابلِ کفارہ جرمِ عظیم کا مجرم کون ہے ؟... تو... یہ جگر شگاف ماتمی آوازے کسے ازلی وا بدی ملعون کہہ رہے ہیں؟تجھے!... جن بہادروں نے حفاظتِ ملّت کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک قربان کر دیا وہ تیرے قومی بھائی نہ تھے؟ جن شریف عورتوں نے فرض کی قربان گاہ پر اپنے شوہروں ، بھائیوں اور بچوں کی جانیں نثار کر دیں کیا وہ تیری ملکی بہنیں نہ تھی ؟ اپنے بھائیوں کی زندگیاں،اپنی بہنوں کا سکون وآرام ، اپنے مرزبوم کی سطوت و قہرمانیت لٹوا کر ندامت کے زخم سے مرجانے کے بدلے خوش ہورہا ہے ؟ ٹوٹے ہوئے دلوں ، ذبح کی ہوئی امیدوں ، خونِ جگر سے بھیگی ہوئی آہوں ، سوختہ قسمت قلعہَ سفید کی خاکِسترِ برباد پر آنسو بہانے کے عوض دوزخ کے مؤکل کی طرح بے رحمی سے ہنس رہا ہے ؟ ؂

نہ ہوگا تجھ سابے غیرت کمینے سے کمینہ بھی


زمانے کے لیے لعنت تو بھی تیرا جینا بھی

بہرام:۔ عداوت کے بازار کا سودا اتنے ہی گراں دا موں پر بکتا ہے ۔ تونے مجھ سے میری نفرت مول لی تھی ۔یہ برگشتہ بختی اسی خرید کردہ نفرت کی قیمت ہے ۔ یہ زبوں حالی میرے جنسِ انتقام کا معاوضہ ہے ۔
گرد آفرید:۔ اگر تیرا دل مجھ سے انتقام لینے کے لیے بے قرار تھا تو شریف دشمن کی طرح تلوار سے میرا مقابلہ کرتا ۔ مقابلے کی جرأت نہ تھی تو کھانے میں زہر ملادیتا ، یہ بھی نا ممکن تھا تو سوتے میں چھری بھونک دیتا لیکن غریب ملک نے تیرا کیا قصور کیا تھا جس قصور کی پاداش میں تونے اس کے ہر گھر کو انسانوں کا مذبح اور ہر ذرّے کو عظمت وعزت کا ماتم کدہ بنادیا ۔ تو سہراب کی نوازش کے سایے میں تباہ شدہ وطن کی خاک اور قوم کے زخمی دل کے خون سے اپنی دنیوی جنت بنانا چاہتا ہے۔ لیکن یا درکھ ! اس جنت کا ہر پھول تیرے مجرم ضمیر کو سانپ بن کر ڈستا اور یہ معصیت آباد ہمیشہ نفرت ولعنت کے زلزلوں سے کانپتا رہے گا ؂

اگر وہ جانتی ، دل ہے دغاؤں سے بھرا تیرا


تری ماں پیدا ہوتے ہی دبادیتی گلا تیرا

یاد رکھ ! جرم کی زندگی ، اطمینانِ قلب کی موت ، اور گناہ کی بہار ، روح کی خزاں ہے ؂

راحتِ عصیاں سے بڑھ کر رنج عالم میں نہیں


جو جلن اس عیش میں ہے وہ جہنم میں نہیں

بہرام:۔ (ہمراہیوں سے) کیا دیکھتے ہو ؟ گرفتار کر لو یا قتل کر دو۔
(سپاہی چاروں طرف سے یورش کرتے ہیں۔ گرد آفرید شکاریوں کی برچھیوں کے حلقے میں محصور شیرنی کی طرح ہر ایک کے حملے کا جواب دیتی ہے)
بہرام:۔ میرے گزشتہ انتقام کا آخری نوالہ۔
(پیچھے سے گرد آفرید کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیتا ہے)
گرد آفرید:۔ آہ...دغا بازر ...مارِ آستین...
(گرتے گرتے پلٹ کر دونوں ہاتھوں سے بہرام کا گلا پکڑ لیتی ہے)
اتنے گناہ کر چکا تھا یہ آخری گناہ نہ کرتا تو کیا دوزخ کے دروازے تیرے لیے بند ہو جاتے ؟ کتّے !تجھے زندہ رکھنا کمینہ پن کی عمر میں اضافہ ہے۔ تیرا ایمان مرچکا ۔ انسانیت مرچکی... تو بھی مر!
(غصے میں جان لینے کے ارادے سے گلا دباتی ہے پھر رک جاتی ہے)
مگر نہیں !تو بد فطرت ہے ، نمک حرام ہے ، سنگ دل ہے ، قاتل ہے ، دنیا کی بدترین مخلوق ہے ،سب کچھ ہے ، پھر بھی میراہم وطن ہے (گلا چھوڑ دیتی ہے) جا !قوم پرستوں کے مذہب میں بدی کا بدلہ بدل نہیں ہے ۔ میں اپنے وطن کی عزت کی خاطر اپنا خون معاف کرتی ہوں۔
(زمیں پر گر پڑتی ہے اس وقت سہراب داخل ہوتا ہے )
سہراب:۔ یا خدا !میں کیا نظارہ دیکھ رہا ہوں !قفس خالی، رنگیں نوا فاختہ، پیکرِشجاعت کی حسین روح، شعلۂ حسن کی تجلی ، خون میں ڈوبی ہوئی ہے !! افسانۂ عزت کا عنوان ، صحیفۂ حرّیت کا سرنامہ ، جرأتِ نسوانی کی تاریخ کا ورقِ زرّیں خاک پر پڑا ہواہے !!
(گرد آفرید کا سر زانو پر رکھ کر)
آفرید !پیاری آفرید!! آنکھیں کھولو... میں تمھیں بے وفائی کا الزام دینے کے لیے نہیں ، اپنی وفاداری کا یقین دلاتے آیا ہوں۔ تمھارا تبسمِ ناز میری پرستش کا صلہ ہے۔ کیا ناکامِ محبت کو اپنے لبِ نازک سے تسکین نہ دوگی؟ کیا اپنی مسکراہٹ سے میرے دل کی تاریکیوں میں امید کی صبح پیدانہ کروگی؟ ؂

کرو کچھ رحم میری التجا پر میری آہوں پر


اٹھو ، بولو، ہنسو، دیکھو میں صدقے ان نگاہوں پر

گرد آفرید:۔ (آنکھیں بند کیے ہوئے نیم بے ہوشی کی حالت میں) کس کی آواز؟ ستاروں کا گایا ہوا نغمۂ آسمانی زمین پر کون گارہا ہے ؟
سہراب:۔ تمھارا شیدائی ، تمھارا پر ستار سہراب!
گرد آفرید:۔ (آنکھیں کھول کر) تم... تم ... اوہ... مرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
(جوشِ محبت سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہے اور گر پڑتی ہے)
آؤ ۔ پیارے سہراب آؤ ۔ تمھیں دیکھ کر دل میں زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہو گئی لیکن اب تمنا کا وقت نہیں رہا ، عدم کے مسافر کا سامان بندھ چکا ہے ۔ زندگی کے نظارے اسے ہمیشہ کے لیے رخصت کر رہے ہیں ۔ میرے دل کے مالک!میرے فرض نے مجھے بے مروت بننے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ حقِ وطن کا مرتبہ عشق سے بلند تر ہے ۔ اس لیے مجھے معاف کر دو اور جو ہوا اسے بھول جاؤ ۔ موت کے دروازے پر دنیا کی دوستی ودشمنی ختم ہو جاتی ہے۔
سہراب :۔ پیاری آفرید ! تم نے دنیائے فرض کی ایک جدید حقیقت اور عورت کے دل کی عظمت کا ایک عظیم الشان راز ظاہر کر کے وہ بوجھ دور کر دیا جس سے میری روح پاش پاش ہوئی جارہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ تم مجھے اپنی محبت کا مستحق نہیں سمجھتیں اسی لیے اس قدر جوشِ مخالفت کے ساتھ جنگ کر رہی ہو۔
گرد آفرید:۔ آہ !تمھیں کیا معلوم، عشق وفرض کی کشمکش میں میری روح نے کتنے عذاب برداشت کیے ہیں ۔ کتنے طوفان ، کتنے زلزلوں سے تنہا وقفِ پیکاررہی ہے !! صدمہ نہ کرو ۔دوست اوردشمن ہم نام ہیں ۔ اس لیے تمھیں دھوکا ہوا۔ میں نے اپنے پیارے سہراب سے نہیں اپنے ملک کے مخالف سے جنگ کی ہے ؂

