آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

خاورچودھری

محفلین
میں نے کل ہی نام ور افسانہ نگار وقار بن الٰہی کی آپ بیتی " ماں‌! میں‌تھک گیا ہوں " پڑھ کر ختم کی ہے۔۔۔ اس طویل آپ بیتی پر جو تاثرات بنے وہ فورم پر پوسٹ کر دیے ہیں۔۔
 

الف عین

لائبریرین
خاور۔ ’سمت‘ کے لئے اس بار اتنے تبصرے اور مطالعے جمع ہو گئے کہ مجھے کچھ چھوڑنے پڑ رہے ہیں۔ اس کو اگلے شمارے میں شامل کر دوں گا ان شاء اللہ۔
 

سجادعلی

محفلین
سمیرا نقوی کا افسانوی مجموعہ " نقش رائیگاں" اورخاورچودھری کی " چیخوں میں دبی آواز " ساتھ ساتھ چل رہی ہیں
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بھائی میں تو "امتحان محبت " پڑھ رہا ہوں اور پڑھنے کے بعد ان شاء اللہ یہاں پر پوسٹ بھی کر لوں گا اس وقت تک مصنف کا نام نہ پوچھیں :grin:
 

ابوشامل

محفلین
ایک بہت عزیز دوست سے بہت عرصہ بعد ملاقات ہوئی تو انہوں نے ڈاکٹر حمید اللہ کی "خطبات بہاولپور" دی ہے۔ غبار خاطر مکمل ہونے کے بعد پڑھوں گا۔
 

جیہ

لائبریرین
میں آج کل، شفیق الرحمان کی کتاب "پچھتاوے" اور "کلیات ساحر" لدھیانوی دوبارہ پڑھ رہی ہوں۔
ایک ہفتے پہلے دو کتابیں پڑھیں، ایک تو "فارسی شعر او ادب کی مختصر ترین تاریخ" تھی دوسرے "گلبانگ خیام" خیام کے بہترین رباعیاں اور ان کا منظوم ترجمہ ہے ۔ ترجمہ بھی رباعی کی صورت میں ہے
 
علامہ اقبال اور ہم
ڈاکٹر اسرار احمد
pic%5C1004250.jpg

ابھی شروع کیا ہے ۔قران سے اقبال کی محبت اور قرانی فکر سے اقبال کا اکتساب- یہ کتابچہ بہت ہی اچھا ہے۔
میں‌نے ڈاکٹر اسرار احمد کے کئی کتابچے خریدے ہیں اور ان شاءاللہ جلد ختم کروں گا۔

--------------------------
پیش لفط

آج سے لگ بھگ 21 سال قبل 3 مئی 74ء کو ایچی سن کالج لاھور میں علامہ اقبال مرحوم کی یاد میں ایک جلسہ منعقد ھوا تھا جس کے مرکزی مقرر محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب تھے۔ یہ ایک یاد گار خطاب تھا جس میں محترم ڈاکٹر صاحب نے نہایت منفرد انداز میں مسلمانان پاکستان اور علامہ اقبال کے باہمی تعلق پرروشنی ڈالی۔ ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا کہ اقبال بلاشبہ مصور و مجوز پاکستان تو تھے ہی، وہ قافلہ ملی کے ایک عظیم حدی خواں اور ایک بلند پایہ" ترجمان القرآن" بھی تھے۔ اس اعتبار سے پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان نہ صرف یہ کہ علامہ اقبال کے ساتھ ایک کے ساتھ ایک سہ گونہ رشتے میں منسلک ہے بلکہ وہ تین جہات سے اقبال کے زير بار احسان بھی ہے! اس فکر انگيز خطاب کو بعد میں مرتب کر کے" علامہ اقبال اور ہم" کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا گيا۔



