الف عین
لائبریرین
تیسرا باب پہلا سین
مکانِ بیرم
(بیرم کے سامنے رقص ونغمہ)مکانِ بیرم
کورس :۔ تورے رے بانکے لوچن ۔ پر ان پیارے موہن۔ موری رے پریت چھوڑونا ۔ آؤ رے بیگی آؤ۔ واری۔ واری جاؤں ساجن ۔ ہاں تو رے رے بانکے لوچن ۔ آیو رے مورے آنگن ۔ آیو رے مورے آنگن ۔ واری ۔ واری جاؤں ساجن۔ ہاں تورے ...
بیرم :۔ آہا ! گانا بھی کیا عمدہ چیز ہے ۔ کیسی ہی غمگین اور پژ مردہ روح کیوں نہ ہو اس کو سن کر طبیعت بہل جاتی ہے ، مگر میرا دل تو اس وقت خوش ہوگا جب میرے سرپر خاقان کا تاج اور اس ہاتھ میں عصائے سلطنت اور اس ملک کے سکّے پر میرانام کندہ ہوگا۔ اے مضطرب روح کیوں گھبراتی ہے ۔ اگر میرا آج کا سوچا ہوا داؤ چل گیا تو یہ سب کچھ بھی ہاتھ آجائے گا ۔
(ماہ پارہ آتی ہے )
ماہ پارہ :۔ کیوں بیرم؟
بیرم :۔ ہیں ! کون ؟ حضور ہیں !
ماہ پارہ:۔ بیرم ! تم نے پھر وہی ادا دکھا ئی ۔ دیکھو ! اگر تم مجھ کو حضور یا جناب کہہ کر پکارتے رہے تو میں ایسی محبت سے باز آئی ۔
بیرم :۔ کیوں پیاری !کیا تہذیب سے بات کرنا بھی کوئی برائی ہے۔اگر لغت میں یہ لفظ نہ ہوتے تو بیرم کو کس طرح معلوم ہوتا کہ اس کا دل پیاری ماہ پارہ کی محبت سے معمور ہے ۔
ماہ پارہ:۔ خوب ! تو معلوم ہوا کہ تمھارے دل میں میری عزت ہی عزت ہے ۔ محبت نہیں۔
بیرم:۔ نہیں عزت اور محبت دونوں۔
ماہ پارہ :۔ کیا آدھے دل میں محبت اور آدھے دل میں عزت؟
بیرم:۔ بیشک!
ماہ پارہ :۔(سائڈ میں) جی ہاں۔ اگر سارا دل میری ہی محبت میں وقف کر دیا ہوتا تو بی دل آرا کی محبت کو کہاں رکھتے ۔
بیرم(گانا):۔ چتون نے تیرِ نظارہ ،دل پر ہے آہ مارا۔ چتون نے تیرِ نظارہ ، دل پر ہے آہ مارا۔
ماہ پارہ(گانا) :۔ میں دل دے کر پچھتائی ۔ الفت میں نہ راحت پائی ۔ چاہت سے باز آئی۔
بیرمگانا)۔ دل میں ہے پیت بسائی ۔ یہ تن سارا ، تجھ پہ واری ، پیاری ، ماہ پارہ ، چتون نے تیرِنظارہ ۔
ماہ پارہ(گانا):۔ دودن کی سب دل داری ہے ۔ بس منہ دیکھے کی یاری ہے ۔
بیرم (گانا) :۔ ہے دل پر آہ مارا ۔ چتون نے تیرِ نظارہ ...
ماہ پارہ:۔ (نثر) دیکھو بیرم ! میں تم سے کہے دیتی ہوں کہ اگر تمھارا دل ، دل آرا یا کسی اور خام پارا کی محبت میں گرفتار ہوگا تو وہ خنجر ایک دفعہ وفادار شوہر کے گلے پر چل چکا ہے ، ایک بے وفا عاشق کے قتل کو سب سے پہلے تیار ہوگا۔
بیرم:۔ ارر ررکم بختی ! پیاری ماہ پارہ تمھارا دل کتنا بدگمان ہے مگر میں نے کل جو ایک بات کہی تھی کچھ اس کا بھی دھیان ہے ۔
ماہ پارہ:۔ ہاں بیرم !میں تمام رات سوچتی رہی مگر مجھے کوئی تجویز نظر نہیں آئی ۔ کچھ تم ہی بتاؤ۔
بیرم:۔ میں بتاؤں ۔ اچھا تو سنو۔ دیکھو کوئی دیکھتا تو نہیں ۔
ماہ پارہ:۔ کوئی نہیں ۔
بیرم:۔ خاقان اور زارا کو قتل کر ادو۔
ماہ پارہ :۔ شاید دل آرا اس کے خلاف ہو۔
بیرم:۔ ہو کیا ؟ وہ تو ہے ۔ دیکھو پیاری اگر تم یہ چاہتی ہو کہ سوائے تمھارے اس سلطنت کا کوئی حق دار نہ ہو اور اس عشق ومحبت میں کھٹکنے والا خار نہ ہو تو ایک تدبیر کرو۔
ماہ پارہ:۔وہ کیا ؟