دمِ آخر بھی صیدِ عشق ووقفِ بے قراری ہوں


میں پھر اقرار کرتی ہوں تمھاری تھی تمھاری ہوں

سہراب:۔ آہ !ان لفظوں میں کتنا ترنم ہے اور کتنی امید نوازی ہے !!قسمت کی ستم ظریفی دیکھو ، تسکین کے پیاسے کو راحت کا آبِ حیات بھی پلارہی ہے اور جدائی کا زہر بھی۔
(یکا یک جوشِ غضب میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ سپاہیوں سے)
کیا میری زبان کے واضح الفاظ ، معنی ومفہوم سے تہی دست تھے ؟ میرے حکم سے بے پروا ہوکر ، دنیا کی یہ سب سے زیادہ قیمتی زندگی کس نے برباد کی؟
بہرام:۔ (فخر یہ لہجے میں)... میں نے؟
سہراب:۔ ...تونے !... ایک ایرانی نے !... گرد آفرید کے ہم قوم وہم وطن نے!... کس لیے!
بہرام:۔ اس لیے کہ یہ میرا خیر خواہانہ فرض تھا۔ اس لیے کہ وہ توارنیوں کی دشمن تھی اور میں تورانیوں کا دوست ہوں۔
سہراب:۔ تو کتنا بے حیا!کتنا بد اصل !کتنا قابلِ نفرت ہے ۔ مرقعٔ شجاعت کی جس تصویرِ فدائیت نے ملک وقوم کی آبرو پر اپنی محبت ، راحت ، امید، زندگی کی ہربیش بہاشے قربان کر دی۔ اس سینے میں ، جو عشقِ وطن سے معمور ہو رہا تھا ، خنجر بھونکتے وقت تیرے دل نے تجھ پر لعنت نہ کی ، تیرا ہاتھ قبضے تک پہنچنے سے پیشتر مفلوجِ نہ ہو گیا؟ اپنے باپ کی نا پاک یاد گار !ماں کی کو کھ کے ملعون نتیجے !سگِ دنیا !تیرے جسم کے ہر ذرے نے جس ایران کے نمک سے پرورش پائی ہے جب تونے اس محسنِ ایران سے وفاداری نہ کی تو توران کا تو کب دوست ہو سکتا ہے ! جس منہ سے اپنے کو تورانیوں کا دوست کہتا ہے میں اس ذلیل منہ پر تھوکتا ہوں۔ تیرے رہنے کی جگہ دنیا نہیں دوزخ ہے ۔
(خنجر بھونک دیتا ہے)
بہرام:۔ دنیا کے لیے عاقبت خراب کی لیکن گناہ نے فریب دے کر عاقبت بھی تباہ کی اور دنیا بھی (مرجاتا ہے)۔
سہراب:۔ (گرد آفرید کو عالمِ نزع میں دیکھ کر) آہ!... دنیا کی پلکوں پر زندگی آمادۂ ترادش آنسو کے قطرے کی طرح تھر تھر ارہی ہے ۔ شعلۂ حیات آندھی میں رکھے ہوئے چراغ کی لَوکی طرح کانپ رہا ہے ...موت ! موت!!تو عشقِ پُر تمنا ، حسنِ روح افروز ، شبابِ معصوم پر کیا ظلم کر رہی ہے ؟ تو بے مہر وسنگ دل ہے ، لیکن باغِ ہستی کا اتنا حسین و رنگین پھول توڑکر آخر میں تو بھی اپنی بے دردی پر نادم ہوگی ...رحم کر ... رحم ...
گرد آفرید:۔ فرشتے روشنی کی چادر میں لپٹے ، پھول اور نغمے بکھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ زمین پر اتر رہے ہیں ، دنیا عالمِ نور سے بدل رہی ہے۔ مرکزِ اصلی کی طرف مائلِ پرواز روح کے لیے آسمان کا دروازہ کھل گیا ہے کس نے پکارا؟۔ زندگی کے دروازے پر کون دستک دے رہا ہے ... موت !تو ہے ...نہیں سمجھتی تھی کہ تو اتنی خوبصورت ہوگی الوداع ! پیارے وطن الوداع... پیارے سہراب الوداع ؂

نہیں معلوم رازِ مرگ دنیا کے طبیبوں کو


اگر فرصت ملے تو یاد کرنا بد نصیبوں کو

(آخری ہچکی لے کر دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے)
سہراب:۔ ٹھہر !اے حسین مسافرہ ٹھہر!تو کا رگاہِ تمنا کوخرابۂ یاس، ایوانِ نشاط کو ماتم سرا، جلوہ زارِ ہستی کو مسکنِ ظلمت بنا کر کہاں جارہی ہے ؟ واپس آ ... اے نا معلوم منزل کے رہرو !واپس آ!تیرے جانے کے بعد دنیا میں صرف فریاد اور آنسوؤں کی آبادی رہ جائے گے۔ آفتاب ومہتاب، آسمان کے دل کے داغ، تارے رات کے جگر کے آبلے اور رنگین پھول زمین کے جسم کے زخم معلوم ہوں گے۔
(دیوانہ وار پکارتا ہے ) آفرید ... آفرید !!... آفرید... !!اے جمالِ ناطق! اے حسنِ گویا!تو کیوں خاموش ہو گیا؟ تو کیوں بے کس کی پکار کا جواب نہیں دیتا ؟ کیا میرے لیے اب تیرے پاس محبت کی ایک مسکراہٹ، تسکین کا ایک حرف بھی نہیں ہے ؟
ہائے کون جواب دے !پھول ہے ، خوشبو نہیں !مکان ہے ،مکین نہیں سلطنت ہے! ملکہ نہیں۔(گرد آفریدکی لاش سے مخاطب ہوکر) قدرت نے کائنات سے اپنا عطیۂ عظمت واپس لے لیا ۔ دنیا کا حسن بہشت کے اضافۂ جمال کے لیے بلا لیا گیا۔ زمین کا چہرہ ، فخر کا جلال ، تاریکیٔ عدم کو مطلعِنور بنانے کے لیے چلا گیا۔
اے ملکۂ جمال ! تو نے فرض پر عشق کو اور ملک پر زندگی کو قربان کرکے ابدی حیات حاصل کر لی ۔ ایران کی آئندہ نسلیں ، تیرے ثبات واستقلال کے حیرت آفریں کارناموں پر فخر کریں گی ۔ ایران کی لڑکیاں تیری بہادری کے گیتوں سے اپنی زندگیوں کو مبارک بنائیں گی ۔ ایران کی تاریخ میں ایثار کے حرف ، تیرے پرُ جبروت نام کی تجلیات سے صفحۂ دنیا پر آفتاب ومہتاب بن کر چمکتے رہیں گے ۔ اے پژمردہ بہارِ آفرنیش!اے افسردہ شعلۂ وطن پر ستی! اے خوابیدہ طوفانِ شجاعت ، میں تیرے قدموں کو الوداعی بوسہ دیتا ہوں ۔ یہی اولین اور آخری بوسۂ محبت ہے ۔
(روتا ہوا گرد آفرید کے پیروں پر گڑپڑتا ہے )

(ڈراپ سین )
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب پہلا سین
سہراب کے لشکر کی چھاؤنی
(ہومان اور بارمان تورانی سردار اور سپاہی جشن منارہے ہیں ۔ رقاصہ رقص ونغمہ میں مصروف ہے)
گانا

