طارق شاہ

محفلین
جن مشغلوں سے کھیلتی رتی تھی کم سنی
اُن مشغلوں سے ہاتھ اُٹھائے ہوئے ہو تم

خود کو لیے دیئے ہو مگر کہہ رہے ہیں طَور
سِینے میں ایک حشر چھپائے ہوئے ہو تم

جوش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
مُعترِض ہو نہ مِری عُزلت و خاموشی پر
کیا کروں جبکہ کوئی محرمِ اسرار نہ ہو

قیمتِ دل تو گھٹانے کا نہیں میں اکبر !
بے بصیرت نہیں ہوتا، جوخریدار نہ ہو

اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
اے بُتو! بہرِخُدا درپئے آزار نہ ہو
خیر، راحت نہ سہی، زیست تو دشوار نہ ہو

یا رب ایسا کوئی بت خانہ عطا کر جس میں !
ایسی گزرے، کہ تصوّر بھی گنہگار نہ ہو

اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
دُعا بلا تھی شبِ غم سُکونِ جاں کے لیے
سُخن بہانہ ہُوا مرگِ ناگہاں کے لیے

ہے اعتماد مِرے بخت خفتہ پر کیا کیا
وگرنہ خواب کہاں چشم پاسباں کے لیے

مومن خان مومن
 

طارق شاہ

محفلین
دُشنامِ یار طبعِ حزِیں پر گِراں نہیں
اے ہم نفَس، نزاکتِ آواز دیکھنا
دیکھ اپنا حال زار منجّم ہُوا رقیب
تھا سازگار طالعِ ناساز دیکھنا
مومن خان مومن
 

طارق شاہ

محفلین
شرح و بیانِ غم ہے اِک مطلبِ مُقیّد
خاموش ہُوں کہ معنی صدہا ہیں خامشی کے

بارِ الم اُٹھایا، رنگِ نِشاط دیکھا
آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے حسی کے

اصغر گونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین
عُہدے سے مدِح‌ ناز کے باہر نہ آ سکا
گرایک ادا ہو، تو اُسے اپنی قضا کہوں

میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تُو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

مرزا غالب
 

طارق شاہ

محفلین
پھر بے نوا حیات کے ویران دوش پر
بل کھا رہی ہے گیسوئے عنبر فشاں کی یاد
پھر ریگزارِ سندھ کی تپتی زمین پر
گنگا کو لے کر آئی ہے ہندوستاں کی یاد
جوش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
پُہونْچے ہیں ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم سِتم زدہ بِیمار ہر طرح

ترکیب و طرح ناز و ادا سب سے دل لگے
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح

میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
صبر تھا ایک مونسِ ہجْراں
سَو، وہ مدّت سے اب نہیں آتا
میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین
گُزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائیگاں کی طرح !
وہ چند روز، مِری زندگی کا حاصل تھے
ناصرکاظمی
 

طارق شاہ

محفلین
نغمہ ہائے غم کوبھی، اے دل! غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن

دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے، غالب! پیش دستی ایک دن

مرزا غالب
 

طارق شاہ

محفلین
منظُور تھی یہ شکل، تجلّی کو نُور کی
قسمت کھُلی تِرے قد ورُخ سے ظہُور کی

گو واں نہیں، پہ واں سے نِکالے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے اِن بُتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی

مرزا غالب
 

طارق شاہ

محفلین
لپٹتی ہے بہت یادِ وطن جب دامنِ دل سے
پلٹ کر اِک سلام شوق کر لیتا ہُوں منزل سے

نظر آئے جب آثارِ جُدائی رنگِ محفل سے
نگاہِ یاس بیگانہ ہوئی یارانِ یک دل سے

یاس یگانہ عظیم آبادی
 
Top