خطوط جوش ملیح آبادی
مرتب: راغب مراد آبادی
یہی تاثرت میرے جوش کی آپ بیتی "یادوں کی بارات" پڑھنے کے بعد تھی۔حسان خان
اردو زبان میں جوش ملیح آبادی کے اعلیٰ مقام سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ زبان پر ان کی گرفت کی وجہ سےان کا شماراردو ادب کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ لیکن ان کے خطوط نے ان کے ان اوصاف پر مشتمل شخصیت کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ اور ان کی شاعری و نثر کے ذریعے ان کی شخصیت کا ایک بُت جو ذہن میں بنا ہوا تھا، وہ ان خطوط میں درج مبتذل، فحش،غیر ثقہ اور اخلاق سے گری ہوئی زبان کے ٹکڑے پڑھ کر پاش پاش ہو گیا ہے۔ الحاد اور زندقہ پر مبنی ان کے خیالات اپنی جگہ، لیکن کبر سنی میں، جب انسا ن اپنی آخرت کی زندگی کے بارے میں سوچتا ہے، ان کے لکھے گئے ان خطوط (چاہے وہ بے تکلف احباب کو ہی لکھے گئے ہیں) کی طباعت سے مجھے تو فحشیات کی ترویج کے علاوہ اردو ادب کی کوئی خدمت سمجھ نہیں آئی۔ ورنہ اردو ادب میں مشاہیر کے خطوط کی حیثیت ایک الگ صنف کے طور پر مسلّمہ ہے اور کئی بڑے بڑے لوگوں کے خطوط کو شوق سے پڑھا جاتا ہے بلکہ تحقیقی مقاصد سے استعمال کیا جاتا ہے۔
میں بعض اوقات حیران ہوتا ہوں کہ ادب کے یہ مینار اپنی ذاتی زندگیوں میں اخلاقی لحاظ سے کتنے پست ہوتے ہیں۔ اور دوسرا خیال مجھے یہ آتا ہے کہ کیا وقت کے ساتھ ہم اتنے 'لبرل' ہو گئے ہیں کہ منٹو پر تو صرف اشاراتی زبان استعمال کرنے پر مقدمات کی بھر مار ہو گئی تھی اور اب کھلے فحش الفاط پر مشتمل یہ خطوط بھی ناقابل گرفت ہیں۔
اگر میرا یہ بے لاگ تبصرہ چند احباب پر گراں گزرے تو میں پیشگی معذرت کا طلبگار ہوں کیونکہ یہ میری ذاتی رائے ہے ۔ اور میں ہرگزیہ توقع نہیں رکھتا کہ ہر کوئی یہ اس سے متفق ہو۔
راشد اشرف سید زبیر @ عاطف بٹ قیصرانی محمد وارث
فلک شیر @ نیرنگ خیال @ محمد خلیل الرحمٰن
زبیر مرزا @ حسیب نذیر گِل @محمد علم اللہ اصلاحی کو ٹیگ کرنا چاہ رہاہوں مگرنہیں ہو رہا۔
عثمان
میں جواب میں یہی لکھنا چاہ رہا تھایہی تاثرت میرے جوش کی آپ بیتی "یادوں کی بارات" پڑھنے کے بعد تھی۔
اس کا مطلب شاید اردو میں "ہندی زبان اور رسم الخط"ہو
کیا یہ ہمیں میل کیا جا سکتا ہے، جناب؟سر آرتھر کونن ڈائل کے مشہور زمانہ کردار شرلاک ہومز کا Complete Collection بھی پڑھ رہا ہوں کہ کنڈل کے لئے پورا مجموعہ محض اڑھائی یورو کا ملا ہے۔ یہ میں نے پچھلے سال خریدا تھا اور تین بار پڑھ چکا ہوں
تلمیذ صاحب کے خیالات سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں........حسان خان جی آپ نے اس کتاب کا ذکر کیا لیکن تبصرہ کرنے سے گریزاں رہے۔
میں نے یہ کتاب کل ہی ختم کی ہے۔ اور اپنے تآثرات کا اظہار کرنے سے خود کو نہیں روک سکا۔