جائیں گے وہاں ، خوش دلِ دیوانہ جہاں ہو


گھر لیں گے وہیں ، اب کے پری خانہ جہاں ہو


ہوگی کوئی جنت ، مری جنت تو وہی ہے


خُم خانہ و میخانہ و پیمانہ جہاں ہو


منہ چوم نہ لے پھول کے دھوکے میں تمھارا


جانا نہ وہاں ، بلبلِ دیوانہ جہاں ہو


پانی کے عوض مستیٔ رنگیں ہو برستی


پر اتنے ہی ٹکڑے پہ کہ مے خانہ جہاں ہو


اے حشرؔ مرے شعر ہیں مستی کا ترانہ


گانا یہ غزل محفلِ رندانہ جہاں ہو

ہومان :۔ بادل کی محفل میں سنہری پشواز پہن کر بجلی ناچ رہی ہے ۔
بارمان :۔ کل تلوار کی تال پر موت کانا چ بھی شروع ہو جائے گا۔
سردار (۱):۔ صر ف ناچ۔
ہومان:۔ گانا بھی۔
سردار (۲):۔ کون گائے گا؟
ہومان:۔ زندگی۔
سردار(۳):۔کیا گائے گی؟
ہومان:۔ فنا کا گیت۔
سردار(۲):۔ زندگی غم اور خوشی کا سُروں سے بنا ہوا خود ایک دلچسپ گیت ہے۔
سردار (۱):۔ ٹھیک ہے اور یہ گیت مزہ اس وقت دیتاہے جب اسے شراب کا پیالہ ہاتھوں میں لے کر گا یا جائے ۔
سردار(۳):۔لیجیے ہونٹوں کی مضراب سے روح کے ستار میں زندگی کی راگنی بجائیے۔
سردار(۴):۔ اہا ہا ہا ؂

شرابِ ناب کے جلووں سے ساغر میں اجالا ہے


ہزاروں چودھویں کے چاندہیں اور ایک ہالہ ہے

سردار(۲):۔

یہ وہ شے ہے گرے تو خاک سے اکسیر پیدا ہو


ہر اک قطرے سے اک اک حسن کی تصویر پیدا ہو


(سب سردار کھڑے جھوم رہے ہیں۔ ناچ ۔ )
ٹیبلو

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب دوسرا سین
ا یران کے شہنشاہ کیکاؤس کا دربار
(کیکاؤس تخت پر بیٹھا ہوا ہے چہرہ غصے سے خوفناک اور آنکھیں لال ہورہی ہیں)
کیکاؤس:۔ جس کیکاؤس کے ابروپر شکن دیکھ کر دنیاگنہگار غلام کی طرح کانپ کر سجدے میں گر جاتی ہے، جس کے قہر کے حضور میں طوفان سے زیادہ طاقت ور اور زلزلے سے زیادہ خوفناک انسان دوزانو ہوکر رحم کی بھیک طلب کرتے ہیں اس کے غضب سے یہ بے پروائی ، اس کے حکم سے یہ سرتابی ۔ گویا وہ فرمانبردار نہیں فرماں روا ہے۔ ایران کا خادم نہیں ایران کا آقا ہے۔رستم ، مغرور رستم!تیری روح میں بغاوت کا مرض پیدا ہو گیا ہے ۔ میرا شاہی مرتبہ یہ جرأت اور گستاخی برداشت نہیں کر سکتا ۔
گردرز:۔جہاں پناہ ۔ خانہ زاد کی جاں بخشی ہو ۔ آپ غصے میں غلط رائے قائم کر رہے ہیں۔ رستم سے اس وقت کوئی قصور سرزد نہیں ہوا کہ اس کی بے داغ جاں نثاری پر شبہ کیا جائے ۔ دنیا میں دو چیزیں ہمیشہ اپنی روشنی سے چمکتی رہیں گی ، آسمان پر آفتاب اور زمیں پر رستم کی وفاداری۔
کیکاؤس :۔ دھوکا نہ کھاؤ۔ تم اوپر کا ملمع دیکھ کر پیتل کو سونا سمجھ رہے ہو۔
گردرز:۔ غلام کی یہ گزارش ہے کہ سہراب جیسے خوفناک دشمن کے مقابلے میں اس وقت ایران کو رستم کے مشورے، مدد اور تلوار کی سخت ضرورت ہے اس لیے اسے ناراض کرنا مناسب نہیں ہے ۔ اگر وہ آنے کے بعد رنج وغصے کے ساتھ واپس چلاگیا تو ایران اپنے سب سے بڑے خیر خواہ اور سب سے بڑے سپاہی کی خدمت سے محروم ہو جائے گا۔
طوس:۔ جلالت مآب ! رستم کا نعرۂ جنگ سنتے ہی مردہ ہمتیں زندہ ہو جاتی ہیں ؂

ڈر نہیں کچھ بھی اگر ہو سارا عالم اک طرف


لاکھ لشکر اک طرف ہیں اور رستم اک طرف


سلطنت کی آبرو ہے ملک کا اقبال ہے


وہ ہمارے بازوؤں کا زور، سر کی ڈھال ہے

کیکاؤس: ۔ جنگ میں شرکت ہی کے لیے میں نے خط لکھ کر اسے طلب کیا تھا لیکن اس کا زابل سے ا یران نہ آنا کیا ثابت کر رہا ہے ۔ یہی کہ تمھاری خوشامد اور تعریفوں نے اسے مغرور بنادیا ہے ؂

سمجھتا ہے کہ بجھ سکتا نہیں ہرگز چراغ اُس کا


اِس سے بڑھتا جاتا ہے غرور اُس کا دماغ اُس کا

(رستم آتا ہے ...)
رستم:۔
اے تاج بخش ، باج ستاں ، شاہِ کا مگار


اے ملک گیر ، قلعہ شکن، شیرِ کار زار


تو حسنِ کائنات ہے ، تو فخرِ روزگار


قسمت ہو زیرِ حکم ، ظفر زیرِ اختیار


جب تک فلک پہ جلوۂ شمس وقمر رہے


اس تاج کی ضیا سے جہاں میں سحر رہے

کیکاؤس:۔ (غصے سے دوسری طرف منہ پھیر کر) جھوٹا ، ریا کار۔
رستم:۔ خاقانِ عالم!غلام حاضر ہے۔
کیکاؤس :۔ تو صرف ہونٹوں سے اپنے کو غلام کہہ کر میرے غصے اور اختیار کا منہ چڑاتا ہے ۔ طلبی کا خط ملنے کے بعد بھی فوراً حاضر ہونے کے بدلے میرے حکم سے بے پروائی برتنا ، کیا یہی فرض شناس غلاموں کا طریقہ ہے ؟ یہ غلامی نہیں نمک حرامی ہے ۔
رستم:۔ رستم اور نمک حرام ۔ خدا وندِ نعمت !میرے کانوں نے آج تک ایسے ذلیل لفظ نہیں سنے ۔ جو رستم ایران کی اطاعت کو اپنا فرض ، ا یران کی خدمت کو اپنا مذہب اور ایران کی محبت کو اپنا ایمان سمجھتا ہے اسے نمک حرام کہہ کر آپ اپنی قدر دانی کا ثبوت دے رہے ہیں ! ؂

صلہ اچھا ملا مجھ کو مری خدمت گزاری کا


یہی انعام ہے کیا عمر بھر کی جاں نثاری کا

کیکاؤس:۔ اب تک میری آنکھو ں پر تیری بناؤٹی وفاداریوں نے پردہ ڈال رکھا تھا، آج وہ پردہ ہٹ گیا۔ اب میں تجھے تیری اصلی شکل میں دیکھ رہا ہوں ؂

عیاں ہر حرف ہے مجھ پر ترے دل کے نوشتے کا


مجھے دھوکا نہ دے تو روپ بھر کر اک فرشتے کا

رستم:۔ بس جہاں پناہ بس! کیا حضور نے سرِ دربار مجھے ذلیل کرنے کے لیے زابل سے ایران میں طلب کیا تھا؟ ادب اور برداشت کی بھی حد ہوتی ہے ۔ ؂

میں بھی اپنے سینے میں رکھتا ہوں دل انسان کا


دھیان رکھیے اپنے رتبے اور اپنی شان کا


کیا کہوں دیتا ابھی پتھر سے پتھر کا جواب


شرم آتی ہے کہ کھایا ہے نمک ایران کا

کیکاؤس:۔ تیری بے خوفی اور سرکشی دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایران میں دو بادشاہ حکومت کر رہے ہیں۔ آج تیرے غرور کی تجھے سزا دے کر ثابت کر دوں گا کہ ایران کا بادشاہ رستم نہیں کیکاؤس ہے ۔
رستم:۔ تب میں بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ کیکاؤس کی سلطنت اور کیکاؤس کا تاج رستم ہی کی تلوار اور بازو کی مدد سے ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ اگر اس دل میں بادشاہ بننے کی خواہش ہوتی تو آج ایران کا تاج کیکاؤس کے سر پر نہیں رستم کے سر پر دکھائی دیتا ۔لیکن میرا کام بادشاہ بننا نہیں ، بادشاہ بنانا ہے ۔ میں تاج پہنتا نہیں ، تاج بخشتا ہوں ۔ ؂

