آپ کے پسندیدہ ادیب

محمد وارث

لائبریرین
مولانا ابوالکلام آزاد
افسوس برصغیر میں پچھلی صدی کے اوائل کی شورش زدہ سیاست بہت سے اہم نام نگل گئی، انہی میں سے ایک مولانا کا نام ہے۔ اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے پاکستان کے حمایتی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے معتوب ہو گئے اور اب تک ہیں اور اس وجہ سے ان کو اردو ادب میں ان کا جو جائز مقام تھا وہ بھی نہ مل سکا۔

آپ ایک متبحر عالم تھے اور مفسر اور سیاسی لیڈر بھی۔ شروع شروع میں انتہائی مشکل اردو لکھتے تھے جس میں دقیق عربی الفاظ کی بھر مار ہوتی تھی اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ عربی انکی مادری زبان تھی۔ "تذکرہ" کی زبان اسی طرح کی ہے اور جس کا مذاق بھی بہت سوں نے اڑایا ہے جیسے ادیبِ بے بدل مشتاق احمد یوسفی صاحب لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مولانا کا اردو اندازِ تحریر بھی نکھرتا چلا گیا اور پھر "غبارِ خاطر" وجود میں آئی جو اردو ادب میں ایک شاہکار ہے۔ جیل کی قید میں لکھے گئے یہ فرضی خطوط علم و معانی کا ایک جہان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتی اور جیسے دریا اپنی روانی میں بہتا ہی چلا جائے کا منظر بن جاتا ہے، زبان انتہائی سادہ، شستہ اور رواں ہے اور اس پر مستزاد انتہائی خوبصورت فارسی اشعار جو ان کی نثر میں موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ مشاہدے کو تخیل میں اس طرح سمویا ہوا ہے کہ دونوں یک جان ہو گئے ہیں۔

کم و بیش تیس سال پہلے میں نے مولانا کی "غبارِ خاطر" پڑھی تھی اور ہر دو چار پانچ سال پڑھتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے "تذکرہ" بھی پڑھی، مولانا کی تفسیر بھی اور "انڈیا ونز فریڈم" بھی لیکن دل ابھی تک غبارِ خاطر میں اٹکا ہوا ہے کہ اسی کتاب نے صحیح معنوں میں مجھے فارسی اشعار کی طرف راغب کیا۔
 

بافقیہ

محفلین
مولانا ابوالکلام آزاد
افسوس برصغیر میں پچھلی صدی کے اوائل کی شورش زدہ سیاست بہت سے اہم نام نگل گئی، انہی میں سے ایک مولانا کا نام ہے۔ اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے پاکستان کے حمایتی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے معتوب ہو گئے اور اب تک ہیں اور اس وجہ سے ان کو اردو ادب میں ان کا جو جائز مقام تھا وہ بھی نہ مل سکا۔

آپ ایک متبحر عالم تھے اور مفسر اور سیاسی لیڈر بھی۔ شروع شروع میں انتہائی مشکل اردو لکھتے تھے جس میں دقیق عربی الفاظ کی بھر مار ہوتی تھی اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ عربی انکی مادری زبان تھی۔ "تذکرہ" کی زبان اسی طرح کی ہے اور جس کا مذاق بھی بہت سوں نے اڑایا ہے جیسے ادیبِ بے بدل مشتاق احمد یوسفی صاحب لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مولانا کا اردو اندازِ تحریر بھی نکھرتا چلا گیا اور پھر "غبارِ خاطر" وجود میں آئی جو اردو ادب میں ایک شاہکار ہے۔ جیل کی قید میں لکھے گئے یہ فرضی خطوط علم و معانی کا ایک جہان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتی اور جیسے دریا اپنی روانی میں بہتا ہی چلا جائے کا منظر بن جاتا ہے، زبان انتہائی سادہ، شستہ اور رواں ہے اور اس پر مستزاد انتہائی خوبصورت فارسی اشعار جو ان کی نثر میں موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ مشاہدے کو تخیل میں اس طرح سمویا ہوا ہے کہ دونوں یک جان ہو گئے ہیں۔

کم و بیش تیس سال پہلے میں نے مولانا کی "غبارِ خاطر" پڑھی تھی اور ہر دو چار پانچ سال پڑھتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے "تذکرہ" بھی پڑھی، مولانا کی تفسیر بھی اور "انڈیا ونز فریڈم" بھی لیکن دل ابھی تک غبارِ خاطر میں اٹکا ہوا ہے کہ اسی کتاب نے صحیح معنوں میں مجھے فارسی اشعار کی طرف راغب کیا۔
شکریہ جناب ! کافی معلومات بڑھیں۔
اور مولانا کے الہلال اور البلاغ کے مضامین بھی کس شان کے ہیں! آہا۔۔۔
 

