طارق شاہ

محفلین

خوُش جو آئے تھے، پشیمان گئے
اے تغافل، تجھے، پہچان گئے

خوُب ہے صاحبِ محفِل کی ادا
کوئی بولا تو بُرا مان گئے

کوئی دھڑکن ہے، نہ آنسُو، نہ خیال
وقت کے ساتھ یہ طُوفان گئے

تیری ایک ایک ادا پہچانی
اپنی ایک ایک خطا مان گئے

اُس کو سمجھے ، کہ نہ سمجھے، لیکن
گردشِ دہر، تُجھے جان گئے

زہرا نِگاہ

 

عبد الرحمن

لائبریرین
خوُش جو آئے تھے، پشیمان گئے
اے تغافل، تجھے، پہچان گئے

خوُب ہے صاحبِ محفِل کی ادا
کوئی بولا تو بُرا مان گئے

کوئی دھڑکن ہے، نہ آنسُو، نہ خیال
وقت کے ساتھ یہ طُوفان گئے

تیری ایک ایک ادا پہچانی
اپنی ایک ایک خطا مان گئے

اُس کو سمجھے ، کہ نہ سمجھے، لیکن
گردشِ دہر، تُجھے جان گئے

زہرا نِگاہ

یہ مکمل غزل ہے طارق بھائی؟
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہارِ عمر جب آخر ہوئی واپس نہیں آتی
درخت اچھے کہ پھلتے ہیں نئے سرے سے جواں ہوکر
ضعیفی زور پر آئی، ہوئے بے دست و پا اکبر
کیا بچوں سے بد تر ہم کو پیری نے جواں ہوکر

(اکبر الہ آبادی مرحوم)​
 

طارق شاہ

محفلین

سمجھوتہ

ملائم گرم سمجھوتے کی چادر !
یہ چادر میں نے برسوں میں بُنی

کہیں بھی سچ کے گُل بُوٹے نہیں ہیں
کِسی بھی جُھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے

اِسی سے میں بھی تن ڈھک لُوں گی اپنا
اِسی سے تم بھی آسوُدہ رہو گے

نہ خوش ہو گے نہ پژمردہ رہو گے
اِسی کو تان کر بن جائے گا گھر

بِچھا لیں گے تو کِھل اُٹھے گا آنگن !
اُٹھا لیں گے تو، گِر جائے گی چلمن

زہرا نگاہ
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
کنائے کچھ ملے جب مصحفی سے
اٹھائے لفظ دکن کے ولی سے

ملے کیسے، بتانا ہی کسے ہے
گہر درویش کی دریا دلی سے

نہیں بھایا فلک کے رہ نوردو!
تمھاری راہ چلنا کج روی سے

یہاں تو اور ہی دن رات نکلے
ڈرا تھا حسن کی ہمسائیگی سے

وہی ہے اضطرابِ زندگانی
کہاں راحت میسر آگہی سے

عجب ہوتی ہیں انسانوں کی سوچیں
نہیں کہنا کسی بھی آدمی سے

(سجاد بابر)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
گل ترے رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاڑوں میں
رت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
بلبلیں خار لیے پھرتی ہیں منقاروں میں
چن لے بازار ہنر سے کوئی بہروپ ندیم
اب تو فن کار بھی شامل ہے ادا کاروں میں

(احمد ندیم قاسمی مرحوم)
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے۔
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی زر کم عیار ہو گا

نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

شاعر مشرق
 

طارق شاہ

محفلین


ایک لڑکی


کیسا سخت طوفاں تھا
کتنی تیز بارش تھی
اور میں ایسے موسم میں
جانے کیوں بھٹکتی تھی

وہ سڑک کے اُس جانب
روشنی کے کھمبے سے
سر لگائے اِستادہ
آنے والے گاہک کے
اِنتظار میں گُم تھی
خال و خد کی آرائش
بہہ رہی تھی بارش میں
تیرِ نوکِ مژگاں‌ کے
مِل گئے تھے مٹی میں

گیسوؤں کی خوش رنگی
اُڑ رہی تھی جھونکوں میں
میں نے دِل میں یہ سوچا
آب و باد کا ریلا
اُس کو راکھ کر دے گا
یہ سجا بنا چہرہ
کیا ڈراؤنا ہو گا
پھر بھی اُس کو لے جانا
آنے والے گاہک کا
اپنا حوصلہ ہو گا