اردو زبان میں جوش ملیح آبادی کے اعلیٰ مقام سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ زبان پر ان کی گرفت کی وجہ سےان کا شماراردو ادب کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ لیکن ان کے خطوط نے ان کے ان اوصاف پر مشتمل شخصیت کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ اور ان کی شاعری و نثر کے ذریعے ان کی شخصیت کا ایک بُت جو ذہن میں بنا ہوا تھا، وہ ان خطوط میں درج مبتذل، فحش،غیر ثقہ اور اخلاق سے گری ہوئی زبان کے ٹکڑے پڑھ کر پاش پاش ہو گیا ہے۔ الحاد اور زندقہ پر مبنی ان کے خیالات اپنی جگہ، لیکن کبر سنی میں، جب انسا ن اپنی آخرت کی زندگی کے بارے میں سوچتا ہے، ان کے لکھے گئے ان خطوط (چاہے وہ بے تکلف احباب کو ہی لکھے گئے ہیں) کی طباعت سے مجھے تو فحشیات کی ترویج کے علاوہ اردو ادب کی کوئی خدمت سمجھ نہیں آئی۔ ورنہ اردو ادب میں مشاہیر کے خطوط کی حیثیت ایک الگ صنف کے طور پر مسلّمہ ہے اور کئی بڑے بڑے لوگوں کے خطوط کو شوق سے پڑھا جاتا ہے بلکہ تحقیقی مقاصد سے استعمال کیا جاتا ہے۔
میں بعض اوقات حیران ہوتا ہوں کہ ادب کے یہ مینار اپنی ذاتی زندگیوں میں اخلاقی لحاظ سے کتنے پست ہوتے ہیں۔ اور دوسرا خیال مجھے یہ آتا ہے کہ کیا وقت کے ساتھ ہم اتنے 'لبرل' ہو گئے ہیں کہ منٹو پر تو صرف اشاراتی زبان استعمال کرنے پر مقدمات کی بھر مار ہو گئی تھی اور اب کھلے فحش الفاط پر مشتمل یہ خطوط بھی ناقابل گرفت ہیں۔
اگر میرا یہ بے لاگ تبصرہ چند احباب پر گراں گزرے تو میں پیشگی معذرت کا طلبگار ہوں کیونکہ یہ میری ذاتی رائے ہے ۔ اور میں ہرگزیہ توقع نہیں رکھتا کہ ہر کوئی یہ اس سے متفق ہو۔
راشد اشرف سید زبیر @ عاطف بٹ قیصرانی محمد وارث
فلک شیر @ نیرنگ خیال @ محمد خلیل الرحمٰن
زبیر مرزا @ حسیب نذیر گِل @محمد علم اللہ اصلاحی کو ٹیگ کرنا چاہ رہاہوں مگرنہیں ہو رہا۔
عثمان
کنڈل والا تو ڈیجیٹل رائٹس کے تحت شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ کاپی رائٹ فری شکل میں بھی کہیں میرے پاس موجود ہے۔ جلد ہی اطلاع کرتا ہوںکیا یہ ہمیں میل کیا جا سکتا ہے، جناب؟
محترم فلک شیر صاحب اللہ آپکو خوش رکھے آپ نے میرے خیالات کو الفاظ عطا کردیے۔میں بھی کم و بیش اسی رائے کا اظہار کرنا چاہ رہا تھاتلمیذ صاحب کے خیالات سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں........
البتہ اہل ادب کے ہاں جو تضادات پائے جاتے ہیں ، اُن کے بارے میں اتنا عرض ضرور کرنا چاہوں گا........کہ اُن میں سے چند ایک کے پاس میں اٹھتا بیٹھتا رہا ہوں.....وہ اس ضمن میں یہ کہتے ہیں کہ ہر تخلیق کار کی شخصیت کے دو خانے ہوتے ہیں.....ایک تخلیق کار اور دوسرا عام انسان.......دونوں کا اپنے معاشرے کے ثقافتی اور معاشرتی ڈھانچوں سے متفق ہونا لازم نہیں.......لیکن تخلیق کار والے خانےتوکو تو آپ کو نسبتاً زیادہ چھوٹ دینا پڑے گی......... شعرا ء و ادباء میں شراب نوشی، اساتذہ کا اغلام بازی تک کی طرف جھکاؤ ،مبتذ ل کلام اور دور جدید میں بہت سے نامی لوگوں کی کج رویوں کو وہ اسی کھاتے میں ڈالتے ہیں..........ان لوگوں کو شاید مصلحین اور تہذیب کے نمائندے سمجھنا غلطی ہو گی..........
بحث طویل ہے اور خلط ہونے کا اندیشہ زیاد ہ ہے.........
ذاتی طور پہ اس فقیر کی رائے یہی ہے کہ یہ ترجیحات زندگی کا مسئلہ ہے........اور بے خدا تہذیب اور کائنات کے ماننے والے ادیب و شاعر ہوں یا نہیں.......وہ اخلاقیات کے کسی ڈھانچے کے پابند نہیں ہوتے..........ان میں سے بعض سے میں نے یہ سنا کہ ان کے نزدیک مذہب کا دائرہ چھوٹے محیط ، جب کہ ادب کا دائرہ لا محدود ہے.......