بافقیہ

محفلین
ابن انشاء کی کونسی کتاب سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے؟
میں نے آپ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں۔ جو انداز ، شگفتگی اور ہمہ موضوع سے دلچسپی کا اظہار ’’ اردو کی آخری کتاب‘‘ میں ہے، اپنے ناقص علم میں کہیں نظر نہ آیا۔
’’اردو کی آخری کتاب‘‘ خواہش ہے کہ یہ کتاب بار بار پڑھوں۔
 

بافقیہ

محفلین
کئی دیگر ادیبوں کے ساتھ ، ایک عجیب الخلقت ادیب ہیں۔
جن کا نام نامی خواجہ حسن نظامی ہے۔ خواجہ حسن نظامی کے بارے میں کچھ کہنا ان کی علانیہ توہین ہے۔ ان کی کوئی بھی کتاب ہاتھ آئے تو اٹھالیں۔
پڑھتے جائیں اور سر دھنتے جائیں۔
بلا کے ذہین اور نکتہ ور۔ علم دوست ادب پرور۔
شاید سب سے پہلے بہ نام "آپ بیتی" آپ ہی نے اپنی آپ بیتی لکھی ۔

بہادر شاہ ظفر، 1857، غدر، دہلی ، انگریز اور تصوف وغیرہ آپ کے موضوعات رہے۔
خواجہ حسن نظامی کا ایک مضمون بہ نام ’’ مچھر ‘‘

یہ بھنبھناتا ہوا ننھا سا پرندہ آپ کو بہت ستاتا ہے ۔ رات کو نیند حرام کردی ہے ۔ ہندو، مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، یہودی سب بالا تفاق اس سے ناراض ہیں ۔ ہر روز اس کے مقابلہ کے لیے مہمیں تیار ہوتی ہیں ، جنگ کے نقشے بنائے جاتے ہیں ۔ مگر مچھروں کے جنرل کے سامنے کسی کی نہیں چلتی ۔ شکست پر شکست ہوئی چلی جاتی ہے اور مچھروں کا لشکر بڑھا چلا آتا ہے ۔

اتنے بڑے ڈیل ڈول کا انسان ذرا سے بھنگے پر قابو نہیں پاسکتا۔ طرح طرح کے مصالحے بھی بناتا ہے کہ ان کی بو سے مچھر بھاگ جائیں ۔ لیکن مچھر اپنی یورش سے باز نہیں آتے ۔ آتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے آتے ہیں ۔ بے چارہ آدم زاد حیران رہ جاتا ہے اور کسی طرح ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

امیر۔ غریب۔ ادنیٰ ۔ اعلیٰ ۔ بچے ۔ بوڑھے ۔ عورت۔ مرد ۔ کوئی اس کے وار سے محفوظ نہیں ۔ یہاں تک کہ آدمی کے پاس رہنے والے جانوروں کو بھی ان کے ہاتھ سے ایذا ہے ۔ مچھر جانتا ہے کہ دشمن کے دوست بھی دشمن ہوتے ہیں ۔ ان جانوروں نے میرے دشمن کی اطاعت کی ہے تو میں ان کو بھی مزا چکھاؤں گا۔

آدمیوں نے مچھروں کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ۔ ہر شخص اپنی سمجھ اور عقل کے موافق مچھروں پر الزام رکھ کر لوگوں میں ان کے خلاف جوش پیدا کرنا چاہتا ہے مگر مچھراس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔

طاعون نے گڑ بڑ مچائی تو انسان نے کہا کہ طاعون مچھر اور پسو کے ذریعے سے پھیلتا ہے ۔ ان کو فنا کردیا جائے تو یہ ہولناک وبادور ہو جائے گی ۔ ملیریا پھیلا تو اس کا الزام بھی مچھر پر عائد ہوا۔ اس سرے سے اس سرے تک کالے گورے آدمی غل مچانے لگے کہ مچھروں کو مٹادو۔ مچھروں کو کچل ڈالو۔ مچھروں کو تہس نہس کردواور ایسی تدبیرنکالیں جن سے مچھروں کی نسل ہے منقطع ہو جائے ۔

مچھر بھی یہ سب باتیں دیکھ رہا تھا اور سن رہا تھااور رات کو ڈاکٹر صاحب کی میز پر رکھے ہوئے ’’پانیر‘‘ کو آکر دیکھتا اور اپنی برائی کے حروف پر بیٹھ کر اس خون کی ننھی ننھی بوندیں ڈال جاتا جو انسان کے جسم سے یا خود ڈاکٹر صاحب کے جسم سے چوس کر لایا تھا۔ گویا اپنے فائدہ کی تحریر سے انسان کی ان تحریروں پر شوخیانہ ریمارک لکھ جاتا کہ میاں تم میرا کچھ نہیں کرسکتے ۔