تکا کرتے ہیں میری مہربانی کی نگاہوں کو


میں وہ ہوں بھیک میں دیتا ہوں تاج وتخت شاہوں کو

کیکاؤس :۔ یہ سلطنت کا مجرم ہے ۔ گرفتار کر لو... خاموش کھڑے ہو ۔ کیا میرا حکم نہیں سنا۔ قید کرو۔
رستم :۔ نا عاقبت اندیش کیکاؤس ! اپنی عقل کی تاریکی سے تاج کی چمک کم نہ کر ۔ آج مجھے معلوم ہو گیا کہ جس تخت پر جمشید ، فریدوں ، کیقباد جیسے دانا وبینابادشاہ بیٹھ کر دنیا میں ایران کانام روشن کر چکے ہیں تو اس شاہی تخت پر ہرگز بیٹھنے کے قابل نہیں ؂

سلطنت ایران کی پائی سمجھ پائی نہیں


ایک بچّے کے برابر تم میں دانائی نہیں


راستہ کوئی دکھا سکتا نہیں بدبخت کو


لو چلا میں تم بچاؤ اپنے تاج وتخت کو

(رستم غصے میں چلا جاتا ہے)
گودرز:۔ اعلیٰ حضرت !تباہی سہراب کی شکل میں دروازے پر موجود ہے ۔ رستم کو واپس بلائیے ۔
کیکاؤس:۔ کبھی نہیں ۔ رستم ایران سے چلا گیا تو کیا ایران کی زمیں غلّہ نہ اُگائے گی؟ ا یران کا آسمان پانی نہیں برسائے گا ؟ ایران میں آفتاب ومہتاب طلوع نہ ہوں گے؟ ایرانی تا ج کے چمکتے ہوئے ہیرے پتھر بن جائیں گے؟ میں رستم کو کوئی چیز نہیں سمجھتا ۔ ایران کی عزت رستم سے نہیں ہے۔
طوس:۔ ایک بار پھر غور کیجیے !
کیکاؤس:۔ ضرورت نہیں۔
طوس:۔ افسوس! آپ نے آدھی دنیا فتح کر لی لیکن اپنے غصے کو فتح نہ کر سکے۔
کیکاؤس :۔ بس خاموش !


(غصے میں خنجر لے کر تخت سے اترتا ہے ۔ طوس سر جھکادیتا ہے۔ گودرزکیکاؤس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے درباری حیرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں)

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب تیسرا سین
سہراب کے لشکر کی چھاؤنی
(رات کا وقت ۔ بہت دورایرانی اور تورانی لشکر کے خیمے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہومان ، بارمان اور ہجیر کے ساتھ سہراب داخل ہوتا ہے)
سہراب:۔ ہجیر تم میری قید سے رہائی چاہتے ہو؟
ہجیر:۔ چاہتا ہوں لیکن ایک شرط پر ۔ ایران میرا وطن ہے ، میں آپ کا شریک ہو کر ایران کے خلاف تلوار نہیں اٹھاؤں گا۔
سہراب:۔ قوم کی جاں نثار گرد آفرید کی طرح جس ایرانی کے دل میں وطن کی محبت نہیں ہے، میں خود اسے دنیا کی سب سے زیادہ ذلیل ہستی سمجھتا ہوں۔ اچھا تو میں تمھیں رہائی دوں گا۔ عزت ، دولت، عہدہ، اور جاگیر بخشوں گا اور آج سے اپنا عزیز ترین بھائی سمجھوں گا۔ صرف اتنا بتادو (ہجیرکو سوچ میں دیکھ کر) سنتے ہو بہادر ۔
ہجیر :۔ (چونک کر) سن رہا ہوں۔
سہراب:۔ کیا واقعی رستم اس لشکر میں نہیں ہے ؟
ہجیر:۔ میں نے ا یرانی لشکر کا ایک ایک کونا ایک ایک خیمہ ، ایک ایک سردار کا چہرہ آپ کو دکھایا اور اُن سرداروں کے نام ، رتبے ، عہدے سے بھی واقف کرادیا ۔تعجب ہے کہ پھر بھی آپ میری سچائی پر شک کر رہے ہیں ۔
سہراب:۔ بے شک ! میں نے بھیس بدل کر رات کی تاریکی میں تمھارے ساتھ ایرانی فوج کا پوراجائزہ لیا لیکن میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ وہ ضرور موجود ہے ۔ ہجیر!کیا یہ ممکن نہیں کہ رستم کے پہچاننے میں تمھاری آنکھوں نے غلطی کی ہو۔
ہجیر :۔ میں رستم کو ایک بار نہیں سیکڑوں بار دیکھ چکا ہوں ۔ میری نظر ابھی اتنی کمزور نہیں کہ دیکھی ہوئی صورت کو بھی نہ پہچان سکوں۔
سہراب :۔ تو پھر تسلیم کر لوں کہ وہ زابل سے ایران کی مدد کے لیے نہیں آیا۔
ہجیر:۔ مجھے جاسوس سے اطلاع ملی ہے کہ رستم اس جنگ میں کیکاؤس کی مدد کے لیے آیا تھا لیکن کیکاؤس نے سرِ دربار اس کی بے عزتی کی اور وہ بے انتہا ناراض ہو کر غصے کے ساتھ اپنے ملک کو واپس چلا گیا ۔
رستم:۔(خود سے) ایک طرف اس کی آواز اورایک طرف دل کی آواز۔ کس آواز کو سچائی کی آواز سمجھوں !
ہجیر:۔ (خود سے) اگر سہراب نے رستم کی جان کو نقصان پہنچا یا تو میرے ایران کی حفاظت کون کرے گا ؟ میں سچائی کو اندھیرے سے روشنی میں نہ آنے دوں گا۔
سہراب:۔ دیکھ ہجیر!جس طرح رات کے وقت شکار کی تاک میں بیٹھے ہوئے بھیڑیے کی آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں اسی طرح مجھے تیری آنکھوں میں ایک خوفناک چمک دکھائی دیتی ہے ۔ ’’رستم نہیں ہے‘‘ یہ کہتے وقت ہو ا سے ہلتے ہوے پتے کی طرح تیرے ہونٹ کانپ اٹھتے ہیں اور پیلے پتے کی طرح تیرا چہرہ زرد ہو جاتا ہے ۔ (گریبان پکڑ کر) خبردار! مجھے دھوکا نہ دینا ، ورنہ قسم ہے تلوار کی تیرے خون کو موری میں بہتے ہوئے پانی سے بھی زیاد حقیر سمجھوں گا۔ آگے بڑھ !اب دنیا میں تیرے لیے دو ہی چیز یں رہ گئی ہیں ۔ سچا ثابت ہوا تو رِہا ۔ جھوٹا ثابت ہوا تو موت۔
(دونوں جاتے ہیں)
بارمان:۔ جب سہراب، رستم کے خیمے کے پاس پہنچ کر نہایت غور سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا ۔ اس وقت مجھے اندیشہ ہوا کہ ضرور خون کا جوش خون کو پہچان لے گا لیکن شاباش ہے ہجیرکو ، اس کے ایک جھوٹ نے باپ اور بیٹے کے درمیان سینکڑوں پردے ڈال دیے۔
ہومان:۔ لیکن مجھے یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کیکاؤس کے دربار سے خفا ہوکر چلے آنے کے بعد رستم دوبارہ کیکاؤس کی مدد کے لیے کس طرح راضی ہو گیا۔
بارمان:۔ کیکاؤس نہایت غصہ ور اور جلد باز بادشاہ ہے ۔ جوش کم ہونے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آخر اس کے شرمندہ ہونے اور طوس وگودرز کے سمجھانے سے رستم اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور ہو گیا ۔
ہومان:۔ اپنے بادشاہ افرا سیاب کی آرزو پوری کرنے کے لیے کوشش کرو کہ جنگ کے آخر تک باپ بیٹے ایک دوسرے کو نہ پہچان سکیں ۔ توران کی سلامتی کے لیے رستم وسہراب دونوں کو ، اور دونوں نہیں تو ایک کوضرور مرنا چاہیے ۔ ورنہ یہ دونوں مل کر ساری دنیا کو ایران اور کیکاؤس کا غلام بنادیں گے۔
(چلے جاتے ہیں)

