آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

جہانگیر کا ہندوستان ہم نے پڑھ رکھی ہے۔ اب یہ اکبر والا ہندوستان جہانگیر کے ہندوستان سے کتنا مختلف ہے اس کا ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ :)

چلیں پھر تو آپ سے اس موضوع پر خوب اچھی گفتگو رہے گی۔ میرا ارادہ ہے کہ اکبر کے ہندوستان پر ایک لڑی کھولوں یا اگر پہلے ہی کھلی ہے تو اس میں مراسلہ پوسٹ کروں۔ اکبر فی الحال تو ایک شاطر بادشاہ دکھائی دے رہا ہے کہ جو اپنی حکومت بڑھانے کے ساتھ تلاش حق میں ہر ہر مذہب کے جید علماء کی ناز برداریاں کر رہا ہے جس سے انکو یہ لگتا ہے کہ وہ اسی مذہب کا ہے یا جلد تبدیلی مذہب کا اعلان کرے گا۔ :)
 
السلام علیکم!
بہت خوبصورت سلسلہ ہے،ماشاءاللہ۔دینی اور دنیوی علم میں اضافہ کا باعث بنے گا ان شاء اللہ۔
میں آجکل ڈاکٹر مصطفےٰخاں صاحب کی لکھی ہوئی "اقبال اور قرآن "پڑھ رہی ہوں۔
ایک شعر منتخب کیا ہے؛
اقبالؒ اور قرآن
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت ک۔دۂ صفات میں
(بالِ جبریل۔۔ص 297)
اللہ کو اللہ ہی کی خاطر چاہنے والاجب اسکے حریم میں پہہنچتا ہے تو ایک شور اٹھتا ہےکہ کیا ایسا بھی کوئی چاہنے والا ہے جو صفات کی وجہ سے نہیں بلکہ ذات کی وجہ سے مجھے چاہتا ہے؟اور عالمِ صفات میں بھی ایک ہلچل مچ جاتی ہے۔کہ صفات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یہ چاہنے والاسیدھا حریمِ ذات میں پہنچ رہا ہے۔یہ ایک خاس الخاص موحد کی شان ہے۔
ھُوَاللہُ رَبِّیْ وَلَآاُشْرِکُ بِرَبِْیْ اَحَدا٭
(سورۃ الکھف:::38)
ترجمہ::وہ اللہ ہی میرا رب ہے۔اور میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں ٹھہراتا۔
 
السلام علیکم!
بہت خوبصورت سلسلہ ہے،ماشاءاللہ۔دینی اور دنیوی علم میں اضافہ کا باعث بنے گا ان شاء اللہ۔
میں آجکل ڈاکٹر مصطفےٰخاں صاحب کی لکھی ہوئی "اقبال اور قرآن "پڑھ رہی ہوں۔
ایک شعر منتخب کیا ہے؛
اقبالؒ اور قرآن
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت ک۔دۂ صفات میں
(بالِ جبریل۔۔ص 297)
اللہ کو اللہ ہی کی خاطر چاہنے والاجب اسکے حریم میں پہہنچتا ہے تو ایک شور اٹھتا ہےکہ کیا ایسا بھی کوئی چاہنے والا ہے جو صفات کی وجہ سے نہیں بلکہ ذات کی وجہ سے مجھے چاہتا ہے؟اور عالمِ صفات میں بھی ایک ہلچل مچ جاتی ہے۔کہ صفات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یہ چاہنے والاسیدھا حریمِ ذات میں پہنچ رہا ہے۔یہ ایک خاس الخاص موحد کی شان ہے۔
ھُوَاللہُ رَبِّیْ وَلَآاُشْرِکُ بِرَبِْیْ اَحَدا٭
(سورۃ الکھف:::38)
ترجمہ::وہ اللہ ہی میرا رب ہے۔اور میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں ٹھہراتا۔

