آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

حسان خان

لائبریرین
سیرِ غزل در ادبیاتِ آذربائجان



سو صفحات سے بھی کم پر مشتمل اس مختصر کتاب میں آذربائجانی ادب میں غزل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ابتداء میں غزل کی مختصر تعریف، اور اس کی عربی اور فارسی ادب میں تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اُس کے بعد اس کا ذکر ہے کہ یہ صنفِ سخن کس طرح فارسی سے آذری ترکی کے ادب میں رائج ہوئی۔ بعدازاں، کلاسیکی آذری کے مشہور شعراء مثلاً فضولی اور نسیمی وغیرہ کی غزلوں کے منتخب اشعار پیش کر کے اُن شاعروں کی انفرادی خصوصیات اور اُن کی شاعری پر تبصرہ درج ہے۔ اس کا بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ کیسے ان کلاسیکی شعراء نے اپنے بعد آنے والے شعراء کو متاثر کیا ہے۔ اصل کتاب جمہوریۂ آذربائجان کی کسی مصنفہ نے آذری زبان میں لکھی تھی، جس کا یہ فارسی ترجمہ ہے۔ مجموعی طور پر کتاب اچھی لگی، کیونکہ کم حجم میں کافی معلومات درج تھیں، اور ترکی ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پسند آئے گی۔ میری نظر میں کتاب میں بس یہ نقص ہے کہ مترجم نے کتاب تو فارسی میں ترجمہ کر دی، لیکن آذری اشعار کا ترجمہ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے آذری سے نابلد لوگوں کے لیے کتاب کی افادیت کم ہو گئی ہے۔

(کلاسیکی آذربائجانی ترکی اور عثمانی ترکی تقریباً ایک ہی زبان ہیں، بس چند الفاظ کے تلفظ میں فرق ہے اور کچھ اسلوب مختلف ہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آج کل میری توجہ اور مطالعے کا محور مشرقی یورپ کا خطۂ بلقان ہے۔ اور اس ضمن میں مجھے انٹرنیٹ پر جو بھی کتب یا مضامین مل سکتے تھے وہ میں نے ڈاؤنلوڈ کر کے رکھ لیے ہیں۔ فی الحال یہ کتاب پڑھنا شروع کر رہا ہوں۔

Kosovo: What Everyone Needs to Know - Tim Judah
4894053.jpg


ابھی کتاب پوری تو نہیں پڑھی، لیکن جتنا بیچ بیچ سے دیکھا ہے، اُس سے معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب میں عثمانی دور سے لے کر آزادی کے اعلان تک کوسووو کے مختصراً احوال درج ہیں۔ کیسے یہاں عثمانیوں کا تسلط قائم ہوا، کیسے یہاں کے لوگ مسلمان ہوئے۔ یوگوسلاویہ دور میں اس خطے پر کیا گزری، سرب اس خطے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، اور اُن کے کیا جذبات اس خطے سے پیوستہ ہیں، البانویوں کے نزدیک اس خطے کا کیا مطلب ہے، کیسے امتدادِ زمانہ سے یہاں آبادی کا تناسب تبدیل ہوتا رہا ہے، یہاں سرب البانوی مناقشہ کیسے شروع ہوا اور کیسے اس میں شدت آتی رہی، جنگ کیوں اور کیسے ہوئی، نسل کشی کی کیفیت، کوسووو لبریشن آرمی کے جنگی جرائم، کوسووو کو آزادی کیسے ملی، اور مستقبل میں یہاں کیا ہونے والا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ اُس کے علاوہ کوسووو کے معاشرے کے متعلق بھی کافی دلچسپ معلومات درج ہیں کہ کیسے یہ لوگ بنیادی طور پر مفتخر مسلمان ہیں مگر پھر بھی فطرتاً سیکولر، مذہب ان کی زندگی اور معاشرے میں کیا کردار ادا کرتا ہے، کوسووو کے البانویوں کی رائے اپنی مذہبی شناخت کے بارے میں کیسی ہے، اُن کی قوم پرستی کس طرز کی ہے، سرب اور البانوی ایک دوسرے کو کیسے تصور کرتے ہیں، کوسووو کا امریکا اور نیٹو سے رشتہ کیسا ہے، پورے معاملے میں یورپی اتحاد کا کردار کیا تھا، دیگر ممالک کیوں اولاً کوسووو کو تسلیم کرنے میں پس و پیش کا شکار رہے اور اس جیسی کئی دیگر دلچسپ معلومات۔۔۔ الغرض، مجھے تو یہ کتاب بہت ہی دلچسپ لگ رہی ہے اور امید ہے کہ بلا توقف پڑھتے ہوئے اسے کل تک ختم کر دوں گا۔ کتاب عام لوگوں کو مدِ نظر رکھ کے لکھی گئی ہے اور حجم بھی کم ہے۔
 
