طارق شاہ

محفلین

زندگی کیا ہے گناہِ آدم
زندگی ہے، تو گنہگار ہُوں میں

رشکِ صد ہوش ہے مستی میری
ایسی مستی ہے کہ، ہُشیار ہُوں میں

لے کے نِکلا ہوُں گُہر ہائے سُخن
ماہ و انجُم کا خرِیدار ہُوں میں

دیر و کعبے میں، مِرے ہی چرچے
اور رُسوا سرِ بازار ہُوں میں

کُفر و اِلحاد سے نفرت ہے مجھے
اور مذہب سے بھی بیزار ہُوں میں

اہلِ دُنیا کے لیے ننگ سہی
رونقِ انجمنِ یار ہُوں میں

عین اِس بے سر و سامانی میں
کیا یہ کم ہے، کہ گہر بار ہوں میں

میری باتوں میں مسیحائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ بیمار ہُوں میں

اسرارالحق مجاز لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین

نام اور رُوپ سے جو بالا ہے
کِس قیامت کے نقش والا ہے

چاندنی اُس کے تن کی اُترن ہے
سبز شبنم گلے کی مالا ہے

وزیر آغا
 

کاشفی

محفلین
اُس کی جُدائی کیسے گوارا کروں گی میں
وہ آئے یا نہ آئے، پکارا کروں گی میں

یاد آئے گا کسی کا وہ حیرت سے دیکھنا
جب آئینے میں اپنا نظارا کروں گی میں

اک جرم جو ہے آپ کو پانے کی آرزو
سن لیجئے یہ جُرم دوبارا کروں گی میں

مجھ کو خبر کہاں تھی کنارا ہے تو میرا
سوچا تو یہ تھا تجھ سے کنارا کروں گی میں

لب کھولنا تو عشق کی تہذیب ہی نہیں
نزہت نظر جھکا کے اشارا کروں گی میں

(نزہت انجم)
 

طارق شاہ

محفلین

زندگی کی جہد میں ہارا بھی دل، جِیتا بھی دل
کچھ خطائیں ہو نہ پائیں، کچھ خطائیں ہو گئیں

آنند نرائن مُلّا
 

طارق شاہ

محفلین

آنکھیں اُجڑ چُکی ہیں، مگر رنگ رنگ کے
خوابوں کی اب بھی فصل لگائے ہُوئے ہیں لوگ

اظہرعنایتی ، لکھنؤ
 
توڑ کر عہد کرم ناآشنا ہو جایئے
بندہ پرور جایئے اچھا خفا ہو جایئے

راہ میں ملئے کبھی مجھ سے تو ازراہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جایئے

ہائے ری بے اختیاری یہ تو ہو سب کچھ مگر
اُس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے

چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرزِ تغافُل کے فدا ہو جائیے

کشمکش ہائے الم سے اب یہ حسرت جی میں ہے
چھُٹ کے ان جھگڑوں سے مہمانِ قضا ہو جائیے

حسرت موہانی
 
Top