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب چوتھا سین
میدانِ جنگ
(اندر سے لڑائی کے باجے اور مارو مارو کا شور سنائی دیتا ہے ۔ ایران کے سپاہی پناہ پناہ کہتے ہوئے بھاگتے ہیں۔ گردرز اور طوس کے ساتھ رستم کا داخلہ)
رستم:۔ شاباش سہراب شاباشً! آفریں ہے تیری بہادری کو، آفریں ہے تیری ماں کے دودھ کو (طوس وگودرز سے) میدانِ جنگ میرا وطن اور تلواروں کی چھاؤں میری آرام گاہ ہے۔ میری ساری زندگی خنجروں کی چمک اور خون کی بارش میں بسر ہوئی ہے لیکن میں نے آج تک اتنی بے جگری اور اتنی شاندار بے پروائی کے ساتھ کسی انسان کو موت سے کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کی دلیری اور جنگ کا طریقہ دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک دوسرا رستم پیدا ہو گیا۔
گودرز:۔ لیکن جس طرح آگ پر پارہ اُڑجاتا ہے اسی طرح مقابلے کے وقت آپ کا نام سنتے ہی اس کی طاقت بھی اس کے بازوؤں سے علیٰحدہ ہو جائے گی۔
رستم:۔ میں نے صرف ایران کی محبت اور فرض سے مجبور ہوکر ایک سولہ برس کے نا تجربہ کار لڑکے کے مقابلے میں میان سے تلوار کھینچی ہے لیکن میں اس کے سامنے اپنا رتبہ اور نام ظاہر نہیں کروں گا کیوں کہ ایک کم سن بچے سے لڑنا رستم کی آبرو نہیں، رستم کے نام کی بے عزتی ہے ۔(پھر اندر شور ہوتا ہے)
طوس:۔ وہ دیکھیے!وہ دیکھیے!ہمارا لشکر پھر سیلاب کی طرح آگے بڑھنے کے بدلے کنارے سے ٹکرا کر لوٹتی ہوئی لہر کی طرح سمٹ کر پیچھے ہٹ رہا ہے ۔
رستم :۔ زندگی سے اتنی محبت ، موت کا اتنا خوف ، کیا یہ میدانِ جنگ میں تلوار وشجاعت کو ذلیل کرنے آئے تھے ۔ جاؤ ! شرم دلانے والے لفظوں سے ہمت کے جمے ہوئے سمندر میں دوبارہ طوفان پیدا کرو۔ ان سے کہو کہ مایوس نہ ہوں، رستم زندہ ہے اور ایران کا اقبال بھی زندہ رہے گا۔
(گودرز اور طوس جاتے ہیں ۔ اندر سے دوبارہ شور کی آواز)
ان بزدلوں کی روح میں غیرت کی روشنی بجھ گئی ہے ۔ اس لیے انھیں فرض کا راستہ دکھائی نہیں دیتا ...یہ کون!... سہراب...تنا بہادر کتنا خوبصورت! دیکھنے سے آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ میرا فرزند ہوتا تو آج آسمان کی طرح زمین پر بھی دو آفتاب دکھائی دیتے ... آہ ! وہ موت کی تلاش میں اس طرف آرہاہے ۔ واپس جا!واپس جا ! سہراب اگرتیرے ماں باپ زندہ ہیں تو ان کے بڑھاپے اور ارمانوں پر رحم کر اور واپس جا ۔ نادان تو ایران میں رستم سے نہیں اپنی قسمت سے جنگ کرنے آیا ہے ۔
سہراب:۔ (آکر) چہرہ آگ اور دل برف ۔ خوف کی آندھی میں یہ ریت کے ذروں کی طرح اڑتے پھر رہے ہیں۔ شاید بزدلوں کے خیال میں بھاگنے ہی کا کام بہادری ہے ۔ کیکاؤس تیری قسمت کے روشن دن کی شام آگئی۔ کل میرے قدم تیرے تخت پر اور تیرا تاج میرے قدموں میں ہوگا۔
(آگے بڑھتا ہے ۔ رستم روکتا ہے)
رستم:۔ ٹھہر۔ اس جنگ میں خود فتح تیرے خنجر کی دھار او ر نصیب تیرے بازوؤں کا زور بن جائے تو بھی کیکاؤس تک زندہ نہیں پہنچ سکتاکیوں کہ اس کا تاج تیری امید سے اور اس کا تخت تیری ہمت سے بہت زیادہ بلند ہے ۔
سہراب:۔ یہ چہرہ !یہ جلال !اے ا یرانی بزرگ تو کون ہے ؟
رستم:۔ ا یران کا نمک خوار ، شنہشاہ کیکاؤس کا جاں نثار۔
سہراب:۔ (دل میں) میری ماں نے اپنے لفظوں سے میرے دل پر رستم کی جو تصویر کھینچ دی ہے اس تصویر سے یہ چہرہ کس قدر ملتا ہوا ہے ۔
رستم:۔ میں دنیا کی کوئی عجیب چیز نہیں ہوں، تو میر ے چہرے کی طرف غور سے کیا دیکھ رہا ہے ۔
سہراب:۔ (دل میں ) ؂

وہی شوکت عیاں ہے اس کے تیور اور قرینے سے


اُڑے جاتے ہیں نقشِ دشمنی دل کے نگینے سے


نہ جانے کون کہتا ہے کہ بڑھ قدموں پہ سر رکھ دے


یہی ہے باپ تیرا جا لپٹ جا اس کے سینے سے

رستم :۔ وہی خاموشی وہی حیرت ، تو کوئی خواب دیکھ رہا ہے ؂

آنکھ کیوں پتھرا گئی بڑھتے قدم کیوں جم گئے


کیا ہوا جو یک بہ یک آندھی کے جھونکے تھم گئے


نازمت کر ، ہاتھ بے قیمت لہو میں رنگ کر


عورتوں سے لڑ چکا آ مرد سے اب جنگ کر

سہراب:۔ جنگ دشمن سے ہوتی ہے ، عزیزوں اور بزرگوں کے ساتھ نہیں ہوتی ۔ یہ جنگ خون سے شروع ہوکر آنسوؤں پر ختم نہ ہو اس لیے حملے سے پیشتراے محترم انسان! میں تیرے نام اور رتبے سے واقف ہو جانا چاہتا ہوں ؂

جس کو دیکھا تھا کبھی آئینۂ تقدیر میں


دیکھتا ہوں میں وہی جلوہ تری تصویر میں

رستم:۔ تو عجیب طرح کی گفتگو کر رہا ہے ۔ کیا موت کے خوف سے دیوانہ ہو گیا ہے ؂

پوچھنا نام ونشاں اس جنگ کے انجام سے


لڑنے آیا ہے یہاں مجھ سے کہ میرے نام سے

سہراب:۔ میں نام اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ یہ چہرہ دیکھ کر میرے دل میں دشمنی کی جگہ تیری عزت پیدا ہو گئی ہے ؂

جس کی تلوار سے توران کے لب پر دم ہے


کیوں چھپاتا ہے یقینا وہ تو ہی رستم ہے

رستم:۔ رستم شیروں سے ، اژدہوں سے ، دیؤوں سے ، بہادری کے طوفان سے لڑتا ہے ۔ اپنی عمر ، رتبے اور شہرت کی توہین کرنے کے لیے جنگ کے میدان کو ماں کی گود سمجھنے والے نا سمجھ لڑکوں کا مقابلہ نہیں کرتا ؂

سرد ہو جاتے ابھی یہ جوش کیا اور شور کیا


سامنے رستم کے توکیا اور تیرا زور کیا


کانپ اٹھتا دیکھتے ہی موت کی تصویر کو


جنگ میں رستم نہ آیا دے دعا تقدیر کو

سہراب:۔ بہادر بوڑھے، میرا دل نہیں چاہتا کہ تجھ پر حملہ کروں ۔ میں منت کرتا ہوں کہ مجھے غفلت کے اندھیرے میں نہ رکھ۔ اگر واقعی تو رستم ہے تو میں تلوار پھینک کر دوزانوں بیٹھ کر تیرے قدموں کو بوسہ دوں گا اور عِزت وادب کے ساتھ سر جھکا کر تیری بزرگی کو سلام کروں گا ؂