بارشوں نے جب اُس کا
رنگ و رُوپ دھو ڈالا
میں نے ڈرتے ڈرتے پھر
اُس کو غور سے دیکھا
سیدھا سادھا چہرہ تھا
بھولا بھالا نقشا تھا
رنگِ کم سنی جس پر
کیسے دُھل کے آیا تھا
زرد پُھول سا پتا
گیسوؤں میں اُلجھا تھا
شبنمی سا اِک قطرہ
آنکھ پر لرزتا تھا
راکھ کی جگہ اُس جا
اِک دِیا سا جلتا تھا

مجھ کو یوں لگا ایسے
جیسے میری بیٹی ہو
میری ناز کی پالی
میری کوکھ جائی ہو
ڈال سے بندھا جُھولا
طاق میں سجی گڑیاں
گھر میں چھوڑ آئی ہو
تیز تیز چلنے پر
میں نے اُس کو ٹوکا ہو
ھاتھ تھام لینے پر
میرا اُس کا جھگڑا ہو
کھو گئی ہو میلے میں
بہہ گئی ہو ریلے میں
اور پھر اندھیرے میں
اپنے گھر کا دروازہ
خود نہ دیکھ پائی ہو

دفعتاً یہ دل چاہا
اس کو گود میں بھر لوُں
لے کے بھاگ جاؤں میں
ہاتھ جوڑ لوُں اُس کے
چُوم لوُں یہ پیشانی
اور اُسے مناؤں میں
پھر سے اپنے آنچل کا
گھونسلا بناؤں میں
اور اُسے چھپاؤں میں

زہرا نگاہ
 

طارق شاہ

محفلین

ایک بھی ارماں نہ رہ جائے دلِ مایوس میں
یعنی آکر بے نیازِ مُدّعا ہوجائیے

بُھول کر بھی اُس سِتم پروَر کی پھر آئے نہ یاد
اِس قدر بیگانۂ عہدِ وفا ہو جائیے

ہائے ری بے اختیاری، یہ تو سب کچھ ہو ، مگر !
اُس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

توڑ کر عہدِ کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

میرے عُذرِ جُرم پر مطلق نہ کیجیے اِلتفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

چاند اور میں


چاند سے میں نے کہا، اے مِری راتوں کے رفیق
توُ، کہ سرگشتہ و تنہا تھا سدا میری طرح
اپنے سینے میں چُھپائے ہُوئے لاکھوں گھاؤ
توُ دکھاوے کے لیے ہنستا رہا میری طرح
ضوفشاں حُسن تیرا میرے ہُنر کی صُورت
اور مقدّر میں اندھیرے کی ردا میری طرح
وہی تقدیر تیری، میری زمیں کی گردش
وہی افلاک کا نخچیرِ جفا میری طرح
تیرے منظر بھی ہیں ویراں میرے خوابوں جیسے
تیرے قدموں میں بھی زنجیرِ وفا میری طرح
وہی صحرائے شبِ زیست میں تنہا سفری
وہی ویرانۂ جاں دشتِ بلا میری طرح
آج کیوں میری رفاقت بھی گراں ہے تجھ کو
تُو کبھی اِتنا بھی افسردہ نہ تھا میری طرح

چاند نے مجھ سے کہا، اے میرے پاگل شاعر
توُ، کہ محرم ہے میرے قریۂ تنہائی کا
تجھ کو معلوم ہے جو زخم میری رُوح میں ہے
مجھ کو حاصل ہے شرف تیری شناسائی کا
موجزن ہے میرے اطراف میں اِک بحرِ سکوُت
اور چرچا ہے فضا میں تیری گویائی کا
آج کی شب میرے سینے پہ وہ قابیل اُترا
جس کی گردن پہ دمکتا ہے لہوُ بھائی کا
میرے دامن میں نہ ہیرے ہیں، نہ سونا چاندی
اور بجُز اس کے نہیں شوق تمنائی کا
مجھ کو دُکھ ہے کہ نہ لے جائیں یہ دُنیا والے
میری دُنیا ہے خزانہ میری تنہائی کا

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین

ہری ہونے لگی ہے شاخِ گریہ
سرِ مژگاں گُلاب آنے کو ہے پھر

اچانک ریت سونا بن گئی ہے
کہیں آگے سراب آنے کو ہے پھر

زمیں انکار کے نشّے میں گُم ہے
فلک سے اِک عذاب آنے کو ہے پھر

جہاں حرفِ تعلّق ہو اضافی !
محبّت میں وہ باب آنے کو ہے پھر

گھروں پر جبریہ ہو گی سفیدی !
کوئی عزت مآب آنے کو ہے پھر

پروین شاکر
 
Top