انسان کہتا ہے کہ مچھر بڑا کم ذات ہے ۔ کوڑے ،کرکٹ،میل کچیل سے پیدا ہوتا اور گندی موریوں میں زندگی بسر کرتا ہے اوربزدلی تو دیکھو اس وقت حملہ کرتاہے جب کہ ہم سو جاتے ہیں ۔ سوتے پر وار کرنا، بے خبر کے چرکے لگانا مردانگی نہیں انتہا درجے کی کمینگی ہے ۔ صورت تو دیکھو کالا بھتنا۔ لمبے لمبے پاؤں بے ڈول چہرہ اس شان و شوکت کا وجود اور آدمی جیسے گورے چٹے ۔ خوش وضع۔ پیاری ادا کے آدمی کی دشمنی ، بے عقلی اور جہالت اسی کوکہتے ہیں۔ مچھر کی سنو تو وہ آدمی کو کھری کھری سناتا ہے اورکہتا ہے کہ جناب ہمت ہے تو مقابلہ کیجئے ۔ ذات صفات نہ دیکھیے ۔ میں کالا سہی ، بدرونق سہی ، نیچ ذات سہی اور کمینہ سہی مگر یہ تو کہیے کہ کس دلیری سے آپ کا مقابلہ کرتا ہوں اور کیوں کر آپ کی ناک میں دم کرتاہوں ۔

یہ الزام سراسر غلط ہے کہ بے خبری میں آتا ہوں اور سوتے میں ستاتا ہوں ۔ یہ تم اپنی عادت کے موافق سراسر نا انصافی کرتے ہو۔ حضرت میں تو کان میں آکر ’’الٹی میٹم‘‘ دے دیتا ہوں کہ ہوشیار ہو جاؤ۔ اب حملہ ہوتا ہے ۔ تم ہی غافل رہو تو میرا کیا قصور۔ زمانہ خود فیصلہ کردے گا کہ میدان جنگ میں کالا بھتنا ، لمبے لمبے پاؤں والا بے ڈول فتح یاب ہوتا ہے یاگورا چٹا آن بان والا۔

میرے کارناموں کی شاید تم کو خبر نہیں کہ میں نے اس پر دۂ دنیا پر کیا کیا جوہر دکھائے ہیں ۔ اپنے بھائی نمرود کا قصّہ بھول گئے جو خدائی کا دعویٰ کرتاتھا اور اپنے سامنے کسی کی حقیقت نہ سمجھتا تھا ۔ کس نے اس کا غرور توڑا ۔ کون اس پر غالب آیا۔ کس کے سبب اس کی خدائی خاک میں ملی ؟ اگر آپ نہ جانتے ہوں تو اپنے ہی کسی بھائی سے دریافت کیجیے یا مجھ سے سنیے کہ میرے ہی ایک بھائی مچھر نے اس سرکش کا خاتمہ کیا تھا۔

اور تم تو ناحق بگڑتے ہو اور خواہ مخواہ اپنا دشمن تصورکیے لیتے ہو۔ میں تمھارا مخالف نہیں۔ اگر تم کو یقین نہ آئے تو اپنے کسی شب بیدار صوفی بھائی سے دریافت کرلو۔ دیکھو وہ میری شان میں کیا کہے گا۔ کل ایک شاہ صاحب عالم ذوق میں اپنے ایک مرید سے فرما رہے تھے کہ میں مچھر کی زندگی کو دل سے پسند کرتا ہوں ۔ دن بھر بےچارا خلوت خانہ میں رہتا ہے رات کو ، جو خدا کی یاد کا وقت ہے ،باہر نکلتا ہے اور پھر تمام شب تسبیح و تقدیس کے ترانے گایا کرتاہے ۔ آدمی غفلت میں پڑے سوتے ہیں تو اس کو ان پر غُصّہ آتا ہے ۔ چاہتا ہے کہ یہ بھی بیدار ہو کر اپنے مالک کے دیے ہوئے اس سہانے خاموش وقت کی قدر کرے اور حمد شکر کے گیت گائے ۔ اس لیے پہلے ان کے کان میں جاکر کہتا ہے کہ اُٹھو میاں ! اُٹھو جاگو جاگنے کا وقت ہے ۔ سونے کا اور ہمیشہ سونے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ جب آئے گا توبے فکر ہوکر سونا۔ اب تو ہوشیار رہنے اور کچھ کام کرنے کا موقع ہے مگر انسان اس سریلی نصیحت کی پروا نہیں کرتا اور سوتا رہتا ہے تو مجبور ہو کر غُصّہ میں آجاتا ہے اور اس کے چہرہ اور ہاتھ پاؤں پر ڈنگ مارتا ہے ۔ پرواہ رے انسان آنکھیں بند کیے ہوئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور بے ہوشی میں بدن کھجا کر پھر سو جاتا ہے اور جب دن کو بیدار ہوتا ہے تو بے چارا مچھر کو صلواتیں سناتا ہے کہ رات بھر سونے نہیں دیا۔ کوئی اس دروغ گو سے پوچھے کہ جناب عالی ! کتنے سکنڈ جاگے تھے جو ساری رات جاگتے رہنے کا شکوہ ہو رہاہے ۔

