غبارِ خاطر از مولانا ابوالکلام آزاد
نہ جانے کونسویں بار لیکن اب کی بار اپنی بیوی کی فرمائش، جسے کتابوں سے نفرت ہے۔
میں دفتر سے واپس آ کر صوفے پر نیم دراز تھا، تھکا ہوا تھا اور چڑ چڑا ہو رہا تھا، پڑھنے کو بھی کچھ نہیں تھا سو ایک مکالمہ ہوا۔
میں، سامنے والی الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ کوئی کتاب تو دینا۔
محترمہ - کونسی؟
میں- کوئی بھی، آج اپنی پسند کی کتاب نکال دو۔
محترمہ - اچھا، تو پھر پڑھنی پڑھے گی۔
میں - ٹھیک۔ (مجھے ماننے میں کوئی تامل اس وجہ سے نہیں تھا کہ اس الماری میں سبھی میری پسند کی کتابیں ہوتی ہیں)
محترمہ نے کچھ دیر دیکھ کر ایک کتاب نکالی تو وہ غبار خاطر تھی، میں نے لے لی اور پوچھا، یہ کیوں نکالی۔ فرمانے لگیں، کسی مولانا آزاد کی ہے، میں نے سوچا کہ یہ پڑھو گے تو تمھیں بھی چڑ چڑے پن سے آزادی ملے گی اور ہمیں بھی آز١دی ملے گی تمھاری چڑ چڑ سے