انڈین سیاست پر میرے مطالعے کی اگلی کڑی۔
تاحال کسی بھی انڈین وزیرِ اعظم کی واحد خود نوشت سوانح عمری یعنی آنجہانی اندر کمار گجرال کی
Matters of Discretion: An Autobiography
یہ کتاب کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ ایک تو اوپر آ گئی یعنی کسی بھی انڈین وزیر اعظم کی واحد خود نوشت۔ دوسرے گجرال بہت عرصے تک بھارتی سیاست میں سرگرم رہے۔ پچاس کی دہائی میں ان کی دوستی اندرا گاندھی سے ہوئی تھی اور پھر وہیں سے اُن کا سیاسی سفر شروع ہوا۔ تقسیم سے پہلے کسی حد تک کمیونسٹ تھے لیکن پھر کانگریس میں آ گئے اور کئی ایک اہم وزارتوں پر فائز رہے۔ اندرا گاندھی کے شروع کے دور میں اُن کی 'کچن کیبنٹ' کے اہم رکن سمجھے جاتے تھے اور ان کے انتہائی قریبی ساتھی۔ 1975ء میں جب اندرا گاندھی نے بدنامِ زمانہ ایمرجنسی نافذ کی تو گجرال وزیر اطلاعات و نشریات تھے۔ مشہور ہے کہ اندرا کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کا سلوک گجرال کے ساتھ اچھا نہیں تھا کیونکہ گجرال نے اندرا اور سنجے کی سنسر پالیسی پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نتیجے کے طور پر ان کو وزارت سے فارغ کر کے ماسکو میں انڈیا کا سفیر بنا دیا گیا۔ اَسی کی دہائی میں کانگریس سے نکل کر جنتا دل میں آ گئے اور 1989ء جالندھر پنجاب سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے اور وی پی سنگھ کی حکومت میں وزیرِ خارجہ بنے۔
نوے کی دہائی، پاکستانی سیاست کی طرح، انڈین سیاست میں بھی انتشار کا زمانہ ہے۔ نرسیما راؤ نے 1996ء میں الیکشن کروائے تو بی جے پی کو روکنے کے لیے ساری سیاسی جماعتیں یک مشت ہو گئیں۔ واجپائی 13 دن میں ہی چلتے بنے تو یونائینڈ فرنٹ کی حکومت دیو گوڑا کی سربراہی میں بنی جس میں بھی گجرال وزیر خارجہ تھے۔ کانگریس باہر سے اس حکومت کو سپورٹ کر رہی تھی سو کچھ ہی مہینوں میں دیو گوڑا فارغ ہو گئے تو قرعہ فال گجرال کے نام نکلا لیکن کانگریس نے ان کی حکومت کو بھی ایک سال کے اندر اندر چلتا کر دیا اور اپنی حمایت واپس لے لی۔ اس کے بعد بئ جے پی اور کانگریس کا زمانہ ہے تو گجرال ایک طرح سے سیاسی طور پر ختم ہو گئے۔ ان کی گیارہ مہینوں کی وزارتِ عظمی کا سب سے اہم کارنامہ "گجرال ڈاکٹرائن" ہے جو ہمسائیوں کے ساتھ "اچھے تعلقات" پر مبنی تھا۔
گجرال جہلم میں پیدا ہوئے اور لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ فیض احمد فیض سے انگریزی پڑھی اور پھر دوست بن گئے، اس زمانے کے دیگر اُدبا و شعرا کے بھی دوست اور ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ چھوٹے بھائی پینٹر اور بیوی شاعرہ تھیں اور گجرال خود بھی ایک منجھے ہوئے ادیب تھے، اردو کتابیں بھی لکھیں اس لیے اس کتاب کی زبان بھی عمدہ اور شائستہ ہے۔ کتاب میں بہت سے دلچسپ واقعات بھی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ انڈین سیاست کو انہوں نے کئی دہائیوں تک انتہائی قریب سے بھی دیکھا اور ہر طرح کے جوڑ توڑ میں بھی شامل تھے سو کتاب میں بہت سے معلومات بھی ہیں۔
گجرال نومبر 2012ء میں انتقال کر گئے جب کہ کتاب ان کی موت سے ڈیڑھ سال پہلے مارچ 2011ء میں شائع ہوئی تھی۔