آخری تدوین:

طالوت

محفلین
اس کتاب کے بعض حصے یقینا قارئین کی دل آزاری کا باعث بنیں گے جس پر ہم ان سے معذرت خواہ ہیں۔
جی ایم سید ایک متنازعہ شخصیت تھے اور اسلام، اسلامی شخصیات اور قابل احترام ہستیوں کے بارے میں ان کی رائے متنازعہ فیہ اور مختلف ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ روزنامہ انتخاب کراچی کے نومبر - دسمبر 1994 اور جنوری 1995 کے شماروں میں قسط وار شائع ہو چکا ہے
(مترجم: نعیم اللہ ملک)
۔۔۔۔۔ 1950 کی دہائی میں سندھ میں آنے والے نئے اور قدیم باشندوں کے درمیان دو متضاد تہذیبوں کا ٹکراؤ بھی شروع ہو گیا۔ نئے سندھی سندھ کی ثقافت میں ضم ہونے کے لئے تیار نہیں تھے اور وہ اس احساس برتری میں مبتلا تھے کہ وہ ایک بہتر تہذیب ، زیادہ اچھی زبان اور نمائندہ ثقافت کے وارث ہیں ، جسے بعض لوگ گنگا جمنی تہذیب کا نام بھی دیتے ہیں۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ سندھ کی کی گزشتہ تاریخ میںبیک وقت باہر سے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی نہیں آئی تھی ان حالات میں ہندوستانی باشندوں نے مقامی سانچے میں ڈھلنے سے انکار کر دیا۔ قیام پاکستان کےچند برس بعد میں مہاجرین ، تعداد ، طاقت اور حکومتی سرپرستی کے باعث مسلسل آگے بڑھتے گئے لیکن انھیں پہلا دھچکا اس وقت لگا جب ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں قتل کر دیا گیا اس باغ کو آجکل لیاقت باغ کہا جاتا ہے گو کہ یہ قتل سید اکبر نامی ایک افغان باشندے نے کیا۔ لیکن بعض عناصر نے اس کا الزام اس وقت کے وزیر داخلہ نواب مشتاق احمد گورمانی اور آئی جی پولیس قربان علی خان پر ڈالا۔ بعض ہندوستانی دانشوروں نے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ اس قتل کے پیچھے پنجاب کی سیاسی قیادت و عسکری قوت اور بیوروکریسی کا ہاتھ تھا جو ہندوستان سے آئی ہوئی قیادت کو راستے سے ہٹا دینا چاہتی تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل کے فوری طور پر تو لسانی تناظر میں ایکسپلائٹ کیا گیا لیکن بعد کے برسوں میں یہ کہا گیا کہ اس قتل کی صورت میں پنجاب نے اقتدار پر قبضہ کیا ۔ حالانکہ لیاقت علی خان کے جانشین کے طور پر خواجہ ناظم الدین سامنے آئے جن کا تعلق بنگال سے تھا ۔۔۔ ۔۔۔