شاہ صاحب کی زبان سے یہ عارفانہ کلمات سن کر میرے دل کو بھی تسلی ہوئی کہ غنیمت ہے ان آدمیوں میں بھی انصاف والے موجود ہیں بلکہ میں دل میں شرمایا کہ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ شاہ صاحب مصلے پر بیٹھے وظیفہ پڑھا کرتے ہیں اور میں ان کے پیروں کا خون پیا کرتا ہوں ۔ یہ تو میری نسبت ایسی اچھی اور نیک رائے دیں اور میں ان کو تکلیف دوں ۔ اگرچہ دل نے یہ سمجھایا کہ تو کاٹتا تھوڑی ہے ۔ قدم چومتا ہے اور ان بزرگوں کے قدم چومنے ہی کے قابل ہوتے ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ اس سے میری ندامت دور نہیں ہوتی اور اب تک میرے دل میں اس کا افسوس باقی ہے ۔

سواگر سب انسان ایسا طریقہ اختیار کرلیں جیسا کہ صوفی صاحب نے کیا تو یقین ہے کہ ہماری قوم انسان کو ستانے سے خود بخود باز آجائے گی ورنہ یادرہے کہ میرا نام مچھر ہے ۔ لطف سے جینے نہ دوں گا اور بتادوں گا کہ کمین اور نیچ ذات اعلیٰ ذات والوں کو یوں پریشان اور بے چین کرسکتی ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جناب مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں کچھ بتائیں۔
باوجود یہ کہ کئی بار ان کی کتابوں پر نظر پڑی مگر اٹھا کر پڑھنے کی توفیق نہ مل سکی۔ ہوسکتا ہے آپ کی تشویق سے یہ مرحلہ بھی آسان ہوجائے

مستنصر حسین تارڑ صاحب سفرناموں کے لئے تو بہرکیف مشہور ہیں لیکن یہ بہت اچھے ناول نگار بھی ہیں۔

بالخصوص اُن کے دو ناول جو میں نے پڑھے ہیں "قلع جنگی" اور "بہاؤ" بہت لاجواب ہیں۔

قلع جنگی افغان روس جنگ کے تناظر میں لکھا گیا ایک بالکل الگ طرز کا ناول ہے اور یہ ایک ایسا ناول ہے جو آپ کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

قلع جنگی شروع کے صفحات میں قاری کی کچھ زیادہ توجہ طلب کرتا ہے لیکن بہت جلد قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور آخر تک جان نہیں چھوڑتا۔
 

یاقوت

محفلین
جناب مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں کچھ بتائیں۔
باوجود یہ کہ کئی بار ان کی کتابوں پر نظر پڑی مگر اٹھا کر پڑھنے کی توفیق نہ مل سکی۔ ہوسکتا ہے آپ کی تشویق سے یہ مرحلہ بھی آسان ہوجائے

جی تارڑ صاحب سفر ناموں میں بہت مشہور ہیں۔لیکن ناول بھی لکھتے ہیں پیار کا پہلا شہر ایک خوبصورت کہانی ہے اور انکی کتاب راکھ کے بارے میں کہیں سے سنا یا پڑھا تھاکہ چین کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر نے تارڑٖ صاحب سے راکھ کا چینی زبان میں ترجمہ کرنے کی اجازت مانگی تھی کافی مزیدار کتاب ہے۔ اسکے علاوہ قربت مرگ میں محبت مبتدیوں کیلئے ایک گھمبیر کتاب ہے۔بہرحال تارڑ صاحب خوب لکھتے ہیں قاری کو اپنے ساتھ گھمانے کا فن جانتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
جی بہتر۔ تھوڑا کچھ پڑھ رکھا ہے۔ مگر

