وہی ہے صانع، وہی ہے صنعت، جو سوچ دیکھو، کیا ہے حیرت
بنایا جس نے، کہ شکلِ آدم، ہم اس کو جانے وہ ہم کو جانے
وجود اپنا اگر عدم ہے، کہاں کی شادی، کہاں کا غم ہے
نمودِ ہستی ہے وہمِ عالم، ہم اس کو جانے وہ ہم کو جانے
نہیں ہے احوال اپنا یکساں، کبھو ہے شاداں، کبھو ہے حیراں
کبھو ہے خاموش چشم پر نم، ہم اس کو جانے وہ ہم کو جانے
علم ظاہر داستانی اور ہے
علم اسرار نہانی اور ہے
وعظ پند و عالمانی اور ہے
حال و قال صوفیانی اور ہے
خضر سے چاہیں نہ ہم آبِ حیات
اپنی عمرِ جاودانی اور ہے
فکر میں خاموش کے ہے اور کچھ
گفتگو اب یہ زبانی اور ہے!!!!!!
شکل انساں میں خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا
حق سے ناحق میں جدا تھا مجھے معلوم نہ تھا
باوجویکہ ترا مژدہ نحن و اقرب
گرچہ قرآن میں لکھا تھا مجھے معلوم نہ تھا
ہو کہ خاموش عجب سیر و تماشا دیکھا
رنگ بیرنگ ہوا تھا مجھے معلوم نہ تھا
گمنامی ہماری ہے یہی نام ہمارا
آغاز ہمارا ہے نہ انجام ہمارا
بیکار و معطل ہوئے ہم کار جہاں سے
خود آپ خدا کرتا ہے بس کام ہمارا
بخت اپنے تو فرخندہ بنے روزِ ازل سے
کیا کر سکے اب گردشِ ایام ہمارا