(کتاب ابھی زیر مطالعہ ہے )
 

قیصرانی

لائبریرین
Elephant Hunting in Equatorial Africa کو ابھی ختم کیا ہے۔ اب موڈ ہو رہا ہے کہ کچھ سائنس پر توجہ دی جائے، ساگان کی کئی کتب ابھی تک ان پڑھی رکھی ہیں
 

عثمان

محفلین
612d9ocw9VL._BO2,204,203,200_PIsitb-sticker-arrow-click,TopRight,35,-76_AA300_SH20_OU15_.jpg

Love & Math by Edward Frenkel
ایڈورڈ فرینکل ایک روسی امریکی ریاضی دان ہے۔ ابتدائی عمر میں ریاضی سے محبت دریافت کی۔ یہودی پس منظر رکھنے کی وجہ سے سویت یونین کے اینٹی سیمیٹزم نظام کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہاں تک کہ انتہائی ذہین اور قابل طالبعلم ہونے کے باوجود اس سے ماسکو یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں ایسا بدترین نسلی اور مذہبی امتیاز برتا گیا۔ تاہم یہ سب رکاوٹیں اسے ریاضی میں تعلیم اور تحقیق سے روک نہ سکیں۔ بلکہ آتش عشق تھا کہ بڑھتا چلا گیا۔۔
فرینکل بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے عظیم روسی ریاضی دان اسرائیل گلفینڈ سے شناسائی حاصل کی۔ کیسے اس کے معروف تحقیقی سیمنارز تک دسترس حاصل کی۔ کیسے وہ چھپ کر جنگلہ پھلانگ کر ماسکو یونیورسٹی میں ریاضی کی کلاسز اٹینڈ کرنے پہنچتا۔
کیسے اس نے اپنا پہلا تحقیقی مقالہ شائع کیا۔
اور پھر کیسے وہ وقت آیا جب محض اکیس سال کی عمر میں اس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
اپنی ابتدائی سوانح حیات بیان کرنے کے بعد فرینکل قاری کو جدید ریاضی کے خوبصورت پہلوؤں سے آشنا کرواتا ہے۔ Langlands Program کا ایک مختصر نقشہ کھینچتا ہے۔
کتاب تھوڑی سی پیچیدہ ہے۔ اور ریاضی کی کچھ سمجھ بوجھ ہونا لازمی ہے۔
تاہم اگر آپ ریاضی سے کچھ واقفیت نہیں بھی رکھتے، یا اس بات کا قطعی ادراک نہیں رکھتے کہ جدید ریاضی کیا بلا ہے اور اس میں تحقیق کیسے ہوتی ہے ؟ تو یہ کتاب آپ کے لیے ہے۔
آپ شائد اسے پوری طرح سمجھ نہ سکیں ، لیکن یہ کتاب آپ کے لیے سوچنے کو بہت کچھ چھوڑ جائے گی۔
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
'جو رہی سو بے خبری رہی'

اردو کی مشہور خاتون شاعرہ ادا جعفری کی خود نوشت۔ خوبصورت انداز تحریر کے ساتھ اس کتاب میں مصنفہ نے اپنے دلچسپ حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے اور پاکستان کےچند جید ادبی مشاہیر کے ساتھ محافل ادب اور ملکی حالات کے ساتھ ساتھ امریکہ اور دیگر ممالک کے سفر کی تفصیلات بھی قلمبند کی ہیں۔
پرھنے لائق کتاب ہے۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
612d9ocw9VL._BO2,204,203,200_PIsitb-sticker-arrow-click,TopRight,35,-76_AA300_SH20_OU15_.jpg