ان میں تو با ضابطہ کسی کو نہیں پڑھا۔
البتہ ڈپٹی نذیر احمد، راشد الخیری، شبلی نعمانی، عبدالحلیم شرر ، میر امن، مرزا ہادی رسوا ، سرسید احمد خان اور سید سلیمان ندوی وغیرہ کوخوب پڑھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ متاخرین ہمیں جلد نہیں بھاتے۔
متوسطین میں سے جتنا دستیاب ہو سکا پڑھا لیکن بد قسمتی کہ ہمارے شہر میں کوئی سرکاری لائبریری نہیں تھی۔ایک پرائیویٹ لائبریری تھی لیکن بزنس کے حساب سے وہاں سنجیدہ ادب مفقود تھا۔یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ زبان و بیان کی نزاکتیں و لطافتین اور روزمرہ سے آگہی کیلئے متوسطین سے بڑھ شاید ہی کوئی ادب ہو۔اب المیہ یہ ہے کہ نئی پود کتاب سے یوں بدکتی ہے جیسے بچھڑا قصائی سے اور دوچار نامانوس الفاظ لکھ دیں یا گہرے الفاظ بول دیں تو پانی ان کے سر سے گزر جاتا ہے ۔محسن نقوی نئی پود کے شاعر ہیں آسان اور عام زبان استعمال کرتے ہیں ایک محفل میں دوستوں کی فرمائش پر انکی کتاب ""طلوع اشک"" سے ایک قطعہ سنایا تو ایک کرم فرما نے سننے اور سر دھننے کے بعد ہم سے فرمائش کی ہم اب اس قطعے کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کریں۔
 

یاقوت

محفلین
مولانا ابوالکلام آزاد
افسوس برصغیر میں پچھلی صدی کے اوائل کی شورش زدہ سیاست بہت سے اہم نام نگل گئی، انہی میں سے ایک مولانا کا نام ہے۔ اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے پاکستان کے حمایتی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے معتوب ہو گئے اور اب تک ہیں اور اس وجہ سے ان کو اردو ادب میں ان کا جو جائز مقام تھا وہ بھی نہ مل سکا۔

آپ ایک متبحر عالم تھے اور مفسر اور سیاسی لیڈر بھی۔ شروع شروع میں انتہائی مشکل اردو لکھتے تھے جس میں دقیق عربی الفاظ کی بھر مار ہوتی تھی اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ عربی انکی مادری زبان تھی۔ "تذکرہ" کی زبان اسی طرح کی ہے اور جس کا مذاق بھی بہت سوں نے اڑایا ہے جیسے ادیبِ بے بدل مشتاق احمد یوسفی صاحب لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مولانا کا اردو اندازِ تحریر بھی نکھرتا چلا گیا اور پھر "غبارِ خاطر" وجود میں آئی جو اردو ادب میں ایک شاہکار ہے۔ جیل کی قید میں لکھے گئے یہ فرضی خطوط علم و معانی کا ایک جہان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتی اور جیسے دریا اپنی روانی میں بہتا ہی چلا جائے کا منظر بن جاتا ہے، زبان انتہائی سادہ، شستہ اور رواں ہے اور اس پر مستزاد انتہائی خوبصورت فارسی اشعار جو ان کی نثر میں موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ مشاہدے کو تخیل میں اس طرح سمویا ہوا ہے کہ دونوں یک جان ہو گئے ہیں۔

کم و بیش تیس سال پہلے میں نے مولانا کی "غبارِ خاطر" پڑھی تھی اور ہر دو چار پانچ سال پڑھتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے "تذکرہ" بھی پڑھی، مولانا کی تفسیر بھی اور "انڈیا ونز فریڈم" بھی لیکن دل ابھی تک غبارِ خاطر میں اٹکا ہوا ہے کہ اسی کتاب نے صحیح معنوں میں مجھے فارسی اشعار کی طرف راغب کیا۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
 
مختار مسعود صاحب کے سفرنامے سفر نصیب ، اور دیگر تصنیفات آواز دوست ،لوح ایام کے کیا کہنے لیکن ان سب سے منفرد کتاب سفر نصیب ہی ہے۔
چوتھی کتاب حرفِ شوق ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی ہے۔
ہر کتاب کا اپنا ہی انداز اور مزا ہے۔ :)
 

