آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

زیک

مسافر
عام طور پر کتنے پیجز کی ہوتی ہے اس کی ایک کہانی۔ویسے اصلی مزہ تو اردو میں پڑھنے کا ہی آتا ہے۔آپ انسپیکٹر جمشید سیریز پڑھی ہے
اوسط شاید دس سے بیس صفحات کی کہانیاں ہیں کچھ لمبی اور کچھ چھوٹی۔ یہ یادداشت سے بتا رہا ہوں کہ بہت سال پہلے پڑھی تھیں۔

محمد خلیل الرحمٰن شاید بتا سکیں کہ شرلاک کا اردو ترجمہ ہے یا نہیں۔

اشتیاق احمد کو بہت سالوں قبل پڑھا تھا۔
 
عام طور پر کتنے پیجز کی ہوتی ہے اس کی ایک کہانی۔ویسے اصلی مزہ تو اردو میں پڑھنے کا ہی آتا ہے۔آپ انسپیکٹر جمشید سیریز پڑھی ہے

اوسط شاید دس سے بیس صفحات کی کہانیاں ہیں کچھ لمبی اور کچھ چھوٹی۔ یہ یادداشت سے بتا رہا ہوں کہ بہت سال پہلے پڑھی تھیں۔

محمد خلیل الرحمٰن شاید بتا سکیں کہ شرلاک کا اردو ترجمہ ہے یا نہیں۔

اشتیاق احمد کو بہت سالوں قبل پڑھا تھا۔

حیرت کی بات ہے شرلاک ہومز کے اردو میں قصے تو بہت مشہور ہیں لیکن کوئی براہِ راست ترجمہ نظر سے نہیں گزرا تھا۔ اب زیک نے توجہ دلائی تو نیٹ پر ہی ڈھونڈا۔ ہماری بھتیجی سعدیہ نے توجہ دلائی ہے مندرجہ ذیل سائیٹ کی جانب جہاں پر ان کے شہرہء آفاق ناول کا محترمہ رخسانہ نازلی کا کیا ہوا ترجمہ موجود ہے۔ آپ بھی پڑھیے اور ہم بھی پڑھتے ہیں ۔ بہت مزے دار ناول ہے۔ ہمارا پسندیدہ۔

Baskervilles ka Aatishi Kutta (The Hound of Baskervilles) A Novel of Sherlock Holmes Series by Sir Arthur Conan Doyle
 

نمرہ

محفلین
محمد خالد اختر کا سفرنامہ، دو سفر۔ ان کے ناول کی کافی شہرت سن رکھی تھی مگر اس کی عدم موجودگی میں اسی کو پڑھنے پر اکتفا کیا۔ ابھی نصف پڑھا ہے اور مایوسی ہوئی ہے۔ بیس پچیس صفحوں کے بعد دو چار جملے اچھے ہوتے ہیں کہیں۔
 
احمد ندیم قاسمی کے تمام افسانوں پر مشتمل دو افسانوی مجموعے آج ختم کیے ہیں ۔ ان میں ان کی درج ذیل کتب شامل ہیں :
درو دیوار
گھر سے گھر تک
کپاس کا پھول
کوہ پیما
آبلے
سیلاب و گرداب
طلوع و غروب
چوپال
آنچل
سناٹا
برگ حنا
گھر سے گھر تک
نیلاپتھر
آس پاس
بازارِ حیات
 

محمد وارث

لائبریرین
انڈین سیاست پر میرے مطالعے کی اگلی کڑی۔

تاحال کسی بھی انڈین وزیرِ اعظم کی واحد خود نوشت سوانح عمری یعنی آنجہانی اندر کمار گجرال کی
Matters of Discretion: An Autobiography

