دکھ سمٹ کر مری تحریر میں آ جاتا ہے
درد الفاظ کی زنجیر میں آ جاتا ہے
رات کو خواب میں گر سانپ سے بچ جاتا ہوں
پھر کسی روز وہ تعبیر میں آ جاتا ہے
غم کی دولت ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
نت نیا غم مری جاگیر میں آ جاتا ہے
قتل سے بھی کہیں اغماض کیا جاتا ہے
بولنا بھی کہیں تعزیر میں آ جاتا ہے
کوئی آتا نہیں یاں میری حمایت کرنے
شہر کا شہر تشہیر میں آ جاتا ہے