الطاف گوہر کی لکھی، جنرل ایوب خان کی سیاسی سوانح عمری، جو پہلی بار 1993ء میں چھپی تھی۔ اور پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔
Ayub Khan: Pakistan's First Military Ruler
الطاف گوہر بیوروکریٹ تھے اور ایوب خان کے دور میں سیکرٹری اطلاعات و نشریات تھے۔ ایوب دور کا بدنامِ زمانہ کالا قانون 'پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس" انہی کے ذہن کی اختراع سمجھا جاتا ہے (گو الطاف گوہر اس الزام کو ماننے سے انکاری ہیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو اس قانون کو نرم کیا، یہ بھی سنا ہے کہ بعد میں وہ اس قانون پر معذرت بھی کرتے رہے)۔ جنرل یحییٰ نے اپنے مارشل لاء کے بعد الطاف گوہر کو سرکاری نوکری سے فارغ کر دیا تھا اور ایوب خان کے عطا کردہ سارے سرکاری اعزار بھی چھین لیے۔ بھٹو دور میں 'ڈان' کے ایڈیٹر تھے اور بھٹو نے ان کو جیل میں بھی ڈالا۔ ایوب دور کے دوسرے بیوروکریٹس کی طرح الطاف گوہر بھی آخری عمر میں 'صوفی' بن گئے تھے۔
کتاب میں الطاف گوہر نے ایوب خان کی سیاسی سوانح تفصیل سے بیان کی ہے۔ ایوب دور کے ہر اہم واقعے پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اپنی کتاب کو انہوں نے تقسیم سے پہلے سے 'کیبنٹ مشن' سے شروع کیا ہے اور پھر تقسیم، مسلم لیگ کا دورِ حکومت، گورنر جنرلوں کا دور، مسلم لیگ کی سیاسی افراتفری، ایوب خان کا پاکستان آرمی کو استوار کرنا، کولڈ وار میں امریکہ کا ساتھ دینا اور فوجی مدد لینا، مشرقی پاکستان کی صورتحال، 58ء کا مارشل لاء، ایوب کی بنیادی جمہوریت، 62ء کا آئین، 65ء کا صدارتی انتخاب، 65ء ہی کی جنگ اور تاشقند، ایوب کی خارجہ و داخلہ پالسیاں، ایوب خان کی اصلاحات، اور پھر زوال، غرض ہر موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔
ضخیم کتاب ہے اور ابھی پڑھنی شروع کی ہے سو اگلے کچھ ہفتے اسی کی معیت میں گزریں گی، تھوڑے ہی سے مطالعے سے کافی معلومات میں اضافہ ہوا، جیسے کہ:
-عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ 1958ء کا مارشل لاء صدر اسکندر مرزا نے لگایا تھا لیکن مصنف کا کہنا ہے کہ یہ جنرل ایوب کی اپنی خواہش تھی لیکن وہ محتاط کھیل رہے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ سارا الزام اسکندر مرزا پر آئے (اور یہی ہوا)۔ مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل ایوب نے ایک 'بیک اپ' منصوبہ بھی بنایا ہوا تھا کہ اگر اسکندر مرزا کی مارشل لا لگانے کی کوشش ناکام ہو جائے تو کس طرح ایوب خان نے اپنے آپ اور فوج کو بچانا ہے اور یہی ظاہر کرنا کہ وہ اسکندر مرزا کے ساتھ نہیں۔
-1965ء کی جنگ کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ ایوب خان کو آپریشن جبرالٹر کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا اور غلط معلومات دی گئی تھیں (جنرل ایوب کو غلط معلومات دینے کے بارے میں مصنف موصوف خود بھی بہت بدنام تھے، اور یہ مشہور تھا کہ جنرل ایوب کے لیے الگ اخباریں پرنٹ کی جاتی تھیں)۔ مصنف کے بقول، فوجی جنرلوں اور بھٹو نے مل کر جنگ کا سارا ملبہ ایوب پر ڈال دیا اور تاشقند کے بعد یہ مشہور کر دیا کہ فوج نے جو جنگ میدان میں (فرضی طور پر) جیتی تھی وہ ایوب نے مذاکرات میں ہار دی اور یہیں سے ایوب کا زوال شروع ہوا۔
-جنرل ایوب کی کابینہ کے ایک وزیر تھے جنہوں نے ایوب خان کو پہلے پاکستان کے ابراہم لنکن کا خطاب دیا اور بعد میں صلاح دین ایوبی کا۔ (مصنف نے وزیر کا نام بھی لکھا ہے لیکن اگر وہ نہ بھی لکھا جائے تو سب جان جائیں کہ وہ کون تھے کہ ممدوح تو عرصہ ہوا فوت ہو چکے لیکن مادح آج تک زندہ ہیں)۔