آبِ رواں کا بہتے پُھول سے جو وعدہ تھا، پُورا ہوتا
بادِ صبا نے جن شرطوں پر پتھریلے ساحل کو اپنا راز بتایا، حُسن گنوایا
وہ شرطیں پُوری ہوتیں
اب اُن شرطوں کی تحریریں
اب اُن وعدوں کے بیعنامے، اگلے گھاٹ اُترنے والے، بادِ صبا کو
کیسے دِلائیں
شام کی بھیگی راکھ ہے چاند کا گیلا ایندھن
اب بیراگن
جلتے بُجھتے خوُن کی ضو میں
لحظہ لحظہ کنکر بنتی شام میں اپنے وصل کا گہنا،
زخمی موتی صُبحِ تلاطُم تک ڈھوُنڈے گی
ساحل ساحل رات ہنسے گی
اختر حُسین جعفری