ﮐﺘﻨﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﻣِﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﺮﺗﻦ
ﭼﮭﺖ ﭨﭙﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﭽﮍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﺘﮯ
ﺳﺮﻭﺭ ﺧﺎﮞ ﺳﺮﻭﺭ
ﻻﺋﻞ ﭘﻮﺭ
 
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣِﺮﮮ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺳﮯ
ﻧﺎﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﻗﺪ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﺳﮯ
ﻋﻠﯽ ﻧﺴﯿﻢ ﺧﺎﮞ ‏( ﺷﻌﻠﮧ ‏)
ﻻﺋﻞ ﭘﻮﺭ
 
ﺍﻧﺪﮬﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮧ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍُﮔﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ
ﭼُﮭﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﮈﺍﮐِﭩﺮ ﻭﺣﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ
ﻻﺋﻞ ﭘﻮﺭ
 

فرقان احمد

محفلین
ہرچند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
غالب

چچا غالب کے اس شعر کا دوسرا مصرع دونوں طرح پڑھ رکھا ہے۔


ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگِ گراں اور

معلوم نہیں، کس طرح پڑھا جاوے تو درست ہو گا؟

آپ رہنمائی فرمائیے قبلہ!
 

La Alma

لائبریرین
اے جہاں زاد
مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
چچا غالب کے اس شعر کا دوسرا مصرع دونوں طرح پڑھ رکھا ہے۔


ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگِ گراں اور

معلوم نہیں، کس طرح پڑھا جاوے تو درست ہو گا؟

آپ رہنمائی فرمائیے قبلہ!
شکریہ فرقان صاحب، کسی مستند دیوان سے دیکھنا پڑے گا، وگرنہ جیسا آپ نے لکھا، دونوں طرح سے لکھا ملتا ہے۔
 
ﮐﻞ ﻣِﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﭼﮩﺮﮮ ﺗﮭﮯ
ﺁﺝ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﻃﺎﮨﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ
ﻻﺋﻞ ﭘﻮﺭ
 
ﺍﯾﮏ ﺩﺳﺘﮏ ﭘﮧ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮔﺎ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺟﻮ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ ﮨﮯ
ﺍﺣﻤﺪ ﺳﻠﯿﻢ ﺭﻓﯽ
ﻓﯿﺼﻞ ﺁﺑﺎﺩ
 

لاریب مرزا

محفلین
شکریہ فرقان صاحب، کسی مستند دیوان سے دیکھنا پڑے گا، وگرنہ جیسا آپ نے لکھا، دونوں طرح سے لکھا ملتا ہے۔
آج ہی دیوانِ غالب ہاتھ لگی ہے۔ آپ نے دیوان سے دیکھنے کی بات کی ہے تو سوچا کہ اس غزل کا اشتراک کر دیں۔ :)
20170825_173552.jpg
 
ﺍﻧﺪﮬﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮧ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍُﮔﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ
ﭼُﮭﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﮈﺍﮐِﭩﺮ ﻭﺣﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ
ﻻﺋﻞ ﭘﻮﺭ
 
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاََ
تیرا سِتم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

مرگِ جگرؔ پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز!
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں!

(جگرؔ مراد آبادی)
 
Top