محمد تابش صدیقی
منتظم
جبکہ میں نے بعد میں احباب کے مراسلہ جات دیکھ کر اپنے مراسلے کو کچھ طول دیا۔اردو مادری اور پدری زبان ہے۔سوآتی بھی ہے۔
انگریزی کیوں کہ وقت کی ایک کی ضرورت اور مجبوری بھی سو وہ بھی آہی گئی ۔البتہ ادب میں زیادہ مطالعہ نہیں ۔ شیکسپئیر کا رومیو جولیٹ کے علاوہ شاید ہی ایک دو تخلیقات پڑھیں ہوں۔
سندھی علاقائی زبان ہے اور بطور مضمون پڑھی بھی ہے سو وہ بھی آتی ہے کہ بچپن اور لڑکپن اندرون سندھ میں گزرا ۔کچھ اسکول کالج سے سندھی دوست بھی تھے ۔
فارسی سے بھی کافی انٹرنسک قسم کی واقفیت ہے ۔والد صاحب سے اپنی ذاتی دلچسپی سے سیکھی کیوں کہ انہیں فارسی شاعری اور انگریزی شاعری پر کافی گہری دسترس تھی ۔خود بھی شاعر تھے اور مرزا غالب تک شجرہ تلمذ رکھتے تھے۔ کچھ بنیادی خانہ فرہنگ حیدرآباد سے لا کر بھی پڑھیں کیوں کہ محدود وسائل میں اور کہیں کوئی کتب دستیاب نہیں تھیں ۔اور فائنل ائیر میں ایرانی ہم جماعت اور پراجیکٹ فیلو سے کچھ جدید فارسی لہجے کا ادراک بھی ہوا جو اول اول سننے میں ایسا لگتا ہے کہ اس زبان کا لکھی ہوئی کلاسیکی فارسی زبان سے کوئی اتنا ہے رشتہ ہے جو بلی اورمچھلی میں ہو ۔ جیسے جان کو جون (مہینے والے جون) کی طرح بولنا وغیرہ ۔بہر حال فارسی سے بھی کام چلانے کی حد تک آشنائی ہو ہی گئی ۔اگر کبھی ایران جانا ہوا تو امید ہے زیادہ پریشانی نہ ہو گی۔
عربی ۔بنیادی طور پر ہر مسلمان کی مذہبی وابستگی کے طور پر پڑھنی توآتی ہی ہے ۔ کچھ اسکول میں بھی پڑھی مگر برائے نام ۔
یہاں عرب ملک میں رہنے سے عربی سے کچھ واقفیت ہوئی ۔
ابتدا میں عربی زبان کے مروجہ متنوع (بھانت بھانت کے) لہجات میں دماغ کافی عرصے تک چکراتا ہے رہا کہ یہ زبان بلکہ زبانیں آخر ہیں کونسی ؟ کام البتہ انگریزی سے چلتا رہا۔
کچھ عرصے بعد دماغ کے گھومنے کی رفتار کچھ کم ہوئی تو پتہ چلا کہ اس کے کتنے فلیورز ہیں ۔ مصر والے ق کو الف کی طرح بولتے ہیں اور جیم کو گاف کی طرح۔ یعنی مسجد کو کہتے ہیں مسگد۔ جدہ شہر کو گدہ اور قلیل کو کہتے ہیں الیل ( اس کا حیاتیات کے جینز والے الیل سے کچھ علاقہ نہیں ) اور قلب کو الب ۔جبکہ دیگر عربی لہجوں میں ق کو گاف بولا جاتا ہے یعنی قل ( بمعنی کہیئے ) کو کہتے ہیں گل، (پھول والا گل ، شاید یہ مراد لی جاتی ہو کہ منہ سے پھول جھاڑیئے) ۔ بہر حال یہ مثالیں کیفیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں جو گردش کے سبب دماغ پر طاری ہوتی تھی ۔پھر ایک ادارے میں کچھ کورس کیا تو پتہ چلا بلکہ پتہ تو تھا مگر کھل کے سامنے آیا کہ سب کے پیچھے ایک ہی فصاحت اور بلاغت کا طوفان ہے اور سب کی بنیاد بھی وہی ہے صورتیں البتہ جدا ۔اس طرح عربی سے بھی کچھ شدھ بدھ ہو ہی گئی ۔
پنجابی ۔
اس کے لیے اپنی محفل کا پنجابی فورم کا شکر گزار ہوں ۔ کافی حد تک سمجھ آنے لگی ہے بس کچھ وکیبلری یعنی حل لغات میں دشواری ہوتی ہے جو اپنے محفلین کے تعاون سے دور ہو جاتی ہے ۔
ایک بات ہے کہ زبان کوئی بھی ہو اس کا سیکھنا ایک عجیب سرشاری کی کیفیت رکھتا ہے ۔
آخر میں ایک معذرت کہ مراسلہ طویل ہو گیا ۔اگر چہ یہ معذرت بھی اس طوالت میں حصے دار ہوئی ۔