سرمحمد ظفر اللہ خاں قادیانی کی خود نوشت
تحدیث نعمت کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ظفر اللہ خاں کی پیدائش 1893 ہے سو، اس کتاب میں جنگ عظیم اول ودویم، تحریک آزادی ہند، تقسیم ہند سے لے کر، قادیانی تحریک کے مختلف خلفاء سے ملاقات اور ٹائٹینک کے ڈوبنے کا قصہ تک مذکور ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ہونے کے علاوہ بے شمار اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ان ذمے داریوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات بھی کتاب میں موجود ہیں۔ مختلف ممالک کے سفر، خاص کر سفر حج کے واقعات بھی کتاب میں مل جاتے ہیں۔ کتاب کا طرز بیان رواں اور سلیس ہے اس لیے پڑھنے میں اکتاہٹ نہیں ہوتی۔
کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کے فوراً بعد کیسے سیالکوٹ اور پاکستان بھر میں قادیانی پیش امام نماز پڑھاتے تھے اور کیسے عدالت اس طرز عمل کو جاری رہنے دیتی۔
انگریز حکومت، پنڈت جواہر لال نہرو، مسٹر جناح اور گاندھی کی سیاست کا بھی اس کتاب سے کچھ نہ کچھ ضرور پتہ چلتا ہے۔ وزیر قانون ہونے کی حیثیت سے کیسے انہوں نے نہرو کی بنارس کی اشتعال انگیز تقریر کے باوجود مقدمہ نہ قائم کرنے کے لیے وزیر داخلہ کو قائل کیا۔
کتاب میں جابجا مسیح موعود مرزا غلام احمد اور انکے خلفاء کے خوابوں اور نصیحتوں کا تذکرہ ملتا ہے جو بعینہ اہلسنت کے بزرگان دین کی نقل ہے۔ یہی نقل دجل ہے کہ عام انسان فرق معلوم کرنے سے قاصر ہے۔ جنگ عظیم دویم شروع ہونے پر اپنے خلیفہ المسیح الثانی کے خواب کے پورا ہونے کے واقعے کو بھی قلمبند کیا ہے۔ لکھتے ہیں ٰحضور کا رویا لفظاً پورا ہو گیاٰ۔
اپنی ذیابطیس کی بیماری میں بوسٹن کے ایک ماہر ڈاکٹر جوسلن کا نسخہ لکھتے ہیں کہ اس بیماری میں بیمار کو خود اپنا اولین طبیب بننا پڑتا ہے۔