طارق شاہ
محفلین
کچھ داغِ دِل سے تھی مجھے اُمید عشق میں
سو، رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سَحر ہُوا
تَھم تَھم کے اُن کے کان میں پُہنچی صدائے دِل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مِرا، نامہ بر ہُوا
فریاد کیسی؟ کِس کی شکایت؟ کہاں کا حشر
دُنیا اُدھر ہی ٹوُٹ پڑی، وہ جدھر ہُوا
حسرت اُس ایک طائرِ بیکس پر اے جگر!
جو فصلِ گُل کے آتے ہی بے بال و پر ہُوا
جگر مُراد آبادی