وعلیکم السلام۔ ذات حریم تک پہنچنے والے کسی غیر مرد نبی کو آپ جانتی ہیں؟
 
وعلیکم السلام۔ ذات حریم تک پہنچنے والے کسی غیر مرد نبی کو آپ جانتی ہیں؟
غیر مرد نبی؟کچھ سمجھی نہیں۔
اللہ کو اسکی رحمت اور رحمانیت کی پرواہ کیے بغیر چاہنا کیونکہ اسکی ذاتِ واحد ہے ہی چاہے جانے کے قابل۔(عبادت کے لائق)یہی بندگی کی معراج ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اٰیک مدت مدید کے بعد دوپہر کے وقت قدرتی روشنی میں مستقل اور دلجمعی کے ساتھ مطالعے کا موقع اس لاک ڈاؤن میں ملا تو اس کے لیے میں نے کتاب بھی ویسی ہی ڈھونڈنی چاہی یعنی جو پڑھے ہوئے بھی دہائیاں گزر گئی ہوں، ضخیم بھی ہو اور اردو بھی ہو سو علامہ شبلی نعمانی اور سید سلمان ندوی کی شہرہ آفاق "سیرۃ النبی" پڑھ رہا ہوں، الحمد للہ۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
چلیں پھر تو آپ سے اس موضوع پر خوب اچھی گفتگو رہے گی۔ میرا ارادہ ہے کہ اکبر کے ہندوستان پر ایک لڑی کھولوں یا اگر پہلے ہی کھلی ہے تو اس میں مراسلہ پوسٹ کروں۔ اکبر فی الحال تو ایک شاطر بادشاہ دکھائی دے رہا ہے کہ جو اپنی حکومت بڑھانے کے ساتھ تلاش حق میں ہر ہر مذہب کے جید علماء کی ناز برداریاں کر رہا ہے جس سے انکو یہ لگتا ہے کہ وہ اسی مذہب کا ہے یا جلد تبدیلی مذہب کا اعلان کرے گا۔ :)

ایک مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اکبر کے معاملات کافی خراب تھے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اکبر کے معاملات کافی خراب تھے۔
اکبر کے سیکولر یعنی سیاسی معاملات انتہائی کامیاب تھے اور یہ بھی کہ مسلمان حکمرانوں میں قرنِ اول میں خلافتِ راشدہ کے بعد ہی سے سیکولر اور مذہبی معاملات الگ الگ ہو گئے تھے۔
 
ایک مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اکبر کے معاملات کافی خراب تھے۔

کتاب میں ایک قصہ ہے کہ پادری سے کہتا ہے کہ ایک عالم کی تفسیر مجھے پسند نہیں سو آپ مسلمانوں کے مقابلے پر آگ پر چلنے کا مقابلہ قبول کر لیں میں اسے مجبور کر دوں گا۔ پادری نے انکار کر دیا اور اس طرح معاملہ ختم ہوا۔
 

جاسم محمد

محفلین
چلیں پھر تو آپ سے اس موضوع پر خوب اچھی گفتگو رہے گی۔ میرا ارادہ ہے کہ اکبر کے ہندوستان پر ایک لڑی کھولوں یا اگر پہلے ہی کھلی ہے تو اس میں مراسلہ پوسٹ کروں۔ اکبر فی الحال تو ایک شاطر بادشاہ دکھائی دے رہا ہے کہ جو اپنی حکومت بڑھانے کے ساتھ تلاش حق میں ہر ہر مذہب کے جید علماء کی ناز برداریاں کر رہا ہے جس سے انکو یہ لگتا ہے کہ وہ اسی مذہب کا ہے یا جلد تبدیلی مذہب کا اعلان کرے گا۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اکبر کے معاملات کافی خراب تھے۔
دینَ الٰہی (فارسی: دین الهی؛ انگریزی: "Religion of God")، مغل بادشاہ، اکبر نے اپنے دور میں، ایک نئے مذہب کی شروعات کی، جس کا نام دین الٰہی رکھا۔ اس مذہب کا مقصد، تمام مذاہب والوں کو یکجا کرنا اور، ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ اکبر کے مطابق، دین اسلام، ہندو مت، مسیحیت، سکھ مذہب اور زرتشت مذاہب کے، عمدہ اور خالص اُصولوں کو اکھٹا کر کے ایک نیا دینی تصور قائم کرنا، جس سے رعایا میں نا اتفاقیاں دور ہوں اور، بھائی چارگی قائم ہو۔

اکبر دیگر مذاہب کے ساتھ خوش برتاؤ کرنے اور، دیگر مذاہب کی قدر کرنے کا مقصد رکھتا تھا۔ اس مذہب کے فروغ کے لیے اکبر نے فتح پور سکری شہر میں ایک عمارت کی تعمیر کی جس کا نام عبادت خانہ رکھا۔ اس عبادت خانے میں تمام مذہب کے لوگ جمع ہوتے اور، مذہبی فلسفہ پر بحث و مباحثہ کرتے۔

