یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو مائل بہ عشق جس سے دل آرام بھی تو ہو شفیق خلش
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,321 یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو مائل بہ عشق جس سے دل آرام بھی تو ہو شفیق خلش
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,322 جہاں بھی نُور مِلا کِھل اُٹھا شفق کی طرح جہاں بھی آگ مِلی خاروخس رہا ہُوں میں شاذ تمکنت
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,323 مِرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لئے تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خُدا کے لئے شاذ تمکنت
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,324 سُخن ، رازِ نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے ! غزل کہہ لیں تو جی کا بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے شاذ تمکنت
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,325 اُن سے ملتے تھے تو سب کہتے تھے کیوں مِلتے ہو اب یہی لوگ نہ مِلنے کا سبب پُوچھتے ہیں شاذ تمکنت
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,326 کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک جو تُمھیں بُھلا چُکا ہے اُسے تم بھی بُھول جاؤ احمد فراز
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,327 بکھر گیا ہے کچھ اِس طرح آدمی کا وجود ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے جان نثار اختر
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,328 چلی سمتِ غیب سے اِک ہَوا کہ چمن ظہور کا جل گیا مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دل کہیں سو ہری رہی نظرِ تغافلِ یار کا، گِلہ کِس زباں سے کروں بیاں کہ شرابِ حسرت و آرزو، خُمِ دل میں تھی سو بھری رہی سراج اورنگ آبادی
چلی سمتِ غیب سے اِک ہَوا کہ چمن ظہور کا جل گیا مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دل کہیں سو ہری رہی نظرِ تغافلِ یار کا، گِلہ کِس زباں سے کروں بیاں کہ شرابِ حسرت و آرزو، خُمِ دل میں تھی سو بھری رہی سراج اورنگ آبادی
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,329 ہوگئے نامِ بُتاں سُنتے ہی مومن بے قرار ہم نہ کہتے تھے کہ، حضرت پارسا کہنے کو ہیں مومن خاں مومن
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,330 ہم زباں میرے تھے اُن کے دل مگر اچھّے نہ تھے منزلیں اچھی تھیں، میرے ہمسفر اچھّے نہ تھے اِک خیالِ خام ہی مُرشد تھا اُن کا ، اے منیر ! یعنی اپنے شہر میں اہلِ نظراچھّے نہ تھے منیر نیازی
ہم زباں میرے تھے اُن کے دل مگر اچھّے نہ تھے منزلیں اچھی تھیں، میرے ہمسفر اچھّے نہ تھے اِک خیالِ خام ہی مُرشد تھا اُن کا ، اے منیر ! یعنی اپنے شہر میں اہلِ نظراچھّے نہ تھے منیر نیازی
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,331 یہ سوزِ دروں، یہ اشکِ رواں، یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے مجید امجد
یہ سوزِ دروں، یہ اشکِ رواں، یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے مجید امجد
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,332 ہوتا ہے رازِ عِشق و محبّت اِنہیں سے فاش آنکھیں زباں نہیں ہیں، مگر بے زباں نہیں اصغر گونڈوی
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,333 نکہتِ زُلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم صُبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے یوں ہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو فراق گھورکھپوری
نکہتِ زُلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم صُبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے یوں ہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو فراق گھورکھپوری
طارق شاہ محفلین مئی 7، 2014 #3,334 جو عَدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی ! اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو جس کی فرقت نے پلٹ دی عِشق کی کایا، فراق ! آج اُس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو فراق گھورکھپوری
جو عَدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی ! اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو جس کی فرقت نے پلٹ دی عِشق کی کایا، فراق ! آج اُس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو فراق گھورکھپوری
طارق شاہ محفلین مئی 8، 2014 #3,335 بستگی ہر چیز کی ہے دل سے با تارِ نفس یہ جوسب دیکھے ہے تُو، اُس تار کا بستار ہے محمد رفیع سودا
طارق شاہ محفلین مئی 8، 2014 #3,336 صاحبِ توقیر سودا کو نہ ہرگز سمجهیو ایک وہ رُسوا خرابِ کوُچہ و بازار ہے محمد رفیع سودا
طارق شاہ محفلین مئی 8، 2014 #3,337 اندھیری رات کا تنہا مُسافر میری پلکوں پہ اب سہما ہُوا ہے سمیٹو اور سینے میں چُھپالو یہ سنّاٹا بہت پھیلا ہُوا ہے بشیر بدر
اندھیری رات کا تنہا مُسافر میری پلکوں پہ اب سہما ہُوا ہے سمیٹو اور سینے میں چُھپالو یہ سنّاٹا بہت پھیلا ہُوا ہے بشیر بدر
طارق شاہ محفلین مئی 8، 2014 #3,338 دِل کی بستی پُرانی دِلّی ہے جو بھی گزُرا ہے اُس نے لوُٹا ہے ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں دِل ہمیشہ اُداس رہتا ہے بشیر بدر
دِل کی بستی پُرانی دِلّی ہے جو بھی گزُرا ہے اُس نے لوُٹا ہے ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں دِل ہمیشہ اُداس رہتا ہے بشیر بدر
طارق شاہ محفلین مئی 8، 2014 #3,339 وفورِ غم و یاس نے ایسا گھیرا نہ چُھوڑا، کہیں آنے جانے کے قابل شبِ ہجر کی تلخِیاں کچُھ نہ پُوچھو نہیں داستاں یہ، سُنانے کے قابل احمد مشتاق آخری تدوین: مئی 8، 2014
وفورِ غم و یاس نے ایسا گھیرا نہ چُھوڑا، کہیں آنے جانے کے قابل شبِ ہجر کی تلخِیاں کچُھ نہ پُوچھو نہیں داستاں یہ، سُنانے کے قابل احمد مشتاق
طارق شاہ محفلین مئی 8، 2014 #3,340 غزل میں جس کی ہمیشہ چراغ جلتے ہیں ! اُسے کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے وہ چاندنی کی بشارت ہے حرفِ آخر تک بشیر بدر کو لاؤ بڑا اندھیرا ہے بشیر بدر
غزل میں جس کی ہمیشہ چراغ جلتے ہیں ! اُسے کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے وہ چاندنی کی بشارت ہے حرفِ آخر تک بشیر بدر کو لاؤ بڑا اندھیرا ہے بشیر بدر