آدمی ہے نہ آدمی کی ذات کیسی ویراں ہے تیرے شہر کی رات پوُچھ لے اِن اُجاڑ گلیوں سے تُجھے ڈھونڈا ہے ساری ساری رات میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہُوں تُو کہاں تک چلے گا میرے سات اپنا سایہ بھی چھُپ گیا ناصر یہاں سُنتا ہے کون کِس کی بات ناصر کاظمی