اور کہوں گا کہ خوش اقبال بنادے مجھ کو


ہاتھ سر پر مرے رکھ اور دعا دے مجھ کو

رستم:۔ دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سہراب نے رستم جیسا یکتائے زمانہ دلیر سے جنگ کی تھی، تو دھوکا دے کر مجھ سے رستم ہونے کا اقرار کرانا چاہتا ہے ؂

کیوں نہیں کہتا کہ مجھ میں جنگ کا اب دم نہیں


ہوش میں آ کان کھول اور سن کہ میں رستم نہیں

سہراب:۔ اگر تو رستم نہیں تو آنکھیں بند ہونے سے پہلے دنیا کو آخری مرتبہ حسرت کی نظروں سے دیکھ لے۔
(دونوں میں جنگ ، آخر سہراب رستم کو گرادیتا ہے اور چھاتی پر چڑھ کر خنجر بھونکتا ہے ۔رستم ،سہراب کی کلائی پکڑ لیتا ہے)
رستم:۔ ٹھہر !ا یران کے بہادروں کا دستور ہے کہ دشمن کو دو مرتبہ شکست دینے کے بعد قتل کرتے ہیں ۔ اگر تجھے اپنے بازوؤں پر بھر وسہ ہے اور تیرے دل میں بہادروں کے دستور کی عزت ہے تو کل مجھے نصیب آزمانے کا ایک اور موقع دے ۔ کل کا فیصلہ قسمت کا آخری فیصلہ ہوگا۔
سہراب:۔ اگر تجھے یقین ہے کہ رات بھر کی خوشامد سے صبح کو قسمت تیری مدد کے لیے زیادہ ہو جائے گی تو اچھا زندگی بچانے کے لیے اس آخری کوشش کے لیے تجھے کل تک کے لیے مہلت دیتا ہوں (سینے سے اُٹھ کر )مرد کازیور بہادری او ربہادری کا زیور رحم ہے ۔

(خنجر پھینک دیتا ہے)

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب پانچواں سین
ہومان وبارمان کا خیمہ
ہومان:۔ جس کا جوش جوان اور تجربہ بچہ ہے ، جس کا بازو طاقت ور اور عقل کمزور ہے ،وہ دنیا کو فتح کر سکتا ہے ، دنیا پر حکومت نہیں کر سکتا۔
بارمان:۔ قبضے میں آئے ہوئے شیر کو دوبارہ حملہ کرنے کے لیے آزاد کر دینا یہ سہراب کی ایسی خوفناک غلطی ہے کہ اس غلطی پر نادان بچہ اور دیوانے بھی افسوس کرتے ہوں گے۔
ہومان:۔ اور اس احمقانہ غلطی کو وہ بہادری اور رحم کہتا ہے ۔
بارمان:۔ جنگ کیا ہے قتل ، خون ، موت کی نمائش ۔ اس لیے جنگ خود ایک بے رحمی ہے ۔ بے رحمی کی سلطنت میں رحم کے قانون پر عمل نہیں ہوتا۔
ہومان :۔ یہ اس کمزوری کا نتیجہ ہے کہ جو فتح طاقت اور تلوار سے حاصل نہ ہو سکی ہو رستم نے عقل کے زور اور فریب کے حربے سے حاصل کر لی۔
بارمان:۔ تو اب کیا کرنا چاہیے ۔ ہمارے بادشاہ افرا سیاب کی آرزو اور ہماری کوشش برباد ہوا چاہتی ہے ۔
ہومان:۔ چلو !سہراب کو اس کی غلطی پر شرمندہ کریں ، اس کی روح میں ایک نئی روشنی پھونکیں ، اس کے دل کی نیکی کو عداوت سے اور رحم کے جذبے کو غصے سے بدل دیں ۔ اگر ہمارے جھنجوڑنے سے سہراب کی سوئی ہوئی زندگی جاگ اٹھی تو کل کا دن رستم کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔

(دونوں جاتے ہیں)
 

الف عین

لائبریرین
تیسرا باب چھٹا سین
میدانِ جنگ
(رستم اداس چہرے اور غمگین دل کے ساتھ مایوس نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے)
رستم:۔ پروردگار ! میں نے کبھی تیرے قہر وغضب کو حقیر نہیں سمجھا ۔ کبھی تیری طاقت کے سامنے اپنی فانی طاقت کا غرور نہیں کیا۔ پھر اس ذلت کی شکل میں تو نے میرے کس گناہ کی سزادی ہے ۔ اے دردمندوں کی دوا، اے کمزوروں کی قوت، اے نا امیدوں کی امید ، میں نے کل ساری رات تیرے حضور میں سجدۂ نیاز کے ساتھ آنسو بہا کر مدد کے لیے التجا کی ہے ۔ اپنے عاجز بندے کی التجا قبول کر ، اس بڑھاپے میں دنیا کے سامنے میری شرم رکھ اور ایک بار میرے عہدِ شباب ، میری جوانی کا زور وجوش مجھے دوبارہ واپس دے ؂

عطا کر دے وہی طاقت جو اک دن تھی مرے بس میں


جوانی کا لہو پھر جوش مار ے میری نس نس میں


تری قدرت پلٹ سکتی ہے سارے کارخانے کو


پھر اک د ن کے لیے تو بھیج دے پچھلے زمانے کو

(سہراب داخل ہوتا ہے)
سہراب:۔ صبح ہو گئی ۔ ممکن ہے آج کی صبح اس کی زندگی کی شام ثابت ہو۔ نہ جانے کیا سبب ہے کہ اس کی موت کا خیال آتے ہی میری روح کانپ اٹھتی ہے (رستم کودیکھ کر) تو آگیا۔ کیا جنگ کے نقارے کی پہلی چوٹ سے تیری نیند ٹوٹ گئی ...
رستم:۔ بہادر اپنا وعدہ نہیں بھولتا ۔ میں آدھی رات سے صبح ہونے کا انتظار کررہا ہوں۔
سہراب:۔ آج لڑائی کا دوسرا دن ہے۔ جانتا ہے ، اس جنگ کا کیا نتیجہ ہوگا؟
رستم:۔ ہم دونوں میں سے ایک کی موت۔
سہراب:۔ شیر دل بوڑھے ۔ میرا دل تیری موت کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایک غیبی آواز مجھے بار بار اس جنگ سے روک رہی ہے ۔ اگرایران کی گود بہادر فرزندوں سے خالی نہیں ہے تو جا ، واپس جا اور اپنے عوض میں کسی اور ایرانی کو بھیج دے ۔ تجھے زندگی اور سلامتی کے ساتھ لوٹ جانے کی اجازت دیتا ہوں۔
رستم:۔ کل کی اتفاقی فتح پر غرور نہ کر ۔ ہر نیا دن انسان کے لیے نئے انقلاب لے کر آتا ہے ۔ تقدیر کا پہیّا ہمیشہ ایک ہی سمت میں نہیں گھومتا ؂

گھڑی بھر میں بدلنا ہوگا تجھ کو پیرہن اپنا


منگا کر پاس رکھ لے جنگ سے پہلے کفن اپنا

(جنگ شروع ہوتی ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد سہراب ہاتھ روک لیتا ہے)
سہراب:۔ ٹھہر! آج میں تجھ میں نیا جوش اور نئی قوت دیکھ رہا ہوں۔ جواں ہمت بوڑھے مجھے پھر شک ہوتا ہے کہ تو رستم ہے ۔ میں تیری عزت کا واسطہ اور تیری بہادری کی دہائی دے کر ایک بار پھر تیرا نام پوچھتا ہوں ۔ زور سے نہیں منت سے ۔ غرور سے نہیں عاجزی سے۔
رستم:۔ تو میرا نام ہی جاننا چاہتا ہے تو سُن میرا نام ہے ...
سہراب:۔ (خوشی کی گھبراہٹ سے) رستم!
رستم :۔ نہیں ، سہراب کی موت!
سہراب:۔ افسوس تونے میرے رحم کی قدر نہ کی۔
(دوبارہ جنگ ہوتی ہے۔ رستم سہراب کو گرا کر سینے پر چڑھ بیٹھتا ہے)
رستم:۔
بس اسی ہمت اسی طاقت پر تھا اتنا غرور