Love & Math by Edward Frenkel
ایڈورڈ فرینکل ایک روسی امریکی ریاضی دان ہے۔ ابتدائی عمر میں ریاضی سے محبت دریافت کی۔ یہودی پس منظر رکھنے کی وجہ سے سویت یونین کے اینٹی سیمیٹزم نظام کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہاں تک کہ انتہائی ذہین اور قابل طالبعلم ہونے کے باوجود اس سے ماسکو یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں ایسا بدترین نسلی اور مذہبی امتیاز برتا گیا۔ تاہم یہ سب رکاوٹیں اسے ریاضی میں تعلیم اور تحقیق سے روک نہ سکیں۔ بلکہ آتش عشق تھا کہ بڑھتا چلا گیا۔۔
فرینکل بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے عظیم روسی ریاضی دان اسرائیل گلفینڈ سے شناسائی حاصل کی۔ کیسے اس کے معروف تحقیقی سیمنارز تک دسترس حاصل کی۔ کیسے وہ چھپ کر جنگلہ پھلانگ کر ماسکو یونیورسٹی میں ریاضی کی کلاسز اٹینڈ کرنے پہنچتا۔
کیسے اس نے اپنا پہلا تحقیقی مقالہ شائع کیا۔
اور پھر کیسے وہ وقت آیا جب محض اکیس سال کی عمر میں اس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
اپنی ابتدائی سوانح حیات بیان کرنے کے بعد فرینکل قاری کو جدید ریاضی کے خوبصورت پہلوؤں سے آشنا کرواتا ہے۔ Langlands Program کا ایک مختصر نقشہ کھینچتا ہے۔
کتاب تھوڑی سی پیچیدہ ہے۔ اور ریاضی کی کچھ سمجھ بوجھ ہونا لازمی ہے۔
تاہم اگر آپ ریاضی سے کچھ واقفیت نہیں بھی رکھتے، یا اس بات کا قطعی ادراک نہیں رکھتے کہ جدید ریاضی کیا بلا ہے اور اس میں تحقیق کیسے ہوتی ہے ؟ تو یہ کتاب آپ کے لیے ہے۔
آپ شائد اسے پوری طرح سمجھ نہ سکیں ، لیکن یہ کتاب آپ کے لیے سوچنے کو بہت کچھ چھوڑ جائے گی۔
ابھی کنڈل کے لئے خریدی ہے :) امید ہے کہ مطالعہ خوشگوار گذرے گا :)
 

عثمان

محفلین
محبان ریاضی کے لیے اگلی کتاب جس کی اشاعت کا شدت سے انتظار ہے۔۔ وہ ہے۔۔۔
Max Tegmark کی Our Mathematical Universe
51pe-2UH6aL._SL500_.jpg


میکس ٹیگ مارک MIT میں فلکیات کا معروف پروفیسر ہے۔ Ultimate Universe کے نظریہ کا حامی ہے۔ طبعیات میں اگرچہ یہ ابھی کوئی ثابت شدہ نظریہ نہیں لیکن ٹیگ مارک کا ماننا ہے کہ Mathematical constructions محض تصوراتی نہیں بلکہ فطری وجود رکھتے ہیں۔ یعنی اس کا اصرار ہے کہ ریاضی۔۔۔ صرف اور صرف ریاضی ہے جو وجود رکھتا ہے۔ یعنی آپ کے ارد گرد جو کچھ بھی ہے، یہ سب Mathematical Constructions کی Manifestation ہے۔ حتی کہ خود آپ بھی ۔۔۔۔!
بلکہ اس سے بھی تعجب خیز ۔۔کہ اس منطق کی رو سے ۔۔ خالی سیٹ {} بھی "وجود" رکھتا ہے۔ گویا ایسی کائنات جو مادہ ، توانائی تو درکنار۔۔۔ زمان و مکان سے بھی خالی ہے!
موضوع ایسا ہے کہ یہاں سائنس اور فلسفہ میں تفریق کرنا مشکل ہے۔
تفصیل کے لیے کتاب کے منتظر ہیں۔ :)
 
آخری تدوین:
Top