یاقوت

محفلین
حضرت یوسفی صاحب کے کیا کہنے یہ بات تو وہی جان سکتے ہیں جو انکے قلم کے گھائل ہیں۔الفاظ اور ہم کے عنوان سے یوسفی صاحب کی کتاب ""شام شعر یاراں"" کے ایک مضمون ""نیرنگ فرہنگ ""سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔اقتباس ہذا کی مدد سے ناواقف حضرات یوسفی صاحب کے ادب پر احسانات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
الفاظ اور ہم
لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کلیتاََ ترک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نامطبوع ضرور ہوتی جارہی ہے۔نتیجہ یہ کہ (ووکیبلری)یعنی ذخیرہ الفاظ بڑی تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے۔لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والے کی مبتدیانہ ادبی سطح کا تابع اور اسکی انتہائی محدود اوربس کام چلاؤلفظیات کا پابند کرلیا ہے۔اس باہمی مجبوری کو سادگی و سلاست بیان،فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیاجاتا ہے۔!قاری کی سہل انگاری اور لفظیاتی کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دور میں شرط نگارش اور معیار ابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا۔اب تو یہ توقع کی جاتی ہےپھلوں سےلدا درخت خود اپنی شاخ ثمر دار شائقین کے عین منھ تک جھکا دے!لیکن وہ کاہل خود کو بلند کر کے یا ہاتھ بڑھاکر پھل تک پہنچنے کی کوشش ہرگز نہیں کرےگا۔مجھے تو یہ اندیشہ ستانے لگا ہےکہ کہیں یہ سلسلہ سلاست و سادگی ،باالآخر تنگنائے اظہار اور عجز بیان سے گزر کر نری(باڈی لینگویج)یعنی اشاروں اور نرت بھاؤبتانےپر آکے نہ ٹھہرے!عزیزو،جو جیے گا وہ دیکھے گا کہ ادب کی ننگی میوز(عالم تخیل) نہائے گی کیا،نچوڑے گی کیا۔ہمیں تو یہ منظر دیکھنے کے لیے جینے کی آرزو بھی نہیں۔
غالب ،آزاد،سر سیداحمد خان،حالی،شبلی ،سرشار ،غلام رسول مہر ،صلاح الدین احمد اور منٹوکی نثر کا آ ج کی تحریروں سے موازنہ کیجئےتو واضح ہوگاکہ بیسیوں نہیں ،سیکڑوں جاندار الفاظ کہ ہر لفظ گنجینہ معنی کا طلسم تھا ،عدم استعمال اور تساہل عالمانہ کے سبب متروکات کی لفظ خور کان نمک کا حصہ بن گئے۔ان کی جگہ ان مطالب و مفاہیم ،اتنے معنوی ابعاد،تہ داریوں اور رسائیوں،ان جیسی نزاکتوں اور لطافتوں ،ویسےرنگ و نیرنگ معانی ،شکوہ و طنطنے کے حامل نادرہ کارالفاظ نہ آنا تھے ،نہ آئےاور آتے بھی کیسے،ہر لفظ انوکھا ،بے مثل و بے عدیل ہوتا ہے۔دوسری نسل کے ڈی این اے سے اس کی کلوننگ نہیں ہوسکتی۔ہر لفظ ایک عجیب و غریب ،ہرا بھرا،سدا بہار جزیرہ ہوتا ہے۔،جس کی اپنی آب و ہوا ،اپنے موسم ،اپنی شفق اور دھنک،اپنی بجلیاں اور انکے کڑکے ،اپنی نباتات اور گل، زمیں تلے اپنی معدنیات ہوتی ہیں۔اسکے اپنے کولمبس ،اپنے کوہ و دشت پیما،سیاح ،سیلانی اور کان کن ہوتے ہیں۔جب بے غوری ،غفلت اور فراموش کاری کا بحیرہ مردار کسی جزیرے کو نگل جاتا ہے تو نہ کبھی اس کا جنازہ اٹھتا ہے،نہ کہیں عرس پر قوالی یا دھمال ہوتی ہے۔بحرکی تہ سے اُس جیسا جزیرہ پھر نہیں ابھرتا۔جس طرح ہر فرد بشر بالکل (یونیق)یعنی انیق اور بے مثل و بے مثنی ہوتا ہے اور اسکا کوئی مماثل یا نعم البدل ہوا،نہ ہوگا۔اسی طرح صحیح معنوں میں لفظ کا کوئی متبادل یا متراد ف نہیں ہوتا۔البتہ لفظوں کی برادری میں بھی عوضی کام کرنے والی نفری،سوانگ بھرنے والے بہروپیےاور نقال ضرور ہوتے ہیں۔!دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔انکی ہنر مندی اور بہروپ سے ہم لطف اندوز تو ضرور ہوسکتےہیں،لیکن فریب کھانا ٓئین سخنوری و سخن دانی میں حرام ہے۔
