فرقان احمد

محفلین
تمتماتا ہے چہرۂ ایّام !
دل پہ کیا واردات گزُری ہے

پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے

کہ، نسیمِ حیات گزُری ہے
 

showbee

محفلین
مقید کر دیا سانپوں کویہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
 

فرقان احمد

محفلین
خیالِ یار، کبھی ذکرِ یار کرتے رہے
اِسی متاع پہ، ہم روزگار کرتے رہے

ضیائے بزمِ جہاں بار بار ماند ہوئی
حدیثِ شُعلہ رُخاں بار بار کرتے رہے

نہیں شکایتِ ہجراں، کہ اس وسِیلے سے
ہم اُن سے رشتۂ دل اُستُوار کرتے رہے
 
Top