شاید میں بات تھوڑی بہت واضح کر پایا ہوں
جنااااب گل صاحب........محترم فلک شیر صاحب اللہ آپکو خوش رکھے آپ نے میرے خیالات کو الفاظ عطا کردیے۔میں بھی کم و بیش اسی رائے کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا
کیونکہ میں ایک آدھ ایسے بندے سے مل چکا ہوں اور جب آپ ان سے ملتے ہیں تو انہیں بالکل ہی الگ انسان پاتے ہیں۔ایک ایسا انسان جو اپنی لکھی گئی کتابوں کے بالکل متضاد ہوتا ہے
اور مذہب والی بات پر بھی آپ سے متفق ہوں
اسی کے ساتھ آج ہی ہماری لائبریری کے ریفرنس سیکشن میں ایک اور اضافہ ہوا ہے۔
ابھی اس کے استناد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کتاب کا نام ہے: عالمی انسائیکلوپیڈیا
مرتبہ : یاسر جواد، ناشر: الفیصل۔ ظاہر سی بات ہے یہ کوئی مستقل مطالعہ کی کتاب تو ہے نہیں
حسب ضرورت اس سے استفادہ کریں گے۔
صد فیصد متفق ہوںحسان خان جی آپ نے اس کتاب کا ذکر کیا لیکن تبصرہ کرنے سے گریزاں رہے۔
میں نے یہ کتاب کل ہی ختم کی ہے۔ اور اپنے تآثرات کا اظہار کرنے سے خود کو نہیں روک سکا۔
اردو زبان میں جوش ملیح آبادی کے اعلیٰ مقام سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ زبان پر ان کی گرفت کی وجہ سےان کا شماراردو ادب کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ لیکن ان کے خطوط نے ان کے ان اوصاف پر مشتمل شخصیت کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ اور ان کی شاعری و نثر کے ذریعے ان کی شخصیت کا ایک بُت جو ذہن میں بنا ہوا تھا، وہ ان خطوط میں درج مبتذل، فحش،غیر ثقہ اور اخلاق سے گری ہوئی زبان کے ٹکڑے پڑھ کر پاش پاش ہو گیا ہے۔ الحاد اور زندقہ پر مبنی ان کے خیالات اپنی جگہ، لیکن کبر سنی میں، جب انسا ن اپنی آخرت کی زندگی کے بارے میں سوچتا ہے، ان کے لکھے گئے ان خطوط (چاہے وہ بے تکلف احباب کو ہی لکھے گئے ہیں) کی طباعت سے مجھے تو فحشیات کی ترویج کے علاوہ اردو ادب کی کوئی خدمت سمجھ نہیں آئی۔ ورنہ اردو ادب میں مشاہیر کے خطوط کی حیثیت ایک الگ صنف کے طور پر مسلّمہ ہے اور کئی بڑے بڑے لوگوں کے خطوط کو شوق سے پڑھا جاتا ہے بلکہ تحقیقی مقاصد سے استعمال کیا جاتا ہے۔
میں بعض اوقات حیران ہوتا ہوں کہ ادب کے یہ مینار اپنی ذاتی زندگیوں میں اخلاقی لحاظ سے کتنے پست ہوتے ہیں۔ اور دوسرا خیال مجھے یہ آتا ہے کہ کیا وقت کے ساتھ ہم اتنے 'لبرل' ہو گئے ہیں کہ منٹو پر تو صرف اشاراتی زبان استعمال کرنے پر مقدمات کی بھر مار ہو گئی تھی اور اب کھلے فحش الفاط پر مشتمل یہ خطوط بھی ناقابل گرفت ہیں۔
اگر میرا یہ بے لاگ تبصرہ چند احباب پر گراں گزرے تو میں پیشگی معذرت کا طلبگار ہوں کیونکہ یہ میری ذاتی رائے ہے ۔ اور میں ہرگزیہ توقع نہیں رکھتا کہ ہر کوئی یہ اس سے متفق ہو۔
راشد اشرف سید زبیر عاطف بٹ قیصرانی محمد وارث
فلک شیر نیرنگ خیال محمد خلیل الرحمٰن
زبیر مرزا حسیب نذیر گِل محمدعلم اللہ اصلاحی کو ٹیگ کرنا چاہ رہاہوں مگرنہیں ہو رہا۔
عثمان
پانچ ہزار انڈین روپے خرچ کرتے ہوئے دِل میں جو بے یقینی کی خلِش پیدا ہوئی تھی آپ کے اِن دو جملوں سے یکسر جاتی رہی۔ بہت بہت شکریہ۔یاسر جواد پاکستان کے ایک مشہور مترجم اور مؤلف ہیں اور الفیصل ناشران کتب یہاں کے صف اول کے پبلشر ہیں۔ امید ہے،حوالے کی یہ کتاب مستند ہی ہوگی۔
شاید نہیں یقیناً رسم الخط ہی کو سنسکرت، ہندی میں लिपि اور گجراتی میں بھی લિપિ لِپی ہی کہتے ہیں۔اس کا مطلب شاید اردو میں "ہندی زبان اور رسم الخط"ہو
کیونکہ لپی شاید رسم الخط ہی کو کہتے ہیں