محمد بلال اعظم
لائبریرین
بہت خوشی ہو رہی آپ کو محفل پہ دیکھ کے۔ بہت ذکر سنا ہے آپ کا محفل پہ۔
ویلکم بیک زیک بھائی
بہت خوشی ہو رہی آپ کو محفل پہ دیکھ کے۔ بہت ذکر سنا ہے آپ کا محفل پہ۔
کاپی رائٹ کا دھیان رکھتے ہوئےآج ہی یہ کتاب ہاتھ لگی ہے۔۔۔ ۔I am Malala.۔۔۔ اچھا لکھا ہے۔ کیا خیال ہے اپلوڈ کردی جائے؟؟؟؟
کچھ اقتباساتسائیں جی ایم سید کی کتاب "سندھو دیش" (ترجمہ) زیر مطالعہ ہے۔
کچھ اقتباسات
(مترجم: نعیم اللہ ملک)اس کتاب کے بعض حصے یقینا قارئین کی دل آزاری کا باعث بنیں گے جس پر ہم ان سے معذرت خواہ ہیں۔
جی ایم سید ایک متنازعہ شخصیت تھے اور اسلام، اسلامی شخصیات اور قابل احترام ہستیوں کے بارے میں ان کی رائے متنازعہ فیہ اور مختلف ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ روزنامہ انتخاب کراچی کے نومبر - دسمبر 1994 اور جنوری 1995 کے شماروں میں قسط وار شائع ہو چکا ہے
۔۔۔۔۔ 1950 کی دہائی میں سندھ میں آنے والے نئے اور قدیم باشندوں کے درمیان دو متضاد تہذیبوں کا ٹکراؤ بھی شروع ہو گیا۔ نئے سندھی سندھ کی ثقافت میں ضم ہونے کے لئے تیار نہیں تھے اور وہ اس احساس برتری میں مبتلا تھے کہ وہ ایک بہتر تہذیب ، زیادہ اچھی زبان اور نمائندہ ثقافت کے وارث ہیں ، جسے بعض لوگ گنگا جمنی تہذیب کا نام بھی دیتے ہیں۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ سندھ کی کی گزشتہ تاریخ میںبیک وقت باہر سے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی نہیں آئی تھی ان حالات میں ہندوستانی باشندوں نے مقامی سانچے میں ڈھلنے سے انکار کر دیا۔ قیام پاکستان کےچند برس بعد میں مہاجرین ، تعداد ، طاقت اور حکومتی سرپرستی کے باعث مسلسل آگے بڑھتے گئے لیکن انھیں پہلا دھچکا اس وقت لگا جب ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں قتل کر دیا گیا اس باغ کو آجکل لیاقت باغ کہا جاتا ہے گو کہ یہ قتل سید اکبر نامی ایک افغان باشندے نے کیا۔ لیکن بعض عناصر نے اس کا الزام اس وقت کے وزیر داخلہ نواب مشتاق احمد گورمانی اور آئی جی پولیس قربان علی خان پر ڈالا۔ بعض ہندوستانی دانشوروں نے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ اس قتل کے پیچھے پنجاب کی سیاسی قیادت و عسکری قوت اور بیوروکریسی کا ہاتھ تھا جو ہندوستان سے آئی ہوئی قیادت کو راستے سے ہٹا دینا چاہتی تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل کے فوری طور پر تو لسانی تناظر میں ایکسپلائٹ کیا گیا لیکن بعد کے برسوں میں یہ کہا گیا کہ اس قتل کی صورت میں پنجاب نے اقتدار پر قبضہ کیا ۔ حالانکہ لیاقت علی خان کے جانشین کے طور پر خواجہ ناظم الدین سامنے آئے جن کا تعلق بنگال سے تھا ۔۔۔ ۔۔۔
ابھی کنڈل کے لئے خریدی ہے امید ہے کہ مطالعہ خوشگوار گذرے گا
Love & Math by Edward Frenkel
ایڈورڈ فرینکل ایک روسی امریکی ریاضی دان ہے۔ ابتدائی عمر میں ریاضی سے محبت دریافت کی۔ یہودی پس منظر رکھنے کی وجہ سے سویت یونین کے اینٹی سیمیٹزم نظام کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہاں تک کہ انتہائی ذہین اور قابل طالبعلم ہونے کے باوجود اس سے ماسکو یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں ایسا بدترین نسلی اور مذہبی امتیاز برتا گیا۔ تاہم یہ سب رکاوٹیں اسے ریاضی میں تعلیم اور تحقیق سے روک نہ سکیں۔ بلکہ آتش عشق تھا کہ بڑھتا چلا گیا۔۔
فرینکل بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے عظیم روسی ریاضی دان اسرائیل گلفینڈ سے شناسائی حاصل کی۔ کیسے اس کے معروف تحقیقی سیمنارز تک دسترس حاصل کی۔ کیسے وہ چھپ کر جنگلہ پھلانگ کر ماسکو یونیورسٹی میں ریاضی کی کلاسز اٹینڈ کرنے پہنچتا۔
کیسے اس نے اپنا پہلا تحقیقی مقالہ شائع کیا۔
اور پھر کیسے وہ وقت آیا جب محض اکیس سال کی عمر میں اس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
اپنی ابتدائی سوانح حیات بیان کرنے کے بعد فرینکل قاری کو جدید ریاضی کے خوبصورت پہلوؤں سے آشنا کرواتا ہے۔ Langlands Program کا ایک مختصر نقشہ کھینچتا ہے۔
کتاب تھوڑی سی پیچیدہ ہے۔ اور ریاضی کی کچھ سمجھ بوجھ ہونا لازمی ہے۔
تاہم اگر آپ ریاضی سے کچھ واقفیت نہیں بھی رکھتے، یا اس بات کا قطعی ادراک نہیں رکھتے کہ جدید ریاضی کیا بلا ہے اور اس میں تحقیق کیسے ہوتی ہے ؟ تو یہ کتاب آپ کے لیے ہے۔
آپ شائد اسے پوری طرح سمجھ نہ سکیں ، لیکن یہ کتاب آپ کے لیے سوچنے کو بہت کچھ چھوڑ جائے گی۔