یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل!
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
جب نہ تھا یہ عالم ایجاد کیا موجود تھا
پردہ دار پردہء وحدت خدا موجود تھا
صفحہء ایجاد پر جاری نہ تھا جس دم قلم
سب کا نقشہ لوحِ قدرت پر لکھا موجود تھا
سب کے آنے سے یہاں پہلے تھا جاناں کا ظہور
دل نہ تھا موجود ۔۔۔ لیکن دل ربا موجود تھا
پہلے دن جو خامہء قدرت نے لکھا لفظ لفظ
ہو گیا اب صفحہء عالم پر ہویدا لفظ لفظ
پورے وحدت کے معنی کوئی پا سکتا نہیں
ذہن میں کس کے یہ آ سکتا ہے پورا لفظ لفظ
کیسا مضمون ہے مسلسل نسخہء ایجاد کا
دفتر عالم کا ہے پیچیدہ کیسا لفظ لفظ
چشم عبرت سے مطالعہ کر کتابِ کائنات
تاکہ آ جائے سمجھ میں تیری اس کا لفظ لفظ
کسی سے بھی بلندی عشق کی جانی نہیں جاتی
خرد بھی ۔۔۔ ماورائے حد امکانی نہیں جاتی
ایک ایسی بھی حقیقت جلوہ فرما ہے دو عالم میں
جو اپنی بے نقابی پر بھی پہچانی نہیں جاتی
تسلی پہ تسلی دے رہا ہے باغباں پھر بھی
چمن میں رہنے والوں کی پریشان نہیں جاتی