تو کوئی شیشہ نہ تھا کیوں ہو گیا پھر چور چور


کیا ہوا زورِ جوانی اُٹھ اجل ہے گھات میں


دیکھ لے اب کس قدر قوّت ہے بوڑھے ہاتھ میں

(سہراب کے سینے میں خنجر بھونک دیتا ہے)
سہراب:۔ آہ اے آنکھو! تمھارے نصیب میں باپ کا دیدار نہ تھا ۔ کہا ں ہو ، پیارے باپ کہا ں ہو! آؤ ! آؤ کہ مرنے سے پہلے تمھارا سہراب تمھیں ایک بار دیکھ لے ؂

کیا خبر تھی کہ بگڑ جائے گی قسمت اپنی


آخری وقت دکھا دو مجھے صورت اپنی

رستم:۔ کیا اپنی جوانی کی موت پر ماتم کرنے کے لیے اپنے باپ کو یاد کررہا ہے ۔ اب تیرے باپ کی محبت ، اس کے آنسو ، اس کی فریاد ، کوئی تجھے دنیا میں زندہ نہیں رکھ سکتی ؂

مرہم کہاں جو رکھ دے دلِ پاش پاش پر


آیا بھی وہ تو روئے گا بیٹے کی لاش پر

سہراب:۔بھاگ جا ، بھاگ جا ، اس دنیا سے کسی اور دنیا میں بھاگ جا ۔ تو نے سام اور نریمان کے خاندان کا چراغ بجھادیا ہے ۔ تاریک جنگلوں میں ، پہاڑوں کے غار میں ، سمندروں کی تہہ میں ، تو کہیں بھی جاکر چھپے لیکن میرے باپ رستم کے انتقام سے نہ بچ سکے گا!
رستم:۔ (چونک کر کھڑا ہو جاتا ہے ) کیا کہا؟ کیا کہا؟ تو رستم کا بیٹا ہے ؟
سہراب:۔ ہاں!...
رستم :۔ تیری ماں کا نام؟
سہراب:۔ تہمینہ۔
رستم:۔تیرے اس دعوے کا ثبوت؟
سہراب:۔ ثبوت ؟ اس بازو پر بندھی ہوئی میرے باپ رستم کی نشانی !
رستم:۔ جھوٹ ہے ، غلط ہے ، تو دھوکا دے رہا ہے ، مجھے پاگل بنا کر اپنے قتل کا انتقام لینا چاہتا ہے (گھبراہٹ کے ساتھ سہراب کے بازو کا کپڑا پھاڑ کر اپنا دیا ہوا مہرہ دیکھتاہے ) وہی مہرہ۔ ۔ ۔ وہی نشانی (سر پٹک کر) آہ یہ کیا کیا؟ اندھے!پاگل! جلّاد ! یہ تونے کیا کیا ؂

خون میں ڈوبا ہے وہ جس سے مزہ جینے میں تھا


دل کے بدلے کیا کوئی پتھر ترے سینے میں تھا


توڑ ڈالا اپنے ہی ہاتھوں سے او ظالم اسے


تیرا نقشہ تیرا ہی چہرہ جس آئینے میں تھا

سہراب:۔ فتح مند بوڑھے تو رستم نہیں ہے ۔ پھر میری موت پر خوش ہونے کے بدلے اس طرح رنج کیوں کر رہا ہے ؟
رستم:۔اب اس دنیا میں رنج اورآنسو ، رونے اور چھاتی پیٹنے کے سوا اور کیا باقی رہ گیاہے ۔ میں نے تیری زندگی تباہ کر کے اپنی زندگی کا ہر عیش اور اپنی دنیا کی ہر خوشی تباہ کر دی ۔ مجھ سے نفرت کر ، میرے منہ پر تھوک دے ۔ مجھ پر ہزاروں زبانوں سے لعنت بھیج ؂

فغاں ہوں ، حسرت وماتم ہوں ، سرسے پاؤں تک غم ہوں


میں ہی بیٹے کا قاتل ہوں ، میں ہی بدبخت رستم ہوں

(سہراب کے پاس ہی زمین پر گر پڑتا ہے اور سہراب کے گلے میں ہاتھ ڈال کر چھاتی سے لپٹ جاتا ہے)
سہراب:۔ باپ !پیارے باپ !!
رستم:۔ ہائے میرے لال۔ تونے الفت سے ، نرمی سے ، منت سے مجھ سے کتنی مرتبہ میرانام پوچھا۔ اس محبت اور عاجزی کے ساتھ پوچھنے پر لوہے کے ٹکڑے میں بھی زبان پیدا ہو جاتی ہے ، پتھر بھی جواب دینے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے،لیکن اس دو روزہ دنیا کی جھوٹی شہرت اوراس فانی زندگی کے غرور نے میرے ہونٹوں کو ہلنے کی اجازت نہ دی۔ میرے بچے ، میری تہمینہ کی نشانی ؂

کس جگہ بے رحم اجل سے میں نہاں رکھوں تجھے


آنکھ میں ، دل میں ، کلیجے میں، کہاں رکھوں تجھے


بس نہیں انسان کا چلتا فنا وفوت سے


کیا کروں کس طرح تجھ کو چھین لوں میں موت سے

سہراب:۔ ہومان ، بارمان ، ہجیر ، سب نے مجھے دھوکا دیا۔ باپ !نہ رو، میری موت کو خدا کی مرضی سمجھ کر صبر کرو ؂

مل گئی مجھ کو جو قسمت میں سزا لکھی تھی


باپ کے ہاتھ سے بیٹے کی قضا لکھی تھی

رستم:۔ جب تیری ناشاد ماں بال نوچتی ، آنسو بہاتی ، چھاتی پیٹتی ،ماتم اورفریاد کی تصویر بنی ہوئی سامنے آکر کھڑی ہوگی اورپوچھے گی ، میرالاڈلاسہراب میرا بہادر بچہ، میری کوکھ سے پیدا ہونے والا شیرکہاں ہے ؟ تو اپنا ذلیل چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپالینے کے سوا کیا جواب دوں گا۔کن لفظوں سے اس کے ٹوٹے ہوئے دل اور زخمی کلیجے کو تسلّی دوں گا ؂

سنوں گا ہائے کیسے مامتا کی اس دہائی کو


کہاں سے لاؤں گا ، مانگے گی جب اپنی کمائی کو


نگاہیں کس طرح اٹھیں گی مجھ قسمت کے ہیٹے کی


دکھاؤں گا میں کن ہاتھوں سے ماں کو لاش بیٹے کی

سہراب:۔ پیارے باپ ! میری بدنصیب ماں سے کہنا کہ انسان سب سے لڑسکتا ہے ، قسمت سے جنگ نہیں کر سکتا ۔ آہ (آنکھیں بند کرتا ہے)
رستم:۔ یہ کیا !یہ کیا!میرے بچے !آنکھیں کیوں بند کر لیں ؟ کیا خفا ہو گئے ؟ کیا ظالم باپ کی صورت دیکھنا نہیں چاہتے ؟ یہ موت کا گہوارہ ، یہ خون میں ڈوبی ہوئی زمین، پھولوں کا بستر ، ماں کی گود ،باپ کی چھاتی نہیں ،پھر تمھیں کس طرح نیند آگئی ؂

میرے بچے یوں نہ جا مجھ کو تڑپتا چھوڑ کے


میرا دل ، میرا جگر ، میری کمرکو توڑ کے


ہائے کیا کیا آرزو تھی زندگانی میں تجھے


موت آئی پھولتی پھلتی جوانی میں تجھے

سہراب:۔ ماں...خدا...تمھیں...تسلی دے... آہ ! او خدا ...
رستم:۔ اور ... اور... بیٹا بولو۔ چپ کیوں ہو گئے ۔ آہ ... اس کا خون سرد ہورہا ہے۔ اس کی سانسیں ختم ہورہی ہیں ۔ اے خدا !اے کریم ورحیم خدا ! اولاد باپ کی زندگانی کا سرمایہ اور ماں کی روح کی دولت ہے ۔ یہ دولت محتاجوں سے نہ چھین ۔ اپنی دنیا کا قانون بدل ڈال ۔ اس کی موت مجھے اور میری باقی زندگی اسے بخش دے ... موت ... موت... تو زال ورودابہ کے گھر کا اجالا اور بڑھاپے کی امید ، میری تہمینہ کا بولتا کھیلتا کھلونا ، کہاں لے جارہی ہے ؟دیکھ میری طرف دیکھ ! میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کو تاج وتخت کی بھیک دی ہے آج ایک فقیر کی طرح تجھ سے اپنے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگتا ہوں ؂

