کوزہ گر ! خاک مری خواب کے خاکے سے گزار
کربِ تخلیق! مجھے سوئی کے ناکے سے گزار
ہستیء جاں سے گزر جائے مرا پختہ ظروف
فرش پر پھینک اسے اور چھناکے سے گزار
ساحلِ خشک ، نمیدہ ہو کبھی بحرِ کرم
خود گزر یا اسے لہروں کے چھپاکے سے گزار
حدّتِ عشق میں پگھلا دے مرے سارے فراز
مجھ کو اس بار کسی خاص علاقے سے گزار
سنگ پاٹوں کی یہ چاکی مجھے کیا پِیسے گی
تُو مجھے ارض و سماوات کے چاکے سے گزار
خالِ بنگال ترا جادو چلے گا لیکن
تُو مجھے پہلے کسی آنکھ کے ڈھاکے سے گزار
رانا سعید دوشی