موضوع سنجیدہ ہے تو اسی مناسبت سے اپنے ہی بلاگ سے اپنی ایک پرانی تحریر یہاں شئیر کرنا چاہوں گا ۔
مقصدِ حیات کا تعین :
نفسیاتی نکتہِ نظر سے اگر دیکھا جائے تو مقصدِ حیات وہ مرکزی آرزو ہے ۔ جس کو ہم دوسری آرزؤں پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانیاں دینے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔ اس کو پانے کے لیئے چٹانوں سے ٹکرانے اور مخالف موجوں سے مقابلے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے بہت سے نوجوانوں کا شعوری مقصد ایک حد تک محدود ہو ۔ مثلا وہ ایک قابل اور کامیاب ڈاکٹر بننا چاہتے ہوں ۔ جس کا نام ہی علاج کی کامیابی کی ضمانت ہو ۔ یا نامور وکیل بننا چاہتے ہوں ۔ جس کو قانونی کو پیچیدگیاں سلجھانے کا فن آتا ہو ۔ لیکن ان تمام مقاصد کی رسائی اگر اعلی طبقے تک محدود ہو تو پھر مقصدِ حیات کو ایسی مادی خواہشات کی حدود میں قید کردینا ایک بہت بڑی زیادتی ہوگی ۔ زندگی کو محض آرام و آسائش تک محدود کردینا انسانیت کا نام نہیں ہے ۔ انسانیت تو اپنے ملک ، اپنی قوم ، اپنی دنیا میں سے ہر طرح کی جہالت کی تاریکیوں کو دور کردینے کا نام ہے ۔ کامیاب زندگی کا آغاز اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنے جیسے دوسروں کی زندگیوں میں زندگی کی خوشیاں محسوس کرنے لگیں ۔ اور اسکی معراج پر پہنچنا ہی دراصل ہماری جیت ہے ۔
بحیثیت نوجوان ہمارے لیئے منزل کا تعین بہت ضروری ہے ۔ زندگی کی راہ میں آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں علم ہونا چاہیئے کہ ہمیں جانا کہاں ہے ، کیا ہماری کوئی منزل ہے ۔ یا ہم زندگی کے صحرا میں اس اُمید پر بے مقصد بھٹکتے رہیں گے کہ ایک دن ایسا موڑ بھی پیدا ہوگا جو ہمیں پھولوں کی وادیوں پہنچا دےگا ۔ زندگی کے دن پورے کرنا ، تھوڑا بہت کھا پی لینا ، دوستوں میں بیٹھ کر مذاق کرلینا ، رات آئی سو لینا ، تکلیف ہوئی رو لینا، زندگی کا مقصد تو نہیں ۔۔۔ ! اگر ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے تو ہم سراب کی شعبدہ بازیوں میں پھنسے رہیں گے ۔ انسان کا شعور ہی اس کی مقصدیت کا جواز پیدا کردیتا ہے ۔ لہذاٰ ہمیں اس خیال کا احساس شدت سے ہونا چاہیئے کہ میرا وجود دنیا میں بیکار نہیں ہے اور میری زندگی کا مقصد کسی منزل کا حصول ہے ۔ اور میری بھی اللہ کی اس کائنات میں بہت جگہ ہے ۔
کئی ایسے نوجوان بھی ہونگے ۔ جو زندگی میں مسلسل ناکامیوں سے بددل ہوں ۔ وہ اس فریب میں مبتلا ہیں کہ کامیابی سرے سے موجود ہی نہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی راہیں پُرتاریک اور تنگ ہیں ۔ پُرخار اور بے رنگ ہیں ۔ ایسے لوگ معاشرے میں نیم مردہ اور نیم زندہ دونوں حالت میں اپنے آپ کو گھسیٹے ہوئے نظرآتے ہیں ۔ وہ جینے سے ڈرتے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔کیونکہ انہیں ہر وقت اپنی نااہلی اور ناکامی کاخدشہ رہتا تھا ۔ جبکہ ہمیں سچائی سے اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہیئے کہ ہماری زیادہ تر مصبتیں دراصل ہماری نااہلیوں کی مرہونِ منت ہے ۔ جن کا ہماری قسمت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ شکست کے بعد اپنی ناکامیوں کا سارا الزام اپنی قسمت کو تھوپ دینا اور احساسِ شکست کو اللہ کی مرضی کہہ کر اپنے نفس کو مطمئن کرلیتے ہیں ۔ جب ہم سے ناکامیوں کے اسباب پوچھے جاتے ہیں تو بہت سے عُذر ہماری زبان سے رواں ہوجاتے ہیں ۔ ” مجھے کامیاب زندگی گذارنے کا موقع ہی کب ملا ” ، ” ماں باپ نے کسی اچھے اسکول میں مجھے تعلیم دلانے میں کبھی دلچسپی نہیں لی ” ، میرے پاس کوئی اچھی سفارش ہی نہیں تھی ” وغیرہ وغیرہ ۔ ان وجوہ میں خواہ کتنی سچائی نہ ہو مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے بے تحاشہ لوگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے اقتصادی الجھنوں میں مبتلا ہوکر ہم سے کم تعلیم حاصل کی ۔ لیکن وہ ہم سے بہتر زندگی گذار رہے ہیں ۔
دراصل اہمیت ان مواقع نہیں جو ہمیں ملے ۔ بلکہ سارا دارو مدار ان مواقع کا ہے جو ہم نے خود پیدا کیئے ۔دیکھنے کی بات یہ نہیں ہے کہ ہم نے زندگی کیسے شروع کی ۔ بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم کہاں سے کہاں تک پہنچے ۔ مانا کہ ہماری تعلیم کی کمی تھی ۔ اقتصادی دشواریاں گلے پڑی ہوئیں تھیں ۔ لیکن وہ وقت جو ہم نے اپنی قسمت پر آنسو بہانے میں صرف کیا ۔ وہ وقت مذید تعلیم حاصل کرنے یا مذید اپنی حالت سنوارنے میں استعمال بھی کرسکتے تھے ۔ مگر ہم نے اپنے آپ کو کاہلی اور احساسِ کمتری کی دلدل میں جوں کا توں پڑے رہنے دیا ۔ دراصل ہماری کامرانی کی راہ میں بدقستمی کی چٹانیں نہیں بلکہ خود ہماری کمزوریاں سدِ راہ بنتیں ہیں ۔ ہم کو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود کو پہچانیں ، اپنی دماغی قوتوں کو کام میں لائیں ۔ اپنے جذباتی ہیجان پر قابو پائیں ۔ اپنی خواہشات اور خوابوں کو حقیقت بنانے میں جہدوجہد کریں ۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے