سو حادثے ہوتے ہیں تعلق کے سفر میں
ٹوٹے ہوئے رشتوں کو بھی سامان میں رکھنا
تصویر بھی حیران ہے آنکھیں بھی ہیں حیران
حیران کو کیا دیدہِء حیران میں رکھنا
موت اور خریدار بتا کر نہیں آتے
کچھ جنسِ وفا وقت کی دکان میں رکھنا
ہوتا ہے جو ہر آن اسے دھیان سمجھنا
جو ہو نہیں سکتا اسے امکان میں رکھنا
میں حاصلِ تفریق کبھی بھی نہ بنوں گا
تم جب کبھی رکھنا مجھے میزان میں رکھنا
افتخار مغل