یہ کتاب کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ ایک تو اوپر آ گئی یعنی کسی بھی انڈین وزیر اعظم کی واحد خود نوشت۔ دوسرے گجرال بہت عرصے تک بھارتی سیاست میں سرگرم رہے۔ پچاس کی دہائی میں ان کی دوستی اندرا گاندھی سے ہوئی تھی اور پھر وہیں سے اُن کا سیاسی سفر شروع ہوا۔ تقسیم سے پہلے کسی حد تک کمیونسٹ تھے لیکن پھر کانگریس میں آ گئے اور کئی ایک اہم وزارتوں پر فائز رہے۔ اندرا گاندھی کے شروع کے دور میں اُن کی 'کچن کیبنٹ' کے اہم رکن سمجھے جاتے تھے اور ان کے انتہائی قریبی ساتھی۔ 1975ء میں جب اندرا گاندھی نے بدنامِ زمانہ ایمرجنسی نافذ کی تو گجرال وزیر اطلاعات و نشریات تھے۔ مشہور ہے کہ اندرا کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کا سلوک گجرال کے ساتھ اچھا نہیں تھا کیونکہ گجرال نے اندرا اور سنجے کی سنسر پالیسی پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نتیجے کے طور پر ان کو وزارت سے فارغ کر کے ماسکو میں انڈیا کا سفیر بنا دیا گیا۔ اَسی کی دہائی میں کانگریس سے نکل کر جنتا دل میں آ گئے اور 1989ء جالندھر پنجاب سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے اور وی پی سنگھ کی حکومت میں وزیرِ خارجہ بنے۔

نوے کی دہائی، پاکستانی سیاست کی طرح، انڈین سیاست میں بھی انتشار کا زمانہ ہے۔ نرسیما راؤ نے 1996ء میں الیکشن کروائے تو بی جے پی کو روکنے کے لیے ساری سیاسی جماعتیں یک مشت ہو گئیں۔ واجپائی 13 دن میں ہی چلتے بنے تو یونائینڈ فرنٹ کی حکومت دیو گوڑا کی سربراہی میں بنی جس میں بھی گجرال وزیر خارجہ تھے۔ کانگریس باہر سے اس حکومت کو سپورٹ کر رہی تھی سو کچھ ہی مہینوں میں دیو گوڑا فارغ ہو گئے تو قرعہ فال گجرال کے نام نکلا لیکن کانگریس نے ان کی حکومت کو بھی ایک سال کے اندر اندر چلتا کر دیا اور اپنی حمایت واپس لے لی۔ اس کے بعد بئ جے پی اور کانگریس کا زمانہ ہے تو گجرال ایک طرح سے سیاسی طور پر ختم ہو گئے۔ ان کی گیارہ مہینوں کی وزارتِ عظمی کا سب سے اہم کارنامہ "گجرال ڈاکٹرائن" ہے جو ہمسائیوں کے ساتھ "اچھے تعلقات" پر مبنی تھا۔

گجرال جہلم میں پیدا ہوئے اور لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ فیض احمد فیض سے انگریزی پڑھی اور پھر دوست بن گئے، اس زمانے کے دیگر اُدبا و شعرا کے بھی دوست اور ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ چھوٹے بھائی پینٹر اور بیوی شاعرہ تھیں اور گجرال خود بھی ایک منجھے ہوئے ادیب تھے، اردو کتابیں بھی لکھیں اس لیے اس کتاب کی زبان بھی عمدہ اور شائستہ ہے۔ کتاب میں بہت سے دلچسپ واقعات بھی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ انڈین سیاست کو انہوں نے کئی دہائیوں تک انتہائی قریب سے بھی دیکھا اور ہر طرح کے جوڑ توڑ میں بھی شامل تھے سو کتاب میں بہت سے معلومات بھی ہیں۔

گجرال نومبر 2012ء میں انتقال کر گئے جب کہ کتاب ان کی موت سے ڈیڑھ سال پہلے مارچ 2011ء میں شائع ہوئی تھی۔

matters-of-discretion.jpg
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
گجرال کی اوپر والی کتاب سے چند ایک دلچسپ واقعات:

۔1964ء میں بھارتی راجیہ سبھا (اَپر ہاؤس) کی ایک نشست پر انتخاب ہونا تھا۔ اندرا گاندھی گجرال کو منتخب کروانا چاہتی تھی لیکن نہرو کسی اور کو۔ ایک دن اندرا نے ٹھیک شام چھ بجے وزیر اعظم ہاؤس میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ یہ وہ وقت ہوتا تھا جب نہرو شام کی سیر کے لیے اپنے گھر سے دُور نکل جاتے تھے۔ اندرا نے ورکنگ کمیٹی میں گجرال کو نامزد کیا اور یہ تاثر دیا کہ نہرو بھی یہی چاہتے ہیں۔ ورکنگ کمیٹی نے فٹا فٹ اس نشست کے لیے گجرال کی منظوری دے دی اور اندرا نے نہرو کے واپس لوٹنے سے پہلے پہلے اس اجلاس کو نپٹا دیا اور یوں گجرال پہلی بار راجیہ سبھا کے رکن بنے۔

-گجرال جب ماسکو پہنچے اور روایت کے مطابق سربراہ کو اپنی تعیناتی کے کاغذات دینے گئے تو علم ہوا کہ کاغذات تو انڈیا ہی میں رہ گئے ہیں۔ گجرال سمجھتے رہے کہ وزارتِ خارجہ یہ کاغذات سفارت خانے بھجوائے گی۔ ملاقات سے کچھ دیر پہلے علم ہوا تو مصیبت پڑ گئی۔ ایک سفارت کار نے یہ مسئلہ روسی ہم منصب کو بتایا تو اُس نے کہا کہ اب تو ملاقات ملتوی نہیں سکتی بس فائل میں ایک خالی صفحہ رکھ کے دے دو جب اصل کاغذات آئیں گے تو بدل دیے جائیں گے۔ بقول گجرال، اتنا سخت کنٹرول تھا کہ 35 سال بعد انہوں نے خود ہی اس راز کو افشا کیا ہے ورنہ روس یا انڈیا میں کسی نے اس واقعے کی کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنے دی۔

-گجرال جب ماسکو میں انڈیا کے سفیر تھے تو انہی دنوں فیض علاج کے سلسلے میں ماسکو کے ایک سینی ٹوریم میں مقیم تھے۔ ڈاکٹروں نے فیض کے سگریٹ اور شراب پر بہت سختی سے پابندی لگائی ہوئی تھی اور فیض ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔ گجرال نے فیض کی بھر پور مدد کی اور سینی ٹوریم کے اندر بھی باقاعدگی سے فیض کو ان کی پسندیدہ وسکی پہنچاتے رہے۔

-ماسکو ہی میں ایک بار کانگریس کے ایک جنرل سیکرٹری دورے پر آئے۔ اُنہوں نے گجرال سے فرمائش کی کہ بحیثیت ایک پارٹی کے جنرل سیکرٹری انہیں بھی وہی پروٹوکول دیا جائے جو سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کو دیا جاتا ہے۔ (کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری، سوویت روس کا سب سے طاقتور آدمی اور وہاں کا سربراہ ہوتا تھا جب کہ ہمارے ہاں کی سیاسی پارٹیوں کا جنرل سیکرٹری ایک بے اختیار، بے وقعت، جی حضوریا ہوتا ہے)۔
 
روایت حدیث میں اسناد کی اہمیت
ڈاکٹر محمد طاہر القادری
سب سے پہلے سند و متن حدیث کے لفظی و اصطلاحی معانی پر روشنی ڈالی گئی۔
آیات قرآنی، احادیث نبوی اور پھر آثار و اقوال صحابہ و محدثین رضوان اللہ علیھم اجمعین کی روشنی واضح کیا گیا کہ روایت حدیث میں سند کی اہمیت ہے۔ پھر سماع حدیث میں سند کا طلب کرنا۔
 
Top