ایک زمانے میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈاکٹروں کو بقراطی حلف اٹھانا پڑتا تھاجس میں وہ یہ عہد کرتے تھے کہ وہ مریض کے رنگ و نسل و حیثیت سے قطع نظر ،اسکی جان بچانے کیلیے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔میرے خیال میں شاعروں ،ادیبوں ،لکھاریوں اور قلم کاروں کو بھی ایک باقاعدہ رسم حلف برداری میں کراماََ کاتبین کو حاضر ناضر جان کر یہ عہد کرنا چاہیے:
''"ہم اپنے قلم کی قسم کھا کر عہد کرتےہیں کہ کسی جاندار ،کارآمد ،اپنے مفہوم اور اسکے اظہار پر پوری قدرت رکھنے والے اور گئی رتوں کی خوشبوؤں میں بسے لفظ کو آنکھوں دیکھتے محض اس جرم کی پاداش میں مرنے نہیں دیں گے کہ عدم استعمال کے باعث عام آدمی یا سہل انگار قاری اس سے ناآشنا ہےاور نہ کسی جیتے جیتے ،ہنوز کاغذی پیرہن میں سانس لیتے ہوئے لفظ کو قدامت و متروکات کے دشت خموشاں میں زندہ دفن ہونے دیں گے۔ہم اس عہد سے پھریں تو رب ذو الجلال لفظ کی تاثیر اور اسکا اعجاز ہم پر حرام کر دے ہم عہد کرتےہیں۔""
اسکا اطلاق ہر زبان کے قلم کاروں پر ہوتا ہے۔لفظ کی جانکنی اور موت پر نوحہ کناں تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ ڈکشنری (لغت) لفظ کو حیات نو بخشنے ،زندہ رہنے اور زیر استعمال رکھنے کی متعبر ضمانت ہے۔ہر اصطلاح اورہر لفظ انسان کے علم و آگہی اور احساس کی زمانی سرحد کی نشاندہی کرتا ہے۔مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ اگر تمہیں کسی غیرآباد،سنسان اور بے چراغ جزیرے میں خراب مزاح لکھنے کی پاداش میں چھوڑدیا جائے تو تم قرآن مجید کے علاوہ کون سی کتاب ساتھ لے جانا پسندکرو گے تومیں ایک لمحہ تاّمل کیے بغیر کہوں گا کہ ایک جامع و مستند ڈکشنری (لغت) جو تمام عمر میری حیرت و محویت ،دلبستگی اور سرشاری کا سامان اپنے اندر رکھتی ہے۔کسی لفظ کے معنی کی تلاش میں جب ہم ڈکشنری کھنگالتے ہیں تو اس لفظ سے پہلے اور اسکے بعد بہت سے دلچسپ ،رنگا رنگ،کارآمد اور معجز نما الفاظ اور ان کے مشتقات سے شناسائی ہوجاتی ہے۔جس نے نئے لفظ سے پہلی نظر میں پیار نہیں کیا اس نے ابھی پڑھنا نہیں سیکھا۔جس نک چڑھے اور تند جبیں ادیب و شاعر نے نئے پرانے الفاظ سے پیار دلار کا رشتہ نہیں رکھا اس پر شعر و ادب کی میوز(عالم تخیل) اپنے بھید بھاؤ نہیں کھولتی ۔لفظ اس نامحرم نکتہ ء راز پر اپنی لذّتیں تمام نہیں کرتے۔
اکبر اِلٰہ آبادی کی عادت تھی کہ سونے سے کچھ دیر پہلے اپنے آپ سے سوال کرتے کہ آج میں نے کون سی نئی بات سیکھی ہے۔جواب اگر نفی میں ملتا تو ڈکشنری(لغت) اٹھا کر کوئی نیا لفظ ہجے اور معنی کے ساتھ یا د کر کے سو جاتے ۔
سوچتا ہوں کیسی اچھی نیند آتی ہوگی انہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
مستنصر حسین تارڑ صاحب سفرناموں کے لئے تو بہرکیف مشہور ہیں لیکن یہ بہت اچھے ناول نگار بھی ہیں۔

