طارق شاہ

محفلین
پُختہ یقین ہے کہ، یہ جب تک جہان ہے
گوُنجے گی کوُ بہ کوُ یہ مِری نغمگی جناب

احساس، رنجِ مرگ پہ غالب ہے یہ خلش
زندہ اگر نہ میں، تو مِری شاعری جناب

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
مِلے تو کیسے مِلے منزلِ خزینۂ خواب
کہاں دمشقِ مُقدّر کہاں مدِینۂ خواب

یقیں کا وِرد و وظیفہ نہ اسمِ اعظم عِشق !
تو پھر یہ کیسے کھُلے گا طلسمِ سینۂ خواب

افتخارعارف
 

طارق شاہ

محفلین
زبان پر تو بظاہر خوشی کے جُملے ہیں
دہک رہا ہے حسد کا الاؤ لہجے میں

نعِیم دِن وہ سُہانے، خیال وخواب ہُوئے !
مِٹھاس لفظوں میں تھی، رکھ رکھاؤ لہجے میں

سید ضیاءالدین نعیم
 

طارق شاہ

محفلین
ہونٹوں پہ تبسّم کی ادا کھیل رہی ہے
دو سُرخ گلابوں سے صبا کھیل رہی ہے

دُزدِیدہ نِگاہوں میں کئی تِیر سَجے ہیں
ابرُو کی کمانوں میں قضا کھیل رہی ہے

جلیل نظامی
 

طارق شاہ

محفلین
جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
جو نقش دِل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں

ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تِیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اِس رات میں جلیں گے نہیں

شہزاد احمد
 

طارق شاہ

محفلین

ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
سرُور وکیف میں دِیوانے تھوڑی ہوتے ہیں

گِنا کرو نہ پیالے ہمیں پلاتے وقت !
ظرُوف طرف کے پیمانے تھوڑی ہوتے ہیں

انور شعور
 

طارق شاہ

محفلین
نہ آئیں آپ، تو محفِل میں کون آتا ہے !
جَلے نہ شمع تو پروانے تھوڑی ہوتے ہیں

شعُور تُم نے خُدا جانے کیا کِیا ہو گا
ذرا سی بات کے افسانے تھوڑی ہوتے ہیں

انور شعور
 

طارق شاہ

محفلین
بہت خوب طارق بھائی۔ مختلف رنگ ایک ہی جگہ اکٹھے کر دیتے ہیں۔
اشعار دیکھنے پہ تشکّر جناب کا !
ذرّہ نوازی اُس پہ کہ اظہار بھی کیا


بہت خوشی ہوئی جو اشعار پسند آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمشاد بھائی! کیا ہو سواگت بتائیں تو
روزے سے آئے ہیں، تو ہمیں سُوجھتا نہیں


اب آئے ہیں یہاں، تو آتے رہیئے گا :)
 

طارق شاہ

محفلین

ہے ابھی لمس کا احساس مِرے ہونٹوں پر !
ثبت، پھیلی ہُوئی بانہوں پہ حرارت اُس کی

وہ اگر جا بھی چُکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو
ابھی محسوس کئے جاؤ رفاقت اُس کی

شہزاد احمد



_________________
 

طارق شاہ

محفلین


جس وقت آئے ہوش میں کچُھ بیخودی سے ہم
کرتے رہے خیال میں باتیں اُسی سے ہم

ناچار تم ہو دِل سے، تو مجبُور جی سے ہم
رکھتے ہو تُم کسی سے محبّت، کِسی سے ہم

داغ دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دِگر بھی نہیں
وہ مُجھ سے رُوٹھے ہوئے تھے پراِس قدربھی نہیں

یہ عہد ترکِ محبّت ہے کس لیے آخر
سکونِ قلب اِدھر بھی نہیں اُدھربھی نہیں

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

نے نامہ، نے پیام، نہ قاصد، ہے آفریں
تم نے تو یک قلم ہمیں جی سے بُھلا دیا

اب دِل سے بے عصا نہیں اُٹھتی ہے آہ بھی
یاں تک تو ضعفِ قلب نے ہم کو بِٹھا دیا

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

بلائیں شاخِ گل کی لیں نسیمِ صبح گاہی نے
ہوئیں کلیاں شگفتہ روئے رنگیں تپاں ہو کر

جوانانِ چمن نے اپنا اپنا رنگ دِکھلایا
کسی نے یاسمیں ہو کر، کسی نے ارغواں ہو کر

نگاہیں کاملوں پر پڑ ہی جاتی ہیں زمانے کی
کہیں چُھپتا ہے اکبر پُھول پتّوں میں نہاں ہو کر

اکبر الٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
اُسی چمن میں چلیں، جشنِ یادِ یار کریں
دِلوں کو چاک، گریباں کو تارتار کریں

کمانِ ابرُوئے خُوباں کا بانکپن ہے غزل
تمام رات غزل گائیں، دیدِ یار کریں

مخدُوم مُحی الدین
 

طارق شاہ

محفلین

سُناتی پھرتی ہیں آنکھیں کہانیاں کیا کیا
اب اور کیا کہیں، کِس کِس کو سوگوار کریں

اُٹھو کہ فرصتِ دیوانگی غنِیمت ہے !
قفس کو لے کے اُڑیں، گُل کو ہمکنار کریں

مخدُوم مُحی الدین
 

طارق شاہ

محفلین
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مُسکراتی رہی رات بھر

رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر

بانسری کی سُریلی سُہانی صدا
یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر

مخدوم محی الدین
 

طارق شاہ

محفلین
یاد کے چاند دِل میں اُترتے رہے
چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر

کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا
کوئی آواز آتی رہی رات بھر


مخدوم محی الدین
 

طارق شاہ

محفلین
خاموش زندگی جو بَسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے !
صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم

رئیس امروہوی
 
Top