آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

جاسمن

لائبریرین
کچھ وجوہات کی بنا پر ہی ایسا سوچا تھا۔ خیر اچھی بات ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں کافی پڑھا شیلڈن کو۔

ابھی دوبارہ دیکھا تو تین میں سے ایک شیلڈن کا ناول ہے باقی دونوں اس کے نام پر وفات کے بعد کسی اور نے لکھے ہیں۔
ہاں میں نے بھی ناولز ملنے کے بعد غور کیا تھا۔ لیکن کیا ایسے بھی ہوسکتا ہے؟
 

زیک

مسافر
آج کل تو یہ عام سی بات ہے۔ السٹئیر مکلین کے بھی آٹھ دس ناولوں کے بعد ان کے نام سے دوسرے لوگوں نے ناول لکھے۔
کبھی کبھی اس کا نتیجہ اچھا بھی نکلتا ہے۔ جب رابرٹ جارڈن دا ویل آف ٹائم سیریز ختم کئے بغیر فوت ہو گیا تو اسے برینڈن سینڈرسن نے خوب مکمل کیا
 

جاسمن

لائبریرین
آج کل تو یہ عام سی بات ہے۔ السٹئیر مکلین کے بھی آٹھ دس ناولوں کے بعد ان کے نام سے دوسرے لوگوں نے ناول لکھے۔
ہاں سچ۔۔۔جاسوسی ڈائجسٹ اور سسپینس ڈائجسٹ میں بھی کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ آج کل کاشف زبیر کا ادھورا ناول بھی کوئی اور لکھ رہا ہے۔ نام نہیں لکھا لیکن اگر وہ پہلے سے ان دو ڈائجسٹوں میں لکھتا رہا ہے تو آگے جا کے پہچانا جائے گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
کیوں؟
جاسوسی، سسپینس،زبردست ذہانت، ایڈوینچر۔۔۔کیا یہ سب کچھ نہیں ہے سڈنی شیلڈن کے ناولز میں؟
اپنے بڑے بھائی سے مجھے میٹرک میں عادت پڑی تھی سسپینس اور جاسوسی ڈائجسٹ پڑھنے کی جو کہ اب تک قائم ہے۔ بی اے کے پہلے سال نواب سے ہٹ کے پہلا انگریزی ناول پڑھا جو گوالمنڈی چوک پہ پرانی کتابوں کی دکان سے لیا تھا۔ اس وقت مجھے کچھ نہیں پتہ تھا انگریزی ناولز اور ناولز نگاروں کے بارے میں۔(اب بھی نہیں پتہ:D) تو میرے ہاتھ جو ناول لگا، وہ تھا۔
If Tomorrow Comes
مجھے ذاتی طور پہ زبردست ذہانت، سسپینس، اور ایڈوینچر سے بھرپور ناولز بہت پسند ہیں۔ ان دونوں ڈائجسٹوں میں چند ناولز بھی آجاتے ہیں۔ اور خاص طور پہ اگر کوئی ترجمہ آجائے انگریزی ناول کا تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دفتر یا گاڑی میں رکھیں۔ بس ایک کام نہ کریں کہ ٹائلیٹ کی ٹنکی کو پانی سے خالی کر کے اس میں نہ چھپائیں کہ کوئی نہ کوئی پانی کھول دے گا اور کتابیں مکمل بھیگ جائیں گی
رکھنے کے لیے تھوڑی تھیں، پڑھنے کے لیے تھیں سو دھڑلے سے لے گیا گھر کہ جو ہوگا دیکھ لیں گے۔ زیادہ پریشانی ہوئی بھی نہیں، پرانی کتابیں تھیں سو میں نے بھی قیمتیں پرانے زمانوں کی بتا کر جان چھڑا لی۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
کئی برس کے بعد کوئی اردو کتاب پڑھنی شروع کی ہے اور زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ ایک نہایت ہی عمدہ کتاب پڑھنے کو ملی ہے اور افسوس یہ ہوا کہ اردو ادب کی اتنی اچھی کتاب اتنے عرصے تک میرے ہاتھ نہیں لگی۔

