طارق شاہ

محفلین

ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں، تم جب بھی مُقابل ہوتے ہو !
بیتاب نگاہوں کے آگے پردہ سا ضرُور آ جاتا ہے

جب تم سے محبّت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کُھلا
مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعُور آ جاتا ہے

ساحرلدھیانوی
 

طارق شاہ

محفلین

ہر آن سِتم ڈھائے ہے، کیا جانیے کیا ہو
دل غم سے بھی گھبرائے ہے، کیا جانیے کیا ہو

کیا غیر کو ڈھونڈیں، کہ تِرے کوُچے میں ہرایک
اپنا سا نظر آئے ہے، کیا جانیے کیا ہو

آنکھوں کو نہیں راس کِسی یاد کا آنسو
تھم تھم کے ڈھلک جائے ہے، کیا جانیے کیا ہو

اِس بحر میں ہم جیسوں پہ ہرموجۂ پُر خوُں!
آ آ کے گُزر جائے ہے، کیا جانیے کیا ہو

دُنیا سے نِرالے ہیں تِری بزم کے دستور
جو آئے سو پچھتائے ہے، کیا جانیے کیا ہو

زہرہ نگاہ
 

طارق شاہ

محفلین

یہاں ہے شورِ تلاطم، سلامتی کا پیام
کہ بحرِعشق میں منجھدار ہی کنارا ہے

اب ایسے میں بھی کہیں نیک و بد کو دیکھتے ہیں
فراق جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، تمہارا ہے

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

شکوہ کریں تو کِس سے، شکایت کریں تو کیا
اِک رائیگاں عمل کی ریاضت کریں تو کیا

جس شے نے ختم ہونا ہے آخر کو ایک دن
اُس شے کی اِتنے دُکھ سے حفاظت کریں تو کیا

حرفِ دروغ غالبِ شہرِ خُدا ہُوا
شہروں میں ذکرِ حرفِ صداقت کریں تو کیا

معنی نہیں منیر کسی کام میں یہاں
طاعت کریں تو کیا ہے، بغاوت کریں تو کیا

منیر نیازی
 
میں نے تو مکمل غزل سے شعر لیا تھا یہ اور وہاں ایسے ہی ملا جیسے میں نے پیش کیا ۔۔۔ اور یہ آپ کا دوسرا ارسال کردہ شعر بھی اس غزل کا نہیں ہے جس سے میں نے شعر اٹھایا ۔۔ہو سکتا ہے ایک ہی زمیں میں کہی گئی دو غزلیں ہوں میر صاحب کی۔۔۔ مجھے لکھنے میں بہت وقت لگتا ہے ۔۔کل ارسال کر دوں گا پوری غزل
 
صحیح شعر یوں ہے بھٹی صاحب :-

دروازے پر کھڑا ہُوں کئی دن سے یار کے
حیرت نے عِشق کی مجھے دیوار کردیا


میر تقی میر

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بیطاقتی نے دل کی گرفتار کردیا
اندوہِ دردِ عِشق نے بیمار کردیا

میر تقی میر
میں نے تو مکمل غزل سے شعر لیا تھا یہ اور وہاں ایسے ہی ملا جیسے میں نے پیش کیا ۔۔۔ اور یہ آپ کا دوسرا ارسال کردہ شعر بھی اس غزل کا نہیں ہے جس سے میں نے شعر اٹھایا ۔۔ہو سکتا ہے ایک ہی زمیں میں کہی گئی دو غزلیں ہوں میر صاحب کی۔۔۔ مجھے لکھنے میں بہت وقت لگتا ہے ۔۔کل ارسال کر دوں گا پوری غزل
 

طارق شاہ

محفلین

ہم اُصولوں کے حصاروں میں چُھپے لاکھ ، مگر
اِک نگاہِ غلط انداز سے تسخِیر ہُوئے

ایک اُمّیدِ مُلاقات نے مرنے نہ دیا
تیرے پیماں مِری سانسوں کے عناں گیر ہُوئے

تُجھ سے مِل کر تُجھے پا لینے کی حسرت جاگی
کُچھ نئے خواب، تِرے خواب کی تعبیر ہُوئے

احمد ندیم قاسمی
 

ام اریبہ

محفلین
ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺱ
ﺟﺬﺏ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺟﻦ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﯽ ﺩﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ
10173668_759182544112741_4415806079068216249_n.jpg
 

طارق شاہ

محفلین

چلے بہشت سے ہم نِکہتِ بہار کے ساتھ
شِکست کھائی ہے لیکن بڑے وقار کے ساتھ

قدم قدم پہ اگر رُک رہے ہیں دشت میں ہم !
تو کیا کریں کہ تعارف ہے خار خار کے ساتھ

احمد ندیم قاسمی
 
Top