طارق شاہ

محفلین

کچھ داغِ دِل سے تھی مجھے اُمید عشق میں
سو، رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سَحر ہُوا

تَھم تَھم کے اُن کے کان میں پُہنچی صدائے دِل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مِرا، نامہ بر ہُوا

فریاد کیسی؟ کِس کی شکایت؟ کہاں کا حشر
دُنیا اُدھر ہی ٹوُٹ پڑی، وہ جدھر ہُوا

حسرت اُس ایک طائرِ بیکس پر اے جگر!
جو فصلِ گُل کے آتے ہی بے بال و پر ہُوا

جگر مُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اِک پَل بھی ساری عُمر میں ، آرام کا نہ تھا
وہ دِل مجھے مِلا ، جو کِسی کام کا نہ تھا

کِھلنے کو کِھل رہے تھے گُلِ تازہ ہر طرف !
اِک پُھول بھی چمن میں مِرے نام کا نہ تھا

اِک دُوسرے کے حال سے واقف تھے اہلِ حال
گو اُن میں ربط نامہ و پیغام کا نہ تھا


حدِ اُفق پہ خوُنِ شفق کی نموُد تھی
منظر مگر نظر میں کِسی شام کا نہ تھا

جتنے بھی واہمے تھے ، تراشے تھے میں نے خود
یہ معجزہ تو گردشِ ایّام کا نہ تھا

ہم خوُش ہُوئے تھے رزقِ فراواں کو دیکھ کر
احساس بھی بچھائے ہُوئے دام کا نہ تھا

شہزاد احمد شہزاد
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
نوحہ

اگرچہ مرگِ وفا بھی اِک
سانحہ ہے لیکن یہ بے حِسی
اُس سے بڑھ کے جانکاہ ہے
کہ جب ہم خود اپنے ہاتھوں
سے اپنی چاہت کو نا مُرادی
کے ریگ زاروں میں دفن
کر کے جدا ہُوئے تو ، نہ
تیری پلکوں پہ کوئی آنسو
لرز رہا تھا نہ میرے ہونٹوں
پہ کوئی جاں سوز مرثیہ تھا


احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین

اُلجھاؤ پڑ گیا جو تِرے عشق میں ہمیں
دِل سا عزیز ، جان کا جنجال ہو گیا

قامت خمیدہ ، رنگ شکستہ، بدن نزار
تیرا تو میر، غم میں عجب حال ہو گیا

میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین

اِس شہرِ غم کو دیکھ کے دِل ڈوُبنے لگا
اپنے پہ ہی سہی ، کوئی ہنستا دِکھائی دے

گر مے نہیں تو زہر ہی لاؤ کہ اِسطرح
شاید کوئی نجات کا رستہ دِکھائی دے

اے چشمِ یار تُو بھی تو کُچھ دِل کا حال کھول
ہم کو تو یہ دیار نہ بستا دِکھائی دے

احمد فراز
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہے

میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے

امجد اسلام امجد
 

طارق شاہ

محفلین

لگا کے زخم بدن پر ، قبائیں دیتا ہے
یہ شہرِ یار بھی کیا کیا سزائیں دیتا ہے

تمام شہر ہے مقتل اُسی کے ہاتھوں سے
تمام شہر اُسی کو دُعائیں دیتا ہے
احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین


کوئی تو شخص مِری زندگی میں ایسا ہو
جو میرے ساتھ نہ رہتے ہُوئے بھی میرا ہو

مِری نِگاہ کی حد اُس پہ ختم ہو جائے
زمین پر ہو مگر آسمان جیسا ہو

اُسے خُدا نے اُتارا ہو آسمانوں سے
وہ آدمی ہو ، مگر حُسن کا صحِیفہ ہو

میں جب بھی دیکھنا چاہُوں تو دیکھ لُوں اُس کو
غلافِ چشم میں کچھ اِس طرح سے لِپٹا ہو


وفا شِناس ہو ایسا ، بہار ہو کہ خزاں !
ہر ایک رُت میں مِرے ساتھ ساتھ چلتا ہو

کواڑ کھول دے ، جو میری رُوح کے قیصر
فضائے جاں میں وہ ایسا ہَوا کا جھونکا ہو


قیصر نجفی
 

طارق شاہ

محفلین

سُنو
۔۔۔۔۔۔۔۔

جان!
تم کو خبر تک نہیں
لوگ اکثر بُرا مانتے ہیں
کہ میری کہانی کِسی موڑ پر بھی
اندھیری گلی سے گُزرتی نہیں
کہ تم نے شعاعوں سے ہر رنگ لے کر
مِرے ہر نشانِ قدم کو دھنک سونپ دی

نہ گُم گشتہ خوابوں کی پرچھائیاں ہیں
نہ بے آس لمحوں کی سرگوشیاں ہیں
کہ نازک ہری بیل کو
اِک توانا شجر اَن گِنت اپنے ہاتھوں میں
تھامے ہوئے ہے

کوئی نارسائی کا آسیب اِس رہگذر میں نہیں
یہ کیسا سفر ہے کہ رُوداد جس کی
غبارِ سفر میں نہیں!


ادا جعفری
 

طارق شاہ

محفلین

گُلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب مِلیں حکایتوں کے درمیاں

ہتھیلیوں کی اَوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی
ابھی سَحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں

جو دِل میں تھی نگاہ سی، نگاہ میں کِرن سی تھی
وہ داستاں اُلجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں

کوئی نگر، کوئی گلی، شجر کی چھاؤں ہی سہی
یہ زندگی نہ کٹ سکے مسافتوں کے درمیاں

اب اُس کے خال و خد کا رنگ مجھ سے پوُچھنا عبث
نِگہ جھپک جھپک گئی اِرادتوں کے درمیاں

صبا کا ہاتھ تھام کر ادا نہ چل سکو گی تم !
تمام عُمر خواب خواب ساعتوں کے درمیاں

ادا جعفری

 

طارق شاہ

محفلین

بیکسی ہائے شبِ ہجر کی وحشت ، ہے، ہے !
سایہ خُرشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مُجھ سے

مرزا اسداللہ خاں غالب
 
Top