کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو

تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں‌ تری آسانی کو

ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو

(سعداللہ شاہ)
 
آخری تدوین:

لاريب اخلاص

لائبریرین
زندگی سے ڈرتے ہو؟

!زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!

زندگی سے ڈرتے ہو؟

آدمی سے ڈرتے ہو؟

آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں

آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے

اس سے تم نہیں ڈرتے!

حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ

آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ

اس سے تم نہیں ڈرتے

''ان کہی'' سے ڈرتے ہو

جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو

اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو

پہلے بھی تو گزرے ہیں

دور نارسائی کے ''بے ریا'' خدائی کے

پھر بھی یہ سمجھتے ہو ہیچ آرزو مندی

یہ شب زباں بندی ہے رہ خداوندی

تم مگر یہ کیا جانو

لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں

ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر

نور کی زباں بن کر

ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر

روشنی سے ڈرتے ہو

روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں

روشنی سے ڈرتے ہو

شہر کی فصیلوں پر

دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر

رات کا لبادہ بھی

چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر

اژدہام انساں سے فرد کی نوا آئی

ذات کی صدا آئی

راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے

اک نیا جنوں لپکے

آدمی چھلک اٹھے

آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو

تم ابھی سے ڈرتے ہو؟

ہاں ابھی تو تم بھی ہو

ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں

تم ابھی سے ڈرتے ہو
ن م راشد
 

جا ن

محفلین
ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
(مصحفی غلام ہمدانی)
 

جا ن

محفلین
دل اس کا، جگر اس کا، ہے جاں اس کی، ہم اس کے
کس بات سے انکار کیا جائے کسی کو!
(جتیندر موہن سنہا رہبر)
 

جا ن

محفلین
ابھی دل ہجر سے ہارا نہیں ہے
اِک آنسو حلق میں اَٹکا ہوا ہے
(خالد احمد)
 
آخری تدوین:
کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ ملدا

مونہہ دُھوڑ مٹی سر پایم
سارا ننگ نموج ونجایم
کوئی پُچھن نہ ویہڑے آیم
ہتھوں اُلٹا عالم کِھل دا

کئی سہنس طبیب کماون
سے پڑیاں گھول پیاون
مینڈے دل دا بھید نہ پاون
پوے فرق نہیں ہِک تِل دا

کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مل دا

(خواجہ غلام فرید)
 

شمشاد خان

محفلین
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا
(وسیم بریلوی)
 

Iab

محفلین
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے

فیض احمد فیض
 

جا ن

محفلین
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو!
(افتخار عارف)
 
Top