--------------------------------------------------------------------------------

علامہ مرحوم کے ساتھ محترم ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی کا اہم ترین سبب علامہ کا فکر قرآنی ہے۔ انہوں نے افکار قرآنی کو اپنے اشعار میں جس طرح سمویا وہ انہی کا حصہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ علامہ نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو ایک پیغام دیا اور جسد ملی اور ایک نئی روح پھونکی لیکن اس بات سے شاید بہت کم لوگ واقف ہوں کہ اقبال در حقیقت ترجمان قرآن تھے ان کا پیغام بھی تمامتر افکار قرآنی ہی سے عبارت ہے۔ چنانچہ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اپنے پر تاثیر کلام کے ذریعے مسلمانان برصغیر کو قرآن حکیم اور اس کی تعلیمات کی جانب متوجہ کرنا انہيں قران کے انقلابی فکر سے روشناس کرانا اس طرح اسلام کی نشاﺓ ثانیہ کی راہ ہموار کرنا فی الاصل اقبال کے پیش نظر تھا اسی حقیقت کا نہایت شدت کےساتھ انکشاف محترم ڈاکٹر صاحب پر بھی ھوا کہ کرنے کا اصل کام یہی ہے۔ چنانچہ وہ اس معاملے میں علامہ مرحوم کو بجا طور پر اپنا پیش رو قرار دیتے ہیں اور ان کی عظمت کے واشگاف الفاظ میں اظہار و اعتراف میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔

محترم ڈاکٹر صاحب کے نزدیک دور حاضر میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید میں سب سے بڑا حصہ علامہ اقبال کا ہے۔ مسلمان بحیثيت مجموعی اس اہم حقیقت کو فراموش کر چکے تھے کہ اسلام محض ایک مذہب نہيں دین ہے جو پورے نظام اجتماعی پر اپنا غلبہ و اقتدار چاہتا ہے۔ اقوام مغرب کی غلامی نے انہیں اس درجے پست ہمت اور کوتاہ فکر بنا دیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی نماز روزے پر ہی قانع ھو کر رہ گئے‌ تھے اور اسی کو کل اسلام سمجھ بیٹھے تھے۔ تکبیر رب جیسے ولولہ انگيز انقلابی تصور کو مسلمان نے تسبیح و وظائف تک محدود کر دیا تھا۔ اقبال نے بڑے زور دار انداز میں دین و مذہب کے اس محدود تصور پر ضرب لگائی اور نہایت دلنشیں پیرائے میں دین کے اصل تصور کو اجاگر کیا:

یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل

یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات

وہ مذہب مردان خود آ گاہ و خدامست

یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات!

فکر اقبال کے ان گوشوں سے محترم ڈاکٹر کو خصوصی دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انہيں کسی فورم سے اقبال کے موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس دعوت کو قبول کیا۔ مرکز یہ مجلس اقبال لاھور کے زير اہتمام یوم اقبال کی تقریب میں متعدد بار وہ مہمان مقرر کی حیثيت سے خطاب کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں 21 اپریل 86ء کو الحمر ہال میں یوم اقبال کی تقریب میں " فکر اقبال کی روشنی میں حالات حاضرہ اور ہماری قومی ذمہ داریاں" کے عنوان سے انہوں نے ایک مبسوط مقالہ تحریری شکل میں پیش کیا تھا جو بعد میں " میثاق " میں بھی شائع ھوا ۔ اس فکر انگيز مقالے کو بھی زیر کتاب کے اس تازہ ایڈیشن میں شامل کر لیا گيا ہے۔

بات نا مکمل رہے گی اگر " فکر اسلامی کی تجدید اور علامہ اقبال " اور" فکر اقبال کی تعمیل کا تاریخی جائزہ" کے عنوان سے محترم ڈاکٹر صاحب کی ان دو تحریروں کا ذکر نہ کیا جائے جواب ان کی کتاب " برعظیم پاک و ہند میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید و تعمیل" کی مستقل جزو ہیں۔ بحیثيت مجدد فکر اسلامی اقبال کا کردار ان تحریروں کے ذریعے زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ یہ تحریریں اولا اخباری کالموں کی صورت میں 92ء کے نصف آخر میں روزنامہ " نوائے وقت" میں شائع ھوئيں اور پھر مذکورہ بالا کتاب کا حصہ بن گئيں۔ علامہ اقبال کے بارے میں محترم ڈاکٹر صاحب کے خیالات کو پورے طور پر جاننے کے لئے ضروری ھو گا کہ زير نظر کتاب کے ساتھ ساتھ ان تحریروں کو بھی نظر سے گزار لیا جائے۔ ان مقالات و مضامین کے مابین جن کا اوپر ذکر کیا گيا۔ اگرچہ اچھا خاصا زمانی فصل اور بعد موجود ہے کہ پہلا مضمون " علامہ اقبال اور ہم" 84ء کا مرتب کردہ ہے، دوسرا مقالہ" فکر اقبال کی روشنی میں حالات حاضرہ کا جائزہ " اس کے 12 سال بعد 86ء کا تحریر کردہ ہے ان ان حالیہ تحریروں کی تسوید جن کا اوپر حوالہ دیا گيا، مزید 6 سال بعد یعنی 1992ء کے اواخر میں ھوئی، لیکن آپ دیکھیں گے کہ ان تمام مضامین و مقالات میں فکری اعتبار سے کوئی تناقض و تباین نہيں ہے، بلکہ ایک واضح فکری تسلسل موجود ہے جو بلاشبہ ایک نہایت قابل قدر بات ہے!