بیرم:۔ یہ تو میں تمھیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ رعیت خاقان اور زارا کو مظلوم سمجھتی ہے اس لیے وہ جنگ کرکے اِن کو چھڑانا چاہتی ہے ۔ اگر وہ دونوں آزاد ہوئے تو یہ سرا ور تاج دونوں جاتے رہیں گے اس لیے میں آج دو قاتلوں کو بھیج کر خاقان کو قتل کراؤں گا ۔ اس کے بعد تم قید خانے میں جاکر زارا کو اپنے ہاتھ سے خاک وخون میں ملاؤ اور اس کے قتل کا الزام دل آرا پر لگاؤ۔ اس طرح خاقان میرے ہاتھ سے، زارا تمھارے ہاتھ سے اور دل آرا باغی رعیت کے ہاتھ شہید ہوگی۔ پھر تمھارے لیے ہمیشہ کے لیے عید ہوگی۔
ماہ پارہ:۔ اچھا ! تو میں جاتی ہوں۔
بیرم:۔ ہاں ! پیاری جاؤ۔
(ماہ پارہ جاتی ہے دل آرا داخل ہوتی ہے )
دل آرا:۔ خوب ! خوب ! لیلےٰ مجنوں کی جوڑی جارہی ہے ۔کیوں جی ! اب تو خوب ملاقاتیں ہوتی ہیں ۔ خوب گُھل مِل کے باتیں ہوتی ہیں۔
بیرم:۔ کیا خاک باتیں ہوتی ہیں ۔ بس جانے دو ایسی باتیں نہ کرو۔
دل آرا:۔ کیو ں جی ! خیر تو ہے ۔
بیرم:۔ پیاری شاید زمانے کا خون سفید ہو گیا ہے یا ان ستاروں کا کچھ الٹا بھید ہو گیا ہے ۔
دل آرا:۔ ہیں ! ایسا بھیانک مضمون۔
بیرم:۔ خون !خون! پیاری دل آرا تمھار ا خون ۔
دل آرا:۔ میرا خون ؟ سبب ؟
بیرم :۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ رعیت خاقان اور زارا کو مظلوم سمجھتی ہے اس لیے بلوہ کرکے انھیں چھڑانا چاہتی ہے ، اس وجہ سے ماہ پارہ کو یہ وسواس ہو گیا ہے کہ اگر وہ دونوں قید سے چھوٹے تو یہ سرا ور تاج دونوں جاتے رہیں گے ۔ اس لیے آج ہی رات کو خاقان کو دو قاتلوں سے قتل کرائے گی اور زارا کو اپنے ہاتھ سے خاک وخون میں ملائے گی اور اس کے قتل کا الزام تم پر لگائے گی۔
دل آرا:۔ اُف اس قدر نیت میں فتور!
بیرم:۔ ہاں پیاری ! اب تم سمجھ گئی ہوگی کہ اس کا کیا مطلب ہے ۔
دل آرا:۔ یہی کہ خاقان کو قاتلوں کے ہاتھ سے زارا کو اپنے ہاتھ سے اور مجھے باغی رعیت کے ہاتھ سے قتل کرائے ۔
بیرم:۔ اور خود تاج وتخت کی مالک بن جائے مگر تم اس سانپ کو ڈسنے کا موقع ہی کیوں دو ؟کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ جس وقت اس کی چھری زارا کے خون میں ڈوب چکی ہو تو فوراً تم وہاں پہنچ جاؤ اور شور کر کے اسے گرفتار کراؤ اور آج رات کو جس قدر مددمجھ سے پہنچ سکے گی پہنچاؤں گا ۔ صبح کو تمھیں اس ملک کی اکیلی ملکہ بننے کی مبارک باد دینے سب سے پہلے میں ہی آؤں گا۔ (سائڈ )میں) قبرستان میں۔
دل آرا:۔ٹھیک ! تومیں جاتی ہوں اور اس کی ٹوہ لگاتی ہوں۔(جاتی ہے)
بیرم:۔ ہاں جاؤ سدھارو ۔ ہا ! ہا ! ہا ! ہا ! واہ میاں بیرم ! خوب گھسّا دیا ۔ واللہ ان سیانی ڈائنوں کو شیشے میں اتارنا یاروں ہی کا کام ہے ۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ماہ پارہ ،دل آرا سے طاقت اور جوش میں کہیں زیادہ بڑھ کر ہے ۔ جب یہ بھتنی اس چڑیل سے لپٹے گی تو اس کے ایک ہی وار میں اِس کا بیڑا پارہوگا۔ پھر باقی رہاہی کون ۔ ماہ پارہ یا کوئی اور ۔ تو وہ میرے طمنچے یا رعایا کے فیصلے کا شکار ہوگا ۔ پھر بندہ اکیلا ہی اس ملک کا مالک ومختار ہوگا۔
بیر م (گانا):۔ من متوالا ، سب سے نرالا ، رنگت والا، بھر بھر پیالہ ، پی جام اعلیٰ۔ لا۔لا جی کب تک ساقی ترسے ، بادل سے وسکی برسے ۔ آہا ہا ہا ہا ! رنگ راگ اُڑابے لاگ اُڑا ۔ہاں کاگ اُڑا ! دے بھر بھر پیالہ ۔ پی جام ، بھر جام اعلیٰ۔
(سین ختم)