طوِیل ہجر کا یہ جبر ہے، کہ سوچتا ہُوں !
جو دِل میں بستا ہے، اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے
اُسے بُلا کے مِلا عُمر بھر کا سنّاٹا
مگر یہ شوق، کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے
ہر اِک تصوِیر کو کھڑکی سے باہر کیسے پھینکو گے
نگاہوں سے جو چپکے ہیں وہ منظر کیسے پھینکو گے
جھٹک کر پھینک دو گے چند اَن چاہے خیالوں کو
مگر کاندھوں پہ یہ رکھا ہوا سَر کیسے پھینکو گے
سدا رختِ سفر کی ہے گراں باری پہاڑوں پر
گلے میں طوق غم کے پاؤں میں چکر محبت کے
ابھی کچھ دیر دیکھوں گا ابھی کچھ دیر سوچوں گا
مسائل ہیں کئی مجھ کو ، کئی ہیں ڈر محبت کے