ان بحث و مباحثہ کے نتائج میں اکبر نے یہ فیصلہ کیا کہ، حق، کسی ایک مذہب کا ورثہ نہیں ہے، بلکہ ہر مذہب میں حق اور سچائی پائی جاتی ہی۔

دین الٰہی، اپنی مخلوط تصورات کو اور دین کے تحت اپنے فکر و فلسفہ کو عملی صورت میں، دین الٰہی پیش کیا۔ اس نئی فکر کے مطابق، اللہ کا وجود نہیں ہے اور نبیوں کا وجود بھی نہیں ہے۔ تصوف، فلسفہ اور فطرت کی عبادت ہی عین مقصد ہے۔ اس نئے مذہب کو اپنانے والوں میں سے دم آخر تک بیربل رہا۔ اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک راجہ مان سنگھ جو سپاہ سالار بھی تھا، دین الٰہی کی دعوت ملنے پر کہا کہ؛ میں مذاہب کی حیثیت سے ہندو مت اور اسلام ہی کی نشان دہی کرتا ہوں، کسی اور مذہب کو نہیں۔ مباد شاہ کی تصنیف شدہ کتاب دبستان مذاہب کے مطابق، اس دین الٰہی مذہب کے پیرو کار صرف 19 رہے۔ اور رفتہ رفتہ ان کی تعداد بھی کم ہو گئی۔

دین الٰہی ایک فطری رواجوں پر مبنی مذہب تھا، اس میں، شہوت، غرور و مکر ممنوع تھا، محبت شفقت اور رحیمیت کو زیادہ ترجیح دی گئی۔ یوں کہا جائے کہ یہ ایک روحانی فلسفہ تھا۔ اس میں روح کو زیادہ اہمیت دی گیی۔ جانوروں کو غذا کے طور پر کھانا منع تھا۔ نہ اس کی کوئی مقدس کتاب تھی اور نہ ہی کوئی مذہبی رہنما اور نہ اس کے کوئی وارث۔
دین الٰہی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
 

جاسم محمد

محفلین
اکبر کے سیکولر یعنی سیاسی معاملات انتہائی کامیاب تھے اور یہ بھی کہ مسلمان حکمرانوں میں قرنِ اول میں خلافتِ راشدہ کے بعد ہی سے سیکولر اور مذہبی معاملات الگ الگ ہو گئے تھے۔
اکبر ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں میں سے واحد بادشاہ تھا جسے خطے کے تمام مذاہب و ادیان میں آج بھی مثبت الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا بنایا ہوا دین الٰہی تو نہ چلا سکا البتہ اس نے اپنے دور حیات میں ہندوستان کی مختلف مذہبی کمیونیٹیز کے مابین عملا ہم آہنگی اور بھائی چارہ پیدا کر لیا تھا ۔ آج بھی خطے میں بڑھتی مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے ایک اکبر کی ضرورت ہے۔
 
اکبر کے سیکولر یعنی سیاسی معاملات انتہائی کامیاب تھے اور یہ بھی کہ مسلمان حکمرانوں میں قرنِ اول میں خلافتِ راشدہ کے بعد ہی سے سیکولر اور مذہبی معاملات الگ الگ ہو گئے تھے۔

یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ خلافت راشدہ کے بعد صرف خلیفہ وقت رشد و ہدایت کا نمونہ نہ رہا بقیہ تمام امور میں وہ مجبور تھا کہ اسلامی تعلیمات کے تحت فیصلہ کرے۔ اسلامی خلافت یا یوں کہیے سیاست کبھی بھی سیکولر یا لادین نہیں رہی۔ لیکن اس معیار کی بھی نہ رہی جو خلافت راشدہ کے دوران معیار رکھتی تھی۔
 
بار بار گفتگو میں یورپ اور اسلامی ممالک کا تقابل ہوتا رہتا ہے چنانچہ داعیہ پیدا ہوا کہ یورپ کا عروج از ڈاکٹر مبارک علی پڑھی جائے۔

europ%20ka%20urooj.jpg
 
Top