طارق شاہ

محفلین
یہ عشق نہیں آساں، اِتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

یہ حُسن وجمال اُن کا، یہ عشق وشباب اپنا
جینے کی تمنّا ہے، مرنے کا زمانہ ہے

جگرمُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
اور کوئی دَم کی ہے مہماں گزر جائے گی رات
ڈھلتے ڈھلتے آپ اپنی موت مرجائے گی رات

زندگی میں اور بھی کچھ زہر بھرجائے گی رات
اب اگر ٹھہری، رگ و پے میں اُترجائے گی رات


سُرُور بارہ بنکوی
 

طارق شاہ

محفلین
راندہِ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سُنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت


سُرُور بارہ بنکوی
 

طارق شاہ

محفلین
اپنی رُسوائی، تِرے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذراشعرکہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین
جو ہو سکے تو اِس ایثار پر نگاہ کرو
ہماری آس جہاں کو، تمھاری آس ہمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈبو چکا ہے اُمنگوں کو جس کا سنّاٹا
بلا رہا ہے اُسی بزم سے قیاس ہمیں

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین
اُس ایک شکل میں، کیا کیا نہ صُورتیں دیکِھیں
نِگار تھا، نظر آیا نِگارخانہ وہ
۔۔۔۔
فراز، خواب سی غفلت دِکھائی دیتی ہے
جو لوگ جانِ جہاں تھے ہوئے فسانہ وہ

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین
کعبۂ دل کو نہ تاکو تم جفا کے واسطے
اے بُتو یہ گھر خُدا کا ہے، خُدا کے واسطے

تم بھی اب نامِ خُدا مشقِ ستم اور جور ہو
آسمان سے مشورہ کرلو جفا کے واسطے

قمر جلالوی
 

طارق شاہ

محفلین
تِری سلیقہء ترتیبِ نَو کا کیا کہنا
ہَمِیں تھے قریۂ دِل سے نِکالنے کے لئے

احسان دانش
 

طارق شاہ

محفلین
رہیں گے چل کے کہیں اوراگر یہاں نہ رہے
بَلا سے اپنی جو آباد گُلسِتاں نہ رہے

ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے
غنِیمت اِس کوسَمَجْھیے کہ جاوِداں نہ رہے

سیماب اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
حرم میں، دَیروکلیسا میں، خانقاہوں میں
ہمارے عشق کے چرچے کہاں کہاں نہ رہے

کبھی کبھی، رہی وابستگی قفس سے بھی
رہے چمن میں تو پابندِ آشیاں نہ رہے


سیماب اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
یا رب! غمِ ہجراں میں اِتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پہ ہے، وہ دست دُعا ہوتا

اِک عشق کا غم آفت، اور اُس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دِیا ہوتا، یا دل نہ دِیا ہوتا

چراغ حسن حسرت
 

طارق شاہ

محفلین
اُمّید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا

چراغ حسن حسرت
 

طارق شاہ

محفلین
کشورِ عشق میں دُنیا سے نِرالا ہے رواج
کام جو، بَن نہ پڑیں یاں وہ روا ہوتے ہیں

ہیچ ہم سمجھیں دو عالم کو تو حیرت کیا ہے
رُتبے عُشّاق کے، اِس سے بھی سوا ہوتے ہیں

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین
نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لُوٹ لیا
ادائے عشق کو رسمِ وفا نے لُوٹ لیا

نہ اب خُودی کا پتہ ہے نہ بیخودی کا جِگر
ہر ایک لُطف کو، لُطفِ خُدا نے لُوٹ لیا


جِگر مُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
آج تو ہم کو پاگل کہہ لو، پتّھر پھینکو، طنز کرو
عشق کی بازی کھیل نہیں ہے، کھیلو گے تو ہارو گے

اہلِ وفا سے ترکِ تعلّق کرلو، پر اِک بات کہیں
کل تم اِن کو یاد کرو گے، کل تم اِنہیں پُکارو گے

ابن انشا
 

طارق شاہ

محفلین
اب آئے ہو تو یہاں کیا ہے دیکھنے کیلیے
یہ شہر کب سے ہے ویراں، وہ لوگ کب کے گئے

تم اپنی شمْعِ تمنّا کو رو رہے ہو فراز!
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے


احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین
پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو
اے حُسنِ پشیماں تِرے قربان گئے ہم

ہم اور ترے حُسنِ تغافل سے بگڑتے
جب تو نے کہا مان گئے، مان گئے ہم

سیف الدین سیف
 

طارق شاہ

محفلین
در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا، کہ بُرا مان گئے ہم

ہے سیف بس اتنا ہی تو افسانۂ ہستی
آئے تھے پریشان، پریشان گئے ہم

سیف الدین سیف
 

طارق شاہ

محفلین
دلِ حزِیں میں تِرے شوقِ مُضطرب کے نِثار
اِس انجُمن میں تُجھے کوئی کام بھی تو نہیں

بیاں ہوں کیسے وہ دیرینہ ارتباطِ نہاں
کہ تُجھ سے، اگلے پیام و سلام بھی تو نہیں

فراق گورکھپوری
 
Top