طارق شاہ

محفلین

جہاں بھی نُور مِلا کِھل اُٹھا شفق کی طرح
جہاں بھی آگ مِلی خاروخس رہا ہُوں میں

شاذ تمکنت
 

طارق شاہ

محفلین

سُخن ، رازِ نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے !
غزل کہہ لیں تو جی کا بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے

شاذ تمکنت
 

طارق شاہ

محفلین

چلی سمتِ غیب سے اِک ہَوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا، گِلہ کِس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خُمِ دل میں تھی سو بھری رہی


سراج اورنگ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

ہم زباں میرے تھے اُن کے دل مگر اچھّے نہ تھے
منزلیں اچھی تھیں، میرے ہمسفر اچھّے نہ تھے

اِک خیالِ خام ہی مُرشد تھا اُن کا ، اے منیر !
یعنی اپنے شہر میں اہلِ نظراچھّے نہ تھے

منیر نیازی
 

طارق شاہ

محفلین

یہ سوزِ دروں، یہ اشکِ رواں، یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے
مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے

مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

نکہتِ زُلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صُبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو

ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے
یوں ہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو

فراق گھورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

جو عَدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی !
اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو

جس کی فرقت نے پلٹ دی عِشق کی کایا، فراق !
آج اُس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو

فراق گھورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

بستگی ہر چیز کی ہے دل سے با تارِ نفس
یہ جوسب دیکھے ہے تُو، اُس تار کا بستار ہے

محمد رفیع سودا
 

طارق شاہ

محفلین

اندھیری رات کا تنہا مُسافر
میری پلکوں پہ اب سہما ہُوا ہے

سمیٹو اور سینے میں چُھپالو
یہ سنّاٹا بہت پھیلا ہُوا ہے

بشیر بدر
 

طارق شاہ

محفلین

دِل کی بستی پُرانی دِلّی ہے
جو بھی گزُرا ہے اُس نے لوُٹا ہے

ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں
دِل ہمیشہ اُداس رہتا ہے

بشیر بدر
 

طارق شاہ

محفلین
وفورِ غم و یاس نے ایسا گھیرا
نہ چُھوڑا، کہیں آنے جانے کے قابل

شبِ ہجر کی تلخِیاں کچُھ نہ پُوچھو
نہیں داستاں یہ، سُنانے کے قابل


احمد مشتاق
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

غزل میں جس کی ہمیشہ چراغ جلتے ہیں !
اُسے کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے


وہ چاندنی کی بشارت ہے حرفِ آخر تک
بشیر بدر کو لاؤ بڑا اندھیرا ہے


بشیر بدر
 
Top