بالخصوص اُن کے دو ناول جو میں نے پڑھے ہیں "قلع جنگی" اور "بہاؤ" بہت لاجواب ہیں۔

قلع جنگی افغان روس جنگ کے تناظر میں لکھا گیا ایک بالکل الگ طرز کا ناول ہے اور یہ ایک ایسا ناول ہے جو آپ کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

قلع جنگی شروع کے صفحات میں قاری کی کچھ زیادہ توجہ طلب کرتا ہے لیکن بہت جلد قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور آخر تک جان نہیں چھوڑتا۔

میرا ارادہ تارڑ صاحب کی ساری کتابیں پڑھنے کا ہے انشاءاللہ۔
درج بالا کتب کو ابھی تک نہیں پڑھ پایا۔ویسے اب مجھے ""بہاؤ"" پڑھنے کا بہت شوق ہے کیونکہ تارڑ صاحب کے ایک انٹرویو میں انہی کی زبانی پڑھا تھا کہ اب میں (تارڑ صاحب) بھی چاہوں تو بہاؤ جیسا ناول نہیں لکھ سکتا۔اس لیے بہت زیادہ جستجو ہے ایک بار پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کیا بھی تھا لیکن دوچار صفحات کے بعد پتہ چلا گیا کہ کتاب کتاب است۔
 

جاسمن

لائبریرین
جناب مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں کچھ بتائیں۔
باوجود یہ کہ کئی بار ان کی کتابوں پر نظر پڑی مگر اٹھا کر پڑھنے کی توفیق نہ مل سکی۔ ہوسکتا ہے آپ کی تشویق سے یہ مرحلہ بھی آسان ہوجائے

بہترین۔
ان کا ناول بہاؤ میرا پسندیدہ ناول ہے۔ مٹتی ہوئی تہذیب پہ شاید ایسا انمول ناول ہمیں کوئی نہ مل سکے۔ زبان و بیان کی انتہائی انفرادیت لئے ہے۔ خوبصورت ترین ناول۔
ان کے سفر ناموں میں "سنو لیک" میرا انتہائی پسندیدہ سفرنامہ ہے۔ کاش میں بھی اسی برفانی ٹریک پہ جا سکتی!
یہ دونوں کتابیں کوئی لے کے گیا اور واپس نہ کیں۔ بہت غصہ آتا ہے۔ پھر دوبارہ خریدیں بھی نہیں۔ اس وقت ارادہ ہو رہا ہے کہ پھر سے خریدوں اور محمد کو پڑھاؤں۔ ساتھ میں خود بھی ایک بار مزید پڑھوں۔
باقی ان کے بارے میں جو تنقید کی جاتی ہے۔ وہ بھی ان کی ذات کا ایک پہلو ہے۔ لیکن آپ اسے نظر انداز کرکے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس ایک پہلو کی بنا پہ ان کی باقی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ۃ
 

محمداحمد

لائبریرین
جی تارڑ صاحب سفر ناموں میں بہت مشہور ہیں۔لیکن ناول بھی لکھتے ہیں پیار کا پہلا شہر ایک خوبصورت کہانی ہے اور انکی کتاب راکھ کے بارے میں کہیں سے سنا یا پڑھا تھاکہ چین کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر نے تارڑٖ صاحب سے راکھ کا چینی زبان میں ترجمہ کرنے کی اجازت مانگی تھی کافی مزیدار کتاب ہے۔ اسکے علاوہ قربت مرگ میں محبت مبتدیوں کیلئے ایک گھمبیر کتاب ہے۔بہرحال تارڑ صاحب خوب لکھتے ہیں قاری کو اپنے ساتھ گھمانے کا فن جانتے ہیں۔

کون سے مبتدی؟

کتب بینی میں یا محبت میں؟ :)
 

یاقوت

محفلین
بہترین۔
ان کا ناول بہاؤ میرا پسندیدہ ناول ہے۔ مٹتی ہوئی تہذیب پہ شاید ایسا انمول ناول ہمیں کوئی نہ مل سکے۔ زبان و بیان کی انتہائی انفرادیت لئے ہے۔ خوبصورت ترین ناول۔
ان کے سفر ناموں میں "سنو لیک" میرا انتہائی پسندیدہ سفرنامہ ہے۔ کاش میں بھی اسی برفانی ٹریک پہ جا سکتی!
یہ دونوں کتابیں کوئی لے کے گیا اور واپس نہ کیں۔ بہت غصہ آتا ہے۔ پھر دوبارہ خریدیں بھی نہیں۔ اس وقت ارادہ ہو رہا ہے کہ پھر سے خریدوں اور محمد کو پڑھاؤں۔ ساتھ میں خود بھی ایک بار مزید پڑھوں۔
باقی ان کے بارے میں جو تنقید کی جاتی ہے۔ وہ بھی ان کی ذات کا ایک پہلو ہے۔ لیکن آپ اسے نظر انداز کرکے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس ایک پہلو کی بنا پہ ان کی باقی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ۃ

آپا جی ""نکلے تیری تلاش میں"" اور "" پتلی پیکنگ کی"" کے بارے میں کیا اظہار خیال فرمائیں گی آپ؟؟؟؟
 

بافقیہ

محفلین
تارڑ ، مختار مسعود وغیرہ کے بارے میں آپ سے سننے کے بعد دل کررہا ہے کہ بس کتابوں میں ہی ڈوبا رہوں۔ اللہ توفیق دے
 
Top