علاوہ ازيں زیر نظر کتاب میں شارح کلام اقبال پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم کے بعض نہایت وقیع مضامین بھی شائع کئے گئے ہیں کہ جن کے ذریعے اقبال کی شخصیت ان کا فلسفہ خودی اور ملت اسلامیہ کے نام اقبال کے پیغام کا ایک جائزہ نہایت جامعیت اور عمدگی کے ساتھ قاری کے سامنے آتا ہے۔ ان مضامین سے متعلق خاص بات یہ ہے کہ یہ 1933ء میں اس وقت سپرد قلم کئے گئے جب علامہ اقبال مرحوم ابھی بقید حیات تھے۔ چشتی صاحب مرحوم ان خوش نصیب لوگوں ميں سے تھے جنہیں ایک طویل عرصے تک علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضری کا مسلسل موقع ملتا رہا۔

لہذا اقبال اور افکار اقبال کے بارے میں چشتی صاحب مرحوم کے مضامین غیر معمولی اہمیت و وقعت کے حامل ہیں۔ یہ مضامین " میثاق" کی پرانی فائلوں میں دبے ھوئے تھے زیر نظر کتاب میں انہيں اس خیال سے شامل کیا جا رہا ہے کہ یہ قیمتی علمی مضامین ضائع ھونے سے بچ جائيں اور لوگوں کے لئے ان سے استفادہ کرنا سہولت ممکن ھو سکے! علمہ سے قرب رکھنے والے ان کے ایک اور ارادت مند جناب سید نذیر نیازی مرحوم کا وقیع مضمون " اقبال اور قرآن " بھی اسی غرض سے شامل کتاب کیا گيا ہے۔ اس طرح کتاب کا یہ تازہ ایڈيشن اپنے حجم کے لحاظ سے پہلے کے مقابلے میں کم و بیش تین گنا ضخامت کا حامل ہے۔

یادش بخیر سال قبل ایران کے مشہور مفکر و دانشور ڈاکٹر علی شریعتی مرحوم کی اقبال کے موضوع پر ایک کتاب نظر سے گزری ۔ ڈاکٹر شریعتی کے بارے میں یہ بات اکثر احباب کے علم میں ھو گی کہ ایران کے حالیہ انقلاب کے لئے فکری ونظری غذا انہوں نے ہی فراہم کی تھی۔ ان کے انقلابی افکار جو مختصر کتابچوں کی صورت میں نہایت سرعت کے ساتھ ایران کے طول و عرض میں پھیلے انقلاب ایران کا پیش خیمہ ثابت ھوئے۔ کتاب سے اندازہ ھوتا ہے کہ وہ بھی اقبال کے فارسی کلام اور فلسفہ و فکر سے شدید طور پر متاثر تھے اور انہوں نے بہت کچھ فکری غذا اقبال سے حاصل کی تھی۔ حسن اتفاق سے اقبال اور اس کے افکار پر انہوں نے جو کتاب مرتب کی اس کا نام بھی بعینہ وہی رکھا جو محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب کے لئے 1977ء میں تجویز کیا تھا، یعنی " ماو اقبال" ۔ جس کا سیدھا سا ترجمہ یہی بنتا ہے۔ ہم اور علامہ اقبال۔
-------------------------
بہ شکریہ http://www.bahoo.org
 

ملائکہ

محفلین
میں The Three Musketeers by Alexandre Dumas پڑھ رہی ہوں۔ کافی پہلے اسکا اردو ترجمہ جو ہمدرد نے کیا تھا وہ پڑھا تھا اب اصل کتاب پڑھ رہی ہوں:):):)
 
Top