طارق شاہ
محفلین
زندگی کیا ہے گناہِ آدم
زندگی ہے، تو گنہگار ہُوں میں
رشکِ صد ہوش ہے مستی میری
ایسی مستی ہے کہ، ہُشیار ہُوں میں
لے کے نِکلا ہوُں گُہر ہائے سُخن
ماہ و انجُم کا خرِیدار ہُوں میں
دیر و کعبے میں، مِرے ہی چرچے
اور رُسوا سرِ بازار ہُوں میں
کُفر و اِلحاد سے نفرت ہے مجھے
اور مذہب سے بھی بیزار ہُوں میں
اہلِ دُنیا کے لیے ننگ سہی
رونقِ انجمنِ یار ہُوں میں
عین اِس بے سر و سامانی میں
کیا یہ کم ہے، کہ گہر بار ہوں میں
میری باتوں میں مسیحائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ بیمار ہُوں میں
اسرارالحق مجاز لکھنوی