پردۂ ما و شُما بیچ سے ہٹ جاتا ہے
حُسن جب عشق کی بانہوں میں سمٹ جاتا ہے
اِک کِرن ہو، تو کئی حصّوں میں بٹ جاتا ہے
یہ اندھیرا ہے اُجالوں سے سمٹ جاتا ہے
سایۂ شومئ تقدیر اگر پڑ جائے
عکس آئینۂ اعزاز سے ہٹ جاتا ہے
کس قدر سادہ مزاجی ہے کہ اکثر انساں
پھول کے شوق میں کانٹوں سے لپٹ جاتا ہے
عزم مُحکم ہو تو منزل کوئی مشکل ہی نہیں
راستہ کتنا ہی دُشوار ہو، کٹ جاتا ہے
گیسوئے رُخ ، ذرا وہ منظرِ دِلکش تو دِکھا
ابر کس طرح سے پھٹ جاتا ہے چھٹ جاتا ہے
حیرت انگیز ہے انساں کا تلوّن احسان
قد سے بڑھ جاتا ہے اکثر، کبھی گھٹ جاتا ہے
احسان علیم