"سرگزشت"، سید ذوالفقار علی شاہ بخاری (المعروف زیڈ اے بخاری) کی خود نوشت ہے۔ (اسی نام سے مولانا عبدالمجید سالک کی خود نوشت بھی کافی مشہور ہے)۔ زیڈ اے بخاری براڈ کاسٹر تھے لیکن ان کی شخصیت میں شعرو ادب و موسیقی کا ایک خاص کردار ہے۔ آپ پطرس بخاری (سید احمد شاہ بخاری) کے چھوٹے بھائی تھے۔1935 میں انڈیا میں ریڈیو کی داغ بیل ڈالی گئی تو دونوں بھائی ریڈیو سے منسلک ہو گئے، زیڈ اے بخاری دہلی کے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے اور پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈپٹی کنڑولر، اس پر دیوان سنگھ مفتون نے پھبتی اڑا دی کہ بی بی سی اصل میں بخاری برادرز کارپوریشن ہے۔ بعد میں پطرس تو کہیں اور چلے گئے لیکن زیڈ اے بخاری ساری زندگی ریڈیو ہی سے منسلک رہے، پاکستان بننے کے بعد آپ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے۔

ریڈیو (انڈیا، پاکستان) سے وابستہ اردو بولنے والے براڈ کاسٹرز اور صدا کاروں کے ٹکسالی اردو لہجے اور شین قاف کی مثال ساری دنیا میں دی جاتی ہے اور یہ سب زیڈ اے بخاری کے مرہونِ منت ہے۔زیڈ اے بخاری کو اردو، فارسی، عربی، انگریزی، پشتو اور پنجابی پر عبور حاصل تھا۔ اور اس کا اندازہ ان کی تحریر سے بھی ہوتا ہے۔ انتہائی شگفتہ، رواں، سجا سجایا، موتی جڑا ہوا قسم کا اندازِ تحریر ہے اور کہیں کہیں اس میں پطرس بخاری کی جھلک بھی صاف نظر آتی ہے۔چھوٹے سا چھوٹا واقعہ بھی اس قدر دلچسپی سے لکھا ہے کہ بس سبحان اللہ۔ اس کتاب میں ایک چھوٹی سی قباحت یہ محسوس ہوئی کہ یہ یاد داشتیں اول اول ساٹھ کی دہائی میں چونکہ ایک مجلے کے لیے قسط وار لکھی گئی تھیں سو ہر قسط (کتاب میں باب) کے شروع میں کہیں مختصر کہیں طویل تمہید یا جمعلہ معترضہ در آتا ہے۔

کل شام میرے ہاتھ یہ کتاب آئی اور میں قریب ایک چوتھائی پڑھ گیا۔ چھٹی ہوتی تو شاید ایک ہی نشست میں کتاب ختم کرتا، بہرحال اگلی دو چار شامیں بخاری صاحب کے نام۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب بھی میری ان کتابوں میں شامل ہو گئی ہے جو میں ہر دو چار پانچ دس سال بعد پھر سے پڑھتا ہوں۔ :)

42937310._SY475_.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کلیات پطرس اٹھائی تھی رات۔ پطرس کی بیگم لیاقت علی خان کے لیے لکھی گئی تقاریر از سرِ نو پڑھیں۔ "اردو کی آخری کتاب" کے نام سے جو کچھ لکھا وہ پڑھا۔ اور پھر نیند کی دریا میں ڈوب گئے۔ صبح اٹھے تو کتاب پہلو کے نیچے تھی۔ بڑے عرصہ دراز بعد کتاب کے ساتھ ایسی نیند آئی۔ صبح اٹھ کر رات جو کچھ پڑھا تھا۔ دوبارہ پڑھا۔
 

زیک

مسافر
کلیات پطرس اٹھائی تھی رات۔ پطرس کی بیگم لیاقت علی خان کے لیے لکھی گئی تقاریر از سرِ نو پڑھیں۔
میں نے اسے یوں پڑھا: (پطرس کی بیگم) (لیاقت علی خان)

ڑے عرصہ دراز بعد کتاب کے ساتھ ایسی نیند آئی۔ صبح اٹھ کر رات جو کچھ پڑھا تھا۔ دوبارہ پڑھا۔
پھر نیند آئی؟
 

محمد وارث

لائبریرین
الطاف گوہر کی لکھی، جنرل ایوب خان کی سیاسی سوانح عمری، جو پہلی بار 1993ء میں چھپی تھی۔ اور پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔
Ayub Khan: Pakistan's First Military Ruler
41F%2B0m3KU8L.jpg

الطاف گوہر بیوروکریٹ تھے اور ایوب خان کے دور میں سیکرٹری اطلاعات و نشریات تھے۔ ایوب دور کا بدنامِ زمانہ کالا قانون 'پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس" انہی کے ذہن کی اختراع سمجھا جاتا ہے (گو الطاف گوہر اس الزام کو ماننے سے انکاری ہیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو اس قانون کو نرم کیا، یہ بھی سنا ہے کہ بعد میں وہ اس قانون پر معذرت بھی کرتے رہے)۔ جنرل یحییٰ نے اپنے مارشل لاء کے بعد الطاف گوہر کو سرکاری نوکری سے فارغ کر دیا تھا اور ایوب خان کے عطا کردہ سارے سرکاری اعزار بھی چھین لیے۔ بھٹو دور میں 'ڈان' کے ایڈیٹر تھے اور بھٹو نے ان کو جیل میں بھی ڈالا۔ ایوب دور کے دوسرے بیوروکریٹس کی طرح الطاف گوہر بھی آخری عمر میں 'صوفی' بن گئے تھے۔