پھینک دے جھولی میں تو میرے گلِ شاداب کو


ہاتھ پھیلائے ہوں میں ، دے دے مرے سہراب کو

سہراب:۔ (آنکھیں بند کیے ہوئے) دنیا ۔ رخصت ۔ آہ او خدا !... (مرجاتا ہے)
رستم:۔ آہ جوانی کا چراغ ہچکی لے کر بجھ گیا ۔ بے رحم موت نے میری امید کی روشنی لوٹ لی ۔ اب لاکھوں چاند ہزاروں سورج مل کر بھی میرے غم کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے ۔ آسمان ماتم کر ، زمین چھاتی پیٹ درختو ! پہاڑو! ستارو !ٹکرا کر چور چور ہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے ۔ آج ہی دنیا کا آخری دن ہے ۔ زندگی کہاں ہے ؟ دنیا کہاں ہے؟ زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں میں ڈوب گئی ... (دیوانوں کی طرح پکارتا ہے) سہراب !...۔ سہراب!...سہراب!...

(غش کھا کر گر پڑتا ہے)

(ڈراپ سین)
 

الف عین

لائبریرین
مصادر و مراجع

۱ ۔ سید مسعود حسن رضوی ادیبؔ ، لکھنؤ کا شاہی اسٹیج ۔ کتاب نگر ، دین دیال روڈ لکھنؤ ۱۹۵۶ء، ص ۶۶،۹۹۔
۲۔ سید مسعود حسن رضوی ادیبؔ ، لکھنؤ کاعوامی اسٹیج کتاب نگر ، ص ۶،۷۔
۳ ،۴۔ حشرت رحمانی ، اردو ڈراما تاریخ وتنقید ۔ اردو مرکز ، لاہور ، ۱۹۵۷ ء
ص ۱۴۴،۱۴۸، ۱۴۹
۵۔ ڈاکٹر عبد العلیم نامی اس خیال سے متفق نہیں ’’بلکہ ان کے مطابق بمبئی تھیٹر کے اسٹیج پر کھیلا جانے والا اردو کا پہلا ڈراما ’’را جہ گوپی چند اورجلندھر‘‘ ہے جو ۲۶!نومبر ۱۸۵۳ء کو گرانٹ روڈ تھیٹر بمبئی میں اسٹیج ہوا اور اس کا لکھنے والا ڈاکٹر بھاؤواجی لاڈ ہے ‘‘۔ لیکن اپنے اس خیال کی تائید میں ڈاکٹر نامی ٹھوس دلائل ہی پیش کر سکے ہیں اور نہ تاریخی شواہد ہی، نہ یہ ڈراما دستیاب ہو سکا ہے جس کی بنا پر اس کی اولیت اور قد ر وقیمت کے بارے مین کوئی رائے متعین کی جاسکے ۔ ڈاکٹر عبدالعلیم نامیؔ۔ اردو تھیٹر (جلد اول) انجمن ترقی اردو ، کراچی ۱۹۶۶ء ص۱۹۲
۶۔ امتیاز علی تاج: اردو کا پرانا تھئیٹر ، نقوش (خاص نمبر) شمارہ ۱۰۶ ، لاہور ، اکتوبر ، نومبر ، دسمبر ۱۹۶۶ ء ص ۱۰
۷۔ ڈاکٹر عبد العلیم نامی : اردو تھیٹر (حصہ دوم) ص ۱۹۳
۸۔ امتیاز علی تاج : تھیٹر کی ضرورت ، ادبِ لطیف (ڈراما نمبر ) لاہور ، اکتوبر ، نومبر ۱۹۳۹ء ص ۵
۹۔ امتیاز علی تاج : اردو کا پرانا تھیٹر ، نقوش (خاص نمبر) ص۱۳
۱۰۔ آغا محمود شاہ : کچھ حشر کے متعلق ، نیرنگِ خیال، جنوری فروری (سالنامہ) لاہور ۱۹۴۶ء ص ۲۸
۱۱۔ آتش فشاں، شمارہ نمبر ۲۳ یکم دسمبر ۱۹۷۸ ء لاہور، ص۶۹
۱۲،۱۳۔ آغا محمود شاہ : کچھ حشر کے متعلق ، نیرنگِ خیال، (سالنامہ) ص۲۸، ۲۹،۳۰
۱۴۔ علم الدین سالک: آغا حشر کا شمیری، تجلیاتِ حشر ، مرتبہ طفیل احمد بدر امروہوی، تاج کمپنی ، لاہورص ۴۱
۱۵۔ مختار بیگم سے انٹرویو : آتش فشاں، شمارہ ۲۳، یکم دسمبر ۱۹۷۸؁ لاہور۔ ۸۰ء کے اواخر میں کراچی کے دورانِ قیام مختار بیگم مرحومہ سے دو تین دفعہ راقمہ سے ملاقات ہوئی تھی ۔ انھوں نے وہی’ آتش فشاں ‘ عنایت فرمایا تھا۔
۱۶،۱۷۔ علم الدین سالک : آغا حشر کاشمیری ۔ تجلیاتِ حشر ص ۴۴،۴۵
۱۸۔ آغا جمیل صاحب (حشرؔکے بھتیجے) کا خط (مورخہ ۹! مئی ۱۹۹۰ء ) راقمہ کے نام۔ اپنے اس خط میں آغا جمیل صاحب نے آغا حشرؔ کے اردو اور ہندی ڈراموں کی فہرست مع سنہ طباعت دی ہے اور کچھ ضروری معلومات فراہم کی ہے
۱۹۔ آغا حشر کی یہ غزل ’’تجلیاتِحشرؔ‘‘ میں ص ۲۴۶ پر درج ہے
۲۰۔ جمیل جالبی : آغا حشر اور ڈرامے کی روایت : ماہنامہ تحریک جولائی ۱۹۶۵ء ص۸
۲۱۔ منصور احمد : ہندوستان کے شیکسپیر آغا حشر کاشمیری ڈراماکیوں کر لکھتے ہیں۔ ادبی دنیا سالنامہ ۱۹۳۵ء، لاہور ،ص۹
۲۲۔ ڈاکٹر عطیہ نشاط: اردو ڈراما روایت اور تجربہ ۔نیشنل آرٹ پریس ۔ الہ آباد ۱۹۷۳ء ص ۱۸۴
۲۳۔ وقار عظیم : آغا حشر اور ان کے ڈرامے ، اردو مرکز ۔ لاہور ۱۹۶۰ء ص ۱۰۲
۲۴۔ آل احمد سرورؔ : ہندوستانی ادب میں آغا حشرؔ کا درجہ، تنقیدی اشارے (تیسرا ایڈیشن) ادارہ فروغ اردو ، لکھنؤ ۱۹۵۵ء ص۱۳۷
۲۵۔ احتشام حسین۔ ڈراما نمبر آج کل ،دہلی ۱۹۵۹ء ص ۹
۲۶۔ عبد العلیم نامی : اردو تھیٹر (حصہ دوم) ص۲۴۴
۲۷۔ عشرت رحمانی : اردو ڈرما تاریخ وتنقید ۔ ص ۲۴۳، ۲۴۴
۲۸، ۲۹۔ یہ تحریر ڈاکٹر نامی مرحوم سے راقمہ کو حاصل ہوئی
۳۰۔ ڈاکٹر عبد العلیم نامی : اردو ٹھئیٹر حصہ دوم ، ص۶۶۴
۳۱۔ آغا جمیل صاحب کا خط(۹ ! مئی ۱۹۹۰ء ) راقمہ کے نام
تمت با لخیر
 

الف عین

لائبریرین
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ داٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
 
Top