لیفٹینٹ جنرل فیض علی چشتی کی کتاب
Betrayals Of Another Kind: Islam, Democracy And The Army In Pakistan
جنرل فیض علی چشتی، 1977ء کے مارشل لا کے ایک انتہائی اہم کردار ہیں۔ ٹیک اوور کے وقت روالپنڈی کور کے کمانڈر تھے اور "آپریشن فیئر پلے" کا منصوبہ بنانا اور اس پر عمل کروانا انہی کی ذمہ داری تھی۔ 1980ء میں ریٹائر ہو گئے اور جنرل ضیا الحق سے ان کی راہیں جدا ہو گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء خود ان سے خائف تھے اور ڈر تھا کہ کہیں ان کو ہی نہ فارغ کر دیں، اس لیے جنرل ضیا نے ان سے ٹیک اوور کروانے کے بعد مارشل لا ایڈمینسٹریشن میں ان کو کوئی عہدہ نہیں دیا تھا بلکہ دو تین غیر اہم سی وزارتیں ان کے حوالے کی گئی تھیں۔ جنرل ضیا نے سی ایم ایل اے کی حیثیت سے اپنے ایم ایل اے، ڈی ایم ایل اے اور ایس ایم ایل اے سب ایسے فوجی افسران کو بنایا جن پر مکمل اعتماد تھا جیسے جنرل سوار خان، جنرل فضل حق، جنرل جہاں داد خان، جنرل کے ایم عارف وغیرہ اور جنرل فیض علی چشتی کو اس انتہائی اہم اور "مالکِ کُل" دائرے سے باہر رکھا جس کا جنرل چشتی کو بہت رنج تھا اور اسی وجہ سے اپنی ریٹائرمنٹ (1980ء) کے کچھ عرصے بعد جنرل ضیاء پر تنقید شروع کر دی تھی۔ جنرل چشتی پر سے جنرل ضیا کا اعتبار اس حد تک اٹھ چکا تھا کہ جنرل چشتی کے زیر کمان 111 بریگیڈ (جو کہ اسلام آباد اور رالپنڈی کی سب سے اہم فارمیشن ہے) کا نیا بریگیڈیر، جنرل چشتی کے مشورے اور حمایت کے بغیر اپنے ایک پرانے ساتھی اور ماتحت بریگیڈیر (بعد میں میجر جنرل) خواجہ راحت لطیف کو تعینات کر دیا اور اس کو ایس ایم ایل اے بنا کر ایک طرح سے جنرل چشتی کی کمان سے باہر بھی کر دیا۔ بریگیڈیر راحت نے ایک موقع پر جنرل چشتی کو صاف کہہ دیا تھا کہ میں مارشل لا کی ذمہ داریوں میں آپ کو جواب دے نہیں ہوں جس پر جنرل چشتی سوائے سیخ پا ہونے کے کچھ بھی نہ کر سکا۔ جنرل چشتی کا فرمانا ہے کہ جنرل ضیا نے جان بوجھ کر ان کی کردار کشی کی اور بھٹو کو پھانسی سے پہلے جیل میں مار پیٹ کرنے کا الزام بھی ان پر جنرل ضیا نے غلط طور پر مشہور کیا تھا تا کہ پی پی کے ورکروں کا غصہ جنرل ضیا سے ہٹ کر جنرل چشتی کی طرف ہو جائے۔
یہ کتاب اس ڈائڑیکٹ ڈاؤنلوڈ ربط سے اتاری جا سکتی ہے لیکن اس میں رموز و اوقاف کی بے شمار غلطیاں ہیں۔
انہی واقعات کے متعلق جنرل فیض علی چشتی کا ایک انٹرویو: