اُس کا دل جب شک کا گھر ہوتا گیا
پیار اپنا در بدر ہوتا گیا
ٹُوٹ کر کچھ یوں گِرے دیوار و در
گھر ہمارا رہگزُر ہوتا گیا
باغباں کی بے حسی سے ہار کر
ہر شجر ہی، بے ثمر ہوتا گیا
حُسن کا جادُو نہ زیادہ چل سکا
عشق، لیکن پُختہ تر ہوتا گیا
آدمی کی حیثیت گھٹتی گئی
مقتدر بس سیم و زر ہوتا گیا
یوں کیا میں نے سرِ تسلیم خم
اُس کا در اور میرا سر ہوتا گیا
خود سَری لیلیٰ کی بڑھتی ہی گئی
قیس بھی تو مُعتبر ہوتا گیا
جتنا ساحِل کے قریب آتے گئے
اتنا ہی وہ، دُور تر ہوتا گیا
ساحل سلیم