کتاب میں الطاف گوہر نے ایوب خان کی سیاسی سوانح تفصیل سے بیان کی ہے۔ ایوب دور کے ہر اہم واقعے پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اپنی کتاب کو انہوں نے تقسیم سے پہلے سے 'کیبنٹ مشن' سے شروع کیا ہے اور پھر تقسیم، مسلم لیگ کا دورِ حکومت، گورنر جنرلوں کا دور، مسلم لیگ کی سیاسی افراتفری، ایوب خان کا پاکستان آرمی کو استوار کرنا، کولڈ وار میں امریکہ کا ساتھ دینا اور فوجی مدد لینا، مشرقی پاکستان کی صورتحال، 58ء کا مارشل لاء، ایوب کی بنیادی جمہوریت، 62ء کا آئین، 65ء کا صدارتی انتخاب، 65ء ہی کی جنگ اور تاشقند، ایوب کی خارجہ و داخلہ پالسیاں، ایوب خان کی اصلاحات، اور پھر زوال، غرض ہر موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔

ضخیم کتاب ہے اور ابھی پڑھنی شروع کی ہے سو اگلے کچھ ہفتے اسی کی معیت میں گزریں گی، تھوڑے ہی سے مطالعے سے کافی معلومات میں اضافہ ہوا، جیسے کہ:

-عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ 1958ء کا مارشل لاء صدر اسکندر مرزا نے لگایا تھا لیکن مصنف کا کہنا ہے کہ یہ جنرل ایوب کی اپنی خواہش تھی لیکن وہ محتاط کھیل رہے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ سارا الزام اسکندر مرزا پر آئے (اور یہی ہوا)۔ مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل ایوب نے ایک 'بیک اپ' منصوبہ بھی بنایا ہوا تھا کہ اگر اسکندر مرزا کی مارشل لا لگانے کی کوشش ناکام ہو جائے تو کس طرح ایوب خان نے اپنے آپ اور فوج کو بچانا ہے اور یہی ظاہر کرنا کہ وہ اسکندر مرزا کے ساتھ نہیں۔

-1965ء کی جنگ کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ ایوب خان کو آپریشن جبرالٹر کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا اور غلط معلومات دی گئی تھیں (جنرل ایوب کو غلط معلومات دینے کے بارے میں مصنف موصوف خود بھی بہت بدنام تھے، اور یہ مشہور تھا کہ جنرل ایوب کے لیے الگ اخباریں پرنٹ کی جاتی تھیں)۔ مصنف کے بقول، فوجی جنرلوں اور بھٹو نے مل کر جنگ کا سارا ملبہ ایوب پر ڈال دیا اور تاشقند کے بعد یہ مشہور کر دیا کہ فوج نے جو جنگ میدان میں (فرضی طور پر) جیتی تھی وہ ایوب نے مذاکرات میں ہار دی اور یہیں سے ایوب کا زوال شروع ہوا۔

-جنرل ایوب کی کابینہ کے ایک وزیر تھے جنہوں نے ایوب خان کو پہلے پاکستان کے ابراہم لنکن کا خطاب دیا اور بعد میں صلاح دین ایوبی کا۔ (مصنف نے وزیر کا نام بھی لکھا ہے لیکن اگر وہ نہ بھی لکھا جائے تو سب جان جائیں کہ وہ کون تھے کہ ممدوح تو عرصہ ہوا فوت ہو چکے لیکن مادح آج تک زندہ ہیں)۔ :)
 

جان

محفلین
الطاف گوہر کی لکھی، جنرل ایوب خان کی سیاسی سوانح عمری، جو پہلی بار 1993ء میں چھپی تھی۔ اور پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔
Ayub Khan: Pakistan's First Military Ruler
41F%2B0m3KU8L.jpg

