طارق شاہ

محفلین

ﻣُﺸﺎﻕ ﺩﺭﺩِ ﻋِﺸﻖ ﺟﮕﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
ﮐﮭﺎؤں ﮐﺪﮬﺮ ﮐﯽ ﭼﻮﭦ، ﺑﭽﺎؤں کدھر کی چوٹ

خواجہ حیدرعلی ﺁﺗﺶ
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

ﻓﺼﻞِ ﺑﮩﺎﺭ ﺁئی، ﭘﯿﻮ ﺻﻮﻓﯿﻮ ﺷﺮﺍﺏ
ﺑﺲ ﮨﻮ ﭼُﮑﯽ ﻧﻤﺎﺯ، ﻣُﺼﻠّﺎ ﺍُﭨﮭﺎﺋﯿﮯ

خواجہ حیدرعلی ﺁﺗﺶ
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

ﺍِﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﮔﺮﭼﮧ ﺩﮐﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﮍﯼ ﻗﺪﺭِ ﺳُﺨﻦ
ﮐﻮﻥ ﺟﺎﺋﮯ ﺫﻭﻕ ﭘﺮ ﺩِﻟّﯽ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ

شیخ ابراہیم ﺫﻭﻕ
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

ﺑﻠﺒﻞ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﭘﮧ ﮨﯿﮟ ﺧﻨﺪﮦ ﮨﺎﺋﮯ ﮔﻞ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﻮﻋِﺸﻖ، ﺧﻠﻞ ﮨﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﺎ

اسداللہ خاں ﻏﺎﻟﺐ
 

طارق شاہ

محفلین

ﺍﺫﺍﮞ ﺩﯼ ﮐﻌﺒﮯ ﻣﯿﮟ، ﻧﺎﻗﻮﺱ ﺩﯾﺮﻣﯿﮟ ﭘُﮭﻮﻧﮑﺎ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺗِﺮﺍ ﻋﺎﺷﻖ ﺗﺠﮭﮯ ﭘﮑﺎﺭ ﺁﯾﺎ

ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺑﺮﻕ
 

طارق شاہ

محفلین

ﮨﺮ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺷﯿﻔﺘﮧ !
ﭘﺮ ﻣﮯ ﮐﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮯ


نواب مصطفی خاں ﺷﯿﻔﺘﮧ
 

طارق شاہ

محفلین


یار دل جوئی کی زحمت نہ اٹھائيں ، جائيں
رو چُکا ہُوں نہ مجھے اور رُلائيں ، جائيں

مجھ سے کیا مِلنا کہ میں خود سے جُدا بیٹھا ہُوں
آپ آ جائيں ، مجھے مجھ سے ملائيں ، جائيں

حجرۂ چشم تو اوروں کے لیے بند کیا
آپ تو مالک و مختار ہیں ، آئيں، جائيں

اِتنا سانسوں سے خفا ہُوں کہ نہیں مانوں گا
لوگ رو رو کے نہ اب مجھ کو منائيں ، جائيں

زندگی ! تُو نے دُکاں کھول کے لِکھ رکھّا ہے
اپنی مرضی کا کوئی رنج اُٹھائيں ، جائيں

ہر طرف خُون کے چھینٹے ہیں ہمارے گھر میں
کون سا وِرد کرائيں کہ بَلائيں جائيں

آمد و رفت کو اِک دُنیا پڑی ہے نئير
دل کی بستی کو نہ بازار بنائيں ،جائيں

شہزاد نئير
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

ہمیں وہ کیوں جفائے خاص کے قابل سمجھتے ہیں
یہ رازِ دل ہے ، ِاس کو محرمانِ دل سمجھتے ہیں

جگرمُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

یہ خام کارانِ عِشق سوچیں، یہ شکوہ سنجانِ حُسن سمجھیں
کہ زندگی خود حسِیں نہ ہوگی تو پھر توجّہ وہ کیا کریں گے

جگرمُراد آبادی
 
آخری تدوین:
چارہ گرِ دلِ بے تاب کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دوں سب کچھ لیکن
ایک مُٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں

مدتوں بعد اُسے دیکھ کے دل بھر آیا
ورنہ صحراؤں میں یہ سیلاب کہاں آتے ہیں

میری بے درد نگاہوں میں اگر بھولے سے
نیند آئی بھی تو اب خواب کہاں آتے ہیں

تنہا رہتا ہوں میں دن بھر بھری دنیا میں ٖقتیل
دن بُرے ہوں تو پھر احباب کہاں آتے ہیں

قتیل شفائی
 

ام اریبہ

محفلین
آج رونے کو دل چاہتا ہے میرا
کوئی دکھ بھی نہیں کوئی غم بھی نہیں
اور خوشیا ں میری کوئی کم بھی نہیں
پھر بھی دل چاہتا ہے کہ میں رو پڑوں
درد کی گود میں سر کو رکھے ہوئے
ایسے کرلاوں
کہ گھر رہتے ہوئے میرے اپنے مرے ساتھ رونے لگیں
ایسے چیخوں کہ تحت الثریٰ تا فلک
پتھروں کے جگر بھی لرزنے لگیں
آج رونے کو دل چاہتا ہے میرا
 

طارق شاہ

محفلین
تُو بتا اے دلِ بیتاب کہاں آتے ہیں
ہم کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں

میں تو یکمشت اُسے سونْپ دُوں سب کچھ ، لیکن
ایک مُٹّھی میں مِرے خواب کہاں آتے ہیں

مُدّتوں بعد تجھے دیکھ کے دل بھرآیا
ورنہ صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں

شدّتِ درد ہے، یا کثرتِ مے نوشی ہے
ہوش میں اب تِرے بے تاب کہاں آتے ہیں

ہم کسی طرح تِرے در پہ ٹھکانہ کر لیں
ہم فقیروں کو یہ آداب کہاں آتے ہیں

سر بسر جن میں فقط تیری جھلک مِلتی تھی
اب میسّر ہمیں وہ خواب کہاں آتے ہیں

میری بیدار نگاہوں میں اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو اب خواب کہاں آتے ہیں

تنہا رہتا ہُوں میں دن بھر، بھری دُنیا میں ٖقتیل
دن بُرے ہُوں تو، پھر احباب کہاں آتے ہیں

قتیل شفائی
 
آخری تدوین:
Top