محمد وارث
لائبریرین
مولانا ابوالکلام آزاد
افسوس برصغیر میں پچھلی صدی کے اوائل کی شورش زدہ سیاست بہت سے اہم نام نگل گئی، انہی میں سے ایک مولانا کا نام ہے۔ اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے پاکستان کے حمایتی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے معتوب ہو گئے اور اب تک ہیں اور اس وجہ سے ان کو اردو ادب میں ان کا جو جائز مقام تھا وہ بھی نہ مل سکا۔
آپ ایک متبحر عالم تھے اور مفسر اور سیاسی لیڈر بھی۔ شروع شروع میں انتہائی مشکل اردو لکھتے تھے جس میں دقیق عربی الفاظ کی بھر مار ہوتی تھی اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ عربی انکی مادری زبان تھی۔ "تذکرہ" کی زبان اسی طرح کی ہے اور جس کا مذاق بھی بہت سوں نے اڑایا ہے جیسے ادیبِ بے بدل مشتاق احمد یوسفی صاحب لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مولانا کا اردو اندازِ تحریر بھی نکھرتا چلا گیا اور پھر "غبارِ خاطر" وجود میں آئی جو اردو ادب میں ایک شاہکار ہے۔ جیل کی قید میں لکھے گئے یہ فرضی خطوط علم و معانی کا ایک جہان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتی اور جیسے دریا اپنی روانی میں بہتا ہی چلا جائے کا منظر بن جاتا ہے، زبان انتہائی سادہ، شستہ اور رواں ہے اور اس پر مستزاد انتہائی خوبصورت فارسی اشعار جو ان کی نثر میں موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ مشاہدے کو تخیل میں اس طرح سمویا ہوا ہے کہ دونوں یک جان ہو گئے ہیں۔
کم و بیش تیس سال پہلے میں نے مولانا کی "غبارِ خاطر" پڑھی تھی اور ہر دو چار پانچ سال پڑھتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے "تذکرہ" بھی پڑھی، مولانا کی تفسیر بھی اور "انڈیا ونز فریڈم" بھی لیکن دل ابھی تک غبارِ خاطر میں اٹکا ہوا ہے کہ اسی کتاب نے صحیح معنوں میں مجھے فارسی اشعار کی طرف راغب کیا۔
افسوس برصغیر میں پچھلی صدی کے اوائل کی شورش زدہ سیاست بہت سے اہم نام نگل گئی، انہی میں سے ایک مولانا کا نام ہے۔ اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے پاکستان کے حمایتی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے معتوب ہو گئے اور اب تک ہیں اور اس وجہ سے ان کو اردو ادب میں ان کا جو جائز مقام تھا وہ بھی نہ مل سکا۔
آپ ایک متبحر عالم تھے اور مفسر اور سیاسی لیڈر بھی۔ شروع شروع میں انتہائی مشکل اردو لکھتے تھے جس میں دقیق عربی الفاظ کی بھر مار ہوتی تھی اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ عربی انکی مادری زبان تھی۔ "تذکرہ" کی زبان اسی طرح کی ہے اور جس کا مذاق بھی بہت سوں نے اڑایا ہے جیسے ادیبِ بے بدل مشتاق احمد یوسفی صاحب لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مولانا کا اردو اندازِ تحریر بھی نکھرتا چلا گیا اور پھر "غبارِ خاطر" وجود میں آئی جو اردو ادب میں ایک شاہکار ہے۔ جیل کی قید میں لکھے گئے یہ فرضی خطوط علم و معانی کا ایک جہان اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیتی اور جیسے دریا اپنی روانی میں بہتا ہی چلا جائے کا منظر بن جاتا ہے، زبان انتہائی سادہ، شستہ اور رواں ہے اور اس پر مستزاد انتہائی خوبصورت فارسی اشعار جو ان کی نثر میں موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ مشاہدے کو تخیل میں اس طرح سمویا ہوا ہے کہ دونوں یک جان ہو گئے ہیں۔
کم و بیش تیس سال پہلے میں نے مولانا کی "غبارِ خاطر" پڑھی تھی اور ہر دو چار پانچ سال پڑھتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے "تذکرہ" بھی پڑھی، مولانا کی تفسیر بھی اور "انڈیا ونز فریڈم" بھی لیکن دل ابھی تک غبارِ خاطر میں اٹکا ہوا ہے کہ اسی کتاب نے صحیح معنوں میں مجھے فارسی اشعار کی طرف راغب کیا۔