الطاف گوہر بیوروکریٹ تھے اور ایوب خان کے دور میں سیکرٹری اطلاعات و نشریات تھے۔ ایوب دور کا بدنامِ زمانہ کالا قانون 'پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس" انہی کے ذہن کی اختراع سمجھا جاتا ہے (گو الطاف گوہر اس الزام کو ماننے سے انکاری ہیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو اس قانون کو نرم کیا، یہ بھی سنا ہے کہ بعد میں وہ اس قانون پر معذرت بھی کرتے رہے)۔ جنرل یحییٰ نے اپنے مارشل لاء کے بعد الطاف گوہر کو سرکاری نوکری سے فارغ کر دیا تھا اور ایوب خان کے عطا کردہ سارے سرکاری اعزار بھی چھین لیے۔ بھٹو دور میں 'ڈان' کے ایڈیٹر تھے اور بھٹو نے ان کو جیل میں بھی ڈالا۔ ایوب دور کے دوسرے بیوروکریٹس کی طرح الطاف گوہر بھی آخری عمر میں 'صوفی' بن گئے تھے۔

کتاب میں الطاف گوہر نے ایوب خان کی سیاسی سوانح تفصیل سے بیان کی ہے۔ ایوب دور کے ہر اہم واقعے پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اپنی کتاب کو انہوں نے تقسیم سے پہلے سے 'کیبنٹ مشن' سے شروع کیا ہے اور پھر تقسیم، مسلم لیگ کا دورِ حکومت، گورنر جنرلوں کا دور، مسلم لیگ کی سیاسی افراتفری، ایوب خان کا پاکستان آرمی کو استوار کرنا، کولڈ وار میں امریکہ کا ساتھ دینا اور فوجی مدد لینا، مشرقی پاکستان کی صورتحال، 58ء کا مارشل لاء، ایوب کی بنیادی جمہوریت، 62ء کا آئین، 65ء کا صدارتی انتخاب، 65ء ہی کی جنگ اور تاشقند، ایوب کی خارجہ و داخلہ پالسیاں، ایوب خان کی اصلاحات، اور پھر زوال، غرض ہر موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔

ضخیم کتاب ہے اور ابھی پڑھنی شروع کی ہے سو اگلے کچھ ہفتے اسی کی معیت میں گزریں گی، تھوڑے ہی سے مطالعے سے کافی معلومات میں اضافہ ہوا، جیسے کہ:

-عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ 1958ء کا مارشل لاء صدر اسکندر مرزا نے لگایا تھا لیکن مصنف کا کہنا ہے کہ یہ جنرل ایوب کی اپنی خواہش تھی لیکن وہ محتاط کھیل رہے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ سارا الزام اسکندر مرزا پر آئے (اور یہی ہوا)۔ مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل ایوب نے ایک 'بیک اپ' منصوبہ بھی بنایا ہوا تھا کہ اگر اسکندر مرزا کی مارشل لا لگانے کی کوشش ناکام ہو جائے تو کس طرح ایوب خان نے اپنے آپ اور فوج کو بچانا ہے اور یہی ظاہر کرنا کہ وہ اسکندر مرزا کے ساتھ نہیں۔

-1965ء کی جنگ کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ ایوب خان کو آپریشن جبرالٹر کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا اور غلط معلومات دی گئی تھیں (جنرل ایوب کو غلط معلومات دینے کے بارے میں مصنف موصوف خود بھی بہت بدنام تھے، اور یہ مشہور تھا کہ جنرل ایوب کے لیے الگ اخباریں پرنٹ کی جاتی تھیں)۔ مصنف کے بقول، فوجی جنرلوں اور بھٹو نے مل کر جنگ کا سارا ملبہ ایوب پر ڈال دیا اور تاشقند کے بعد یہ مشہور کر دیا کہ فوج نے جو جنگ میدان میں (فرضی طور پر) جیتی تھی وہ ایوب نے مذاکرات میں ہار دی اور یہیں سے ایوب کا زوال شروع ہوا۔

-جنرل ایوب کی کابینہ کے ایک وزیر تھے جنہوں نے ایوب خان کو پہلے پاکستان کے ابراہم لنکن کا خطاب دیا اور بعد میں صلاح دین ایوبی کا۔ (مصنف نے وزیر کا نام بھی لکھا ہے لیکن اگر وہ نہ بھی لکھا جائے تو سب جان جائیں کہ وہ کون تھے کہ ممدوح تو عرصہ ہوا فوت ہو چکے لیکن مادح آج تک زندہ ہیں)۔ :)
لارنس زائرنگ نے بھی غالباً مصنف کے انہی خیالات کو دہرایا ہے۔ 'کشمیر: دا کیس فار فریڈم' میں بھی طارق علی نے اپنے ایک مضمون میں بھٹو سے ملاقاتوں کے احوال میں اس سے وابستہ چند ایک انکشافات کیے ہیں۔
 
Top